خواب اور تقدیر ۔۔۔ انتظار حسین
خواب اور تقدیر
انتظار حسین
ناقوں پہ سوار چپ سادھے سانس رو کے ہم دیر تک اس راہ چلتے رہے حتیٰ کہ آگے آگے چلتے ہوئے ابوطاہر نے اپنے ناقے کی نکیل کھینچی اوراطمینان بھرے لہجہ میں اعلان کیا، ’’ہم نکل آئے ہیں۔‘‘
’’نکل آئے ہیں۔‘‘ ہم تینوں نے تعجب اور بے یقینی سے ابوطاہر کو دیکھا، ’’رفیق کیاہم تیرے کہے پر اعتبار کریں۔‘‘ اور ابو طاہر نے اعتماد سے جواب دیا، ’’قسم ہے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، ہم شہر بے وفا سے نکل آئے ہیں۔‘‘ پھر بھی ہم نے تامل کیا، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ارد گرد دیکھا، گرد و پیش کا پورا جائزہ لیا، کوفے کے جانے پہچانے درو دیوار واقعی نظروں سے اوجھل تھے، یہ گرد و پیش ہی اور تھا، تب ہمیں یاد آیا کہ ہم نکل آئے ہیں، بس ترنت اپنے ناقوں سے اترے اور بے اختیار سجدے میں گر پڑے اور اپنے پیدا کرنے والے کا شکر ادا کیا، پھر راہ کے کنارے کھجوروں کے سائے میں بیٹھ کر اپنے توشے کو کھولا۔ ایک ایک مٹھی ستو پھانکے اور ٹھنڈا پانی پیا، اس ساعت میں ٹھنڈا پانی ہمیں کتنا ٹھنڈا اور میٹھا لگا، لگتا تھا کہ ہم پیاسوں نے آج ایک زمانہ کے بعد پانی پیا ہے، خدا کی قسم اس آفت زدہ شہر میں تو غذائیں اپنا ذائقہ کھو بیٹھی تھیں اور ٹھنڈے میٹھے کنوئیں یک قلم کھاری ہو گئے تھے یا شاید ہم بے مزہ ہوگئے تھے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی نعمتیں ہمارے لئے بے لذت ہوگئی تھیں۔
یہ سب کچھ اس شخص کے وارد ہونے کے بعد ہوا، وہ شخص بالا قد گھوڑے پہ سوار، سیاہ عمامہ پہنے، منھ پر ڈھاٹا باندھے، ڈھال تلوار زیب کمر کئے شہر میں داخل ہوا، لوگ سمجھے کہ امامِ زماں کا ورود ہوا، گلی گلی کوچہ کوچہ یہ خبر پھیلی، لوگ مسرور ہوئے، امام کے تصور سے مسحور ہوئے، مرحبا کہتے گھروں سے نکلے اور اس کے گرد اکٹھے ہوئے۔ کس شان سے سواری قصرالامارہ کی سمت چلی، لگتا تھا کہ پورا شہرا منڈا ہوا ہے۔ قصرالامارہ کے اونچے دروازے پر پہنچ کر اس نے گھوڑے کی باگ کھینچی اور مجمع کی طرف رخ کیا، رخ کرتے کرتے دفعتاً ڈھاٹا کھولا، خونخوار صورت، کف درد ہان، نیام سے شمشیر نکالی اور کڑک کر کہا کہ اے لوگو، تم میں سے جو جانتا ہے وہ جانتا ہے، جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ میں آگیا ہوں، سب سنّاٹے میں آگئے، وہ بھی جنھوں نے دیکھااور جانا کہ کون ہے جو آگیا ہے، وہ بھی جنھوں نے دیکھا مگر نہ جانا کہ کون ہے جو آگیا ہے۔
اس نے اپنا اعلان کیا اور قصرالامارہ کے اندر چلا گیا، لوگ دیر تک ساکت کھڑے رہے، آخر کو ابوالمندر نے مہرِ سکوت توڑی، افسوس بھرے لہجہ میں بولا کہ ’’شہر کوفہ پر خدا رحمت کرے، انتظار اس نے کس کے لئے کھینچا تھا اور وارد کون ہوا؟‘‘
’’کون ہے جو وارد ہوا؟‘‘
’’اے لوگو، تف ہے تم پر کہ ابھی تک تم نے نہیں پہچانا کہ یہ کس باپ کا بیٹا ہے، اس باپ کا جس کا باپ نہیں تھا اور جسے لونڈی نے جنا تھا۔‘‘
’’زیاد کا بیٹا۔‘‘ بے اختیار کسی کی زبان سے نکلا اور ایک دفعہ پھر سب سناٹے میں آگئے۔ اس کے آنے کی خبر پھیلتی گئی اور کوچے اور خیاباں خالی اور خاموش ہوتے گئے، میں منصور بن نعمان الحدیدی بھرے کوچوں سے گزر کر قصرالامارہ تک پہنچا تھا اور خالی خیابانوں اور حق کرتے کوچوں سے گزر کر واپس گھر پہنچا اور جب اس بے آرام رات کے بعد صبح ہونے پر میں گھر سے نکلا تو دیکھا کہ شہر بدل چکا ہے۔ خدا کی قسم میں نے اس شہر کوبھٹی پہ چڑھے کڑھاؤ کی مثال ابلتے دیکھا تھا، اب میں اسے سینہ اہلِ ہوس کی صورت ٹھنڈا دیکھ رہا تھا، اور میں دل میں رویا کہ شہر کس شور سے سر اٹھاتے ہیں اور کتنی سرعت سے ڈھے جاتے ہیں۔ میں گرفتہ دل اپنے رفیق دیرینہ مصعب ابن بشیر کے پاس پہنچا، گلوگیر ہو کر کہا، اے معصب تونے دیکھا کہ کوفہ آن میں کتنا بدل گیا ہے۔ معصب نے مجھے گھور کے دیکھا اور کہا کہ ’’اے منصور، تعجب مت کر اور آہستہ بول۔‘‘
میں نے اسے تعجب سے دیکھا، ’’رفیق کیا تو وہ نہیں ہے جو کل اونچی آواز سے بول رہا تھا۔‘‘ وہ بولا، ’’کل سب سے اونچی آواز میں ابوالمندر بولا تھا اور آج وہ قصرالامارہ کی دیوار تلے ٹھنڈا پڑا ہے۔‘‘ یہ کہہ کہ وہ رفیق مجھ سے شتابی سے رخصت ہوا اور قصرالامارہ کی طرف چلا گیا۔
تب میں نے جانا کہ کوفہ واقعی بدل چکا ہے اور واقعی مجھے آہستہ بولنا چاہئے، بلکہ نہیں بولنا چاہیے، قیس بن مسہر کو میں نے دیکھا کہ وہ بولا اور ہمیشہ کے لئے چپ ہوگیا، ابن زیاد کے آدمی اسے پکڑ کر قصرالامارہ کی چھت پر لے گئے، کہا کہ بول کیا بولنا ہے، اس نے اونچی آواز میں اپنا اعلان کیا کہ اس خاموش شہر میں ہر گھر میں اس کی آواز سنی گئی، دوسرے ہی لمحے اسے چھت سے نیچے دھکیل دیا گیا، قصرالامارہ کی دیوار تلے کتنی دیر وہ سسکتا رہا، دیر بعد اس کا دوست عبدالمومن بن عمیر اس راہ سے گزرا اور اپنا خنجر نکال کر اس کے گلے پر پھیر دیا۔ ایک بوڑھے نے سرگوشی میں اس سے کہا کہ تونے خوب حقِ دوستی ادا کیا اور اس نے مسکت جواب دیا کہ میں اپنے عزیز دوست کو سسکتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا۔
میں یہ نقشہ دیکھ وہاں سے پھرا اور خیاباں خیاباں پریشان پھرتا پھرا، لگ رہا تھا کہ میں کوفے میں نہیں ہوں خوف کے صحرا میں بھٹک رہا ہوں۔ خوف کے صحرا میں بھٹکتے بھٹکتے میری مڈبھیڑ ابو طاہر سے ہوئی اور ابو طاہر نے مجھے جعفر ربیعی اور ہارون ابن سہیل سے ملایا، کتنے دنوں تک ہم چاروں گونگے بہرے بنے اس خوف کے صحرا میں بھٹکتے پھرے، آخر کے تئیں ہم نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑا، سر جوڑ کر بیٹھے اور سوچا کہ کسی صورت یہاں سے نکل چلئے، اس تجویز پہ جعفر ربیعی رو پڑا۔ بولا، ’’میں کوفے کی مٹی ہوں، اس مٹی کو کیسے چھوڑ دوں۔‘‘
ہارون بن سہیل بولا، ’’ہر چند کہ میں مدینہ کی مٹی ہوں مگر پالنے والے کی قسم اس قرینے سے مفارقت مجھے بھی رلائے گی کہ میں نے اپنی جوانی کے ایام اسی شہر کے کوچوں میں گزارے ہیں۔‘‘ تب ابو طاہر نے کہ ہم میں سب سے بڑا تھا میری طرف دیکھا؛ ’’اے منصور تو اس باب میں کیا کہتا ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ ’’رفیقو حضور کی یہ حدیث یاد کرو کہ جب تمھارا شہر تم پہ تنگ ہوجائے تو وہاں سے ہجرت کر جاؤ۔‘‘ یہ کلام سن سب رفیق قائل ہوگئے اور نکل چلنے کی تیاریاں کرنے لگے۔ ہم نے شہر نکلنا کتنا آسان جانا تھا مگر کتنا مشکل نکلا۔
شہر کے دروازوں پر پہرہ تھا، آنے جانے والوں پر روک ٹوک تھی، کتنی مرتبہ ہم دونوں دروازوں تک گئے اور پہریداروں کو چوکنّا دیکھ کر چپکے سے واپس چلے آئے۔ کوفہ ہم پر تنگ ہوتا جا رہا تھا، تنگ ہوتے ہوتے وہ چوہے دان کی مثال بن گیا، اس کے اندر ہم ایسے تھے جیسے چوہے دان میں چوہے کہ چکر کاٹیں اور نکلنے نہ پائیں۔ نکلنے کی کوئی صورت نہ دیکھ کر ہم جی جان سے بیزار ہوئے، ہارون ابن سہیل نے لمبی آہ کھینچی اور کہا، ’’کاش ہماری مائیں بانجھ ہو جاتیں اور ہمارے باپوں کے نطفے ضائع ہوجاتے کہ نہ ہم پیدا ہوتے نہ ہمیں یہ سیاہ دن دیکھنے پڑتے۔‘‘ جعفر ربیعی رویا اور بولا، ’’وائے ہو ہم پر کہ ہم اپنے ہی قریے میں رنج اسیری کھینچتے ہیں اور وائے ہواس قریے پر کہ وہ اپنے بیٹوں کے لئے سوتیلی ماں بن گیا۔‘‘
یاس کی انتہا پر پہنچ کر ہم جری بن گئے، مرتا کیا نہ کرتا، بس کمر ہمت باندھ چل کھڑے ہوئے کہ ہر چہ باداباد، معلوم نہیں یہ کیسے ہوا، پہریداروں کی آنکھوں پر پردے پڑگئے یا نیند آگئی، بہر حال ہم اب شہر سے باہر تھے اور آزاد فضا میں سانس لے رہے تھے۔ شام کے سائے بڑھتے جا رہے تھے اور ہوا گرم سے ٹھنڈی ہونے لگی تھی۔
’’ہم نفسو! رات کالی ہے اور سفر لمبا ہے۔‘‘
’’اے اخی، کیا یہ رات کوفے کے دنوں سے زیادہ سیاہ ہے؟‘‘ یہ دلیل سب کو قائل کر گئی، ہم اس دمبدم کالی ہوتی رات میں سفر کرنے کے لئے کمریں کس کر تیار ہوگئے۔
’’مگر جانا کہاں ہے؟‘‘ اس سوال نے ہمیں چونکایا، ہم تو بس نکل کھڑے ہوئے تھے، یہ تو سوچا ہی نہیں تھا کہ جانا کہاں ہے۔ ابوطاہر نے تامل کیا، پھر کہا، ’’مدینے اور کہاں۔‘‘ میں اور جعفر ربیعی اس تجویز کے موئید ہوئے، مگر ہارون بن سہیل سوچ میں پڑ گیا، دبے لہجہ میں بولا، ’’اگر مدینہ بھی کوفہ بن چکا ہو تو؟‘‘ ہم سب نے اسے برہمی سے دیکھا۔
’’اے رفیق۔‘‘ جعفر ربیعی بولا، ’’تو اس منور شہر کے بارے میں جب کہ تو خود وہاں کی مٹی ہے ایسا سوچتا ہے۔‘‘ ہارون بن سہیل رکا پھر بولا، ’’ہم نفسو! بیشک اس شہر مبارک کی زمین آسمان ہے، وہاں کی مٹی معنبر اورپانی مصفا ہے مگر اس شہر کی سمت سے آنے والوں سے ملا ہوں۔ میں نے انھیں پریشان پایا۔‘‘ اس پر ہم چپ ہو گئے، کسی سے کوئی جواب نہ بن پڑا، مگر ہارون بن سہیل ابھی چپ نہیں ہوا تھا، سوچتے سوچتے بولا، ’’ہم نفسو! میں سوچتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں کہ نور حق سے منور ہونے والے شہر کتنی جلدی منقلب ہوگئے، کتنی جلدی ان کے دن پراگندہ اور راتیں پریشان ہوگئیں۔‘‘
ابو طاہر نے اسے برہمی سے دیکھا، ’’اے سہیل کے ناخلف بیٹے، تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے، کیا تو اسلام کی حقانیت سے انکار کرے گا۔‘‘ ہارون بن سہیل بولا، ’’بزرگ، میں پناہ مانگتا ہوں اس دن سے کہ میں خدائے بزرگ و برتر کی وحدانیت میں شک کروں اور اسلام کی حقانیت سے انکار کروں مگر یہ کوفہ۔۔۔‘‘
ابو طاہر نے غصے سے اس کی بات کاٹی، ’’کوفہ کیا؟ کیا کہنا چاہتا ہے تو؟‘‘
’’ہاں یہی میں سوچتا ہوں کہ کوفہ کیا اور کیوں؟ بار بار اس خیال کو دفع کرتا ہوں اور بار بار یہ خیال میرا دامن گیر ہوتا کہ مبارک قریوں کے بیچ کوفہ کیسے نمودار ہوگیا، اور کتنی جلدی نمودار ہوا، ہجرت کو ابھی ایسا کون سا زمانہ گزر گیا ہے۔‘‘ میں نے دیکھا کہ ابوطاہر کے مزاج کی درہمی بڑھتی جا رہی ہے، میں نے بات بیچ میں کاٹی اور کہا کہ ’’رفیقو! میری تجویز یہ ہے کہ اس شہر چلیں جسے حق تعالیٰ نے شہر امن قرار دیا ہے، بیشک دنیا ظالموں سے بھر جائے اور زمین فساد سے تہہ دبالا ہوجائے مگر مکّہ کے مبارک شہر کے امن میں خلل نہیں آئے گا۔‘‘ سب رفیقوں نے میری اس تجویز پر صاد کیا اور ہم فوراً ہی ناقوں پر سوار ہوگئے۔
تاریکی بہت تھی کہ یہ چاند کے شروع کی راتوں میں سے ایک رات تھی، مگر ہمارا جذبہ ہمیں کھینچے لئے جا رہا تھا، اب رات بھیگ چکی تھی اور آسمان سے اترتی خنکی نے ہمارے دلوں میں ترنگ پیدا کردی تھی، شہر امن کے تصور میں مگن اور رہائی کے نشہ سے سرشار ہم بڑھے چلے جا رہے تھے، ناقہ پر بیٹھے بیٹھے مجھے اونگھ آگئی۔ میں نے کیا حسین خواب دیکھا کہ میں شہر امن میں نیک پاک بزرگوں کے بیچ بیٹھاہوں اور کوفہ کا حال سناتا ہوں۔ اچانک کان میں ایک آواز آئی، ’’یہ تو ہم پھر وہیں آگئے۔‘‘ اور میں نے ہڑبڑاکر آنکھیں کھولیں۔ اب تڑکے کا قت تھا اور سامنے کوفے کے درو دیوار نظر آرہے تھے۔
’’یہ تو ہم پھر وہیں آگئے۔‘‘ جعفر ربیعی کہہ رہا تھا۔ ابو طاہر نے، ہارون بن سہیل نے حیرت و دہشت سے بھری نظروں سے ان درودیوار کو دیکھا۔
’’مگر کیسے؟‘‘ میرے منھ سے نکلا۔ ابو طاہر نے تامل کیا، پھر کہا، ’’رات بہت کالی تھی، ہم نے راہ پر دھیان نہیں دیا، جس رستے آئے تھے اسی رستے چل پڑے۔‘‘ ہم سب چپ تھے۔
’’اب کیا کریں۔‘‘ جعفر ربیعی نے سوال کیا۔ ابو طاہر نے تامل کیا اور کہا، ’’رفیقو واپسی اب محال ہے کہ پہرے والوں نے ہمیں دیکھ لیا ہے، شاید قدرت کو ہمارا یہاں سے نکلنا منظور نہیں۔‘‘ ہارون بن سہیل نے ٹھنڈا سانس بھرا، ’’درست کہا، کوفہ ہماری تقدیر ہے۔‘‘ اور میں منصور بن نعمان الحدیدی افسردہ ہوکر بولا کہ ’’ہاں مکّہ ہمارا خواب ہے، تقدیر ہماری کوفہ ہے۔‘‘
اور ہم تھک ہار کر واپس کوفے میں آگئے۔
________________