نظم ۔۔۔ فرحان مشتاق
نظم
فرحان مشتاق
مارچ کی ٹھنڈی ہوا کی طرح
یہ اُن راتوں کی بات ہے
جب شہر کی گلیوں میں
خوشیوں کو سر چھپانے کی جگہ نہ ملتی
اور سائے جسموں سے نکل کر
آگے کی طرف بھاگتے
اور تم مارچ کی ٹھنڈی ہوا کی طرح
کبھی ہڈیوں تک نہ پہنچ پاتیں
صبح ہونے سے پہلے
واپسی کے رستوں سے
بے یقینی کا پہرہ اٹھنے لگتا
سانس چھوٹی ہو کر
انہونی کی کوکھ میں دھڑکنے لگتی
تم میرا ہاتھ اور بھی
مضبوطی سے پکڑ لیتیں
اور میں اپنے جسم پر
تمھارا لمس ڈھونڈتے ڈھونڈتے
سوئی ہوئی نیند کو جگا دیتا
خواب تمھارے آنچل کا کونا پکڑ کر
گلیوں میں نکل جاتے
تب شہر کی گلیوں میں
خوشیوں کو سر چھپانے کی جگہ نہ ملتی
اور سائے جسموں سے نکل کر
آگے کی طرف بھاگتے
اور تم مارچ کی ٹھنڈی ہوا کی طرح
کبھی ہڈیوں تک نہ پہنچ پاتیں۔