شیرازے ۔۔۔ انور سجاد
شیرازے
ڈاکٹر انور سجاد
چند لوگوں کو سرخ گلاب اگانے سے دلچسپی ہے۔ چند لوگ بھی نہیں، صرف الف سرخ گلاب اگاتا ہے۔ الف کے سر کے بال سفید ہیں۔ چہرے پر صدیوں تک جھریوں کا نشان نہیں۔ اس کی چمکیلی آنکھیں سامنے کی چیز کو چیرتی، پار دیکھتی ہیں۔ اس کے سانس تک سے گلاب کی خوشبو آتی ہے۔ الف کہتا ہے کہ سرخ گلاب قبروں پر نچھاور کرنے کے لیے نہیں۔ وہ اپنے پھولوں سے شادی کے سہرے بھی نہیں بنانے دیتا۔ بوڑھے جھنجھلا کر اس سے پوچھتے ہیں۔
تو پھر اتنے سارے گلابوں کا کیا فائدہ ؟
الف کے سر کے بال اور بھی سفید ہو جاتے ہیں۔ وہ خاموش، سنجیدہ، افق سے پرے دیکھنے لگتا ہے۔ جب بوڑھے اپنے سروں کی سفیدی کا واسطہ دیتے ہیں تو الف کی چہرے پر جھریاں کئی صدیاں اور دور چلی جاتی ہیں۔ اس کی نظریں سرخ گلاب کی خوشبو کے پار ہوتی ہیں۔
————— جو ڈھونڈتے ہیں، راز پاتے ہیں۔
بوڑھوں میں اتنی سکت نہیں کہ الف کے ہاتھ سے آتی بارود کی بو، ہر بو پر حاوی ہے۔ ہجوم کی ناک پر رومال ہیں۔ لوگ اس کی شناخت کے لیے دور دور سے آ رہے ہیں۔ ہر نیا آنے والا نفی میں سر ہلاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں میرا نہیں
اور چور آنکھوں سے دوسروں کو دیکھنے لگتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اتنے معصوم بچے کو اتنے نزدیک سے گولی نہیں مار سکتا۔
تکیے کے لوگ گاف سے پوچھتے ہیں ، کہ معاملہ کیا ہے۔ کاف دھویئں سے جھانک کر کہتا ہے۔
———- اب روڑی کی کھاد اچھی بنے گی
سرخ گلاب کی پھلواڑی میں لوگ بار بار الف سے پوچھتے ہیں۔ معاملہ کیا ہے۔ الف خوشبو کو گود میں لے کر بار بار کہتا ہے۔
——- ابھی لوگ وہاں سے گئے نہیں ؟
انیس سال کی کنواری انیس سال سے سہاگ کا جوڑا پہنے دروازے کے سامنے بیٹھی ہے۔ ہر نئے رشتے پر وہ اپنے دونوں ہاتھ پیٹ پر رکھ کر کہتی ہے۔
—– نہیں پہلے میرے لیے گلاب کے سرخ پھولوں کی مسہری بنواو۔
بڑی بوڑھیاں اسے سمجھاتی ہیں کہ الف پھول نہیں دیتا۔ کنواری کہتی ہے
——- تو پھر میں پہلی قلم سے پہلے گلاب کے پھوٹنے کا انتظار کروں گی۔
گاف نے تکیے کے خزانے کے سانپ کو بڑی مشکل سے پکڑ کر روسٹ کیا ہے۔ یہ سانپ ہمیشہ ایس کی شکل میں کنڈلی مار کے بیٹھتا تھا۔ گاف ڈرتا ڈرتا ہر روزچرس کے لیے اپنی ضرورت کی رقم اٹھا لیا کرتا تھا۔ لیکن آج اس سے رہا نہیں گیا تھا۔ اس نے چرس کی دھونی دے کر سانپ کو قابو میں کیا ہے اور روسٹ کر ڈالا ہے۔ بڑی بے صبری سےجلدی جلدی کھانے کے بعد منہ پر آتے آتے اس کا ہاتھ رک گیا ہے۔ سانپ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے۔ گاف نے اتنا کھا لیا ہے کہ اس سے سانس نہیں لیا جاتا۔ بیٹھے ہوئے دل اور سر میں بجتی شریانوں پر قابو پانے کی کوشش میں آہستہ آہستہ گاف کے ہونٹوں پر سانپ کی مسکراہٹ پھیلنے لگی۔
بِینڈوں کے شور میں کوئی آواز سنائی نہیں دیتی اس لیے کسی کو جیگر کاونٹر کی آواز نہیں آ رہی۔ قریب کے جن لوگوں کو یہ آواز آ سکتی تھی وہ سانپ والے خزانے سےآئی ہوئی چرس میں بے ہوش ہیں۔ اس لیے کسی کو پتا نہیں کہ تکیے کے پاس غیر ملکی جو اپنے دھاری دار لباس پر ٹنگے ہوئے ستاروں کی وجہ سے مداری معلوم ہوتے ہیں۔ ہاتھ میں جیگر کاونٹر لیے کیا کر رہے ہیں۔ چند ایک بچے حیرت سے ان کے ہاتھ میں نئے کھلونے دیکھ رہے ہیں۔ ان دونوں مداریوں میں سے ایک نے بچوں میں ٹافیاں بانٹی ہیں۔ انہیں چپ رہنے کے اشارے کر رہا ہے اور دوسرا انہیں سمجھا رہا ہے کہ یہ جیگر کاونٹر ہے جس سے ریڈئیشن کا پتہ چلتا ہے۔ یہاں یورینیم بہت ہے۔ اس سے تمہیں بہت فائدہ پہنچے گا مگر کسی کو بتانا نہیں۔ ننگے بچوں کی سمجھ میں نہیں آتا وہ ہاتھ میں ایک ایک ٹافی پکڑے حیرت سے نئے کھلونے کی آواز سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بینڈوں کی آواز، جیگر کاونٹر کے اعلان اور سرخ گلاب کی جھاڑیوں سرسراتی ہوا کے درمیان دیوار ہے۔
اسی خبر رساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ کنواری کی ایک اور بہن بھی ہے جو اپنے سائے سے خوف کھانے لگی ہے۔ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر رات کے اندھیرے میں اسے ایک تاریک کمرے سے دوسرے تاریک کمرے میں لے جایا گیا ہے۔ پھر بھی پرچھایئں نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ وہ ہذیان میں کبھی بہن کو کوستی ہے کبھی روڑی پر پڑے بچے کو اور کبھی الف کو فحش گالیاں دینے لگتی ہے۔ پھر تھک ہار کر وائرلیس کے کوڈ کے الفاظ بڑبڑانے لگتی ہے۔
باقی کے لوگ فائلوں کی گرد پھانکتے کینٹین سے چائے منگوا کر حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہیں اور صفحوں پر بھاگتے لفظوں کا پیچھا کرتے ہیں کہ کنواری پیٹ پر ہاتھ جمائے دروازے میں بیٹھی ہے۔ اس کی بہن آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھے تاریک کمرے میں وائرلیس کوڈ بڑ بڑاتی اپنے سائے سے گھتم گھتا ہو رہی ہے۔ روڑی کی چوٹی پر کوئی لاوڈ سپیکر کے سامنے کھڑا تقریر کر رہا ہے۔ دو بوائے سکاوٹ سبز یونیفارم پر سرخ گلاب کے بلے لگائے نو زایئدہ بچے کو آرٹی فیشل ریسپیراشن دے رہے ہیں۔ مداری اپنے جیگر کاونٹر کی آواز کا پیچھا کرتے تکیے کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو گئے یں۔ چرس میں بے ہوش لوگوں کو پھلانگتے گاف تک آئے ہیں۔ گاف کے سر کی شریان پھٹ گئی ہے۔ اس کے چہرے پر سانپ کی مسکراہٹ ہے۔ یہ طے کرنے کی ضرورت سمجھے بغیر کہ سانپ نے گاف کو کھایا ہے یا گاف نے سانپ کو، ایک نے بڑھ کر سانپ کا سر جیب میں ڈال لیا ہے اور دوسرا کھدائی کرتا جا رہا ہے اور ساتھ ساتھ اپنی جیب سے یورینیم نکال کر وہاں دفن کرتا جا رہا ہے۔ گلاب کی جھاڑیوں کے پیروں میں بینڈے گُنگ ہو گئے ہیں کہ ان تک پہلی مرتبہ الف کی آواز پہنچی ہے۔ الف جس کے سر کے بال برف ہیں، جس کے چہرے پر صدیوں پرے تک جھریوں کا نشان نہیں اور جو سرخ گلاب اگاتا ہے۔ ہاتھ میں قلمیں پکڑے جوانوں کو بشارت دے رہا ہے کہ بس موسم آنے ہی والا ہے۔
لوگ، بہت سارے لوگ صفحوں پر بھاگتے لفظوں کا پیچھا کر رہے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔