اسیران ِ سراب ۔۔۔ فرحین خالد
اسیران ِ سراب
فرحین خالد
خدا نے اسے رُوپہلی مٹی سے گوندھا تھا . جسم کے خم کچھ ایسے تراشیدہ تھے کہ جو پلک اٹھے پھسل پھسل جائے . بالوں کے آوارہ گھو نگر ماتھے پہ جھولتے اور کان کی لووں کو اٹھتے بیٹھتے چومتے .اسکی آنکھیں ، میں لکھتے لکھتے رک گیا تھا .اسکی سیاہ آنکھوں میں ایسے اجالے تھے کہ جس کسی پہ پڑتےزندگی کی آ س دے جاتے .وہ من موہنی ایک خانہ بدوش تھی …بتاشہ !
میں بے چین ہو کر اپنی رائٹنگ ٹیبل سے اٹھ کھڑا ہوا اور کھڑکی سے باہر ساحل پہ ٹکراتی لہروں کو دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ دس سال بیت گئے جب میں کراچی کے ساحل پہ لگے میلے میں یونہی کھنچتا چلا گیا تھا . ایک خیمے کے باہر درج تھا
” ہمت ہے تو قسمت آزما لیں ”
باہر بیٹھے شخص کو میں نے سو روپے ادا کیئے اور پردہ اٹھا کے اندر داخل ہوا تو وہ سامنے ہی بیٹھی تھی. مجھے دیکھتے ہی اسکی آنکھوں میں شناسائی کی لپک کوندی تھی ، جیسے میری ہی منتظر ہو بولی ” نورستان سے چترال کیلئے چلی تھی تو میں نے تمہیں خواب میں دیکھا تھا ،کتنے دن لے لیئے تم نے آنے میں ؟” اس کو نیم خفا پا کے میں مسکرایا اور سوچا اگر یہ کھیل ایسےہی کھیلا جانا سے تو فبھا ، بولا ” فاصلے دلوں میں نہ ہوں تو معنی نہیں رکھتے ” وہ جھوم اٹھی تھی . پاس رکھی ایک ٹوکری میں سجے پھولوں کے ہالوں میں سے ایک دائرہ اٹھا لائی اور میرے سر پہ رکھتے ہوئے چاہت سے بولی “زما گرانہ ، چائے پیش کروں ؟ میں صرف آنکھوں سے حامی بھر سکا . بتاشہ کے ارد گرد بھی وہی رنگینی تھی جو اس کے لباس اور مزاج کا حصہ تھی . لیس کے پردے کے پیچھے لگے برقی قمقمے جگمگا رہے تھے ، نیلی چھت سے ٹنگی رنگین
اوڑ ھنیاں بادبانی کشتیوں کا منظر دے رہی تھیں اور ان کے درمیان آویزاں سنہری ستارے جھلملا رہے تھے . اس نے مجھے ایک دیوان پہ بٹھایا ،تپاک سے پیالی دھری اور بے تکلفی سے میرے پہلو سے آ لگی ، کلائی تھام کے بولی ” اس پہ میرا نام گدا ہوا ہے نا ؟ میں نے پوچھا ، تمہارا کیا نام ہے ؟ وہ شوخی سے بولی ،” وہی جو تمہارا ہے ! مجھے ہنسی آ گئی ، تو کیا تمہارا نام بھی کبیر بلوچ ہے ؟ اس نے چٹخارہ سا انکار کیا اور بولی ،خانم بتاشہ ! یہ کہتے ہوئے اس نے میری کلائی پلٹی تو اس پہ میرے نام کا مخفف درج تھا ” کے بی ” وہ جانے کیا بول رہی تھی مگر میں یکدم گھبرا گیا تھا ، ایک جھٹکے سے کھڑا ہوگیا اور بولا . ڈرامہ ختم ہوگیا ہے یا کچھ نوٹنکی ا بھی باقی ہے ؟ ہر گاہک کے ساتھ نام بدلتی ہو گی ..سو روپے میں اچھا شغل لگا لیتی ہو ! میں نے محسوس کیا کہ وہ ان جملوں کی اذیت سے سفید پڑ گئی تھی . میں جانے کیلئے پلٹا ہی تھا کہ اسنے مجھے کہنی پکڑ کے روکا اور کہا ، صاحب ابھی پیسہ وصول نہیں ہوا . ایک کونے میں رکھے کرسٹل بال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لجاجت سے بولی ،قسمت کا حال جانیں گے یا گانا سنیں گے ؟ اسکی جھلملاتی آنکھوں سے سرکتے ستاروں کو دیکھ کے میں پگھل گیا اور نرمی سے بولا ، بتاشہ گانا بھی گا لیتی ہے ؟ تو وہ چہک اٹھی . جونہی ایک پاؤں پہ گول گھومی تو مجھے لگا دنیا نے اپنے مدار پہ گھومنا اسی نازنین سے سیکھا ہے . کب اس نے چترالی ستار کی دھن بکھیری، کیونکر اس نے مجھے دیوان پہ مسکن کیا ، مجھے کچھ یاد نہیں . اگر کچھ یاد رہا تو اس کاہنہ کی دلبری اور مسحور کن موسیقی . جانے کتنی دیر میں دم بخد رہا .وہ تھم بھی گئی تو طلسم نہ ٹوٹا . پاس آ کے بولی ، تم میرے ساتھ چلو گے ؟ میں نے نشے میں پوچھا ، ” کہاں ” بولی ،” پہاڑوں کے اس پار !”
میں ناران تک ہی گیا تھا پوچھا ، سیف الملوک ؟ اسنے نفی میں سر ہلایا اور میری تھوڑی اپنی چٹکی میں لے کے بولی ، اور بھی آگے محبت کے سفر پہ ! مجھے یکدم اپنے پاپا کہنے والے دو بچے یاد آ گئے .سیدھا اٹھ بیٹھا اور سنجیدگی سے بولا ، میں کمٹڈ ہوں ، دو بچے ہیں . اسنے میری جانب بغور دیکھا اور کہا، تو ؟ اب میں واقعی سٹپٹا رہا تھا .. گھبراہٹ سے سانس سی اکھڑ نے لگی تھی. کہنے لگی ، میں محبت میں قناعت کی قائل نہیں وہ رشتے جو بوجھ بن کے ہمیں آزردہ کریں ان سے آزاد ہوجانا بہتر ہے . مجھ سے کچھ بن نہ پڑی تو میں ہکلایا ، میں ایک بورنگ سا آدمی ہوں لگی بندھی کا عادی . وہ کھلکھلا کے ہنس پڑی اور مجھ پہ ہی آ ٹکی .. نیم وا آنکھوں سے بولی ، واقعی ؟ تم کو نہیں لگتا کہ ہمارا ملنا قدرت کا اشارہ ہے ؟ جانتے ہو میں کوسوں دور سے تم کو اپنا آپ سونپنے آئی ہوں ؟ میں اسے ہلکے سے دھکیل کر اٹھ کھڑا ہوا ، بولا بہت دیر ہو چکی ہے. اس نے ملتجی ہو کر پوچھا ،کل آؤ گے ؟ میں نے نفی میں سر ہلا دیا . اس نے میری کلائی پہ گدے ” کے بی ” کو چوما اور بولی
میں اب نہیں لوٹوں گی ، لیکن میری یاد ستائے تو چاند کی چودھویں رات اس سمندر کو دیکھ لینا ، میں بل کھاتی اٹھان لیتی لہروں پہ سفر کرتی ملوں گی ، یہ اپنے ساتھ بہا لیجانے کا فن تو جانتی ہیں مگر تجاوز نہیں کرتیں . خدا ئے پا مان .
میں سوچتا آیا کہ لہریں تجاوز کر جائیں تو تباہی کے نقش چھوڑ جاتی ہیں .
آج دس برس بعد بھی میں بیچ ہاؤس میں کھڑا پاش ہوتی لہروں کو تک رہا تھا ، کہ کاش انکی آغوش میسر آ جائے .
۔