گیلے پر ۔۔۔ فرحین چودھری
گیلے پر
فرحین چودھری
اُس نے سردی سے بچنے کے لئے کوٹ کے کالر اُونچے کر لئے۔ مفلر مزید کَس کر گلے کے گرد لپیٹا، جیبوں میں ہاتھ ٹھونس کر سکڑا سکڑا سا چلتا ہوا بڑی سڑک پر آ گیا۔
اِکا دُکا گاڑیاں آ جارہی تھیں۔ مُندی مُندی روشنی میں ٹھیلوں والے کہیں کہیں کھڑے تھے۔ اُن کے ٹھیلوں پر سجے چلغوزوں، مونگ پھلیوں اور خشک خوبانیوں کا ذائقہ اسے اپنی زبان پر محسوس ہونے لگا۔ ساتھ ہی فوراً چھوٹی سی مٹی کی ہانڈی سے اُٹھتا دُھواں، اُسے اپنی آنکھوں اور حلق میں گھستا محسوس ہوا۔ وہ دونوں کیفیات کو خود سے پرے دھکیلنے کا جتن کرتا ہوا تیزی سے چلنے لگا۔
گھنٹے بھر کا راستہ ابھی باقی تھا۔ سُستی سے چلتا رہتا تو ڈیڑھ گھنٹہ لگ جاتا اور دروازہ کھلوانے کی کوفت الگ ہوتی۔ ویسے بھی تیز چلنے سے سردی کا احساس کم ہونے لگتا ہے۔
وہ روزاِسی وقت، اِسی راستے سے اِنہی مناظر کے پس منظر کے ساتھ حرکت کرتا ہوا لمحہ بہ لمحہ ماضی میں قید ہوتا جا رہا تھا۔ اُس کے گرد ایسا ہی سیاہ سناٹا چھایا رہتا تھا، اندر بھی اور باہر بھی۔ ڈیڑھ گھنٹے کے اس راستے کو وہ دن بھر کے واقعات کی کھچڑی پکانے،انواع و اقسام کے لوگوں کی بھانت بھانت کی بولیوں کا چسکا لینے اور اپنی ہلکی سی بڑبڑاہٹ کے لئے استعمال کرتا تھاکہ یہی لمحات تھے جو خالصتاً اس کے اپنے تھے۔ وہ آزادی کے ساتھ ہنس سکتا تھا، رو سکتا تھا۔ افسرانِ بالا، بیوی، مالکِ مکان حتیٰ کہ حکومت کو بھی بہ آوازِ بلند حسبِ ضرورت ننگی ننگی گالیوں اور مغلظات سے نواز سکتا تھا۔
یہ ۹۰ منٹ وہ روشن دریچہ تھے جو نو مین لیند میں کھلتے تھے۔
اس کے اندر کی بہت ساری گھٹن، بھڑاس اور زہر اس دریچے کے ذریعے کسی گھر کی فضا کو متعفن کئے بغیر ہوا میں تحلیل ہو جایا کرتی تھی۔
کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ یہ ۹۰ منٹ پردہ سیمیں کا روپ دھار لیتے اور وہ اپنا بچپن،لڑکپن، بچھڑے خواب، سہانے گیت سب کچھ اس پر دیکھ لیتا۔ کئی بار وہ اچانک کسی کھلے مین ہول میں گرتے بچا۔ بارہا آوارہ کتوں نے اسے کئی فرلانگ تک گلیوں میں ریس بھی لگوائی۔ ڈیوٹی پر موجود اصلی اور نقلی چوکیداروں نے سیٹی بجا کر اُسے روکا بھی۔ ریڑھی والوں نے مشکوک نظروں سے گھورا۔
لیکن کئی سال سے رات کے اندھیرے میں اُبھر کر رات ہی کے اندھیرے میں تحلیل ہو جانے والا سایہ، آہستہ آہستہ اسی ماحول کا حصہ بن گیا تھا۔ وہ بھی اب بتاسکتا تھا کہ کتنے قدم کے بعد کون سا مین ہول آئے گا؟ کس موڑ پر کون سا ریڑھی کس گلی میں کتنے اور کس مزاج کے کتے ملیں گے والا ہے؟ یا کون سا چوکیدار کس ٹون میں سیٹی بجاتا ہے؟ میں رات کس گھرمیں کس پہر کون آتا ہے؟
پانچ ہزار چار سو سیکنڈ کے بعد دہ جس دروازے پر اپنی مخصوص دستک دیتا تھا،وہ دروازہ ٹھیک دو منٹ کے بعد کھلتا۔ نیند میں بوجھل آنکھیں، گلے شکوے اور غصہ سمیٹے اسے کچھ دیر ٹٹولتی رہتیں، پھر زیرِلب مسکراہٹ کے ساتھ وہ چہرہ دروازہ بند کر کے اگلے کمرے کا در کھول دیتا۔ جہاں ایک چھوٹی سے دنیا اس کی منتظر ہوتی۔
دن بھر فائلوں کے ساتھ گتھم گتھا رہ رہ کر وہ اب ہر بات فائل اور کیس کے حوالے سے کرتا۔ اس کے ادبی شوق مشہور ہونے کے خواب کاغذ پر لکھ لکھ کر نظمیں اور کہانیاں چھپا چھپا کررکھنا۔ سب کچھ کسی
پنڈینگ فائل کے زُمرے میں آگئے تھے
یہ فائل ابھی تک بند اس لئے نہ ہوئی تھی کہ ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے دوران کبھی کبھی اس فائل کے چند صفحوں سے بھی وہ گرد جھاڑنے لگتا۔
جب وہ نیا نیا اِس آفس میں آیا تھا تو اُس کے جوتے چمکتے تھے۔ استری شدہ کپڑوں اور گھنے جمے ہوئے بالوں کے ساتھ جب وہ دفتر میں داخل ہوتا تو گھاگ کلرک موٹی موٹی عینکوں کے پیچھے سے ابرو چڑھا کر ایک دوسرے کی جانب معنی خیز نگاہوں سے دیکھتے۔
کئی سال تک فائلوں کے گرد وغبار سے نبردآزما رہنے کے بعد اس کے بالوں پر بھی پھپھوندی لگ گئی تھی۔ کپڑے بھی ملگجے ہو گئے تھے اور گرد آلود جوتوں کے تلے بھی گھس گئے تھے۔
بیمار ماں باپ کو مٹی کے ڈھیر تلے نجات دلا کر وہ پر سکون تھا۔ بہنوں کی شادیوں کے بعد اس کے کاندھے اور بھی ہلکے پھلکے ہو گئے تھے کہ دوکمروں کا کواٹر بھی بک چکا تھا۔ وہ اپنا دامن جھاڑ کر صابروشاکر قسم کی بیوی اور دو عدد بچوں سمیت اس کمرے میں اُٹھ آیا تھا کہ یہ کمرہ عین بازار میں، زندگی کے شور شرابے سے پُر تھا۔ اس کمرے کی دیواریں،چھت کا رنگ و روغن زندگی ہی کی طرح بے رنگ اور ناپائیدار تھا۔ یہ مماثلت اسے نجانے کیوں اچھی لگی۔کرایہ بھی جیب کے حساب سے ٹھیک تھا۔ بیوی کے گھٹے گھٹے احتجاج کے باوجود اس نے کمرہ لے لیا۔
وہ تو خوف کی کیفیت سے باہر آگیا تھا، لیکن بیوی مزید خوف کے سائے تلے۔۔۔!
پہلے پہل وہ سماجی مسائل پر سیاسی حالات پر، سیکنڈلز پر،بڑے جوش و خروش سے بولا کرتاتھا۔ اسے یقین تھا کہ حالات بدل جائیں گے اور انقلاب بپا ہو گا۔ لوگوں کے غم دُور ہو جائیں گے اور دُنیا خوشحال ہو سکے گی۔
لیکن گزرتے وقت کے ہر لمحے نے جاتے جاتے دھیرے سے اُسے یہ سمجھا دیا تھا کہ کسی خوش فہمی میں نہ رہنا۔۔۔زندگی یہی ہے۔
صرف خوشی اور امن و سکون تو تین گھنٹے کی فلم میں بھی نہیں ہوتا، جب تک ٹریجڈی سین نہ ہو، ہاتھا پائی نہ ہو، ایک آدھ گولی نہ چلے تماش بینوں کو فلم کا مزہ نہیں آتا۔
یہ تو پوری کائنات کا نظام ہے۔ کیسے ایک ہی موڈ کے تابع ہو جائے؟ یہ بات اس کی عقل میں آتو گئی تھی مگر ذرا دیر سے۔
اب وہ شانت تھا۔
پکوڑے والے سے پکوڑے خریدتا تو اخبار کے چکنے کاغذ پر سیاست دانوں کی ٹیڑھی میڑھی بگڑی شکلیں اور جھوٹے سچے بیانات کو مزید تروڑ مروڑ کر زمین پر پھینک دیتا۔ اسے اب ہنسی آتی تھی یہ سوچ کر کہ وہ اپنے پسندیدہ لیڈر کی تصویر والے اخبارکو کس طرح سیدھا کر کے احتیاط و عقیدت کے ساتھ تہہ کر کے جیب میں ڈال لیا کرتا تھا۔ اب تو اس کے نزدیک یہ سماجی اور سیاسی لیڈر اداکاروں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے تھے۔
”سارے ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔۔۔ مداری۔۔۔ڈگڈگی بجاتے ہیں۔۔۔مجمع لگاتے ہیں۔۔۔جیبیں بھرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔۔۔“
اس کے نزدیک تمام فلسفے،تمام اِز م عوام کو بے وقوف بنانے کے حیلے تھے اور کچھ نہیں۔
”بھوکے پیٹ، ننگے تن، بے چھت سر کا مسئلہ، انسانی زندگی اور اس کی ضروریات ہیں۔۔۔“
وہ کھرے کھرے الفاظ میں اپنی رائے دے کر ایک طرف ہو جاتا۔۔۔
چٹ پٹے بیانات اور سکینڈلز کے سہارے ذہنی عیاشی کرنے والے اُسے خشک اور بور کہنے لگے تھے کہ اُس کا لہو اب ٹھنڈاہو چکا تھا۔ اسے اچھی طرح اندازہ ہو چکا تھا کہ اس کی اور اس کے خیالات کی حیثیت۔۔۔سگریٹ کے چھوڑے ہوئے دھوئیں سے زیادہ نہیں۔
آج وہ بڑے موڈ میں تھا۔ یونہی بلاوجہ ایک پرانی دھن گنگناتے ہوئے اسے یاد آیا کہ لڑکپن میں جب وہ خود کو بڑا انقلابی بنانے کے چکر میں تھا تو ایک مرتبہ باپ نے ماں سے کہا تھا
”اسے سنبھالو بہت پَر نکل آئے ہیں اِس کے۔۔۔“
’’پر تو نکلیں گے ،گھونسلوں میں تھوڑا ہی بیٹھے رہیں گے بچے تم باپ ہو۔ان کے پروں کو زیادہ خشک نہ ہونے دینا محبت کے چھینٹے دیتے رہو گے تو اُڑان زیادہ اونچی نہ ہو گی۔ نیچی اڑان والوں کو شکروں اور گِدھوں کا ڈر کم ہوتا ہے ‘‘۔
وہ تو کچھ سمجھا کچھ نہ سمجھا مگر باپ نے ماں کو نثار ہو جانے والی نظروں سے ضرور دیکھا تھا کہ وہ اپنی عقل مند بیوی کے سامنے ہمیشہ لاجواب ہو جایا کرتا تھا اور اِس بات پر فخر بھی کرتا تھا۔
بادِ سموم کے جھونکوں میں چٹیل ریگزاروں پر اُڑان کے دوران اُسے ماں کی بات کا مطلب سمجھ میں آ گیا تھا۔ شاید اسی لئے وہ اس زندگی سے مطمئن بھی تھا اب اسے شکروں اور گِدھوں کا خوف نہ تھا۔
وہ ماں کی بات یاد کر کے مسکرا دیا سردی کی ایک شدید لہر آئی تو بے اختیار اس کے منہ سے ”سی“ نکل گئی۔اس نے اپنے کوٹ کو مزید سمیٹنے کی کوشش کی ہاتھوں کو رگڑ کر جیبوں میں ٹھونسا، ٹھوڑی کو سینے سے لگا کر قدم تیز کردیئے یکایک دور کہیں فائرنگ کی آواز گونجی ہلکی سی چیخ و پکار کے بعد پھر سناٹا چھا گیا موت کا ! گناہ کا۔
وہ چونکا تو ضرور مگر یہ کوئی اتنی انہونی بھی نہ تھی۔ اس نے اور تو کیا کرنا تھا بس اس کی رفتار اب بھاگنے کے مشابہہ ہو گئی تھی۔
دروازے کی اوٹ میں چھپی آنکھوں میں خوف اور بے تابی تھی، شاید فائرنگ کی آواز وہاں تک پہنچ گئی تھی۔
”جلدی آجایا کرو۔۔۔“
”کوشش تو کرتا ہوں مگر زندگی کا پہیہ بہت تیز چلتا ہے ۔ساتھ ساتھ بھاگنا تو پڑتا ہے نا۔۔۔“
اس نے ہنس کر خوفزدہ آنکھوں میں مسکراہٹ بکھیرنا چاہی مگر وہاں بدستور کالی چادر تنی تھی۔ ڈر بُکل مارے بیٹھا تھا۔
”اچھا۔۔۔کل سے جلدی آؤں گا ۔تم کھانا نکالو۔۔۔“
اُس نے نرم و نازک شانہ تھپتھپایا۔
اگلی رات ۔وہ اپنے مخصوص وقت سے کوئی دو گھنٹے پہلے اُٹھ گیا، لیکن سڑکوں پر سردی کے مارے اسی طرح ہُو کا عالم تھا۔ گلیوں میں وہی آسیب زدگی وہی ٹمٹماتے بلب وہی اونگھتے خوانچوں والے اور وہی بھونکتے کتے۔۔۔
اسے افسوس ہونے لگا اپنی جلد بازی اور جذباتیت پر ۔بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ بیوی کے وہم کی وجہ سے روزی پر لات مارنا شروع کر دوں۔ خوف کہاں اور کب نہیں موجود ۔پچھتاوا اس کے پیروں سے جیسے سانپ بن کر لپٹنے لگا۔ یکایک اسے محسوس ہوا کہ پیچھے کوئی آ رہا ہے۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہ تھا۔ چند قدم چل کر اسے پھر لگا کہ کوئی نہ کوئی تو ہے۔۔ ۔دبے دبے تیز قدم اُسے سنائی دے رہے تھے صاف۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں جیسے برف سی بھر گئی۔اس نے اپنی رفتار تیز کر دی۔ اگلی گلی میں مڑتے ہی ایک ہلکی سی کلک سنائی دی اور پہلو میں آگ کا انگارہ سا گھستا محسوس ہوا۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک اور شعلہ سا لپکا۔ ہاتھ گیلا گیلا سا ہو گیا۔ سینے پر ہاتھ رکھا تو۔ ۔بس ہاتھ گیلا ہونے کے احساس سے لے کر زمین پر گرنے تک کے وقفے میں۔ اس کا بچپن جوانی دروازے کی اوٹ سے جھانکتی خوفزدہ آنکھیں، بچے، ماں، باپ سب کچھ جیسے فاسٹ فارورڈ ہو گیا۔
آخری سانس کے ساتھ اس نے سوچا۔ ماں اتنی بھی عقلمند نہیں تھی۔ وہ شاید غلط کہتی تھی۔ اسے بتاؤں گا کہ
”بھوکے شکرے تو نیچی اڑان والے پرندوں پر بھی جھپٹ پڑتے ہیں“