ٹکڑیوں میں بٹا،قسطوں میں جیا ۔۔۔ غلام دستگیر

غلام دستگیرربانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی ایک وجود ہے ،جس کا نہ وہ نام جانتا ہے نہ یہ علم کہ وہ کہاں رہتا ہے۔زندگی میں اسے ایک بار دیکھا تھا۔۔۔۔اب تیس سال گزرجانے کے بعد وہ یاد بن گیا ہے ۔ایسی یاد جو اپنا چہرہ نہیں رکھتی زوال۔عمر میں اس کا یاد آنا۔۔اب کیا ہو سکتا ہے۔وہ تب بھی اجنبی تھی آج بھی۔۔۔

وہ مردم بیزار،دوستوں سے لا تعلق اور بیوی بچوں سے نالاں۔۔۔۔ایک کمرے کا قیدی ۔۔۔۔۔ماضی کو حسین روپ دیتا رہتا ہے ۔۔یا پھرگھر سے دور کیاری

کے ساتھ ساتھ اکیلا گھومتا اور سوچتا رہتا ہے۔ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چلی تو

پھر وہی چہرہ۔۔۔۔اس کے منہ سے نکلا۔۔۔۔اجنبی کہاں ہو تم؟

شُدَم غرقِ وصالِ اُو، نمی دانم کجا رفتم(بو علی قلند)

اسے علم نہیں کس راستے پر رواں ہے لیکن اتنا علم ضرور ہے کہ وہ

اجنبی کے عشق میں غلطاں ہے۔

سنو تم بھی کہتی ہو گی کہ غرض مند ہوں،زمانے نے ٹھکرایا تو اب اجنبی

کی یاد آ گئی تو چلو یونہی سہی لیکن غلط فہمی کا ازالہ کرلووہ خط،وہ ڈائریاں

معدوم ہو گئیں اور وہ گھر جہاں تمہاری خوشبو کے پھول رکھے تھےہوابرد ہو گئے۔۔۔یہ سچ ہے زمانہ نہیں رہا لیکن میں تو وہی ہوں۔ تمہارا چہرہ اب صاف دکھائی نہیں دیتا لیکن تمہارے جسم کو مس کرتے پھول اورگنگناتا ہوا وجود

میں کیسے بھول سکتا ہوں۔۔۔۔۔اور اور وہ جو تم اپنی بوڑھی ماں کو باغ کے سٹول پہ بٹھا کے ،گرداگرد چکر کاٹتے ہوئے مجھ سے ٹکرائی تھیں

’’نظر نہیں آتا‘‘ اس لمحے تو میں نہیں مانا تھا لیکن اب کہتا ہوں ہاں

مجھے تمہارے بعد کچھ دکھائی نہیں دیتا

تم ایک خواب ہو۔ٹکڑوں میں نظر آنے والا خواب۔کبھی صرف آنکھیں کبھی صرف ہونٹ۔مجھے مکمل عورت کیوں نہیں ملتی۔میری بیوی ایک دکھتا ہوا زخم بن چکی ہے اور جب وہ بات کرتی ہے تو زہر بھرے سپرے سے نکلنے والی آواز بن جاتی ہے۔کل ہی کا قصہ ہےوہ کمرے میں بیڈ کی چادر تبدیل کرنے آئی تو لگتا تھا وہ جان لے لے گی۔اس کا غصیل چہرہ۔۔اور بات کرتے ہوئے دیکھ کسی اور چیز کو رہی تھی ۔۔۔۔۔اس کا منہ میرے بوٹوں کی میلی جرابوں کی جانب تھا۔

ہڈیوں میں سرایت کرتا کڑواپن۔۔۔۔۔

واشنگ مشین کی تیز چبھتی ہوئی آواز۔وہ کمرے کا دروازہ بند کرتا ہے۔کوئی

فرق نہیں پڑتا۔متلی کی کیفیت ۔وہ پردے کھول کر لیٹ جاتا ہے۔ کچھ وقفے کے بعدپھر وہی خواب۔لیکن اس بارپہلے میٹھے ٹوسٹ تلنے کی مہک پھر پہاڑی سیب بیچنے والا بابا اور لمبے دو رویہ درختوں کے بیچ جاتی ہوئی وہ اپسرا۔

جب گلے میں کڑوا پن ہو یا ہلکی ہلکی بارش ہو میٹھے فرنچ ٹوسٹ یاد آ جاتے

ہیں اور پھولوں بھری وہ یاد مردہ دل میں زندگی کی رمق جگا دیتی ہے

لیکن یہ میری بیوی کیا کہہ گئی ہے کہ میں بے کار سی شئے بن گیا ہوں

یہ اس نے کیوں کہا؟

وقت نے اسے بےکاربنا دیا تھا۔یوں لگاوہ سمندرکے ساحل پرلیکن موجوں کے تھوڑا نزدیک وہ کھڑاہے،حد۔نگاہ نیلی نیلی، کہیں کہیں پاوں کے قریب میلی چادر۔ایک زور دار ریلا آیا اور وہ بھیگ گیا۔سمندر ذات ہے موجیں ایک دھمال۔دور بہت دور اسکی خواہشیں ہیں اور چمکتی روشنی۔

گیلا وجود۔۔۔۔گیلی ماچس جیسا۔اس نے سوچا تھا دریا کو سمندر میں

اترنے کے لئے اپنے وجود کی ریت کو الگ کرنا ہو گا لیکن وہ تو بنجر صحرا بنتا گیا۔

تم نے نہ میری زندگی میں سکھ اگائے نہ ہی اب جوان ہوتے بچوں کے لئے کچھ کر سکے۔۔۔۔۔۔بڑٓا کہتے تھے ابھی وقت نہیں آیا اور وقت ہم سب کو برباد کرکے چلا بھی گیا۔

اس کی بیوی کا چہرہ سمندر کے پانی میں سے ابھرا اور پھر ڈوب گیا۔

ریت ریت آنکھوں میں وحشت۔

بیڈ کی شکنوں بھری نیلی چادر پر پریشانی کی ریت بکھری ہوئی۔

ایک لیپ ٹاپ اس کے لاشعور میں اور ایک گھر میں گم۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ تیسری مرتبہ اپنے گھر کے اس کمرے میں آچکا ہے اس کا ذہن یہ کہتا ہے کہ اسکا قیمتی لیپ ٹاپ یہیں کہیں ہے۔وہ کونہ کونہ تلاش کر چکا،اب ان جگہوں کو بھی دیکھ رہا ہے جہاں بھولے سے بھی لیپ ٹاپ کے رکھے جانے کا امکان نہیں۔۔۔وہ اجنبی نظروں سے کمرے کی ہر شئے کا جائزہ لیتا ہے۔الماری،پلنگ،سیف،صوفے کو الٹ پلٹ کر کے۔پلنگ کی چادرجھاڑ،تکیے اٹھا کر دیکھ چکا۔پھر وقفے سے کبھی نیچے کبھی سیف اور الماری کے اوپرکرسیوں پر چڑھ چڑھ کر دیکھ لیا

میں بھول سکتا ہوں لیکن میری آنکھیں۔۔۔۔۔“

میں کہتی ہوں یہ شخص۔ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہر مشکل میرے آگے رکھ دیتا ہے۔اور انجانے دکھ پہنچاتا ہے۔ نفسیاتی مریضوں جیسا حال ہو چکا لیکن کوئی مانے بھی تو‘‘

میری آنکھیں دھوکا کیسے کھا گئیں۔۔۔۔ کہیں نچلی منزل والے کمرے میں تو نہیں بھول آیا۔

اول اپنے کمرے سے ہلتے تک نہیں۔۔۔پھر نچلی منزل والے کمرے کی اتھل پتھل کا کیا فائدہ

وہ تیسری مرتبہ گھر کی سیڑھیاں اتر اور چڑھ چکا ۔اس دوران مجبور ہو کر اسکی بیوی نے دو مرتبہ اسے آواز دی۔جواب میں غصہ اور ہائپرصورتحال

اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔آپ کی چیزیں کوئی نہیں چھیڑتا

تو پھر زمین کھا گئی یا آسمان۔یہ بتاؤ آج کام والی آئی تھی؟

ہاں۔لیکن وہ کام کئے بغیر چھٹی لے کر چلی گئی کہ اسکا بچہ ہسپتال میں ہے۔

وہ کسی کمرے میں تو نہیں گئی

نہیں تو

بھائی کے کمرے میں دیکھا؟

میں ان کے کمرے میں نہیں جاتی

اجنبی۔۔۔۔۔پھر تمہاری یاد

جب تھپیڑے پڑتے ہیں،زندگی اپنا قہر دکھاتی ہے تو تم یاد آ جاتی ہو۔

تم سے بات کرکے دل کو سکون ملتا ہے ۔تم میرا تخیل ہو۔میری اپنی دنیا جہاں

صرف محبت ہی محبت ہے ۔تم مجھے عافیت کی چادر میں لپیٹ لیتی ہو ۔

اور جو دل چاہتا ہے سینہ کھول کے دکھا دیتا ہوں اور تم کھلے دل و دماغ سے سن کر میرے حق میں جو بہتر ہوتا ہے،ویسا مشورہ دیتی ہو اور وہ حکم نہیں ہوتا۔۔۔تم میری بیوی کی طرح فیصلے صادر نہیں کرتیں

دیکھو میں نے جو کچھ تمہیں کہنے کے لئے لیپ ٹاپ میں جمع کیا تھا ،بھائی کے دو بچوں نے مل کر برباد کر دیا۔میں اس روز باتھ روم میں تھا،قبض کے باعث وہاں کچھ زیادہ دیر لگ گئی۔میری عدم موجودگی میں وہ نادان آئے ، اس سے کھلونے کی طرح کھیلتے کھیلتے باہر پودوں کے پاس کھڑے پانی میں پھینک آئے۔

اب کیا کروں۔۔۔؟ نہ بھائی سےلڑ سکتا ہوں اور نہ بچوں کو کچھ کہہ سکتا ہوں البتہ اپنے کمرے میں ان کا داخلہ ممنوع کر دیا ہے۔لیکن یہ بھی تو دکھ اور تکلیف کی بات ہے۔نادانی تو کسی سے بھی ہو سکتی ہے۔ خود میری ساری زندگی ایک نادانی ہی تو ہے

میری زندگی میں آنے والی تین عورتیں ایک اجنبی،دوسرے بیوی اور اب یہ کھڑکی والی۔۔۔

دراصل اجنبی اسکی سچی رازداں ہے،بیوی تو مجبوری کہ اسکے بچوں کی ماں ہے اور یہ کھڑکی والی ۔۔۔ایک چمک سی لے آتی ہے رات کے سینے میں جیسے کوئی قیدی برسوں بعد کسی عورت کا چہرہ دیکھ لے۔

کتاب اور موبائل سے اکتا کروہ اسے دیکھتا یہ بھول جاتا کہ اپنے وجود کو پانے کی کوشش میں وہ ریزہ ریزہ۔۔۔۔۔حاصلی اور لاحاصلی کے کھیل میں عمر کا باقی حصہ بھی گنوا رہا ہے۔کبھی کبھی تویہ کھڑکی واقعی زندگی کے کھلونے کا ریموٹ کنٹرول بن جاتی ہےاسے کھڑکی سے زیادہ بالکنی پسند تھی۔وہ ریلنگ پر اپنے دونوں بازو ٹکا کر منظروں کو دیکھتی رہتی۔

پہلی مرتبہ جب اس نے اجنبی کو دیکھا تھا تو وہ اسی جیسی تھی۔۔۔ان دنوں نازیہ حسن بڑی مقبول تھی اور اسکی شکل کچھ کچھ نازیہ سے ملتی بھی تھی۔لیکن اسے نازیہ جیسے لباس پہننے کا سلیقہ نہ تھا

رات جب تیسری مرتبہ اس نے کھڑکی کھول کر جھانکا تو وہ نہ تو بالکنی میں تھی،نہ کسی اورکھڑکی میں۔۔۔۔اندھیرے کی چادر میں اس نے اپنے موبائل کی روشنی سے کام لیا۔۔۔لیکن لگتا ہے وہ کسی گہرے خواب میں ہو گی یا کسی سہیلی کا طویل فون سن رہی ہو گی اور یہ بھی ہو سکتا ہے وہ کسی اور کو بھی چاہتی ہو۔ اور اسے جھلک دکھا کر اپنا وجود کسی اور کو سونپ۔۔۔۔۔

لیکن یہ میں سوچنے لگا۔۔۔۔۔۔ اس میں اس کا کیا قصور کہ وہ رات کے پچھلے پہر ہی اکثر اپنی جھلک دکھاتی ہے اور اس کے پاس اسکا موبائل نمبر بھی نہیں لیکن اتنی بے خبری بھی ٹھیک نہیں۔۔۔بے تکے وقت میں اسکی بیوی بھی آ سکتی ہے اور اس کا شہر بھنبور لٹ بھی سکتا ہے۔۔۔کھڑکی بند تھی۔وہ اداس موسم کو دیکھتا رہا۔۔خاک آلود، رات کو بھی تپتے حبس بھرا آسمان۔۔۔

اسے عدیم ہاشمی کی غزل یاد آ گئی۔

کہا ساتھی کوئی دکھ درد کا تیار کرنا ہے

جواب آیا کہ یہ دریا اکیلے پار کرنا ہے

کہا ہر راستہ بخشا ناہموار کیوں مجھ کو

جواب آیا کہ ہر رستہ تجھے ہموار کرنا ہے

کل ہی کی بات ہے اسکی میڈیسن ختم تھیں ،وہ انھیں لینے نکلا تو وہی کھڑکی والی اسی مارکیٹ میں گایناکالوجست کو دکھانے آئی تھی ۔اس نے سوچا اور خود ہی ہنس دیاکوئی آنکھوں سےبھی حاملہ ہو سکتا ہے؟

پھر ایک اور سوچ در آئی ۔وہ اپنی کھڑکی سے اسے نہیں اسکے پیارے نقوش

دیکھتی ہو گی کہ آنے والا وجیہہ ہو۔

وہ ایک نہیں دو بار خود پر ہنسا ۔۔۔۔اورپھر سخت چہرے کے ساتھ فیصلہ کیا

کہ آئندہ اس طرح کی دل لگی کے لئے کھڑکی ہرگز نہیں کھلے گی کہ کھڑکی بھر آسماں بھی دھوکا ہے اور صرف اسکی زندگی میں وہی اجنبی لڑکی ہی سچ ہے کہ اسے نہ تو بڑھاپا چھو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اسکی جان لے سکتا ہے۔اس نے بلند آواز میں کہا

’’اسے موت میرے ساتھ آئے گی کہ وہ میری ہے اورمیری اپنی دنیا کا راز ہے اور اسکی ذات۔۔۔۔۔۔اس کا وجود۔میرے اندرمحسوس ہوتا ہے‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ جان چکا تھا اندر اور باہر کا خلا۔کہ وہ خودانجن کے بغیر ٹرین۔ جس طرح زندگی وہ قسطوں میں جی رہا،یہ بوگیاں وہی قسطیں ہیں ۔اور دنیا دور سے کچھ اور نزدیک سے کچھ اور ۔۔۔۔۔۔وہ تو بس کھڑی بوگیوں والی ٹرین ہے۔۔۔۔۔جانے کب انجن آئے اور اسے گھسیٹتا ہوا لے جائے

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031