وارث ۔۔۔ ڈاکٹر کوثر جمال
وارث
ڈاکٹر کوثر جمال
یہ کہانی ایک معروف شاعر سعدی کی ہے۔
شیخ سعدی ۔۔۔ ؟؟؟؟
نہیں نہیں ۔ یہ ایران کے شیخ سعدی کی داستان نہیں ہے ۔ یہ بالکل ایک جدید سعدی کی کہانی ہے۔ آپ استاد بیدار بخت دہلوی کے فرزندِ اصغر ۔۔۔ سعد بخت سعدی ہیں۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ بیدار بخت دہلوی ہند کے بٹوارے کے بعد ہجرت کرکے اپنی خواب نگری میں آئے اور یہاں کے بڑے شہروں میں سے ایک میں رہائش اختیار کی۔ شریف النفس اور سادہ طبیعت آدمی تھے۔ کسی سرکاری محکمے میں نوکری آغاز کی اور اپنی واجبی سی تنخواہ میں اندرونِ شہر کے پرانے محلے میں گزر بسر کرتے رہے۔ ان کے محلے دار اس بات کے گواہ تھے کہ ان کے ہونٹوں کی لالی اور چاندی کے پاندان پر پڑی چند پیکوں کے علاوہ ان کا لباس، اطوار اور کردار دودھیا سفید تھا۔ ان کی زندگی اس ستم ظریفی کا استعارہ تھی کہ وہ فقط نام کے بیدار بخت تھے۔ البتہ اس شریفانہ عسرت بھری زندگی میں بھی وہ اپنے ایک ہنر سے مالا مال تھے اور وہ تھا شاعری کے لیے ان کی موزوں طبیعت اور علمِ عروض پر دسترس۔ کہتے ہیں کہ یہ ان کا خاندانی ہنر تھا۔ جب آمد ہوتی تو بیسیوں اشعار قطار در قطار ہاتھ باندھے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے چلے جاتے۔ قافیے ان کے غلام اور ردیفیں ان کی باندیاں تھیں۔ شاعری میں مغز کتنا ہونا چاہیے، اس پر انھوں نے زیادہ دھیان نہیں دیا تھا، یوں کہ مضامین تو کلاسیکی کتابوں میں تھے ہی، ایسا کونسا خیال ہے جسے اساتذہ نے نہیں باندھا۔ اصل بات تو بقول ان کے یہ تھی کہ اک رنگ کے مضمون کو سو رنگ سے کیسے باندھا جائے۔ اپنے اسی ہنر پر وہ نازاں تھے۔ فخر سے کہا کرتے تھے کہ انھوں نے کبھی کسی مصرعے کو بے وزنی کا داغ نہیں لگنے دیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شاعری کی اے ٹی ایم مشینیں ابھی مارکیٹ میں نہیں آئی تھیں۔ اخبارات اور رسائل میں جو غزلیں چھپتی تھیں ان کا معاوضہ نہیں ملتا تھا۔ لے دے کے کبھی کبھار کسی مقامی مشاعرے یا ریڈیو کے قومی تہواروں پر منعقد کردہ مشاعروں میں شرکت کا موقع مل جاتا تو معمولی سا عوضانہ ہاتھ آتا تھا۔ اس پر بھی وہ مطمعن تھے۔ قناعت کی یہی تو خوبی ہے۔
رفتہ رفتہ آس پاس کے کئی نوجوانوں نے ان کی شاگردی اختیار کی اور وہ استاد کہلائے جانے لگے۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ چھوٹا بیٹا سعد بخت ان سے شاعری کا ہنر سیکھ لے کیونکہ ان کے بچوں میں وہی تھا جس کی طبیعت موزوں تھی اور ذرا سے علم اور توجہ سے شاعری کی پٹڑی پر چڑھ سکتا تھا۔ ادھر سعد بخت طبیعت کا کھلنڈرا تھا، نہ اسے پڑھائی کا شوق اور نہ شاعری کا، کھیل کود اور پتنگ بازی کا رسیا تھا۔ جب باپ غصے میں آ کر اس پر سختی کرنے کی کوشش کرتا تو وہیں کھڑے کھڑے دو چار فی البدیہ اشعار بنا کر اپنا مقدمہ جیت لیا کرتا تھا۔ باپ کا غصہ دیکھتے ہی دیکھتے کافور ہو جاتا۔ ان کی امید پھر سے جاگ جاتی۔ یہ امید کہ یہی بیٹا ان کے فن کا وارث بنے گا۔ بالآخر ثانوی سکول کے زمانے میں استاد بیدار بخت کسی نہ کسی طرح اپنے بیٹے کو اپنا تھوڑا بہت علم و ہنر منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
تاہم سعد بخت کی نگاہ میں شاعر ہونا کوئی ایسی باعزت پہچان نہیں تھی، پیسہ تو سرے سے اس پہچان میں تھا ہی نہیں۔ جبکہ وہ اپنی پہچان کو دولت و ثروت کی فراوانی میں تلاش کر رہا تھا۔ معاشرے میں اصل عزت تو اسی کی ہے جس کے پاس پیسہ ہے، وہ اکثر یہ بات جب باپ کے سامنے کہتا تو ان کا چہرہ گہرے صدمے سے تاریک ہو جاتا۔ خوبئ قسمت کہ ایم اے کے بعد سعد بخت کو ایک ایسے محکمے میں ملازمت مل گئی جہاں بالائی آمدنی کا اچھا خاصا امکان تھا۔ یوں اس کے خواب پورے ہونے کا راستہ کھل گیا۔ کچھ عرصے کے بعد جب اس کی شادی ہوئی تو وہ اپنے آبائی گھر اور پرانے محلے کی غربت زدہ پہچان سے آزاد ہونے میں بھی کامیاب ہو گیا۔
چالیس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے سعد بخت کے دونوں بچے ہائی سکول میں پہنچ چکے تھے۔ وہ اب ایک متمول علاقے میں خوشحال انسان کی سی زندگی گزار رہا تھا۔ اس نے جو چاہا تھا وہ اسے مل گیا تھا لیکن پھر بھی اسے کچھ عرصے سے اپنی زندگی میں کسی بات کی کمی محسوس ہونے لگی تھی۔ چالیس برس کی عمر یوں بھی وحی نازل ہونے کی عمر ہے تو سعد بخت پر اس خیال کا نزول ہوا کہ دولتمند شخص اپنے آس پاس، عزیزوں رشتہ داروں میں عزت دار تو ہو سکتا ہے لیکن ہر صاحبِ ثروت مشہور نہیں ہوتا اور یہ کہ ناموری کا اپنا نشہ ہے۔ اس کے بیقرار دل میں شہرت سمیٹنے کی خواہش اس روز جاگی تھی جب ٹی وی سکرین پرایک قومی مشاعرے کی جھلکیاں آ رہی تھیں اور اس نے اپنے والدِ محترم کے ایک شاگرد کو اس مشاعرے میں مشاعرہ لوٹتے دیکھا تھا۔ اس کے پرانے محلے کے ٹاٹ والے دروازے سے نکل کر وہ منحنی سا زرد رو لڑکا اب قومی سطح کا شاعر بن چکا تھا۔ سعد بخت کو یہ بھی علم ہوا کہ شعرا اب غریب نہیں رہے تھے۔ وہ جنھیں بیرون ملک مشاعروں تک رسائی ہو گئی تھی وہ تو اب شہرت کے ساتھ ساتھ ڈالروں میں کمائی کر رہے تھے۔ غریب شعرا صرف وہ تھے جو شاعری کی مارکیٹنگ سے واقف نہیں تھے، چھوٹے شہروں میں رہتے تھے، یا پھر آج بھی شاعری کو مضامینِ نو اور احساساتِ قلبی کے طبع زاد اظہار کا ایک اعلیٰ فن سمجھتے تھے۔
“یہ سب تم بھی کر سکتے تھے۔” ۔۔۔۔ سعد بخت کو بالکل اپنے قریب سے اپنے ابّا کی آواز سنائی دی جس میں بلا کا شکوہ تھا۔ حالانکہ انھیں مرحوم ہوئے کئی برس بیت چکے تھے اور اب ان کے اُس قدیم شکستہ گھر میں ان کی بڑی بیٹی بیوہ ہو جانے کے بعد اپنے بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔
شروع نومبر کی ایک سہ پہر، جب دھوپ سرما کی آمد کے احساس سے کمزور پڑنے لگتی ہے، سعد بخت نے کئی برسوں بعد اپنے آبائی گھر کا رخ کیا۔ محلے کی تنگ گلیوں کا سوچ کر اس نے اپنی کار گھر سے کافی دور ایک کھلی جگہ پر پارک کی اور گھر کی جانب پیدل روانہ ہوا۔ محلے کے کئی پرانے گھر از سرِنو تعمیر ہو چکے تھے۔ لیکن بہت سے جوں کے توں تھے۔ گلی میں داخل ہوتے ہی وہ یادوں کے طوفان میں گِھر گیا۔ مردہ آوازیں جی اٹھیں۔ گلی میں اودھم مچاتے بچوں میں وہ بھی شامل تھا۔ اس محلے کے آسمان پر اس کی پتنگ بھی اڑ رہی تھی۔ وقت کی سرنگ سے یاسیت نکلی اور اس کے ہمراہ چلنے لگی۔ وہ جب گھر میں داخل ہوا تو آپا اسے اور وہ آپا کو دیکھ کر سراپا حیرت ہو گئے۔ وہ تو بالکل اس کی ماں کا روپ دھار چکی تھیں۔ گھر کی دیواروں نے بانہیں پھیلا کر اسے آغوش میں لیا۔ آبائی گھر خواہ کتنے ہی شکستہ کیوں نہ ہو جائیں، وہاں موجود محبت کا احساس جوں کا توں قائم رہتا ہے۔ گھر میں بظاہر خاموشی تھی لیکن بیتے وقت کا شور بلا کا تھا۔
“آج اچانک کیسے آنا ہوا سعدی؟” آپا اسے پیار سے سعدی کہا کرتی تھیں۔ {آپا کا دیا ہوا یہی نام بعد میں سعد بخت کا تخلص بنا}
“آج ابا، اماں کی بہت یاد آئی تو اکیلا ہی چلا آیا۔” سعد بخت نے اداس لہجے میں جواب دیا۔
ابا کے کمرے میں آپا کا بڑا بیٹا پڑھائی میں مصروف تھا۔ سعد بخت کو آتا دیکھ کر اس نے ماموں کو سلام کیا اور ادب سے اٹھ کھڑا ہوا۔
“آج کچھ وقت یہیں گزاروں گا، ابا کے کمرے میں” ۔۔۔ اس نے آپا کو دیکھ کر کہا۔ “ابا کی پسندیدہ چائے پینے کو جی چاہ رہا ہے، مسالحوں والی، اور ساتھ میں گرما گرم پکوڑے، آپ کے ہاتھوں کے بنے ہوئے۔”
آپا صدقے واری کہتی ہوئی کچن کی طرف چلی گئی۔
سعد بخت نے باپ کے کمرے میں چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ ابا کا پاندان ایک کونے میں پڑا تھا۔ دھلا ہوا صاف مگر خاموش آواز میں کتنی ہی کہانیاں سناتا ہوا۔ ابا کی ڈائریوں اور پرانے شعرا کی کلیات والی الماری بھی آپا نے حفاظت سے جوں کی توں رہنے دی تھی۔
اس روز جب سعد بخت اپنے آبائی گھر سےرخصت ہوا تو جہاں مسالحوں والی چائے اور آپا کے بنائے ہوئے چٹپٹے پکوڑوں کی لذت نے اسے سرشار کیا تھا وہیں ابا کی سبھی ڈائریاں اور اساتذہ کی کچھ کلیات اس کی بغل گرما رہی تھیں۔ اس نے جاتے ہوئے آپا سے کہا:
“زندگی میں ابّا کی کلیات نہ چھپ سکی۔ جس کا مجھے بہت افسوس ہے۔ اب میں ۔۔۔۔ یہ کام کروں گا۔”
اگلے چند برسوں میں استاد بیدار بخت دہلوی کا فرزندِ اصغر ، شاعر ابنِ شاعر سعد بخت سعدی ملک کے معروف شعرا میں اپنا مقام بنا چکا تھا۔
اب صورتِ احوال یہ ہے کہ استاد بیدار بخت دہلوی کے مطبوعہ کلام کا ایک مجموعہ چھپ چکا ہے۔ خود سعد بخت سعدی کے بھی دو شعری مجموعے شائع ہو کر قبولیتِ عام حاصل کر چکے ہیں۔ اس نے ان چند برسوں میں بہت محنت کی ہے، تحت اللفظ میں غزل کی ادائگی کا ایسا جاندار انداز اپنایا ہے کہ مشاعرے کے سامعین واہ واہ کر اٹھتے ہیں۔ وہ اندرون اور بیرون ملک کے مشاعرہ منتظمین سے ثمر بار تعلقات بنانے میں بھی کامیاب ہو چکا ہے۔ وہ خوب جان چکا ہے کہ مشاعرہ اب شاعری سنانے اور سننے کی اعلیٰ ادبی روایت سے زیادہ ایک نفع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ ایک ایسا کاروبار جس میں حسن، دولت، تعلقات اور ہوشیاری کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ ایسا کاروبار جس میں دولت سے شاعری، حسن سے دل اور ہوشیاری سے شہرت خریدنے کے روشن امکانات ہیں۔ اس کی زندگی خوشحالی کے ساتھ ساتھ اب ناموری اور رنگا رنگ دلچسپیوں سے بھی مالامال ہو گئی ہے۔ بیرون ملک ہونے والے مشاعروں میں عام فہم رومانی غزلیں، غزلوں کی مترنم ادائگی، مزاحیہ شاعری اور حسین و دلربا شاعرات کو خاص طور سے بہت پسند کیا جاتا ہے۔ بعض شاعرات کی سج دھج اور ادائیں تو کچھ اور ہی سماں باندھ دیتی ہیں۔ اب وہ ایسی کتنی ہی شاعرات کی دوستی سے بھی فیضیاب ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ زندگی حسین ہو گئی ہے۔
لیکن وہ زندگی ہی کیا جس کے حسن میں ثبات اور ٹھہراو ہو۔ وہ زندگی ہی کیا جس میں عمل اور ردِ عمل کا سائنسی فارمولہ شکست کھا جائے۔ تو ایسا ہے کہ کہانی کی کوکھ میں افسانے اور حقیقت کے ملاپ سے حمل ٹھہرتا ہے۔ اور کہانی کا سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔
سعد بخت سعدی کی کہانی کا اگلا باب رقم ہونے سے کچھ روز پہلے یہ ہوا کہ استاد بیدار بخت دہلوی کے کچھ مخلص شاگرد سر جوڑ کر بیٹھے، وہ کچھ سوال طلب حقائق پر فکرمند ہوئے، کچھ مشکوک باتوں پر انھوں نے سوچ بچار کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ حقِ شاگردی ادا کرنے کا وقت آن پہنچا۔ انھیں معلوم تھا کہ استاد بیدار بخت دہلوی کا جتنا کلام اخبارات و رسائل میں شائع ہوا تھا اس سے کہیں زیادہ غیر مطبوعہ کلام وہ اپنی ڈائریوں میں چھوڑ کر اس دنیا سے اچانک رخصت ہوئے تھے۔ ان میں سے کچھ کو اپنے استاد کا بہت سا کلام جو وہ گھریلو شعری نشستوں میں سن چکے تھے، اب تک زبانی یاد تھا۔ فیصلہ ہوا کہ استاد بیدار بخت دہلوی کی کلیات ہر حال میں شائع ہونی چاہیے۔ اپنے استاد کے لیے ان کی اس شدید محبت کا چشمہ احساس و جذبات کے کسی غیرمتوقع مقام سے اچانک پھوٹ نکلا تھا۔ انھوں نے مل جل کر کلیات کے ممکنہ اشاعتی اخراجات کی رقم جمع کی اور بالآخر اپنے استاد کا غیر مطبوعہ کلام حاصل کرنے کے ارادے سے ان کے پرانے گھر کے بوسیدہ مگر مانوس دروازے پر دستک دے ڈالی ۔۔۔۔