تنخواہ کا دن ۔۔۔ ابراہیم جلیس
تنخواہ کا دن
ابراہیم جلیس
آج مزدوروں کے چہرے پر خلاف معمول تازگی اور توانائی جھلک رہی تھی، آج سب مستعدی دکھلا رہے تھے۔ آج کسی کو تھکن محسوس نہیں ہورہی تھی۔ آج کسی کو بخار نہیں تھا۔۔۔ آج ان کی تنخواہ کا دن تھا۔
مُراد تپتے ہوئے سرخ لوہے کے ٹکڑوں پر ہتھوڑے برساتے ہوئے کچھ سوچ سوچ کر آپ ہی آپ مسکرارہا تھا۔ کھٹاکھٹ، کھٹاکھٹ ایسے زور زور سے ہتھوڑے برسا رہا تھا کہ گویا وہ سرخ لوہے کے ٹکڑے مہینہ کے پچھلے مفلسی کے دن ہیں، جن سے وہ اپنا پورا پورا بدلہ لے رہا ہے۔ تیس دن میں یہ تنخواہ کا ایک دن ہی تو ایسا آتا ہے جب یہ سب دکھ بھول جاتا ہے، صرف اسی ایک دن اسے یہ دنیا، یہ دنیا والے، بیوی بچے سب پیارے معلوم ہوتے ہیں۔ صرف اسی ایک دن وہ خوب جی بھر کر محنت کرنا چاہتا ہے، جان توڑکر کام کرنا چاہتا ہے اور باقی انتیس دن۔۔۔؟ ہون ہہ باقی انتیس دن کی آج فکر کیوں؟
آج تو اس کی تنخواہ کا دن تھا۔
مہینہ بھر کی تنخواہ ، اکٹھے دس روپے۔ چاندی کے چمکتے ہوئے دس سکّے، انہی پر تو دُنیا قائم ہے۔ انہی کے لئے تو چوٹی کا پسینہ ایڑی تک بہایا جاتا ہے۔ کیا راجہ کیا پرجا، یہ چمکتے ہوئے سکے ہی قسمتوں کو چمکاتے ہیں۔ آج اس کی بھی قسمت چمکنے والی تھی؟
آج چمکدار سکّوں سے جگمگاتا ہوا تنخواہ کا دن تھا۔
مُراد کو آپ ہی آپ مسکراتا دیکھ کر اس کے ایک ساتھی مزدور نے اس کے گنجے سر پر ایک چپت لگائی مگر مراد مسکراکراتا ہی گیا۔ آج وہ کسی سے لڑنا نہیں چاہتاتھا، اگر اس کا ساتھی ننھے بچے کی طرح اس کے کاندھے پر بھی سوار ہوجائے تو مراد مسکراتا ہی جائے گا، مسکراتا ہی رہے گا!
تیس دن تک اپنے جسم کی طاقت کارخانے کو بیچتا رہا۔ آج اس کی ساری بیچی ہوئی طاقت چاندی کے سکّوں میں تبدیل ہوکر اسے ملنے والی تھی۔ آج تو وہ خوب ٹھاٹھ کرے گا۔۔۔ لاٹ صاحب کے سے ٹھاٹھ۔ آج اس کے گھر میں گوشت بھونا جائے گا، جس کی خوشبو جب محلے کے ہر گھر میں پہنچے گی تو سب کو معلوم ہوجائے گا کہ آج مراد کے گھر میں مزے مزے کے کھانے کھائے جارہے ہیں۔ آج دو وقت کی بجائے امیروں کی طرح وہ بھی تین وقت خوب ڈٹ کر کھائے گا۔ بیوی بچوں کے لئے کپڑے خریدے جائیں گے۔ آج بیڑی کے بجائے جھنڈا چھاپ سگریٹ پیا جائے گا۔ آج شکنتلا کا ناٹک بھی دیکھا جائے گا!
’’اُو ۔۔۔ اُو ۔۔۔ اُو ۔۔۔ اُو ۔۔۔‘‘
کارخانے کا گھگھُو پکار رہا تھا۔
تمام مزدور اچھل پڑے، اپنا اپنا کام چھوڑ منیجر کے دفتر کی طرف دوڑنے لگے۔
مُراد بھی اپنا ہتھوڑا پھینک ان میں جاملا۔
آج منیجر کی بھی تنخواہ کا دن تھا، منیجر کی تنخواہ آٹھ سو روپے تھی۔ ُ مراد نے اپنے ایک ساتھی سے پوچھا،
’’ارے بھیّا! یہ مانیجر آٹھ سو روپے لے کر کیا کرتا ہوگا۔ اس کے نہ تو بیوی ہے نہ بچہ، اس کے پاس توخوب روپیہ جمع ہوگا۔ دن تمام دفتر میں بیٹھا رہتا ہے نہ کام نہ کاج، مگر مہینے ٹھناٹھن آٹھ سوروپے مل جاتے ہیں، ہم صبح کے پانچ بجے سے شام کے چھ بجے تک کارخانے میں مرتے رہتے ہیں مگر وہی دس روپے۔‘‘
اس کے ساتھی نے جواب دیا، ’’بھیّا وہ مانیجر ہے مانیجر، سمجھا۔‘‘
مُراد خاموش ہو رہا، ایسے جیسے اس کا جواب ایک ناقابال انکار دلیل ہے۔
مراد جب تنخواہ لے کر کارخانے سے باہر نکلا تو سڑکوں پر بجلی جل چکی تھی، دکانیں جگمگارہی تھیں، موٹریں دوڑرہی تھیں، ٹرینیں گھڑگھڑا رہی تھیں، سائیکلیں ٹن ٹنا رہی تھیں، ریڈیو تانیں اڑا رہے تھے، گراموفون بج رہے تھے۔ ہر طرف شور ہی شور تھا۔ ہرطرف ہنگامہ ہی ہنگامہ تھا، ایک بڑی دکان سے ایک صاحب اور ایک میم لٹ لٹاکر باہر نکلے، ایک فقیر نے ان کے آگے ہاتھ پھیلا دئے مگر صاحب نے ُگھرکی بتائی، وہ لٹ چکے تھے، مگر مُراد آج مالدار تھا، اس نے آگے بڑھ کر فقیر کے ہاتھ میں ایک پیسہ پکڑا دیا۔ جیسے اب دنیا سے صاحبوں کا راج ختم ہوگیا ہے اور مزدور راج کا آغاز ہوا ہے۔ فقیر اسے دعائیں دینے لگا۔ مُراد دیر تک وہیں کھڑا دعائیں سنتا رہا۔ وہ جی بھر کر دعائیں سننا چاہتا تھا، اس کا دل پھولا نہیں سما رہا تھا، اچانک وہ چونک پڑا، اسے کوئی پکار رہاتھا۔
’’ارے مُراد بھیّا! ذرا سنیو تو۔‘‘
مراد نے پلٹ کر دیکھا۔
شمسو پنواڑی تھا، اپنی اونچی دکان کے میلے آئینے کے آگے بیٹھا قینچی سے پان کے ڈنٹھل کتررہا تھا، اس کے گنجے سر پر بجلی کا ایک چھوٹا سا گولا جل رہاتھا۔ مُراد نے قریب پہنچ کر پوچھا، ’’کیا ہے بھیّا، آج تیری صورت اُتری کیوں جارہی ہے؟‘‘
’’ارے کیا بتاؤں بھیّا! ابھی ابھی رحیمن کے لڑکے نے آکر خبر دی کہ میری بھابی کا منجھلا لڑکا مرگیا۔ تو تو جانتا ہی ہے بھیا اس کو سردی کا بخار ہوگیا تھا نمونیا۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ گرم کپڑے پہناؤ۔ اسے بھلا یہ پان کی دکان میں ایسا کہاں کا منافع کہ گرم کپڑے خریدوں۔ تین وقت کی روٹی کا اپنا ٹھکانہ نہیں۔ آخر خفی سی جان مر ہی گئی۔ جرا بھیا تو یہاں دکان پر بیٹھ رہیو میں جری گھر ہوئی آؤں۔‘‘
مراد نے کچھ سونچتے ہوئے سر ہلا دیا۔ اونچی دکان پر بیٹھ کر وہ سونچنے لگا۔ اس کا بھی ایک بچہ ہے، آٹھ برس کی ننھی جان، اس کے پاس بھی گرم کپڑے نہیں ہیں۔ آج کل سردی ایسی غضب کی پڑرہی ہے کہ جس کو دیکھو سردی کے بخار سے آڑا پڑا ہے۔ اس کو فوراً اپنے لڑکے لیے گرم کپڑے خرید لینے چاہئیں۔ اس کے خیالات بھٹکنے لگے۔
سردی کے بعد پھر گرمی آئے گی۔ پچھلی گرمیوں میں ننھا کہتا تھا کہ مدرسے کو جانے میں اس کے پیر جلتے ہیں۔ وہ ننھے کو جاپانی ربر کا سفید جوتا لے دے گا۔ گرمی کے بعد برسات آئے گی۔ ننھا برسات میں بھیگ جائے گا تو اسے سردی کا بخاری ہوجائے گا۔ رجب کے لڑکے کے پاس چھوٹی کالی چھتری ہے۔ وہ بھی ننھے کے لئے ایک چھوٹی کالی چھتری خریدلے گا۔ مگر اب تو اسے گرم کپڑے جلد سے جلد خرید لینے چاہئیں، ورنہ سردی کا بخاری نمونیا اور موت!
وہ کچھ گھبرا سا گیا۔
اسی اثناء میں شمسو پنواڑی لوٹ آیا۔ اس نے دکان بند کردی، دونوں اپنے اپنے گھروں کو چل دیئے۔ مراد جب گھر کے قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ سیٹھ ہری داس چارپائی پر بیٹھے اس کا انتظار کررہے ہیں۔ باپ رے باپ۔ اس نے ایسا محسوس کیا کہ اس کی روح اچانک مردہ ہوگئی ہے، سیٹھ کا قرضہ دینا ہے۔ گیہوں، نمک، تیل جو بھی قرض لیا تھا، ان کے پیسےدینے ہیں۔ یہ سیٹھ کل تک صبر نہ کرسکے، وہ جانتے تھے کہ ان مزدوروں کے پاس آج پیسہ آیا کل ختم۔ رات کے ساڑھے آٹھ بج گئے مگر یہ جیوٹ شیطان کی طرح پہرہ جمائے بیٹھا ہے۔ مُراد نے آگے بڑھ کر کہا،
’’سیٹھ جی سلام۔ آج ذری دیر ہوگئی سیٹھ، معلوم ہوتا ہے تم بہت دیر سے بیٹھے ہو۔ ہاں سیٹھ! تمہارے کتنے روپے ہیں؟‘‘
’’چھ روپے۔‘‘
مُراد نے ایسا محسوس کیا گویا کسی نے اس کے منہ پر زور سے تھپڑ لگادیا ہو، مگر وہ سنبھلا اور کہنے لگا، ’’سیٹھ! اس مہینے میں تین روپے لے لو۔ اگلے مہینے پر سب حساب ہوجائے گا!‘‘
’’نہیں تمہیں، ہرمہینے تو ایسا ہی کہتا ہے، مجھے تو اس مہینے میں بڑی تنگی ہے۔ میری ماں کاشی جارہی ہے، اسے روپوں کی ضرورت ہے۔ باپ کی چتا کی ہڈیاں دو مہینے سے گھر ہی میں رکھی ہیں، اس مہینے ماں انہیں ضرور کاشی لے جائے گی۔ اس مہینہ میں تو دے ہی دے، ورنہ پھر مہینہ بھر کچھ ادھار نہیں ملے گا۔‘‘
سیٹھ کی دھمکی کامیاب ہوگئی، مہینہ بھر اسے ادھار ہی تو کھانا ہے۔ اب اگر وہ نہ دے تو سیٹھ مہینہ بھر کچھ بھی نہ دے گا۔ اس نے بے وجہ جھلّا کر روپے سیٹھ کے حوالے کردیئے۔
سیٹھ روپیہ لے کر بجلی کے کھمبے تک بھی نہ گیا ہوگا کہ ایک اور خدائی فوجدار وارد ہوا۔ گوبند بابو کا نوکر تھا اور مکان کا کرایہ وصول کرنے آیا تھا۔ مکان کاکرایہ دو روپے، ایک دم دو روپے۔ ایسے غلیظ مکان کاکہ جس میں دو اندھیرے کمرے، دھوئیں سے کالی دیواریں، ٹوٹے چھپر کا دالان جو برسات میں تالاب بن جاتا تھا، چار قدم کا صحن، سنڈاس تک موجود نہیں، مگر کرایہ دو روپے اور مہینے کے مہینے وصول ہوتا ہے۔ خواہ مخواہ کا غصہ مراد کے جسم میں سرایت کرنے لگا، مگر کس پر غصہ کرے وہ بیچارا۔ اس نے بڑبڑاتے ہوئے دو روپے اس نوکر کے ہاتھ میں تھمادئے گویا وہ روپے انگارے تھے جن کی جلن کی وہ تاب نہیں لاسکتا تھا، دانت چباتا اُول جُلول بکتا گھر میں گھُسا۔ اس کی بیوی آج بنی سنوری بیٹھی تھی کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ آج تنخواہ کا دن ہے۔ مگر مُراد نے اس کی طرف نگاہ تک نہ کی، بچہ چارپائی پر سورہا تھا۔ مٹی کے تیل کے چراغ کی روشنی میں چمکتے ہوئے اس کے سانولے چہرے میں مراد جیسے باپ کے لئے بہت دلکشی تھی مگر اس نے منہ پھیر لیا اور قریب پڑی ہوئی چارپائی پر بیٹھ کر دونوں ہاتھوں میں اپنا سر دیئے سوچنے لگا،
سردی۔۔۔ گرم کپڑے۔۔۔ گرم جاپانی ربڑ کا جوتا۔۔۔ برسات۔۔۔ چھوٹی کالی چھتری۔
اسی وقت ایک ہلکی سی خوشبو ہوا کے دوش پر بہتی ہوئی اس کے گھر میں بھی بھٹک نکلی۔ اس کی بیوی نے ہونٹوں پر تر زبان پھیرتے ہوئے کہا،
’’آہا، سونگھتے ہو، آ ج شرفو ڈرائیور کے گھر گوشت بھُونا جا رہا ہے۔‘‘
’’ہونہہ‘‘ اس نے نفرت سے چڑکر کہا۔
اسی اثنا میں شرفو بھی درّاتا ہوا اُس کے گھر میں گھس آیا۔ شرفو ایک بڑے کرسٹان کا موٹر ڈرائیور تھا، اس کی تنخواہ چالیس روپے تھی۔ آج اس کی بھی تنخواہ کا دن تھا۔ آج وہ بیڑی کے بجائے جھنڈا چھاپ سگریٹ پی رہا تھا۔ وہ مُراد سے کہہ رہا تھا کہ وہ آج شکنتلا کا ناٹک دیکھنے جارہا ہے؟
مُراد کے مُنہ سے ایک ٹھنڈی آہ نکلی۔ وہ اپنے گھر ہی میں بیٹھے بیٹھے ایک ناٹک دیکھ رہا تھا۔ ایک دکھ بھرا ناٹک جسے شرفو نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکہ آج اس کے گھر گوشت بھونا جارہا تھا اور وہ بیڑی کے بجائے جھنڈا چھاپ سگریٹ پی رہا تھا۔