بِلی مار ۔۔۔ حرا ایمن
بلی مار
( حرا ایمن )
میاؤں,
میاؤں، میاؤں۔۔۔۔
آ جا آ جا میری جان ، کہاں بھٹکتی ہوئی آ گئی؟ دیکھو تو
اپنے سفید رنگ پر کتنا اترا رہی ہے موٹی، ہڈ حرام کہیں کی، ایک بار دبوچ لوں پھر
زمین پر لاتی ہوں تیری یہ اکڑ ، وہ زیرِ لب یہ بولتی ہوئی ہمسائے کی دیوار سے کودتی
ایک اُجلی برق رو بلی کو دیکھ کر رسوئی کے دروازے کی طرف بڑھی۔ مانو بلی اتنے میں
دروازے کی چرچراہٹ کو کھانا کھلنے کا سندیسہ سمجھ کر بانو کی طرف لپکی، پہلے پاؤں
کے گرد چکر کاٹتی رہی پھر اپنا جسم اسکے پاؤں سے رگڑ کر مانوسیت کا اظہار کرنے
لگی۔ بانو کو اسکا یہ گڑگڑا کر کھانا مانگنے کا انداز بہت پسند آیا، وہ خود کو
کلیوپیٹرا جان کر اس بات پر مسکرائے گئی کہ وہ بلی جسکی پوجا مصر میں کی جاتی تھی،
وہ اسکے قدموں میں لوٹ رہی ہے۔گھر والے مجلس میں شرکت کیلئے دوسرے شہر گئے ہوئے
تھے، بانو تنہا تھی، بلی کے آ جانے سے گویا اسکو ایک ساتھی میسر آ گیا۔ عید قربان
گزرے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا، فریج میں گوشت کی خاصی مقدار تھی، بانو نے ایک پیکٹ
اٹھا کر اوون میں ڈیفراسٹ کرنے رکھ دیا اور خود بلی کے برابر آ کر زمین پر بیٹھ
گئی۔ بلی کی اُجلی نرم گداز کھال اسکے مالک کی معاشی حیثیت کا پتہ دے رہی تھی۔
“یقیناً امپورٹڈ شیمپو سے نہاتی ہوگی اور نرم بستر میں سوتی ہوگی” حسرت
سے بانو نے سوچا۔
” “دیوار پھلانگ کر اِدھر کیا کرنے
آئی ہو موٹی”، بانو نے بلی کی گردن زور سے پکڑ کر پوچھا، جواباً وہ ایک دبی
سے آواز نکال کر چپ ہوگئی. اب تک بلی گوشت پگھلنے کی خوشبو اور بانو کی مہربانی سے
اس سے مانوس ہو چکی تھی۔ ہاتھ لگانے پر مزاحمت کجا وہ ہل بھی نہیں رہی تھی۔ گرم
گرم گوشت کا ٹکڑا ایک پلیٹ میں ڈالے ، سرخ مرچ کی ڈبیا، آٹے کی بوری اور پلاسٹک کی
رسی تھامے، بانو بلی کو چمکارتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھی، سب ایک ترتیب سے میز
پر رکھ کر ، پاؤں میں لوٹتی بلی کو ایک ہاتھ سے دبوچا اور کمرے کو قفل لگا دیا،
کنڈی کی آواز سے بھوکی بلی کُچھ چونکی کان ہلا ہلا کر ٹّوہ لینے کی کوشش کی مگر اب
دیر ہو چکی تھی۔ بانو کی آنکھوں کی چمک بلی کی سانسیں بےحد تیز کر رہی تھی۔ التجاء
کرتے ہوئے بلی نے دروازے کے پٹ کھولنے کی کوشش کی، بڑی چہ بجیں ہوئی مگر حاصل کوشش
ندارد۔
بانو پر جیسے سکتہ طاری تھا، صوفے پر دراز وہ بلی کی
کیفیت سے وہ سرور کشید کر رہی تھی جو رومی بادشاہ گلادیٹر کھیلوں سے کرتے تھے۔
رومی بڑے سفاک واقع ہوئے ہیں، اکھاڑے میں انسان اور درندے کے غیر متناسب خونی کھیل
پر تالیاں بجاتے، جشن مناتے سنگدل لوگ۔
سوچوں میں غلطاں بانو بلی کی بےبسی کا مظاہرہ اطمینان سے
کر رہی تھی، گوشت کا ٹکڑا اٹھا کر بلی کے آگے پھینکا مگر بے یقینی کے اس ماحول میں
بلی کی بھوک ہوا ہو چکی تھی۔ اُسکو تو بس باہر جانا تھا آزاد ہوا میں سانس لینا
تھا، اُسکی سر توڑ کوششوں سے بےنیاز بانو صوفے پر دراز، آنکھیں موندے کسی اور ہی
دنیا میں غرق تھی۔ یادوں کے کربلا میں بھٹکتی پیاسی بانو ! بچپن میں ابا یونہی تو
اذیت دیتے تھے، سبق یاد نا ہوتا تو سارا دن بھوکا پیاسا رکھا جاتا، سامنے بیٹھ کر
کھانا تناول کرتے اور رومی انداز میں بانو کی بھوک کا تمسخر اڑاتے، ابا کو بانو کا
غرور توڑنے کا بہت شوق تھا، ذرا اس میں اعتماد پیدا ہوتا، ابا کا نازی ٹریٹمینٹ
شروع ہو جاتا۔۔۔۔ ایک جھرجھری لے کر اُسنے شور مچاتی بلی کو گھور کر دیکھا ، سرخ
مرچوں کی ایک چٹکی لیے وہ اُسکی طرف بڑھی، اور حسد بھرے لہجے میں بولی، نیلی
آنکھیں، ہیں ان پر ناز ہے نا تُجھے حرافہ، آ تیرا غرور توڑوں!!! مرچوں بھری مٹھی
بلی کی آنکھوں میں خالی کر کہ اُسنے تڑپتی ہوئی جان کو قابو میں کیا، پلاسٹک کی
رسی سے پاؤں باندھنے سے پہلے بلی کو گرد آلود فرش پر خوب اچھی طرح پھینٹ کر رنگ
سفید سے خاکی کیا ، غراتی بلی کی مزاحمت حد سے بڑھی تو بانو کی آنکھوں میں خون اتر
آیا، پنجوں کے لگنے سے بانو کے ہاتھ زخمی ہوتے جا رہے تھے مگر خوں تو اُسکی آنکھوں
سے برس رہا تھا
بوری میں بلی کا جسم ڈالتے ہوئے،” بلی بوری سے
باہر” والا محاورہ بنانے والے کو موٹی سے گالی دیتے ہوئے، گھر کے پچھواڑے میں
ابا کی قبر تک پہنچی، اور پہلے سے کھودے گئے گڑھے میں بےجان بوری پھینک کر اطمینان
سے زمین برابر کی، فاتحہ پڑھی اور چل دی۔