لحد کھلی ہے۔۔۔ غلام دستگیر ربانی
لحد کھلی ہے
( غلام دستگیر ربانی )
اپنے ہونے کے شعور سے نا آشنا، سب اپنا جامد اظہار کر رہے تھے۔
میز کی چھاتی پر کاغذ پھڑ پھڑائے
چھوٹے بلب سے نکلتی مریل روشنی کا حلقہ، سگریٹ کا دھواں،
ایش ٹرے، چائے کی پیالی، سوچ کی گرد
میز پر جھکے بوڑھے کا رعشہ زدہ ہاتھ زندگی کے ڈرامے کا ڈراپ سین لکھتا ہے۔ سکوت پھر بھی نہیں ٹوتتا۔
ایش ٹرے سے جلے ہوئے انسانی گوشت کی بو اٹھتی ہے اور کمرے کی فضا میں پھیلتی چلی جاتی ہے۔
تمہارے پاس زندگی گزارنے کے ہزار گُر سٹاک میں پڑے ہیں مگر کوئی بھی انہیں آزمانے کی حماقت نہیں کرتا۔
بڈھا کھوسٹ، سٹھیا گیا ہے۔ سامنے کی دیوار اس پر ہنستی ہے۔
اپنی ہار مانتا ہوں۔ مجھے یقین ہو چکا کہ اکٹھے کئے گئے سارے گُر ، میرے اپنے لیے بھی بیکار ہو چکے ہیں۔ مجھے مر جانا چاہیئے کہ کوئی میری ضرورت قبول کر لینے پر راضی نہیں۔
تو اور خود کشی ؟ اس نعمت سے محروم ہو چکا ہے تو، موت سے پہلے کئی بار مر چکا ہے تو۔
سب در بند ہوئے، موت کا در ہمہ وقت کھلا ہے۔
اس کے کاندھوں کا اوپر والا حصہ مسلسل کانپتا ہے پھر بھی رعشہ زدہ ہاتھ کی رگیں ذہنی غلام ہیں کہ قلم اٹھایئن اور آپ بیتی لکھیں۔
اب لفظ گرفت میں لینا چاہتا ہے تو اندیشوں کے بھوت چاروں اطراف سے گھیر لیتے ہیں۔ خود سپردگی کا عمل ڈراتا ہے کہ اس کی آخری موت کے بعد لوگ اس تحریر کا غلط مطلب اخذ کریں گے۔ لہاذٰا اسے کچھ بھی لکھنا نہیں چاہیئے، پھر بھی وہ تجربوں کے سکے کھنکھناتا ہے کہ میں گزرا ہوا شاندار وقت ہوں
نہیں میں گزرے وقت کا عظیم انسان ہوں کہ میں گم شدہ آوازوں کا عینی شاہد ہوں۔
ہوں ہوں کھوں کھوں
میں نے موت سے لڑ کر ہزار بار زندگی پائی جسے ہر بار میرے اپنوں نے زہریلا کیا۔۔ میرے پاس ایک کوڑی تھی جس سے رنگین کاغذون اور سکوں کی تجوریاں بنایئں مگر اب ۔۔۔۔اب میں تھک چکا ہوں۔
اس بار وہ سگریٹ کا ایک طویل کش لگاتا ہے تو دھواں اس کے چہرے اور گردن کو ان گنت مہین انگلیوں سے جکڑ لیتا ہے۔
اس سے اچھا تو انگریز کا دور تھا۔ یہ عینک ۔۔۔ یہ مجھے لارڈ صاحب نے خوش ہو کر دی تھی ۔۔۔۔ جب ۔۔۔ کھوں کھوں ۔۔۔۔۔ کھوں کھوں۔۔۔
وہ کمرے کے خلا میں گھورتا ہے
چاروں طرف جالے ہی جالے کانپتے ہیں اور وہ کہ خون تھوکتا ہے تو فرش پر ڈراوئنی تصویریں بنتی ہیں۔
موت کی شبیہہ کہاں ہے ؟
میز کی چھاتی سے کاغذ بکھرتے ہیں اور ننھے بچے بن کر کھڑکی میں سے باہر چھلانگیں لگاتے ہوئے ہر گز نہیں درتے۔
بوڑھے پاوں کب تک ان کے پیچھے بھاگیں
وہ ہانپتا ہے تو سانس میں دھویئں کی خوفناک چڑیلیں چیختی ہوئی نکلتی ہیں اور چھت سے ٹکرا کر واپس پھیپھڑوں میں گھس جاتی ہیں۔
سانس کی خر خراہٹ اب زلزلے کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
کچھ ہی دیر میں کمرے کی چھت گر جائے گی اور بوڑھا خود بخود اس میں دب کر مر جائے گا۔
دھواں کمرے میں اس کے ذہن کے خلیے سوچنا چھوڑ دین تو ۔۔۔۔ وقتی طور پر زندہ رہا جا سکتا ہے۔
آکسیجن ٹینٹ کہاں ہے ؟
مگر وہ تو مرنا چاہتا ہے
کرسی اگر گھومنا بند کر دے تو بوڑھے کی موت واقع ہو سکتی ہے۔
چائے کی پیالی کانپتی ہے۔
وہ آنکھیں ملتا ہے
تو چیزیں الٹی ہو جاتی ہیں۔ رعشہ زدہ ہاتھ کرسی کے بازووں کو مضبوطی سے جکڑ لیتا ہے۔
دل وقتی طور پر دھڑکنا بند کر دیتا ہے
حلق میں پھنسی ہوئی چیخ
کھوں، کھوں، کھوں
میرے پاس زندگی گزارنے کے ہزار گُر سٹاک میں پڑے ہیں ۔۔۔۔
اس کے رعشہ زدہ ہاتھ کرسی کے بازووں پر گرفت چھوڑ دیتے ہیں اور وہ چھت سے جا ٹکراتا ہے۔ میز پر موجود چیزیں اس کا منہ چڑاتی ہیں۔ کاغذ ہنستے ہیں۔
بوڑھا بندر بن جاتا ہے
چھت کا شہتیر ۔۔۔۔ ربڑ کا جھولا لگتا ہے کہ جس میں وہ اور اس کا ذہن جھولتے ہیں
سب کو چاھیئے میرا حکم مانیں
کہ میرے سب اصول لافانی
کہ میں اصل، باقی سب نقال
جھولا اچانک ٹوٹ کر میز کی چھاتی پر آ گرتا ہے
ایش ٹرے، قلم، چائے کی پیالی، کرسی
دیواروں کے ساتھ جڑ جاتی ہیں، میز کا دوذخ گہرا ہو جاتا ہے
دھڑ غائب مگر گردن اور چہرہ میز سے باہر
کہ چیزیں اپنی پہچان کھو بیٹھیں
اس کی گنجی گُدی پر گھاس اگ آت ہے جسے
وہ خنجر ناخنوں سے کھرچ کر جلد بریدہ کرتا ہے
بوڑھے کی عینک چیزوں کو لگ جاتی ہے اور آنکھیں دیوار سے کہ ایکا ایکی کمرے کے کھلتے دروازے میں بچے کی چیخ پھنس جاتی ہے۔
با با !
تم نے جو سکے دئے تھے سب کھوٹے نکلے
میز کا مجسمہ بولتا ہے
بیٹا ! کہانی سنو گے
سارے لفظ چیختے بچے بن جاتے ہیں
بھو وووو ک
اور چیخوں کے ننھے ننھے بلبلے فضا میں پھٹ کر ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں
بوڑھے کی آنکھیں لوٹ کر پھر ماتھے پر ٹک جاتی ہیں اور وہ ڈراپ سین کا آخری بچہ کاغذ پر جن دیتا ہے۔