ڈھائی گز کمبل کا خدا ۔۔۔ فارحہ ارشد
ڈھائی گز کمبل کا خدا
فارحہ ارشد
چوبرجی کے احاطے میں جنگلے کے ساتھ، سیبے کی بوری پہ لیٹا وہ آتی جاتی گاڑیوں کو پرشوق نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ۔ اسے گاڑیوں کی بتیاں اور ہارن کی آوازیں بڑی بھلی لگ رہی تھیں ۔ وہ خوش تھا کہ لٹو اسے بھگا کر لاہور لے آیا ہے ۔
” کتنی رونق ہے یہاں” ۔ اس نے گاڑیوں اور لوگوں کو اشتیاق اور دلچسپی سے دیکھتے ہوئے سوچا۔
ایک بار چاچے سے چوری فیقے کے ساتھ وہ گاؤں سے ذرا دور شاہو کے میلے میں گیا تھا وہاں اتنی ہی رونق تھی۔ بس وہاں جھولے زیادہ تھے اور یہاں گاڑیاں ۔ ۔۔
لٹو ٹھیک کہتا تھا لاہور تو کوئی خوابوں کی دنیا ہے۔
اس نے ادھر اُدھر دیکھا لٹو جانے کہاں چلا گیا تھا ۔
شام گہری ہو رہی تھی اور سردی اس کے سادہ سے شلوار قمیض اور پھٹی ہوئی جیکٹ سے گھس کر اس کے کمزور سے جسم کو ٹھنڈا کر رہی تھی ۔ وہ بوری کو کھینچ کر اس جگہ لے آیا جہاں اشارے پہ گاڑیاں تھوڑی دیر کو رکتی تھیں ۔ سردی سے ہتھیلیاں گلابی ہورہی تھیں اور ناک بھی۔ ہاتھ اس نے جیکٹ کی سرد جیبوں میں ڈالے اور منہ کھول کر گاڑیوں کا دھواں پھیپھڑوں میں اتارنے لگا جس سے کچھ دیر کے لیے اس کے ننھے سے کمزور وجود کو حدت ملی ۔
اس نے ایک بار پھر ادھر ادھر نگاہ دوڑائی مگر اسے لٹو کہیں نظر نہ آیا۔
” لٹو کہاں گیا ہے ” اس نے بے چینی سے سوچا
سردی بڑھتی جا رہی تھی اور گاڑیوں کا دھواں بھی اب اس سردی کے لیے ناکافی لگنے لگا تھا ۔ اس نے بوری نیچے سے نکال کے اوپر اوڑھنے کا سوچا مگر گھاس اس قدر ٹھنڈی تھی کہ اسکا جسم کانپنے لگا۔ وہ فوراً اٹھ گیا ۔ تب اسے ایک ترکیب سوجھی ۔ اس نے بوری کا منہ کھولا اور اس کے اندر ٹانگیں ڈال کر لیٹ گیا ۔ ہاں اب ٹھیک ہے ۔ بوری کی گرمائش پہنچی تو وہ جانے کب گہری نیند کی وادیوں میں اتر گیا ۔
رات کا وہ جانے کون سا پہر تھا جب اس کی آنکھ شدید سردی محسوس ہونے کی وجہ سے کھل گئی ۔
اس نے ہڑبڑا کر آنکھ کھولی تو اسے یاد آیا وہ لٹو کے ساتھ شہر آیا تھا اور آخری بار لٹو اسے یہاں چھوڑ کے جانے کہاں چلا گیا تھا ۔ سڑک پہ اب اکا دکا کوئی گاڑی ، رکشہ یا موٹر سائیکل نظر آرہا تھا ۔ اس کے علاوہ پورے احاطے میں کوئی بھی نہ تھا وہ خوف اور سردی سے کپکپانے لگا۔ اس سے اچھا تو وہ ٹوٹی ادوائن والی چارپائی کا جھلنگا نما بستر تھا جو بھینسوں والے باڑے کے سامنے بنی چھوٹی کوٹھڑی میں اس کے لیے چاچے نے بچھا رکھا تھا۔
گوبر کی بدبو بھی کتنی گرم گرم لگتی تھی ۔ اس نے سردی سے کانپتے ہوئے گھٹنے سینے سے لگاتے ہوئے سوچا اورہاتھوں کی مکیاں بنا کر رانوں میں دبائیں مگر رانیں تک سرد ہو چکی تھیں ۔
اسے یاد آیا ایک بار چاچے نے سزا کے طور پہ اسے رضائی نہیں دی تھی تو وہ ماچھیوں کے تندورپہ ہاتھ سینک کر وہیں سو گیا تھا ۔ مگر یہاں وہ کہاں جائے ؟۔۔۔۔۔ یہاں تو کوئی تندور بھی نہیں ۔
اس نے اٹھ کر ایک بار پھرگردوپیش کا جائزہ لیا ۔ چوبرجی کے اندر کچھ لوگ اسے سوئے نظر آئے تو وہ جلدی سے بوری اٹھا کر چوبرجی کے اندر آگیا۔ لوگ آڑھے ترچھے اس طرح لیٹے تھے کہ اس نے بڑی مشکل سے ان کے درمیان اتنی جگہ بنالی کہ سکڑ کر لیٹ سکے۔ اس کے بائیں طرف کونے والا آدمی اس طرح منہ کھول کے لیٹا تھا کہ خوف سے اس نے زور سے آنکھیں میچ لیں اور لٹو اور چاچے کو یاد کر کے دبی دبی ہچکیوں سے رونے لگا ۔
گرم آنسوؤں کی لڑیوں نے سرد گالوں پہ جیسے ہلکی ہلکی گرم ٹکورکر نا شروع کر دی تو وہ اورشدت سے زارو قطار رونے لگا۔ مگر کب تک ۔۔۔۔ سردی کا احساس تو اسے بھر پور رونے بھی نہیں دے رہا تھا ۔
اور ٹھنڈ ایسی تھی کہ جس نے اب اس کی ہڈیوں کے گودے کو بھی سرد کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور ایک بار پھرچاروں طرف گھوم کر دیکھا شاید اسے کسی کے ساتھ لیٹنے کے لیے جگہ مل جائے اور اس سردی کے عذاب سے پناہ ملے ۔
کچھ لوگ تو کھیسی نما چادروں میں لپٹے جسم کی مُکی بنا کر سکڑے پڑے تھے۔ اور کچھ ایسے بے ہوشی کی نیند سو رہے تھے کہ اسے لگا شاید وہ مر چکے ہیں۔
البتہ صرف ایک آدمی نے اس کی توجہ کھینچی ۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے آدمی نے توجہ نہیں کھینچی بلکہ اس کے کمبل نے۔
اس سے تھوڑے سے فاصلے پہ سر کی طرف گندے پھٹے ہوئے کمبل میں لیٹا وہ آدمی اس وقت اسے دنیا کا خوش نصیب ترین شخص لگا۔ اس کا جی چاہا وہ اس کا کمبل کھینچ کر بھاگ جائے ۔۔۔ مگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا
اچھا اور کچھ نہیں تو کم از کم کمبل میں اپنے ہاتھ اور پاؤں ہی گھسا لے ۔ یہی سوچ کر وہ اٹھا مگر جب اس کے قریب پہنچا تووہ مایوس سا وہیں بیٹھ گیا۔ اس آدمی نے چاروں طرف سے کمبل کو کس کے لپیٹ رکھا تھا ۔ وہ اس کے قریب ہی لیٹ گیا شاید کمبل کی گرمائش قریب لیٹنے سے اس تک پہنچ سکے ۔ کمبل کی گرمی تو کیا پہنچتی اسے آہستہ آہستہ یوں لگنے لگا جیسے اس کے پاؤں ، ناک ، ٹانگیں بازو اس کے وجود کے ساتھ ہیں ہی نہیں ۔ اس نے خوفزدہ ہو کر ایکدم آنکھیں کھولیں اور نیم تاریکی میں اپنے جسم کو غور سے دیکھا اور کچھ حوصلہ ہوا کہ اس کے تمام اعضا سلامت تھے ۔
سردی سے اس کے دانت بجنے لگے تھے۔
گرم گرم گوبر اسے شدت سے یاد آنے لگا ۔ اس نے سوچا کاش وہ گوبر اسے یہاں کہیں مل جائے تو وہ اس میں اپنا پورا وجود گھسیڑ دے۔
ایسی شدت کی سردی نے اس کی سوچنے سمجھنے کی حسوں کو بھی مفلوج کرنا شروع کر دیا تھا اور وہ بس ایک ہی بات بار بار خود سے کہہ رہا تھا ۔ بس کل ہی وہ واپس گاؤں چلا جائے گا ۔ چاچے کی مار کی خیر ہے اور چاچا اگر سزا دے گا تو تندور والا برآمدہ تو ہے ہی اور کچھ نہیں تو گرم گرم گوبر تو ہوگا ہی نا ۔
اس نے صبح کے وقت گوبر اٹھانا ہوتا تھا اور اس وقت اس میں سے دھواں نکل رہا ہوتا تھا گرم دھواں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تب اسے یاد آیا اس نے کئی بار مدرسے کے مولوی صاحب کو لڑکوں سے اکثر یہ کہتے سنا تھا کہ ہمیں جو کچھ دیتا ہے ہمارا خدا دیتا ہے ۔
تو کیا اس کا خدا اتنا غریب ہے کہ اس کے پاس اسے دینے کے لیے کمبل ہی نہیں ۔ اس نے اداسی سے سوچا
پھر تو اس کا خدا بھی یقیناً آسمانوں میں اس کی طرح کہیں کانپ رہا ہوگا۔
آہ بیچارہ خدا۔ اس کے تو اپنے پاس کمبل نہیں مجھے کیا دے گا اگر اس کے پاس ہوتا تو وہ آدھا ہی سہی مجھے بھی ضرور دیتا۔
اسے اپنے غریب خدا پہ ترس آنے لگا۔
اس کا جی چاہا اس کا خدا اس کے سامنے آئے اور وہ دونوں اس آدمی کا کمبل لے کر بھاگ جائیں ۔
اور اگر کمبل والے آدمی کا خدا میرے غریب خدا کو کمبل نہ لے جانے دے تو ہم وہاں کونے میں بیٹھ کر خوب روئیں اور پھر یونہی روتے روتے ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر سو جائیں ۔
دو جسم ہونگے تو گرمائش بھی بڑھ جائے گی ۔ اس نے خود کو دلیل دی
مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کا خدا کہاں ہے ۔
جانے وہ کتنی دیر تک اپنے خدا کو یاد کر کے روتا رہا
دورسے کہیں ایک کتا ہانپتا ہوا اس کے قریب سے گذر کر کونے میں جا بیٹھا
دوسرے جسم کی گرمی ۔۔۔۔۔ یہ خیال آتے ہی اس نے بوری اٹھائی اور کتے کے ساتھ جا کے لیٹ گیا۔ اس کے جسم کی گرمائش نے اس کے کانپتے جسم کو کچھ سکون دیا تو وہ کچھ اور اس کے قریب ہوا۔ کتا خوفزدہ ہو کر بھونکنے لگا۔ وہ اسے سمجھانا چاہتا تھا مجھ سے مت ڈرو ۔ اس نے منت بھری نگاہوں سے اسے دیکھا مگر وہ بے زبان دوسرے کے دل کا حال جانتا تھا نہ اس کے سردی کی شدت سے کانپتے وجود کا حال۔ وہ بھونکتا ہوا وہاں سے بھاگ گیا ۔
یہاں ہوا زیادہ شدت سے اسے منجمد کرنے لگی تو وہ اٹھ کر پھر کمبل والے شخص کے پاس آکے لیٹ گیا اور آہستہ آہستہ کمبل کے نزدیک پاؤں لے جا کر ساتھ لگانے لگا۔
اس کی کانپتی ٹانگیں کمبل والے آدمی کے ساتھ لگیں تو وہ جاگ گیا اور غصے سے کمبل سے سر نکال کراسے گالیاں دینے لگا۔
وہ اور زیادہ سہم گیااور سوتا بن گیا۔
اچانک اس نے دیکھا کمبل والا آدمی اٹھ کر اس کے سر کی طرف کھڑا ہو گیا ہے اس نے ڈر کے مارے آنکھیں بھینچ لیں ۔ وہ شاید اپنے کسی کام سےاٹھا تھا ۔ وہ اتنا نزدیک کھڑا تھاکہ گرم گرم کئی چھینٹے اڑ کر اس کے چہرے پرتواتر سے پڑے تو اس کا شدت سے جی چاہا ایسے کئی قطرے اس کے پورے وجود پہ پڑیں تو سکھ آجائے۔
اسے اس وقت اپنا جسم اتنا بے جان لگا جیسے شیدے قصائی کی دوکان پہ لٹکا ننگا بکرا۔ کھال کے بغیر ٹھنڈا بے جان ساکت۔
عارفے حلوائی کی گرم گرم جلیبیاں یاد آئیں تو اس کا شدت سے جی چاہا وہ اپنے سردی سے برف بنے بے جان وجود کو اس کےگرم تیل والے کڑاہ میں ڈال کرجلیبیوں کے ساتھ ہی تل دے۔
کمبل والا لمبا تڑنگا آدمی واپس آیا اور دوبارہ کمبل تان کر سو گیا ۔ اس بار ٹانگوں کی طرف سے کچھ کمبل باہر کی طرف پڑا تھا وہ کھسکتے ہوئے اور قریب آیا اور ڈرتے ڈرتے پاؤں اس بچے کھچے فالتو کمبل میں گھسیڑ دئیے ۔ مگر ابھی بھی جسم کی کپکپاہٹ ایسی تھی کہ اسے لگنے لگا جیسے پوری زمین سردی سے کپکپا رہی ہے۔ وہ تھوڑا اور اس آدمی کے قریب ہوااور ہاتھ بھی فالتو پڑے کمبل میں لپیٹ لیے ۔
اسکو چاچا شدت سے یاد آنے لگا اس نے جب سے ہوش سنبھالا تھا چاچے کے علاوہ اس نے کسی کو نہیں دیکھا تھا ۔ سب کہتے تھے اس کے ماں باپ اینٹوں کے بھٹے پہ کسی حادثے کا شکار ہوکے اسےدنیا میں اکیلا چھوڑ کےمر گئے تھے۔ چاچے نے خود شادی نہیں کی تھی یا کسی نے اس سے ۔
وہ بھی اکیلا تھا اسے ترس کھا کر گھر لے آیا
وہ اس وقت مشکل سے سال بھر کا تھا۔ کچھ بڑاہوا تو چاچا اسے اپنے ساتھ بھینسوں کے باڑے میں کام پہ اپنے ساتھ لے جانے لگا۔ چاچا کام ضرور کرواتا تھا مگر اس کے کھانے پینے اور سونے کا انتظام بھی تو کرتا تھا ۔ لیکن چاچا مارتا بہت تھا۔ اس کی مار پیٹ کے ڈر سے ہی تو وہ لٹو کے ساتھ شہر بھاگ آیا تھا۔
مگر اب پچھتا رہا تھا
اس نے سوچا صبح ہوتے ہی وہ لٹو سے کہے گا اسے واپس گاؤں چھوڑ آئے ۔
تبھی اسے محسوس ہواکہ اس کے ٹھٹھرتے سُن ہوتے وجود پہ کمبل والے آدمی نے کمبل تان دیا ہے ۔
اور اسےکھینچ کر اپنے قریب کر لیا۔
اسے لگا جیسے وہ اس کا خدا ہو اور اس کے لیے کمبل لے کر زمین پہ اُترآیا ہو ۔ گرم گرم کمبل کے اندر جاتے ہی اس کا دل اپنے کمبل والے خدا کے لیے تشکر سے لبریز ہوگیا ۔۔۔
کمبل کی گرمائش نے اس کی سُن ٹانگوں میں حرکت پیدا کی تو اسے لگا جیسے اس کے خدا نے اس کے چھ سات سالہ چھوٹے سے وجود کو اپنے لمبے تڑنگے جسم کی پناہ میں لے لیا ہو۔
وہ بھی کچھ اورقریب کھسک آیا ۔ جسم کو گرمائش ملی تو وہ نیند کی گہری وادیوں میں اترتا چلا گیا ۔
وہ اپنے خدا سے بہت خوش تھا
ایک پرسکون معصوم سی تشکر آمیز مسکراہٹ لبوں پہ ٹھہر سی گئی تھی ۔ آنسو ابھی تک اس کی پلکوں پہ موتی بن کے اٹکے تھے۔۔
اچانک گہری نیند ہی کی حالت میں اسے لگا خدا اس کی جان لے رہا ہے
آہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔ درد کی شدید لہرکے ساتھ کوئی سخت سی چیز اس کی پشت میں گھستی چلی جا رہی تھی ۔