صلیبیں میرے دریچے میں ۔۔۔ فیض احمد فیض
صلیبیں میرے دریچے میں
( فیض احمد فیض)
فیض بنام ایلس فیض۔ 8 فروری 1953
ایک اور ہفتہ ختم ہونے کو ہے اور یہاں ہوا کے بوجھل پن میں اور دھوپ کی تیزی میں موسم گرما کی تاثیر پیدا ہو چلی۔ گرما کو انگریزی میں سمر کہتے ہین اور بہار کے لئے بھی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ یکن ہماری گرمیوں کو بہار کہنا با لکل مضحکہ خیز بات ہے اور اس موسم کے خاتمے کو خزاں کہنا بے تکا پن ہے۔ اصل میں بہار اور خزاں تو جذباتی اور رمزیہ الفاظ ہیں جن کا گرمی سردی سے بہت کم تعلق ہے۔ ان کا مفہوم تو ہے ستم روزگار اور اس سے نجات، درد و غم کی ابتدا اور اس کا خاتمہ، دل جلانے ے دن اور پیار کرنے کے دن، سختی برداشت کرنے کا عزم اور سکھ کا سانس، آسائش ، خوشحالی اور افلاس و محرومی۔ ہمارے ہاں تو بہار کا ایسا کوئی موسم نہیں آتا۔صرف گرمی سردی کا موسم آتا ہے۔پھر مختلف لوگوں کے لئے موسم گرما کا پیغام بھی الگ الگ ہوتا ہے۔ مثلا یہ موسم قریب آئے گا تو تم اس کی آمد پر ہراساں ہوگی، لیکن میں اس کی خوشنودی خاطر سے انتظار کر رہا ہوں۔ وجہ یہ کہ یہاں موسم کی ہر تبدیلی خوش آئند ہوتی ہے۔ کبھی کبھار کسی عزیز چہرے کے دیدار کے سوا یہاں کی زندگی میں یہی واحد تبدیلی ہے۔ جسے ہم جانتے ہیں کہ اس کے علاوہ موسم تبدیل ہوتا ہے تو اور بہت سی چیزیں بدل جاتی ہیں۔ زمین اور آسمان اور پیڑوں کی رنگت بدل جاتی ہے، رات کو سونے کی جگہ ، پڑھنے، گپ کرنے اور سونے جاگنے کے اوقات ، زندگی کا روزمرہ معمول اور سوچ اور احساس کا پیرا یہ سب کچھ بدل جاتا ہے اور اگر کسب ِ لطف اور حیرت ِ نگاہ کی حِس باقی ہو تو یہ سب کچھ بہت عجیب اور بہت اچھا لگتا ہے، دل کو فرحت ہوتی ہے۔
جیل خانے میں آدمی کتنا خود غرض ہو جاتا ہے۔ میں ان لذتون کا ذکر کئے جا رہا ہوں حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ تنہا محنت کش عورتوں کے لئے اور ہم جیسے تنگ دستوں کے بچوں کے لئے اس موسم کے کیا معنی ہیں اور ان لوگوں کے لئے کیا معنی ہیں جو ہم سے بھی زیادہ تنہا اور محتاج ہیں ؟اپنی مصیبت میں ان کی مصیبت بھی شامل ہے۔ اپنی تنہائی ے ساتھ ان کی تنہائی بھی لگی رہتی ہے اور دنیا بھر کی دکھی ماوں کا دکھ اور سب فرقت زدہ بیویوں اور محبوباوں کا درد اور سب بچوں کے آنسو جنہیں ظالم ہاتھ ان کے انوں کے پاس جانے سے روکتے یں لیکن ان کے درد کے ساتھ ان کی مت اور ان کا تحمل بھی انے ساتھ لگا رہتا ہے۔ یہ ایک دوسرے کی تلافی کرتے رہتے ہیں اس لئے دل ٹھوکر نہیں کھاتا۔
تمہارے خط میں یہ ڑھ کر بہت ہنسی آئی کہ کسی نے ہمیں ہیرو کہا ہے۔ جیسا کہ تم جانتی ہو ہیرو پن ” با لکل ہماری لائن نہیں۔انے ماضی پر نظر دوڑاتا ہوں تو بہادری کا ایک بھی ایسا کارنامہ نظر نہیں آتا جو ہم نے سر انجام دیا ہو۔ بلکہ ہم نے تو کبھی اس کی کوشش ہی نہیں کی اور آجکل جو یہ شہرت یا عظمت مجھ ر ٹھونس دی گئی ہے اس میں بھی اپنا قصور نہیں ہے۔ میں نے تو یقیننا یہ نہیں چاھا تھا۔ ہم نے زندگی میں صرف ایک بات کی کوشش کی ہے اور وہ یہ کہ اپنے مسلک پر ثابت قدم رہیں۔ اپنی ذاتی نیک نیتی برقرار رکھیں اور کسی لالچ میں آکر اپنی دیانت کا سودا نہ کریں۔ لیکن یہ ایک صفت تو ان گنت ہزاروں لاکھوں میں ہم سے کہیں زیادہ موجود ہے اس لئے کہ عوام کی اکثریت دیانت دار ہے چناچ یہ کوئی ایسی خوبی نیں جسے کوئی اپنے سے مخصوص کر سکے۔
اپیل کے بارے میں یہ ہے کہ عدالت نے وکلا کو مہلت دینے سے انکار کر دیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ یہاں کا انصاف اگر منصف نہیں ہے تو مستقل ضرور ہے۔ حمید نظامی اور شفیع کے بہت دوستانہ خط آئے ہیں جن کے لئے ان کا شکریہ ادا کر دینا ۔ میں غالبا کچھ عرصے تک انہیں جواب نہ بھیج سکوں گا میرے پڑھنے کھنے کے منصوبوں سے تمہیں زیاد گھبراٹ نہ ہونی چاھئے۔ ہم نے عمر عزیز میں جہالت کا اتنا سرمایہ جمع کر لیا ہے کہ اگلے چند ماہ میں اس سے عہدہ برآ ہونا ممکن نیں اور کتابیں تو تجربے کا بدل نہیں ہیں اور تجربہ درد و محنت سے تمہیں حاصل ہو رہا ہے۔ یرو ہیرویئن عمل اور تجربات پیدا کرتے ہیں، محض الفاظ کی گردان سے کیا ہوتا ہے۔
آجکل کچھ نہیں لکھ رہا ہوں۔ معلوم وتا ہے کہ عروس سخن ہمیشہ کے لئے مفرور ہو گئی ہے لیکن یہ کوئی نئی حرکت نہیں اس لئے مجھے معلوم ہے کہ لوٹ آئے گی۔
( ایام اسیری میں ایلس فیض کے نام، فیض کے لکھے 135 خطوط سے انتخاب )