محبت کے سُراغ ۔۔۔ فرحین خالد
محبت کے سراغ
فرحین خالد
پورنیما کی رات تہ خانوں میں کہاں اترتی ہے .وہاں تو یاس کے چراغ جھلملاتے ہیں ،آ ہوں اور سسکیوں کے راگ مل کے درد کی ایسی سمفنی پیدا کرتے ہیں کہ حرکت قلب بھی تھرا جائے ، مگر موت پھر بھی نہیں آتی .زندگی کی چاہت میں کیسے کیسے فریب نہیں جھیلے تھے اس کرم جلی نے ….
آج ،اسکی زندگی کی چوتھی بَلی تھی .
ماچس کی تیلی کی رگڑ نے ماحول کے سکوت کو توڑا اور چنگاریوں نے تاریکی مٹائی .عیاں ہوا کہ بیسمنٹ کے وسط میں چھتیس موم بتیوں کا ایک دائرہ کھنچا ہے اور عین ان کے بیچوں بیچ سنہری پرات میں ایک دلہن بنی گڑیا دھری ہے . تیلی کی لو سمیٹے دو نرم و نازک ہاتھ آگے بڑھے اور ایک ایک کر کے ان سب کو روشن کردیا . ایسا کرتے ہوئے وہ دھیمے سروں میں سہاگ گیت گنگنا رہی تھی . آخری موم بتی روشن ہونے تک جلانے والی کا سیاہ ہیولا بھی صاف دیکھا جا سکتا تھا . وہ ایک نازک اندام حسینہ تھی جس کی ابریشمی زلفوں کے مضطرب ناگ اس کے اندر امڈتے طوفان کا پتا دیتے تھے .اس نے مزید جھک کر گڑیا کا ماتھا چوما اور اسے نذر آتش کر دیا . آنچ تو سرخ گڑیا نے پکڑی تھی مگر تڑپنا سیاہ پوش گڑیا کا دیکھا جا سکتا تھا . اب وہ سہاگ گیت جس سوز اور لے میں گا رہی تھی وہ اطراف کی دیواروں کا سینہ چیر نے کے لئے کافی تھا . چشم زدن میں وہ اٹھی اور اپنی ہی آ ہو بکا کی تال پر جھومر ڈالنے شرو ع کردیئے .موم بتیوں سے اٹھتا دھواں اس کے گرد بگولے بناتا رہا اور اس کی تالیاں اور چٹکیاں اپنے حزن و الم کا ماتم کرتی رہیں . وہ جانے رقص تھا یا خدا کو چیلنج کہ کومل سے پیروں کے دھمکتے قدم زلزال کو آواز دے رہے تھے . اس کی روح سے لپکتی ٹیسیں شاید عرش کو جا پہنچیں تھیں اسی لئے وہ سوختہ جان چکراتے چکراتے گر پڑی اور بے ہوش ہو گئی . کمرے میں موجود آخری سسکی اس موم بتی سے ابھری جو اپنے ہی آنسو سے بجھ چکی تھی .
اگلے روز وہ معمول کے مطابق آفس میں کام کر تی نظر آئی .اس کے زرد حسن کو محسوس کیا بھی تو صرف تانیہ نے جو سائے کی طرح اس کا تعاقب کیا کرتی.ایسا کرتے ہوئے اسے دو سال بیت چکے تھے مگر زارا ا سے اکثر نظر انداز کیا کرتی کہ ا یسی دوستی پہ اسے تنہایاں عزیز تھیں .چائے کے وقفے پہ وہ اٹھی اور تہی دامن سی عادل کے کیبن میں جا گزیں ہوئی .آفس کا یہ کونہ کبھی اسکی محبت کی چھاؤنی ہوا کرتا تھا . جہاں عادل کی سرگوشیاں اوراسکی جھرنوں کی سی ہنسی آج بھی خیمہ زن ملتیں . جس جگہ اسکی نظر ٹکتی وہ آپ ہی آپ زندگی کا روپ دھار کر بسری یادوں کی رنگین جھلک دکھا جاتی . اسوقت بھی وہ بے خودی میں عادل کو کرسی پہ جھولتا دیکھ رہی تھی جب تانیہ نے اسکو سوچ کے بھنور سے نکالا ، بولی ” ایک سال ہوچکا ہے اسے یورپ گئے ہوئے ، کب تک خود کو اذیت میں مبتلا رکھو گی ؟”
زارا نے شکستگی سے کہا ،”اذیت …؟یہاں تو میں چند لمحوں کی راحت کے لئے آتی تھی ،مگر جب یادوں میں بے وفائی کازہر گھلجائے تو کہیں بھی پناہ نہیں ملتی . تانیہ نے بے تکلفی سے اسکے ہاتھوں سے کپ لیا اور اسکی آنکھوں میں تیرتی ناگواری پڑھے بغیر چاۓ کا گھونٹ بھر کے بولی،” تم جیسی خوبصورت اور خود مختار عورت کو ان عادلوں کی ضرورت نہیں ہے جو زندگی کا ایک مشکل فیصلہ بھی نہ کر پائیں .” زارا کھوکھلی سی ہنسی ہنس دی . پھر بات بدلنے کو پوچھا ،” کیا ہوا سر نے تمہاری چھٹی اپروو کی؟” تانیہ تو جیسے بھپر ہی گئی ، “ہنہ ، الٹا اپنے ہی رونے لے کے بیٹھ گیا کہ تم پلیز مینج کر لو میرے گھر ڈیلیوری ہے . یعنی اب ان نکموں کو پھل کھانے کی چھٹی بھی درکار ہے .ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ نہ ہم مجبوریوں کے ٹسوے بہاتے ہیں نہ کسی کو ترس آتا ہے .نہ ہم کسی کا ادھار کھاتے ہیں نہ کوئی ہمارا بھاڑا بھرتا ہے . سب نے جیسے سوچ رکھا ہے کہ یہ رُل بھی گئیں تو مریں گی نہیں .محبت اور تحفظ کی بھینٹ چڑھی یہ آزادی ایسے ہی نہیں حاصل ہوئی ، یہ راتوں کی نیند گروی رکھ کے ملا کرتی ہے جسے یہ دنیا ہر کمزور لمحے پر ہمارے ماتھے پہ جڑ دیا کرتی ہے .” تانیہ نے دوسری جانب خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے گلا کھنکارا اور آہستگی سے پوچھا ،” فون آیا اسکا ؟” زارا کچھ دیر توقف کے بعد بولی ،” میں نے کیا تھا …. سوچا تھا اسکو بتاؤں گی کہ میر ا ویزا لگ گیا ہے اور اب ہم اپنے خواب جی بھر کے جی سکتے ہیں . ..مگر ….اس نے وہ موقع آنے ہی نہیں دیا .. بولا کہ یہاں میرا کاغذی سا دو کمروں کا ٹھکانہ ہے جس کی گتے کی دیواریں ہیں کہیں بیوی نہ سن لے اس لئے بات نہیں ہو سکتی …. بس ، کہانی ختم !” کمرے میں مکمل سکوت چھا گیا تھا .
ذرا دیر بعد زارا اُداسی سے مسکرائی اور بولی ،”بس ، بہت منا لیا اسکا سوگ اب اور نہیں . آج سے نئی زندگی شرو ع کرتے ہیں .” یہ سنتے ہی تانیہ کی باچھیں کھل اٹھیں وہ بولی ،” چلو پھر آج ساری ڈائکس جمع ہو رہی ہیں ہم دونو ں بھی کلب چلتے ہیں .” زارا ہنس پڑی تھی اٹھتے ہوئے بولی ،” کسی اور دن سہی .” مگر تانیہ سے یہ نیا انکار سہا نہ گیا وہ درشتگی سے بولی ،” ایک بات یاد رکھنا زارا ، تھرٹی پلس مطلقہ عورتوں کو دوستیوں کے وعدے تو مل جاتے ہیں پر مضبوط کندھے نہیں ملا کرتے . ساری عمر ان منحوس آدمیوں سے دھوکہ کھا کر بھی تم کو کسی لاغر وجود کا انتظار ہے ؟ کب تک ان کا آسرا کرو گی …ویسے بھی ان کچے گھڑوں پہ انحصار وہ کرے جو تیرنا نہ جانتا ہو .زندگی میں محبت کا سراغ چاہتی ہو تو ذائقہ بدل کے دیکھو مایوس نہیں ہوگی !”وہ اپنی بات کہہ کر کمر ے سے جا چکی تھی مگر زارا وہیں منجمد رہ گئی .اس روز سے پہلے تانیہ نے کبھی اسطرح کھل کے اپنا مدعا پیش نہیں کیا تھا .اسکو شدت سے اپنے غیر محفوظ ہونے کا احساس ہو رہا تھا . ساری عمر اس نے ٹوٹے ہوئے رشتوں کی پاسداری اور کمزور جذبوں کی آبیاری کی تھی مگر کچھ بھی تو ہاتھ نہ آیا تھا . شاید تانیہ ٹھیک ہی کہہ گئی تھی . آدمی سے زیادہ بزدل اور کمزور مخلوق خدا نے پیدا نہیں کی تھییا کم از کم اس کے نصیب میں لکھے سارے مرد ادھورے خواب کی صورت آشکار ہوئے تھے . یکایک عادل کی متروک پناہیں اسکو چبھنے لگیں تو وہ آفس سے باہر نکل آئی .
اپنی دھواں دھواں سی زندگی سمیٹے وہ کچے راستوں پہ چلتی چلی جا رہی تھی . من ابھی بھی متلاشی تھا اس محبت کا جو ہاتھوں کی لکیروں سے نکل کے پیروں کی مسافت بننے کو تیار نہیں تھی . سب کچھ تو دیکھ لیا تھا پھر بھی جانے کیوں دل کو قرار نہیں آتا تھا . آج بھی بارش کی بوندوں میں اس کو جلترنگ سنائی دیتے تھے ، صبح صادق کی کرنیں اسے رخسار چومتی محسوس ہوتیں ، پھولوں کی مہک اسکو دیوانہ بنا دیتی اور تاروں کی چمک اسکو اپنی راتوں کی ویرانی کا پتا دیتی. وہ ایک ایسی آگ میں سلگ رہی تھی جو دھیرے دھیرے اسکے دروں کو خاکستر کرتی چلی جا رہی تھی .وہ محبت میں پہلی بار تو ناکام نہیں ہوئی تھی مگر ہار شاید پہلی بار مانی تھی . اسے ڈر تھا کہ یہ مایوسی کسی روگ کی صورت میں نہ ابھرے اور وہی ہوا . ایک روز آفس میں کام کرتے کرتے اسکا نروس بریک ڈاون ہوگیا .
آنکھ کھلی تو سامنے تانیہ کھڑی تھی . ایک ہفتہ کیسے ہسپتال میں بیت گیا خبر ہی نہ ہوئی .اس بیچ تانیہ نے اسکی خدمت خاطر میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی . وہ دیوانہ وار اس پہ فدا ہوکر دن رات ایک کرتی رہی یہاں تک کے وہ ٹھیک ہو کے گھر نہ آ گئی . سفید کارنیشنز کو گلدان میں سجاتے ہوئے تانیہ نے ایک الگ کر لیا . پھر مسکراتے ہوئے زارا کے قریب آئی اور پھول کو چوم کر اسکے گال پہ پھیرتے ہوئے بولی ،” مجھ سے ڈرنا نہیں پرنسس ، میں تم کو کبھی دھوکہ نہیں دوں گی .” زارا کی آنکھیں فرط تشکر سے نم ہو گئیں . ان دھندلی آنکھوں سے تانیہ میں اس کو وہ ٹوٹ کے چاہنے والی ماں سجھائی دی جو قسمت نے بچپن میں ہی چھین لی تھی . اسے تو خالہ عزیزہ نے پر تولنا اور اڑنا سکھایا تھا . وہ ایسی ماڈرن درویش تھیں جو مشکلات کے انسٹنٹ حل بتایا کرتیں اور رکاوٹ کے گردراستے نکا لتیں. اکثر معاف کرنے پہ ترجیح دیا کرتی تھیں ، کہتیں تھیں کہ اگر ہم سب نے آنکھ کے بدلے آنکھ پھوڑنی شروع کردی تو یہ اندھوں کی دنیا ہو کے رہ جائے گی.اسی زادِ راہ کیساتھ زارا آج بھی چشم حزیں لیئے منزلوں کے نشان ڈھونڈ رہی تھی .
اسسرکس جیسی دنیا کا نَٹ نما باسی رشتوں میں بھی بنجاروں کی سی سرشت لے آیا ہے . پڑاؤ ڈالنے کا سودا وہاں طے کرتا ہے جہاں Fringe benefitsجیسی ا ضافی سہولتیں مہیا ہوں اور تانیہ ان تمام امور میں مشاق تھی .وہ آہستہ آہستہ زارا کو اپنا عادی بنا رہی تھی . آفس کے بعد انکی اکثر شامیں ساتھ گزرتیں . تانیہ کو حد درجے اسموکنگ کی عادت تھی . وہ جب بھی اپنا الیکٹرانک سگریٹ فِل کرتی پہلا ویپ اسی کو پیش کرتی اور زارا اس کے ایک ہی کش میں ذہن میں امڈتے ہوئے شور سے آزاد ہو کر ہلکی پھلکی سی ہو جاتی . تانیہ کے بڑھتے تصرفات اسے اب برے نہ لگتے جو وہ تحائف اور تفریحات کی صورت میں کیا کرتی .وہ دن بدن اس پر انحصار کرنے لگی تھی جس نے اس کی بے کیف زندگی میں دھنک رنگ بھر دیئے تھے . ایک رات فون پر باتوں کے دوران جب اس نے بستر میں لیٹی زارا سے سیلفی کی فرمائش کی تو جانے کس سوچ کے تحت اس نے گریبان کے دو بٹن مزید کھول کے ایک خوابناک سا پوز سینڈ کر ڈالا پھر اسکے بعد ساری رات اس کا فون کھنکتا رہا مگر شرم کے مارے وہ تکیے میں منہ چھپائے گلابی ہوتی رہی .
عید آئی تو خالہ عزیزہ نے ملنے کا اصرار کیا .گرمی بھی شدت کی پڑ رہی تھی اور وہ پہاڑی علاقہ جات میں رہتی تھیں، سو اس نے حامی بھر لی . تانیہ نے اسکا یہ پلان جانا تو ساتھ چلنے کی آفر کی کہ ہمسفر ساتھ ہو تو بوریت کا احساس کم ہوتا ہے . اسبار وہ اسے منع نہ کر سکی مگر رات گئے ٹہلتی رہی . دل و دماغ پہ سیاہ و سفید کی ایسی کہر چھائی تھی کہ عقل بھی گنگ تھی . آخر کار تھک کے وہ ٹیبل پر بیٹھ گئی اور ایک خط لکھنا شروع کیا ..
اے میرے سوہنے رب ،
تو واحد ہے، یکتا ہے، تنہا ہے …میری تنہائیوں کا علاج تیرے پاس نہیں تو کس کے پاس ہے ؟
تو جانتا ہے نا کہ میں جو رشتہ بناتی ہوں ٹوٹ جاتا ہے جس سے محبت کرتی ہوں وہ دور چلا جاتا ہے . جانے …مجھے ملنے والے لوگ ہی کھوکھلے تھے یا وہ میرے لئے بنے ہی نہ تھے …..نقصان تو میرا ہوا نا… شیرازہ تو میرا ہی بکھرا .. .
مولا،جو خواب تو نے میری جاگتی آنکھوں میں ودیعت کیے تھے وہ وہیں ٹھہر گئے ہیں …
شکم کو رزق پہنچانے کے بعد کیا تجھ پہ میرا کوئی دوسرا حق نہیں بنتا ؟
دیکھو نا ا س انتظار میں میری مانگ بھی سفید پڑ گئی ہے … دھانی آنچل میں اپنی لاج سمیٹے کہاں سے کہاں نکل آئی ہوں .میرے سیاہ نصیبوں میں سویرا کب ہوگا مالک ؟تو بتا کہ تو نے میرے لئے آگے کیا سوچا ہے ؟ کیا اس ہجر کا موسم تبدیل ہونا ہے یا میں ہی راہیں بدل لوں ؟ دیکھ مولا میرے پاس زیادہ وقت نہیں ..
تیری ہدایت کی منتظر …
زارا .
خط لکھتے ہی اس نے خود کو زیادہ مہلت نہیں دی اور اس کاغذ کو ایک گلاس میں حل کرنا شروع کردیا تاآ نکہ اس کی سیاہی پانی میں شامل ہو گئی . اس گلاس کو لیکر وہ گھر کے عقب میں لگےسیاہ گلابوں کی صورت، آرزوؤں کے اُس قبرستان میں چلی آئی جہاں اسکے اپنے نام کی چار گڑ یائیں مدفون تھیں . اس نے کیاری میں وہ پانی انڈیلا ،سورۂ فاتحہ پڑھی اور سفر پہ روانہ ہو گئی .
وہ دونو ں سہیلیاں تتلیوں کی مانند نئے گلستانو ں کی تلاش میں سرگرداں بنجر اور پتھریلے راستے پیچھے چھوڑ آئیں تھیں . انہوں نے خار دار بیل بوٹوں سے جان چھڑا کر مخملیں ہریالیوں کی طرف بڑھنے کا ارادہ کیا تھا ،جہاں بھنوروں سے انھیں کوئی سروکار نہتھا .تازہ چاہتوں کے نشے سے شرسار وہ ہر معمولی بات پہ ایسے ہنستیں جیسے کوئی شیر خوار بچہ بلا اختیار کھلکھلایا کر تا ہے . اس دوران موسم نے کروٹ لی اور ہلکی پھوار موسلا دھار بارش کی شکل اختیار کر گئی . ڈرائیور نے لینڈ سلائڈنگ کے امکان کے تحت بس کو ایک قیام گاہ کے آگے روک دیا . مسافر زیادہ اور کمرے کم تھے سو مجبوراً بستر بھی شئیر کرنے لازمی قرار پائے . عام حالات میں یہ بات ایسی معیوب بھی نہ ہوتی مگراسوقت زارا کی کیفیت لہولہان تھی . اسے احساس ہو رہا تھا کہ جس آگ سے وہ کھیلتی آئی ہے اسکا دوزخ اسے راکھ کرنے کو دھانے تک بھڑک رہا ہے .اس کی اندرونی کشمش سے بےخبر تانیہ، اسکا گلنار ہوتا چہرہ غلط پڑھ کر خوب ہی محظوظ ہو رہی تھی .قریب ترین سرک کے بولی ،” ریلیکس ،آج نہیں پرنسس . اس محبت میں نہاں سے عیاں تک کا سفربہت طویل اور پر خطر ہے .آج صرف سپنے دیکھیں گے مگر جلد .. بہت جلد .” یہ کہہ کر اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ہزاروں بول کہہ ڈالے جس کی وارفتگی سے گھبرا کے زارا نے دوسری جانب کروٹ لے لی اور رات گزرنے کا شدت سے انتظار کرنے لگی . تل تل مرنا کیا ہوتا ہے آج اسے سمجھ میں آیا تھا . کاش وہ وقت کو پلٹ سکتی تو زندگی کے اس گھناؤنے موڑ کو سب سے پہلے حذف کرتی . اس کا دل چاہا کہ اسی وقت خاموشی سے نکل جائے مگر راہ چلتے بھیڑیوں کے خوف نے قدم روک لئے . اللہ اللہ کر کے پو پھٹی تو وہ انتہائی آہستگی سے اپنا بیگ اٹھائے کمرے سے فرار ہو گئی اور ایک بار بھی مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا .
گوالے سے لفٹ لے کر اپنے گاؤں کے باہر اتری تو جیسے پھر سے پانچ سالہ بچی بن گی ہو ، شاید اتنی ہی عمر رہی ہوگی جب وہ یہاں پہلی بار آئی تھی . آج بھی اسکا استقبال کرنے کو سبزے کی مہک ، پرندوں کی چہچہاہٹ اور پاس بہتے دریا کا شور اپنی ہی سارنگی بجا رہے تھے . وہ اسی طرح کودتی پھاندتی عزیزہ خالہ کے کوٹیج کی جانب گامزن تھی کہ راستے میں ایک ٹھٹھرے ہوئے زخمی پلے کو دیکھ کر رک گئی. جھک کے اسے سہلایا تو سوکھے تن میں زندگی کی لہر دور گئی . وہ یتیم اسے اپنے جیسا لگا اسلئے گود میں اٹھا کر ہمراہ لے چلی . راستے بھر سوچتی رہی کہ وہ زندگی کی کشتی میں ناخدا بنی ان موجوں سے ناحق لڑتی رہی ہے جنھوں نے دھکیلنا اسکو اُسی جانب تھا جہاں وہ آج کھڑی تھی . اس بے سود اختیار پہ اسے ہنسی آئی جسے وہ کرو فر سے اپناتی آئی تھی . اسکی چہک کو محسوس کرتے ہوئے وہ پلہ بھی کرلایا تو اس نے پیار سے اس کو لکی کہہ کے پچکارا … بولی ،” کیا بال بال بچے ہیں ہم !” وہ تیز قدم اٹھاتے ہوئے سوچنے لگی کہ جس پل صراط کو وہ عبور کر آئی ہے قدرت کا سنجوگ تھا یامحض پچھتاوا … جو بھی تھا وہ مزید سوچنا نہیں چاہتی تھی اس لیے خالہ کی بچپن میں یاد کرائی ہوئی نظم گنگناتی ہوئی منزل جا پہنچی .
گھر کا آنگن ہمیشہ کی طرح تاز ہ گلوں سے مہک رہا تھا . ایک بچی پہل دوج کھیل رہی تھی اور خالہ کھلے باورچی خانے میں بیٹھی آلو کے چپس تل رہی تھیں . اس پہ نظر پڑی تو کھل اٹھیں بولیں،” خوش آمدید .. اتنے دن لگا دیئے آنے میں !” پھر پلے پہ نظر پڑی تو چلائیں ،” ارے اس پلید کو کہاں سے اٹھا لائیں ؟ باہر کرو .. نکالو اسے ” زارا نے ہنستے ہوئے پلیٹ میں رکھے چپس منہ میں بھرتے ہوئے کہا کہ” ارے کیا ہوگیا خالہ ،ایک کتا تو آپ نے بھی جوانی میں پالا تھا .” وہ ہنستے ہوئے لکی کو گود سے اتار کے خود شیشم کے تراشیدہ جھولے میں لیٹ گئی تھی . خالہ کھولتے تیل میں تلتے ہوئے چپس کو سرخ ہوتے دیکھتیں رہیں پھر بولیں ،” میں شاید اضطراب میں سکون ڈھونڈ رہی تھی …
ان کےاس اعتراف میں زارا کے جواب بھی پنہاں تھے … جو بلندیوں پہ نظر جمائے اپنے ٹوٹے ہوئے پر ٹانک رہی تھی .