دیوار کا غم کیوں ہو ؟ ۔۔۔۔ محمد ہاشم خاں
دیوار کا غم کیوں ہو؟
محمد ہاشم خان
مجھے یقین تھا کہ ایک دن تم آوگے۔ دیکھو میں نے تمہارے قدموں کی آہٹ دور سے پہچان لی ہے، بہت فرق آگیا ہے تمہارے اندر، پہلے یہ آہٹ موجوں کے نرم شور جیسی مدھم ،مدھر، دل گداخت اور خوش خرام ہوا کرتی تھی اورکبھی چراغ آخر شب کی کشتہ مطرباؤں کی آہِ نیم کش جیسی پرسوز، دل آشوب ۔ لیکن اب تمہاری چاپ بہت بوجھل اور تھکن زدہ ہے۔ تمہارے پیر خاردار مسافت کی میل اوڑھے ہوئے ہیں ۔کیا تمہیں یاد ہے کچھ حنائی پیر تمہارے ہم قدم ہونے کی آس میں اینٹھ گئے اور یوں کہ کوئی ہاتھ انہیں سیدھا نہیں کرسکے،اس کے بارے میں پھر کبھی تفصیل سے بتاؤں گی۔ اے مرے سوختہ جان !پہلے یہ بتاؤ کہاں چھوڑ آئےتم وہ سادگی، بالیدگی اور بانکپن کی معصومیت جو تمہارے والد سے تمہیں ورثے میں ملی تھی؟ گردشِ روزگار نے تم کو بھی خیال وخواب بنا کر وقت کے آتشدان کے حوالے کردیا؟ مجھے تم اس وقت موت کے خوف سے زیادہ گہرا، سرابِ زیست سے زیادہ تشنہ اور تخیل کی وسعت سے زیادہ بے کراں کیوں نظر آرہے ہو؟
اچھا میں بھول ہی گئی تھی کہ ابھی تم دروازے پر ہی ہو،اندر آجاو پھر آرام سے باتیں کریں گے لیکن ابھی تم اندر نہیں آسکتے کیوں کہ دروازہ بند ہے، ابھی تم دروازے پر دستک دو گے،اور دروازہ کھلنے میں کچھ وقت لگے گا، کیوں کہ پرانی قدروں کا امین سبکدوش اسکول ماسٹر پہلے رعشہ زدہ ہاتھوں سےلحاف ہٹائے گا ، بتی جلائے گا، بجلی نہ ہونے کی صورت میں ٹارچ اٹھائے گا، لرزتے لڑکھڑاتے، یہاں وہاں ٹارچ جلاتے اور کھنکھارتےہوئے آہنی دروازے تک پہنچے گا۔تم نے آواز سنی؟ اسکول ماسٹر پوچھ رہا ہے۔
کون؟
وہ بڑبڑا رہا ہے’ کون ہوسکتا ہے اس اندھیری رات میں۔ اب تو کسی کا انتظار نہیں رہا، ایک موت بچی ہے جو آنے سےرہی، ایک میں ہی تو نہیں اور بھی بہت سے کام ہیں اس کے پاس ،ایک ہی وقت میں لاکھوں کو مارنا ہوتا ہے، تھک جاتی ہوگی بے چاری۔ چلوں دیکھوں کون آیا ہے،کیوں آیا ہے، کہاں سے آیا ہے؟‘
۔۔۔۔۔۔۔
’گھر میں کوئی ہے؟ دروازہ کھولئے پلیز،
دروازے پر تمہاری دستک کی آواز تیز ہونے سے اس کی آنکھ کھل گئی ہے۔ اب وہ لحاف کو اپنے اوپر سے ہٹا رہا ہے ۔بجلی نہیں ہے سو راہداری بھی اندھیرے میں غرق ہے۔سربالیں رکھا ہوا ٹارچ اٹھایا ہے، حسب عادت اس نے کمرے میں یہاں وہاں ٹارچ جلایا ہے اور اب رعشہ زدہ ہاتھ میں عصائے پیری کے سہارے دروازے کی طرف بڑھ رہا ہے، قدم بہت مشکل سے رکھے جارہے ہیں،ایک تو ہڈیوں میں اترجانے والی زمستانی ہوا ،پارکنسن کا مرض اور اوپر سے گٹھیا کا درد۔چلنے پر ہڈیاں مزید اکڑنے لگتی ہیں۔وہ اب سوچ رہا ہے کہ آدمی کے پاس اگر بڑھاپے کی آسائشیں خریدنے کے وسائل نہ ہوں تواسےبوڑھا ہونے سے قبل ہی مر جانا چاہئے یا پھر اسے بوڑھا ہی نہیں ہونا چاہئے۔ اور اگر آدمی بوڑھا ہونے کے ساتھ ساتھ بے سہارا ہو تو پھر اس سے بڑا اور برا کوئی مرض نہیں۔ ابھی بڑھاپے کا عذاب اس نے کاٹنا شروع ہی کیا تھا کہ ایک اور جان کاہ۔۔۔ابھی اسے جانے دو، بعد میں اطمینان سے بتاؤں گی۔ فی الحال اتنا جان لو کہ پچھلےکچھ ماہ سے کابوس کی وحشت نے اس کو آرزوئے مرگ میں مبتلا کردیا ہے۔اس وقت وہ یہی سوچتے ہوئے پاؤں پاؤں آگے بڑھ رہا ہے کہ اب جب کہ میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے، قویٰ مضمحل ہوچکے ہیں، سوتا ہوں تو خواہش ہوتی ہے کہ سوتا ہی رہ جاؤں پھر بھی اٹھنا ہوتا ہے،آخر کیوں؟ کاش کچھ تو ہمارے اختیار میں ہوتا! اپنےبے زار بڑھاپے کے بارے میں سوچتے ہوئے وہ سبزہ زار کو پار کررہا ہے، اسے شہر میں بیٹے کے ساتھ گزارے ہوئے چند ایام یاد آرہے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچتا ہےکہ شہر کے بالمقابل گاؤں میں جینا زیادہ آسان ہے، یہاں بڑھاپے کا احساس اتنی شدت سے نہیں ہوتا،کوئی نہ کوئی مدد کے لئے آجاتا ہے،مگر ہڈیوں کو چٹخانے والی اس برف رات میں اور اس پہر کون آئے گا۔ کوئی نہیں، مگر پھر دروازے پر کوئی تو ہے۔ کون ہے۳۰سال ہوگئے ہیں مجھے نہیں یاد کہ ژالہ باری کے اس مہیب موسم میں،رات کے اس پہر، کسی نے میرے دروازے پر دستک دی ہو، شاید ہوا نے دی ہو۔ ہوائیں اس طرح کی اٹھکھیلیاں کرتی رہتی ہیں۔۔۔
بڑھاپے میں یقین و گمان کے درمیان کی روشنی مبہم و مفقود ہوجاتی ہے،صرف ایک وہم کی لکیر روشن رہتی ہے اوراب اس کا وہم یقین کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔کوئی ڈاکو تو نہیں؟ ہوسکتا ہے وہی ہوں، آجکل چوری، ڈاکہ زنی، کشت و خون عام ہے۔ مجھے دروازہ نہیں کھولنا چاہئے۔ جو بھی ہو۔ لیکن گھر میں ہے کیاجو غارت ہوجائے؟ کچھ بھی تو نہیں ہے۔ایک گاما تھا وہ بھی چلا گیا۔تو کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ جب انہیں گھر میں کوئی چیز نہ ملے تو سخت مایوسی کے عالم میں مجھے ہی ماردیں اور اگر مجھ بے ضرر کو مارنا ہی ہوگاتو دروازہ توڑ کر بھی مار دیں گے۔ وہ اپنے پراگندہ خیالوں میں پریشاں ہے کہ دروازے پر تمہارےتھپ تھپ کی آواز اور تیز ہوگئی ہے۔کھول کر دیکھنا چاہئے کیا پتہ کوئی بھولا بھٹکا مسافر ہواور پھر اس نے دروازہ کھول دیا۔ تم اپنے سفری بیگ کے ساتھ سامنے کھڑے ہو اور وہ تمہیں ٹھیک سے نہیں دیکھ پارہا ہے لیکن تم مجھے ایسے ہی نظر آرہے ہو جیسے کسی ہجر زدہ کوچیت کا چاند نظر آتا ہے، چہرے پر گرد کی ایک تہہ ہے اور تہہ میں پوشیدہ تھکن جس میں اب کچھ آزردگی بھی شامل ہوگئی ہے۔
’ کون؟؟؟؟؟‘
’جی،آپ مجھے اندر تو آنے دیں، یا دروازے پر ہی سب کچھ جاننا چاہیں گے۔بہت ٹھنڈی لگ رہی ہے۔ دیکھیں میں کوئی چور بدمعاش نہیں ہوں، میرے ٹریولنگ بیگ پر لگا ہوا اسٹیکر دیکھ لیں پلیز‘
تمہارے بیگ پر لگا ہوا اسٹیکر اس نے پڑھ لیا ہے، وہ اپنے طور پر مطمئن ہونا چاہتا ہے اور تم سے سوال پر سوال کئے جارہا ہے کیوں کہ وہ اپنی بوڑھی یاد داشت کے مطابق اپنے خاندان کے ہر فرد کو یاد کرنے کی کوشش کررہا ہے، کوئی نام ،شکل یا ہیولیٰ اس کے ذہن میں نہیں آرہا ہے،کم از کم کوئی ایسا فرد تو بالکل ہی نہیں جو سات سمندر پار رہتا ہو۔ تمہارے جواب سے وہ بہت زیادہ مطمئن تو نہیں ہوا ہے لیکن اتنا یقین ہوگیا ہے کہ برفانی سردی سے ٹھٹھرنے والا یہ شخص کوئی چور بدمعاش نہیں ہے ۔اب تم اندر آچکے ہولیکن مجھ تک پہنچنے میں ابھی وقت لگے گا اور پھرکیا معلوم کہ مجھ تک پہنچنے بھی دیا جاتا ہے یا نہیں اور یہ بھی تو نہیں معلوم کہ تم مجھ سے ملنے کے لئے آئے ہو یا کسی اور سے۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں آج بھی وہیں کھڑی ہوں جہاں ۳۰ سال قبل تم مجھے چھوڑ کر گئے تھے، بہر حال ابھی پہلے سبزہ زار آئے گا، پھر دالان اور دالان میں واقع دیوان خانہ اور اس سے متصل ویران کمرے، پھر وہ خواب گاہ اور اس کو قائم کئے ہوئے مَیں۔بوڑھا شخص تم سے کہہ رہا ہے۔
’بجلی نہیں ہے ، معلوم بھی نہیں کب آئے گی،آپ اس کمرے میں آرام کریں، یہ میرے بیٹے کا کمرہ ہے، صبح بات ہوگی اگر کسی چیز کی ضرورت پڑے تو مجھے مت تکلیف دینا، مجھ سے اٹھا نہیں جاتا‘۔لاش نما بوڑھا اپنے کمرے میں چلا گیا ہےاور پھر سوچ میں مستغرق ہے۔ وہ بھی سوچ میں گم ہے تم بھی اور میں؟ میں نہیں۔ مکین میرے سوچنے کی لاج نہیں رکھتے۔
۔۔۔۔
تم بہت تھکے ہوئے ہو لیکن تمہیں نیند نہیں آرہی ہے۔اس وقت تمہارے ذہن میں مضطرب روح کی خلجان ہے، دل میں تیر ترازو والی خلش اورآنکھوں میں وہی خوف ہے جو چشمِ تیرخوردہ غزال میں ہوتا ہے۔ تم چھت کو کیا دیکھ رہے ہو؟ اس وقت تمہیں کچھ نظر نہیں آئے گا۔ نہ ہی چھت اور نہ ہی اس کوایستادہ کئے ہوئے در و دیوار اور نہ ہی ایستادگی میں تجسیم ہوجانے والی روح ۔ دزدان شب چراغ بھی سوچکے ہیں اور کرمک نیم جان بھی،اب تم بھی سو جاؤ، کوئی دل خراش خواب تمہیں ڈسنے نہیں آئے گا ۔ یہ تم سو کیوں نہیں رہے ہو؟ کیا آج تم کروٹوں میں نیند کاٹو گے؟ یہ تشنہ کام روح کی تھکن ہے جاتے جاتے جائے گی۔ میں جانتی ہوں، منزل مرام پر پہنچنے کے بعد فوراً نیند نہیں آتی، بوڑھے کو بھی نیند نہیں آرہی ہے،اسے تو یوں بھی نیند نہیں آتی ہے، موت ایک دو بار دبے پاؤں کان میں کچھ سرگوشی کرکے گئی ہے تب سے وہ اسی کا انتظار کررہا ہے لیکن اس وقت وہ تمہارے بارے میں سوچ رہا ہے اور تم میرے بارے میں۔ نہیں صرف میرے بارے میں نہیں سوچ رہے ہو بلکہ تیس برسوں کی دربدری کے جسم پرکندہ سودو زیان کا زمزمہ بھی گنگنا رہے ہو۔ تم بوڑھے شخص کے بارے میں بھی سوچ رہے ہو، دالان، سبزہ زار، راہ گذر ، باغ،برگد اور ان منڈیروں کے بارے میں بھی سوچ رہے ہوجو تمہارے قدموں سے لپٹنے کے منتظر ہیں۔لیکن منتظر تو میں بھی ہوں۔
۔۔۔۔۔
رات گزارنے کے لئے اپنے بیٹے کا کمرہ دینے والا اسکول ماسٹر تمہیں کمرے میں نہ پاکر حیران ہے، لیکن تمہارا سفری بیگ دیکھ کر اسے اطمینان ہوگیا ہے کہ تم شاید غسل خانے میں ہو، وہ چلنے سے گریز کرتا ہے اس لئے تمہارے پلنگ پر ہی بیٹھ گیا ہے، اسے نہیں معلوم کہ تم اس وقت اسی ویران راہ گذر پر بیٹھے ہوجہاں تم اپنے والد کے ساتھ بیٹھا کرتے تھےاور وہاں سے ہرواہوں کو ہل چلاتے ہوئے دیکھا کرتے تھے۔ وہی راہ گذر جس پر بیر کا ایک سوکھاپیڑ ہے، برگد ہے اور اس سے متصل قبرستان۔دیکھو وہ راہ گذر تم سے شکایت کر رہی ہے،افتادگانِ خاک کے ذریعہ فراموش کئے جانے کا کرب بیان کررہی ہے۔تمہیں سنائی نہیں دے رہا ہے؟سنو! وہ کہہ رہی ہے____________
اے مشت خاک رک اور سن! کتنے برس ہوگئے کچھ تجھے یاد ہے؟۳۰سال ہوگئے، ان برسوں میں تو کہاں کہاں نہیں گیا ہوگا، بس ایک میری طرف نہیں آیا۔ ہمارے اندر بھی جان ہے، خون دوڑ رہا ہے،احساس کا خون،بچھڑنے والوں کے عطا کردہ کرب کا خون، ان کی مجبوریوں اور اپنے ملال کا خون۔ رگ و ریشے ہیں، سرخ، سبز اور نیلے رنگ کے۔شاخیں ہیں، خود بخود نکلتی ہیں، اٹھتی ہیں اور جب انہیں کوئی نہیں سنوارتا تو زمین پر لیٹ جاتی ہیں۔ہمیں بھی دکھ ہوتا ہے جب مکین اپنے رفتگان کو بھول جاتے ہیں، ہمیں بھی تکلیف ہوتی ہے جب گزرانِ راہ گزر پلٹ کر گرد کی رنجیدگی اور غبار کی افسردگی کو نہیں دیکھتے۔ دوب اگتی ہے،سبز ہوتی ہے، سوکھ کر مرجاتی ہے،سِیت پڑتی ہے،دھوپ نکلتی ہے شام ہوتی ہے اور رات کے قبر میں دفن ہوجاتی ہے،دھول اڑتی ہے،چار سو جاتی ہے،کبھی تیری طرف نہیں گئی؟ تو آیا کیوں نہیں؟تجھے یاد ہے کہ نہیں میں ہی وہ راہ گذر تھی جسے تم نے اور تمہارے دوستوں نے اپنے نازک قدموں سے بہت پامال کیا تھا،اب اس طرف سے کوئی گزرتا ہی نہیں ہے،یہی ہمارا عذاب ہے۔فراموش کردیا جانا، یہی ہماری سزا ہے،کوئی بھی موسم ہو انتظار کئے جانا۔
سنو! اب آہی گئے ہو تو سنو!جب بانکے چھورے، چھیل چھبیلے غرورِ برنائی سے بدمست قدموں سے مجھے روندتے ہوئے جاتے تھے تب بھی میں ناچنے لگتی تھی، جب خواب کی دنیا میں قدم رکھنے والی نوخیز کلیوں کے دھانی دوپٹوں کے سائے پڑتے تھے تب بھی میں رنگ میں آجاتی تھی، کمر خمیدہ بوڑھوں کے میل اوڑھے تھکے ہوئےپائمال پاؤں پڑتے تھے تب بھی ساتھ چلنے لگتی تھی اور جب معصوم بچے دنیا و مافیہا کی حشر خیزیوں سے بے نیاز کھیلتے ہوئے لڑ جھگڑ کر تھک ہار کر بیٹھ جاتے تھے تب بھی میں جی اٹھتی تھی ۔ اے مرے ہم خاک !غارت ہو ،تم نے مجھے ویران کرکے رکھ دیا، بے جان بنا کر چھوڑ دیا______________
۔۔۔۔
مجھے معلوم تھا کہ تم صبح جلد اٹھنے کی کوشش کروگے اور یہ بھی جانتی تھی کہ میرے پاس نہیں آوگے۔ تم اس راہ گذر کے پاس گئے جہاں تمہارے لنگوٹی یار کو سانپ نے ڈس لیا تھا، تم آواز دیتے رہ گئے’ آفاق بھاگ،بھاگ آفاق بھاگ ۔پیچھے سانپ ہے۔ آفاق ہڑ بڑا گیا،سانپ نے ڈس لیا، تب سے تم اس احساس جرم میں مبتلا ہو کہ اگر تم نے آواز نہیں دی ہوتی تو شاید سانپ اپنے راستے نکل جاتا۔ تم سمجھتے ہو کہ تمہاری غلطی سے آفاق مرا لیکن میں کہتی ہوں کہ جب اس راہ گذر کو معلوم تھا تو اس نے بتایا کیوں نہیں، سانپ کو بھگایا کیوں نہیں۔ اپنے بلوں میں پناہ کیوں دی؟ تمہیں وہاں نہیں جانا چاہئے تھا،تب سے وہ راہ گذر سونی پڑی ہے اور اسے سونی ہی رہنے دینا چاہئے تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے کہ تم نے راہ گذر کو مجھ پر فوقیت دی۔ کاش تم نے ایک بار سوچا ہوتا کہ تمہارے اوپر پہلا حق میرا تھا۔ انتظار کی لو کو جس شدت سے میں نے فروزاں کیا ہوا ہے وہ نہ تو راہ گذر میں تھی، نہ ہی بیری، برگد، کھلیان اور بھُسیلوں میں۔
۔۔۔۔۔
یہ تم بیری کے پاس کیوں جارہے ہو؟ وہاں مت جاؤ۔میں کہہ رہی ہوں وہاں مت جاؤ، وہاں جو کچھ ہوا وہ جان کر تمہاری روح کانپ جائے گی۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں بلوائیوں نے۔۔۔ نہیں اس وقت تم اور تمہارے والد دونوں موجود نہیں تھے۔تم کوئی دو سال کے تھے،تمہاری طبیعت خراب تھی،وہ تمہیں لےکر ضلع اسپتال میں بھرتی تھے۔ سب کچھ اُس منحوس مگر مقدر کی رات ہوا۔۔اچانک اور شدید۔ تمہاری امی جان بچانے کے لئے عقبی دروازے سے ننگے پاؤں سرپٹ بھاگیں۔ خوفزدہ ہرنی کی طرح آگے پیچھے دائیں بائیں کچھ نہیں، بس پگڈنڈی پکڑے بھاگی جارہی تھیں اور جب بیری کو پار کرہی رہی تھیں کہ کئی چھوٹے بڑے کانٹےپاؤں میں چبھ گئے۔ درد کی شدت سے چیخ نکل گئی،وہیں پر بیٹھ گئیں ،کانٹا نکال ہی رہی تھیں کہ پیچھے سے بلوائی آگئے۔۔۔ بیری کی جڑ کے پاس زمین کا ایک حصہ اٹھا ہوا ہے،آثار نظر آرہے ہیں تم کو؟غور سے دیکھو یہ تمہاری امی کی قبر ہے۔
ٹھیک ہےاس میں بیری کا کوئی قصور نہیں، لیکن میں کہتی ہوں کہ اس نے کانٹے کیوں بچھائے تھے؟ وہ جانتی تھی کہ مالکن بھاگی آرہی ہے، کانٹے کیوں نہیں صاف کئے، وہ اپنے سینے میں پناہ دے سکتی تھی اور کچھ نہیں تو وہ قیامت خیز لمحہ دیکھنے سے قبل زمیں بوس ہوجاتی۔میں نے اس وقت بھی کہا تھا اور آج بھی کہہ رہی ہوں کہ اگروہ کمرے سے نہیں بھاگتیں تو شاید محفوظ رہتیں لیکن آپ لوگوں نے ہمیں اس قدر مضبوط بنایا ہی کب تھا کہ خود کو اس کے حصار میں محفوظ سمجھتے۔
خارداراور بد عہد پیڑ کی گود میں موجود قبر نحوست اور بدقسمتی کی علامت ہے۔تمہارے باپ کو بہت سمجھایا گیا کہ مالکن کو آبائی قبرستان میں ہی دفن کریں لیکن وہ بضد تھے کہ جہاں قتل ہوئی ہے وہیں دفن بھی ہوگی۔اب تمہیں کچھ کچھ یاد آنے لگا ہے۔ تمہارےبابا بعد نماز جمعہ تم کو اس بیری کے پاس لے کر آتے تھے۔ تم سے کہتے تھے۔
’بابو تم یہیں بیٹھو، میں تمہاری امی سے مل کر آتا ہوں، پھر وہ مالکن کے ساتھ مصروف ہوجاتے تھے، کبھی کبھی آنکھوں سے آنسو بھی رواں ہونے لگتے، تم بیر اور کانٹے چننے لگتے تھے، کانٹے چبھ جاتے تو تم اپنے ابا کو آواز دیتے تھے’ ابا کانٹا، ابا، ابا، ابا، ابا کانٹا‘ تمہارےابا کسی اور ہی دنیا میں ہوتے تھے۔ تمہاری آواز ان تک نہیں پہنچ پاتی تھی، یا ہوسکتا ہے پہنچتی بھی رہی ہو لیکن اس وقت وہ دھیان نہیں دیتے تھے۔پھر تم اور تیز آوازمیں بلاتے تھے’ ابا آ رے، ابا آ۔ دیکھ کانٹا، ابا کانٹا‘ اور رونے لگتے تھے۔تم پھر رونے لگے۔ مت روؤ۔
۔۔۔۔۔۔
دیکھو لاش نما بوڑھا تمہاری واپسی کی راہ دیکھ رہا ہے، کہرے کا غلاف اس قدر دبیز ہے کہ سورج زمین کی طرف دیکھتا ہی نہیں ہے،اوپر اوپر سے گزر جاتا ہے،اسے بھی خوف لاحق ہوگیا ہے کہ کہیں سردی نہ لگ جائے۔تمہیں سردی نہیں لگ رہی ہے؟بوڑھے کو لگ رہی ہے ،اس کا خیال کرو واپس آجاؤ۔ اب اجداد سے کیا ملنا۔ضروری ہے تو کل مل لینا۔
۔۔۔۔۔۔
’بیٹا آپ کہاں چلے گئے تھے؟اس کے بعد رات مجھے ٹھیک سے نیند نہیں آئی۔سوچاتھا کہ جلدی اٹھ کر اپنے مہمان سے کچھ خیر خبر پوچھوں گا لیکن جب میں آیا تو آپ موجود نہیں تھے۔‘ سبکدوش اسکول ماسٹرتمہیں ناشتے کی دعوت دے کر کچن کی طرف چلنے لگتاہے، تم بھی پیچھے پیچھے ہولیتے ہو اس انداز میں کہ اگر وہ لڑکھڑا کر گرے تو تم سنبھال سکو۔ کچن کی حالت ابتر ہے، تمہارے ذوق جمال کے بالکل برعکس، میں سوچ رہی ہوں کہ اس کچن میں تم ناشتہ کیسے کروگے لیکن میں دیکھ رہی ہوں کہ تم بہت چاؤ سے ناشتہ کررہے ہو۔تم اسکول ماسٹر کو دیکھ رہے ہو اور وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ تم دونوں ایک دوسرے کو متجسس نگاہوں سے دیکھ رہے ہو ایسے جیسے ایک باپ محاذ جنگ سے لوٹ کر آنے والے اپنے بیٹے سے پوچھ رہا ہو’تم نے کہاں تک مجھے سرخرو کیا؟‘ اور بیٹا جاننا چاہ رہا ہو کہ ’آپ نے مجھے کتنا مِس کیا؟‘ تم بوڑھے سے اس کی زندگی،فیملی اور تنہائی کے بارے میں پوچھ رہے ہوجس پر وہ بات نہیں کرنا چاہتا۔ نہیں ایسا نہیں ہے، پہلے وہ خوب باتیں کرتا تھا، دنیا بھر کے قصے کہانیاں، چوپال لگتا تھالیکن۔۔۔
’ایک بچی ہے جو روز صبح آکر ناشتہ کھانا ایک ساتھ بنا جاتی ہے۔بیٹا!دن تو جیسے تیسے کٹ جاتا ہے کہ کوئی نہ کوئی آہی جاتا ہے۔ رات نہیں کٹتی، یہ بہت کاٹتی ہے۔دن نکلنے تک مارتی رہتی ہے‘۔’اور دن نکلتا نہیں۔‘ یہ کہتے ہوئے وہ چھڑی پر اپنے جسم کا بوجھ ڈالتے ہوئے کھڑاہوجاتا ہے۔
۔۔۔۔
آپ بتائیے؟ آپ کا آنا کیسے ہوا؟
’یہ گھر جس کے اس وقت آپ مالک ہیں، ہمارے پرکھوں کا ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ ایک قیامت آئی تھی جس میں ہزاروں لاکھوں گھر تباہ ہوگئے تھے، ہم بھی اسی قیامت کے مارے ہوئے ہیں، ابانے کچھ برسوں تک اس قیامت کو ٹالنے کی کوشش کی لیکن جب ان کو یقین ہوگیا کہ ہم یہاں پر محفوظ نہیں ہیں تو انہوں نے سب کچھ فروخت کرکے شہر جانے کا فیصلہ کیا۔اس وقت میری عمر کوئی پندرہ سولہ سال رہی ہوگی،پہلے ممبئی گئے اور اس کے کچھ برسوں بعد امریکہ شفٹ ہوگئے۔شادی نہیں کی تعلقات بہت سی لڑکیوں سے استوار ہوئے لیکن یہیں کی ایک لڑکی تھی جو دل میں گھر کر گئی تو پھر واپس نہیں نکلی، اب اس وقت کہاں ہوگی،کچھ نہیں معلوم، اب اس کے بارے میں صرف سوچ سکتا ہوں،امید نہیں رکھ سکتا‘
’بیٹا اگر ایسا تھا تو اب تک آئے کیوں نہیں؟‘
’بس نہیں آسکے انکل، یہاں سے جانے کے بعد شاید ہر چیز ہم سے روٹھ گئی،کوئی جواز نہیں میرے پاس،صرف پچھتاوا ہے۔‘
اب تمہارے ابا کہاں ہیں؟
’ابا اب نہیں ہیں۔‘
’بہت افسوس ہوا سن کر،وہ بہت بھلے انسان تھے، یہ گھر خریدنے کے بعد میں کبھی اطمینان سے نہیں رہا،ایک بے نام بے چینی ہمیشہ رہی ہے، یہ گھر فروخت کرتے وقت شاید وہ خوش نہیں تھے،یا شاید گھر کی کوئی چیز خوش نہیں تھی۔‘
’بہت ممکن ہے ایسا ہی ہو۔ میں اپنے ابا کا کمرہ دیکھنا چاہتا ہوں،اس کمرےمیں ایک دیوار ہے اکثرخواب میں آتی رہتی ہے۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھو!ہلکی سی چرچراہٹ کے ساتھ دروازہ کھل رہا ہے، تم اندر داخل ہوچکے ہو اور یہ دیکھ کر حیران ہو کہ یہ کمرہ اسی حال میں ہے جس حال میں تمہارے والد چھوڑ کر گئے تھے۔یہ تم حیران کیوں ہو میرے لعل۔ ادھر آو میرے پاس،دائیں جانب والی دیوارکے پاس جہاں تمہارا نال کاٹا گیاتھا۔ دیکھو اوپر تھوڑا اور اوپر۔کوئی تصویر نظرآئی؟ دیکھو ایک باپ اپنے دو سال کےبچے کے ساتھ فٹ بال کھیل رہا ہے، میں یہی بتانا چاہتی تھی کہ سب نے تمہیں بھلا دیا لیکن میں نہیں بھلا سکی ،تم ہمیں تعمیر کرتے ہو اور بھول جاتے ہو،تم بھول جاتے ہو کہ جب تم پر وحشتیں طاری ہوتی ہیں تو ہم سے ہی سر ٹکراتے ہو، مایوس ہوتے ہو تو دیوار سے لگ جاتے ہو، لیکن ہم گارے سے لت پت میلے کھردرے ہاتھوں کو نہیں بھولتے اوراپنے پہلے معمار اور اپنے پہلے مکین کو توکبھی نہیں ۔یہ تم کہاں جا رہے ہو؟ واپس جارہےہو؟ مت جاؤ۔ میں جانتی ہوں کہ تمہیں ہمارا کوئی غم نہیں اور بھلا دیوار کا غم کیوں ہوگا، اینٹ گارے سے بنی ہوئی ایک دیوار،خستہ، بے جان،بے روح۔لیکن اس بوڑھے کے بارے میں بھی ایک بار سوچ لوجس کا اب اس دنیا میں کوئی نہیں ہے،تمہاری ہی طرح اس کا ایک بیٹا تھا۔بالکل چھ فٹا جوان۔ باپ کی ہزار مخالفت کے باوجود فوج میں بھرتی ہوا اور واپس نہیں آیا۔جاو ایک کمرہ اور دیکھ لو،اس میں لکڑی کا ایک تابوت ہے جس میں اس کے بیٹے کی ساری چیزیں قرینے سے رکھی ہوئی ہیں۔ اب آئے ہو تو اس کے دفن ہونے تک رہ جاؤ۔پلیز۔
۔۔۔۔۔۔
بہت بہت شکریہ گھر دکھانے کے لئے۔ مجھے امید ہے میرے والد اب زیادہ پرسکون محسوس کررہے ہوں گے۔
’کیا میں آپ سے ایک بات پوچھ سکتا ہوں؟ آپ نے اس کمرے کو ویسا ہی کیوں رکھا جو ہم ۳۰سال پہلے چھوڑ کر گئے تھے؟‘
میں بھی ایسا ہی ایک گھر چھوڑ کر آیا تھا جس میں ایک لڑکے کی اپنے باپ کے ساتھ تصویر۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔