ننگے ہاتھ ۔۔۔ فارحہ ارشد
ننگے ہاتھ
( فارحہ ارشد )
اس روزخاندان میں طوفان آگیا جب اس نے چچا کو اپنے ننگے ہاتھ سے چھو لیا۔
دالانوں اور بالکنیوں سے رنگین کڑھائیوں اور چمکتے ستاروں سے آراستہ دستانوں والے جانے کتنے ہاتھ برآمد ہوئے اور اسے گھسیٹتے ہوئے تاریکی میں گم ہوگئے ۔
‘ خدایا! مجھے ہمت دے میں اپنی بھتیجی کو قتل کر سکوں ‘
اس نے مڑ کر دیکھا ۔ چچا کا چہرہ اور ہاتھ آسمان کی طرف بلند تھے ۔
وہ ڈری نہ سہمی ، مسکرائی نہ روئی ۔ اترائی نہ ہی اٹھلائی۔ رنگین پھولدار اوڑھنی اوڑھے تاریکی میں سے حیرت بھری نگاہوں سے، کبھی چچا کو دیکھتی کبھی آسمان کو۔
نہ کچھ سنائی دیتا تھا نہ دکھائی۔
اسے تو بس وہ عجیب سا لمس یاد تھا ۔لذیذ نہ کڑوا ۔ بس پھیکا پھیکا سا ۔ کچھ کچھ بدمزہ بھی ۔
کتنے روز وہ اس پھیکے سے لمس سے تجسس اور اسرار کی رمزوں کو الگ کر کے ان کا لطف لیتی رہی۔
اس لمس سے آگے ہے ، جو بھی ہے ۔۔۔۔۔۔ کچھ تو اور ہے ۔وہ کھوجتی
“ننگے ہاتھ کا تو اپنا ذائقہ ہے ۔۔” وہ حیرت سے جڑے ان لمحوں میں سے بلآخر یہ نتیجہ نکال کر اس ‘ پھیکے لمس ‘ کو یکسر بھول ہی تو گئی
ان ہاتھوں میں کچھ ہے ۔ کچھ الگ سا ۔ کچھ ایسا جو پورے بدن کو اپنی مٹھی میں لے کراپنا غلام بنا لیتا ہے ۔ کچھ طاقت ور ۔۔۔ کچھ زور آور سا۔
اپنی گلابی ہتھیلیوں کوغور سے دیکھتی تو اسے وہاں کئی جہان نظر آتے ۔ فسوں خیز فضاؤں والے جہان۔
کچھ مبہم ، کچھ آشکار۔ حیرتوں کے جہان پرت در پرت وا کرتے۔
بہت رنگین مگر ذراسے بے رنگ ۔
گویا سرشاری ، مستی اور بے خودی کی کیفیتوں کے جہان وہ ساتھ لیے پھرتی ہے۔
اس کی انگلیاں رقص کرنے لگتیں کسی ماہر نرتکی کی طرح ۔۔۔
مست و بیخود انگلیاں ۔۔۔۔ جو باتیں کرتی تھیں ، ہنستی تھیں ، ناچتی تھیں ۔
وہ تہمت زدہ لکیروں والی گلابی ہتھیلیوں کو اپنے ساتھ نچاتی انگلیاں۔ ہواؤں کے پر باندھے ، پانیوں پہ تھرکتی انگلیاں ۔
اور ہاتھ ۔۔ دستانوں اور گہنے پاتے سے آراستہ ہاتھوں والیوں پہ طنز کرتے، ننگے ہاتھ ۔۔
وہ سبز رگوں والے ، مخروطی انگلیوں والے ، گندم کے خوشوں جیسے سنہرے ہاتھ ۔۔۔
وہ انہیں دیکھے جاتی ۔ یہ عام نہیں کیونکہ یہ آزاد ہیں ۔
کیا یہ آزاد ہیں بھی؟
پہلی بار سوال اٹھا تھا جس کا اسے جواب نہیں ملا ۔۔ ادراک ہی نہ تھا تو جواب کہاں سے آتا۔
ان سب جامہ زیب عورتوں سے الگ اس کی اپنی دنیا تھی ۔
کلائیوں میں بھرے موٹے موٹے سونے کے کڑے اور اودے کے مشروع پائجامے زیب تن کئے سفید لٹوں والی عورتیں یا پھر غراروں پہ بڑے بڑے چنے ہوئے دوپٹے لیے ماتھے کے ایک طرف جھومر سجائے جوان کنواری لڑکیاں ۔۔ریشمی تھانوں سے بندھے بندمقدس ہاتھوں والی ۔ یوں جیسے شیشے کے گلاس میں پڑی چھوٹی ، موٹی، لمبی ، پتلی برف کی قاشیں۔۔۔۔ سرد، منجمد ، یخ ٹھنڈی۔
قرب کی عمر، فاصلوں کی خزاں زدہ شام کی سیڑھیاں کب پھلانگنے لگتی انہیں پتہ ہی نہ چلتا۔ کون جانتا تھا اور بھلا کون جاننا چاہتا تھا کہ ان کے جسموں کی مٹی برف کے تودوں میں تبدیل ہونے سے پہلے کتنی بار تڑخی ہے۔کوئی داد دینے والا، نہ ہی ان بے جا مگر جان لیوا قربانیوں پہ رونے والا۔ گویا چھت سے چھلانگ لگانا ہی بے کار ٹھہرا۔
اتنا ضرور دیکھنے میں آتا کہ پائیں باغیچے کی دائیں دیوار کے ساتھ قطار در قطار بنی تاریک کوٹھڑیوں سے یہ برف کے تودے کچھ تو قبرستان منتقل ہوئے اور کچھ انہی تاریک کوٹھڑیوں میں گم ، ٹھٹھرتے وجود۔
قبر اور کوٹھڑی میں فاصلہ ہی کتنا تھا، سانس لینے اور نہ لینے کے فیصلے جتنا۔بس۔۔۔۔
کچھ بغاوت والیاں خود سوزی اور خود کشی کے رستے اپنا کر ساتھ والے آبائی قبرستان میں بزرگوں کی مقدس قبروں کے ساتھ بنے ان پردہ دار بیبیوں کے لیے مخصوص ایک اور احاطے میں جا لیٹیں۔
قصہ ختم ۔
مگر قصہ ختم نہیں ہوتا۔ ایسے قصے تو نسل در نسل چلتے ہیں جب تک ان میں سے کوئی ایک ، بغاوت نہیں کرتا۔
اور جب تک ان یخ بستہ دیواروں میں آگ نہیں لگ جاتی ۔
آگ بھی آتش دانوں کی نہیں بلکہ دستاروں میں جا لگنے والی آگ ۔
ایسی آگ کے لیے تو حد پھلانگنا پڑتی ہے ۔ سو وہ تیار تھی ۔
اور بھلا ایسی بغاوت کے لیے تیاری بھی کب چاہیے ہوتی ہے ۔ یہ تو اندر سے ہی ابھرتی ہے اور اندر ہی اندر اپنے رستے طے کرتی تب باہر نکلتی ہے جب وہ آتش فشاں بن چکی ہوتی ہے ۔
وہ بھی لاوا بن چکی تھی ۔ گرم لاوا ۔۔۔۔۔۔ تباہی پھیلانے والا لاوا۔
قصور جانے کس کا تھا ۔دادا کی بستی والوں کا یا دادا اور ان کے بزرگوں کی مقدس قبروں کا۔ یا خود ان برف کے تودوں جیسی عورتوں کا۔
بستی والے رشتہ جوڑنا تو درکنار، اپنی آنکھوں کو ان پردہ دار بیبیوں سے پردہ کراتے تھے۔ بے ادبوں میں شمار ہونا انہیں گوارہ نہ تھا۔
ان سے اولاد پیدا کرنے کا عمل تو نری بے ادبی تھی نا۔
کہاں وہ پردہ دار بیبیاں اور کہاں وہ عام سے گنہگار لوگ ۔ میل کیسے ہوتا کہ بیچ میں اتنی موٹی ، تقدس کی دیوار تھی۔
رشتے دار دلی لکھنو رہ گئے اور اس سر زمین کے مرد ، ان کے لیے نامرد ٹھہرے ۔
وہ تو فاختائیں تھیں بے ضرر اور امن پسند ۔ روایات کی پاسداری کرنے والی ۔
انہی میں سے ایک وہ تھی ، ان سب سے بالکل الگ ۔۔ کسی بھی آلائش سے پاک ، صاف ستھرے، آزاد ، برہنہ ہاتھوں والی۔
اس کا چال چلن ہی الگ تھا ۔
بہت سے میٹھے بادام کھاتے ہوئے منہ میں آجانے والا وہ کڑوا بادام جو اتنے بہت سے میٹھے باداموں کی شیرینی اور چاشنی کو چاٹ کرتلخی میں بدل دیتا ہے ۔
وہ بھی ایسی ہی تھی کڑوے بادام جیسی ۔
وہ سب اس کی برہنگی پہ طنز و طعنوں کے تیر چلاتیں اور وہ اپنی رو میں بہتی ، اونچی نیچی ڈگر پہ چلتی ، مطمئن سی پھرا کرتی ۔ آزادی پا لینے کا احساس غالب رہتا اوروہ مست سی اس خیال سے ہی جھوما کرتی ۔
اگر وہ روایات سے ہٹ کر تھی تو اتنا طعن و تشنیع تو روایات والیوں کا حق تھا۔
سب نے اس پہ اپنے گُر آزمانا چاہے ۔۔۔ کوئی گفتگو میں شائستگی کا رچاؤ انڈیلنا چاہتی تو کوئی اپنی سادگی اور معصومیت بھرا بے ساختہ پن۔کوئی اسے کلاسیک پڑھانا چاہتی تو کوئی حرف کے صد ہزار معانی و تفاہیم کا منطقی ہنر۔کوئی خامشی کا گُر بتانا چاہتی تو کوئی دھیمے پن کا جلال۔
کتنی مکمل تھیں وہ ۔۔۔ مگر کتنی ادھوری ۔
کیا ایسی ضائع کر دینے والی تھیں وہ ؟ دکھ اور صدمے سے وہ سوچتی۔ جواب نہ بن پاتا تو اداس ہو جاتی۔
وہ ان جیسی ذہین بننا چاہتی تھی نہ ہی شائستہ اور نہ ہی ان جتنی مقدس ۔
وہ زور آور تھی اور بے پناہ زور آور تھی۔
درزوں میں نظروں سے دروازہ بنانے والی۔صبر کے گلیشئیر کو بہاؤ میں بدلنے والی
کہانی کو اپنی مرضی سے نیا موڑ دینے والی۔
اس کا اپنا ہنر تھا اور خود پہ اپناہی راج ۔
کسی کی صابر مٹی اپنی سرکش مٹی میں کیسے گوندھ لیتی، اس کی منزل تو کوئی اور تھی۔ اسے ان کی طرح دستانوں میں دھیرے دھیرے مٹتی خوش قسمتی کی لکیروں کو اپنی گلابی ہتھیلیوں پہ نہیں سجانا تھا۔
اس کی خوش قسمتی کی لکیر اس کے ہاتھ خود کھینچنے پہ قادر تو نہ تھے مگر وہ سمجھتی ایسا ہی تھی۔
یہی وجہ تھی کہ ننگے ہاتھ لے کر طنطنے اور جلال سے پھرا کرتی۔
اسے حرف کا اعتبار چاہیے تھا نہ ہی کردار کی قسمیں۔
دستانوں میں لپٹی مقدس عورتوں کے ٹھٹھرتے ہاتھوں سے اسے خوف آتا تھا ۔ وہ تو بس آزادی چاہتی تھی ۔ ان کالی کوٹھڑیوں جیسے عقوبت خانوں سے پرے کسی پہاڑ کی نوکیلی چٹان پر یا ساتویں آسمان سے بھی کہیں اوپر۔
گھر میں بچے کُھچے گنتی کے چند مرد ۔وہ بھی چڑچڑے مزاجوں والے ۔وہ حیرت سے انہیں دیکھا کرتی
یہ روزن کیوں نہیں بناتے؟ ان کی ساری حسیں مر گئیں کیا۔ دادیوں ، ماؤں، بیٹیوں اور بہنوں کو دیکھ دیکھ کر سو گئی ہیں یا یہ بے بسی کی بھنگ چڑھائے ابدی نیند والوں سے بھی گہری نیند سو رہے ہیں ۔
اور جو کبھی جاگیں ٍٍٍٍٍٍٍٍتو ہر ایک کو کھانے کو دوڑتے ہیں ۔ ان ڈری سہمی فاختاؤں پہ جانے انہیں غصہ کیسے آجاتا ہے ۔
وہ دکھ اور اداسی سے سوچتی رہتی ۔مگر آخر کتنا سوچتی۔ اپنا لاوا ان سوچوں کو بھی بہا لے جاتا ۔ اس کے ہاتھوں کی رقص کرتی انگلیاں ایسا ناچ ناچتیں کہ پورا بدن تپش سے جھلسنے لگتا ۔پائیں باغیچے میں وہ جہاں جہاں قدم رکھتی اسے لگتا وہاں سے سبز تازہ گھاس جل گئی ہو۔
اس کا اثر دل پہ ہوتا تھا۔اس کا اثر دماغ پہ بھی ہوتا تھا۔۔
اسی اثر کے تحت وہ چپکے سے باغیچے کے آخری کونے میں بنی تاریکی میں ڈوبی الگ تھلگ بنی کوٹھڑی کی اس کھڑکی سے جا لگی جس کی لوہے کی سلاخیں اتنے فاصلے پر تھیں کہ وہ آسانی سے ہاتھ باہر نکال کر سارے بدن کو آزادی کا احساس دلاسکتی تھی۔
یہ کوٹھڑی صرف خاص موقعوں پہ کھولی جاتی ۔ جب باہر کی عورتیں یا خادمائیں آکے ٹھہرتیں یاپھر لنگر کا سامان اس سے ملحقہ کوٹھڑی میں کوئی رکھنے آتا۔
کوٹھڑی کی کھڑکی کے سامنے شاہراہِ عام تھی۔اس کے برہنہ جھومتے ہاتھوں نے عام لوگوں کی توجہ ہی نہیں کھینچی، ایمان بھی نوچ ڈالے کہ یہ ایمان تو پہلے سے ہی بہت دراڑیں رکھتے تھے۔ اس نے ان دراڑوں میں ہاتھ ڈال دیا تھا ۔اور یہ اس کا قصور نہ تھا ۔ دراڑوں والے ہوتے ہی ایسے ہیں ۔۔ بودے ، پھسپھسے اورکمزور۔
اپنا وجود تاریکی میں غائب کیے، ادھ کھلی کھڑکیوں کے پٹ سے وہ مدھر سُر میں رقص کرتی انگلیوں پہ لوگوں کو نچانے لگی ۔کوئی نہ جانتا تھا کہ ہاتھ کس کے ہیں ۔ کوئی مان ہی نہ سکتا تھا۔ اور مانتا بھی تو کیسے ۔ ان کے لیے تو ایسا سوچنا بھی گناہ تھا۔وہ تو بس اتنا جانتے تھے کہ ہاتھ عورت کے ہیں ۔۔ عورت بھی جوان اور حسین ۔کون عورت ؟۔۔۔ یہ جاننے کی نہ خواہش تھی نہ ہی کوئی وجہ ۔ ان کے لیے تو یہی کافی تھا۔
کالے ، پیلے ، سرخ اور سفید مرد ان ہاتھوں کی تپش میں بہتے رہے اور وہ رنگ برنگے ذائقوں کے لمس میں جانے کیا کھوجتی رہی۔ کون سا احساس، کس کی جستجو ، کیسی بغاوت ۔ کس کس ‘ برف کے تودے ‘ کا بدلہ بستی والوں سے لینے لگی ۔
کبھی کبھی اسے لگتا وہ دوزخ کی آگ میں لپیٹے کھاتا انسانی گوشت کا کوئی چیتھڑا ہے جو اپنی لپیٹ میں بڑے بڑے پارساؤں کولینے آیا ہے ۔
وہ ہاتھ تھے برہنہ اور حسین ۔اور وہ لوگ تھے دراڑوں بھرے ایمان والے۔انہیں کیا پڑی تھی کہ وہاں سے تنہا گذرتے ہوئے گناہ ثواب کے جھنجھٹ میں پڑتے ۔یہ کھیل تو گناہ ، ثواب سے کہیں بچ بچا کے ہی گذر جاتا تھا بلکہ پتہ تب چلتا جب بیت چکا ہوتا ۔
انہی میں سے ایک اس کے گھر کا جایا بھی تھا جو جانے کس تپش کے تحت گناہ ، ثواب بھول، بہہ گیا تھا ۔
کالی ندی کے اس پار ۔ بہت سے لتھڑے ہوئے کالے لوگوں سے اسے گھن آتی مگر اسے ڈھونڈنا تھا ، انہی میں سے کوئی ایک، دست گیری کرتا نجات دہندہ ۔
جانے کہاں تھا؟
اور تب ۔۔۔۔
اس سے اگلے دن ہی کسی نے اس کے ہاتھوں پہ لب رکھ دئیے ۔
اس کا بدن جھنجھنا اٹھا۔ روح تک جاتی جھنجھناہٹ ۔ نفس کے تاروں کو چھیڑتا اس بوسے کا لمس یا روح کی بنیادیں ہلاتا۔
یہی تھا وہ آشنا سا لمس جو کتنے نا آشناؤں میں ڈھونڈتے وقت اس نے کیسی کیسی غلاظتوں میں ہاتھ گھسیڑے تھے ۔
کتنا تلاشا اس نے یہ روح سے بھی آگے کے سفر کی وعید سناتا اور اپنی مرضی کے طوفانوں سے سرکشی کرنے کا لطف دیتا لمس
وہی بوسہء شیریں جو نس نس سے زہریلی جڑوں کی رطوبتیں نچوڑ کر مٹھاس بھر دیتا ہے ۔
آہ۔۔۔۔ وہ اس کے سامنے تھا ۔
سر جھکائے دوزانو بیٹھا ۔ لب ننگے ہاتھوں پہ دھرے تھے ۔
اور وہ ۔۔۔۔ جو اسے دیکھ سکتی تھی ، چھو سکتی تھی ۔۔۔ اس کے لبوں کو مو بہ مو رقص کرتے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ وہ مدہوش تھا اور وہ ہوش میں ۔ اسے جی بھر کے ، پورے ہوش و حواس سے محسوس کرتی ہوئی۔
ایک ہیجان تھا جو وجود کے کناروں سے چھلکتا تھا ۔یہ واہمہ نہ تھا ۔۔۔۔ یہ فریب بھی نہ تھا۔ وہ آچکا تھا اور وہ ۔۔۔۔ جذبوں سے لبالب بھری مشکیں اس پہ انڈیلتی تھی۔
بھیگتا وہ تھا اور بارش اس کے اندر ہوتی تھی ۔ وہ جو فنا سے نکل کر بقا کی طرف بھاگتی تھی۔ یہ وصل تھا کہ فنا سے بقا تک کا کوئی گہرا راز
یہی وصل انجام ٹھہرتا تو کہانی کتنی دلکش ہوتی۔مگر کہانی تو ان وصل والوں کے گرد ، اپنا آپ بُنتی ہے نا ۔ اور پھر کہانی اگر جبر سےٹکراؤ کی ہوتو یہ صبح کی چڑیا کے گیت پہ ختم ہی کہاں ہوتی ہے ۔
اسے تو عشق سے بھی بڑی بھٹیوں میں کودنا پڑتا ہے ۔
گھر کا جایا اپنے گناہ ثواب کی حس تو نہ جگا پایا مگربوسہ لیتے ایک اور مرد کو دیکھ کراس کی غیرت کی حس ضرور کلبلا اٹھی ۔
گویا تپش نے ننگے ہاتھوں میں بہتے ہی اس کے سر کا رخ کیا اور دستار میں آگ لگا دی۔
ہاتھوں کی سزا تھی ہاتھوں کو ہی ملی ۔وہ بھاگ کر کوٹھڑی کے اندر آیا۔اس کے ننگے ہاتھوں کو سات گھروں کے پانی سے دھونے لگا۔۔ اور اس کے ہاتھوں کو مقدس زنجیریں پہنا کر گناہ ثواب کے ہجے اپنی مرضی سے لکھنے لگا ۔ کچے دودھ سے انہیں پاک کر کے پتھروں سے بنوائی پہاڑی نما دیوار کے پیچھے اس کا وجود چھپاکر ایک بلند پتھر پہ انہیں سجایا اور اپنی دستار ان پہ رکھ دی۔
“تمہیں بوسوں کا شوق ہے ۔۔۔ آ تجھے مقدس بوسوں کی نذر کروں ۔” باچھوں سے جھاگ اڑاتا گھر جایا انہیں ‘مقدس ہاتھوں کی کرامت’ کہہ کر بلی چڑھاتا ، لگا اپنے پاپ دھونے۔
ان ہاتھوں پہ منتیں مانی جانے لگیں ۔ ہیروں کےمنکوں کے ہار چڑھنے لگے ۔ سونے کی انگوٹھیاں اور کڑے چڑھائے جانے لگے اور وہ پتھروں کے پیچھے بے حال نڈھال سسکاریاں بھرتی رہی۔ کون سنتا کہ وہاں تو ہر کوئی سسکاریاں بھرنے والا ہی آتا تھا ۔ محرومیوں کا مارا ،آسرے تلاش کرتا پناہ ڈھونڈتا ، روتا بلکتا ، مصیبت کا مارا انسان۔
خالی اور طویل برآمدوں میں چپلوں کے تیز تیز گھسٹنے کی آوازیں ابھرتی اور معدوم ہوتی رہیں ۔ ڈرتی ، کانپتی بیبیاں حلق کے اندر ہی گلہ گھونٹ کر مار دی جانے والی گھٹی گھٹی کراہیں دبائے اس کے لیے ، اسی کے ننگے ہاتھوں پرمنتیں مانتی رہیں ۔
ننگے ہاتھوں پر جانے اور کتنے غلاف چڑھائے جاتے اور آنسو بہائےجاتے کہ اس نے ایک شام وہی بوسہ ایک بار پھر محسوس کیا جو ہاتھوں سے ہوتا ہوا اس کی روح تک جا پہنچا تھا ۔ اس کی سسکاریاں تھم گئیں ۔
ان اماوس کی راتوں میں سے ایک رات وہ اسے مقدس زنجیروں سے آزاد کر کے ساتھ لے جانے آگیا ۔
اس کے ساتھ دہلیز پار کرنے سے پہلے اندھیرے میں ہی ایک عجیب سا احساس اس کے ہاتھوں کی بےحس رگوں کو بے چین کر گیا ۔
کچھ انہونی کا احساس۔ دھوکے اور فریب سےاٹی بُو کے بھبھوکے کا ، ساری حسیں جگا دینے والا طاقتور احساس۔
آنکھیں آنسووں سے بھرنے لگیں ۔
چھم چھم برستی آنکھیں ۔۔۔۔ ایک مرد کے فریب پر ۔
وہ بھی تو ایک مرد تھا۔ اسی بستی کا مرد ۔
ان ننگے ہاتھوں کی نحوست چاردیواری کے اندر ہی پھینکنا چاہتا تھا۔
وہ آخری بار اپنے عشق کے لیے روئی اور بے تحاشہ روئی۔
اور دل تھا کہ اس پہ اثر ہوتا تھا
دماغ تھا کہ اس پہ بھی اثر ہوتا تھا
دل آنکھوں میں جا سسکاریاں بھرنے لگا اور دماغ نے ہاتھ کی پشت پناہی کی۔
فیصلہ کُن لمحہ، وقت کے بیچوں بیچ جانے کہاں سے آن ٹپکا ۔ وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کی باگیں کھینچ لینے والا ظالم لمحہ ۔ مرضی کی باگ ڈور پہ ہاتھ جمالینے والا لمحہ ۔ اور تب اس نے اٹل فیصلہ کیا ۔
دو ننگے ہاتھ طاقتور بن کر اپنے حصے کی جنگ لڑنے میدان میں اُتر آئے ۔
کچھ دیر گتھم گتھا ہونے کی آوازیں آتی رہیں اور بلآخر ایک خوفناک چیخ نے سارے گھر میں بھاگ دوڑ مچادی ۔
کسی ایک کا وار تو خالی جانا تھا۔ اور اس کا وار خالی کیسے جاتا جس کے اندر لاوا اُبلتا تھا ۔ جس نے ابھی ابھی کچھ لمحے پہلےعشق کے نام پر فریب کھایا تھا ۔ جس نے دستار پر پاؤں رکھ کر دہلیز کی طرف قدم بڑھائے تھے
اس کا وار خالی جاتا بھی کیسے ۔
وہ تو آگ میں ناچتا مور تھی جس نے اپنے پیروں کو دیکھ لیا تھا۔
وہ تو ننگے ہاتھوں والی تھی ۔
وہی ننگے ہاتھ جو ایک پردہ دار بی بی کے ہوں تو وہ فاحشہ کہلانے لگتی ہے ۔
اس نے تو وجود پہ تہمتوں کے کوڑے سہے تھے ۔ اس کا وار خالی جاتا ہی کیوں ۔
زرد بلب کی مدھم روشنی میں سب نے دیکھا۔ وار کاری تھا اور وہاں دو ہاتھ کلائیوں سے کٹ کر الگ پڑے تھے ۔ محبت کے دستانے چڑھائے ایک اور حسب نسب والےمردانہ ہاتھ ۔ ایک اور غلام گردش کا ایک اورغلام مرد شرمندگی اور درد کے مارے کراہ رہا تھا ۔ چیخ رہا تھا۔
اور
کرامت والے ننگے ہاتھ’ جنہیں ہمسفر سے زیادہ منزل کی چاہ تھی، دہلیز پار کر چکے تھے ۔ ‘