
ایک رات یوں بھی ہوا ۔۔۔ عرفان احمد عرفی
ایک رات یوں بھی ہوا
عرفان احمد عرفی
سب اُسے بی بی کہتے تھے۔
اس خاندان کی بیبیوں کا گھر سے باہر گلی میں قدم رکھنا یوں تھا جسے غیر قانونی طور پر عقبی راستوں سے سرحد پار کرنا۔ وہ سر سے لے کر پاؤں تک چادروں میں خود کو یوں ڈھانپے رکھتیں کہ مردوں کو پتہ بھی نہ چلتا کسی پر جوانی آئی بھی ہے کہ نہیں … مرد ہر وقت سروں پر منوں ریت اور سیمنٹ کے ٹوکرے اٹھائے غیرت کی دیوار بلند کرنے میں جتے رہتے ۔ ایسے میں اُسے بھی اپنا آپ ہزاروں سال پہلے ریگزاروں میں جنم لینے والی اُس نو مولود جیسا لگتا جسے پیدا ہوتے ہی دفتاد یا جاتا تھا۔ جیسے جیسے وہ قد بڑھائے گی اینٹوں پر اینٹیں رکھنے کا سلسلہ اُسی رفتار سے تیز تر ہوتار ہے گا۔ وہ ٹوٹے ہوئے پل کی طرح اپنا ڈھانچہ لیے خاموشی سے ایک طرف پڑی تھی کہ اب نئی گزرگاہوں نے اُس کی جگہ لے لی تھی اور قافلے اپنی سمت بدل چکے تھے۔ وہ ریل کی ایک ایسی مسترد پٹڑی تھی جو تھوڑی دُور جا کر مٹی کے فرش میں دفن ہو جاتی ہے اور آگے اک ایسا راستہ شروع
ہو جاتا ہے جس پر خودرو سر کنڈے ملک بدر پناہ گزینوں کی طرح خیمہ زن ہوں۔
گلی میں کھلنے والی اُس کے کمرے کی واحد کھڑ کی اُسے کال کوٹھری میں روزن کا کام دیتی ۔ جس کی سلاخوں کو تھا مے وہ دن بھر کھلے آسمان کی نیلی چادر میں یرغمالی رات کو ڈھونڈتی رہتی ۔
وہ اپنے باپ کے باپ کے باپ، نجانے کتنے باپوں کے باپ کے بہت زیادہ مقدس ہونے کی سزا میں بیڑیاں پہنے سلاخوں کے پیچھے کھڑی تھی اس خوف سے کہیں کوئی اُسے چھو نہ لے کہ اس طرح ہزار سال پہلے باپ کا سفید کفن میلا ہوسکتا تھا۔
سامنے سڑک پر مخالف سمتوں میں، ایک دوسرے کو چیر تا لوگوں کا ہجوم فلم کی طرح اس کے سامنے سے گزرتا رہا اور وہ سینما ہال کے پروجیکٹر روم میں پرا جیکٹر آپریٹر کی طرح وہیں کی وہیں کھڑی رہی ۔ شو چلتے رہے ختم ہوتے رہے، تماشائی آتے رہے، جاتے رہے۔
کبھی کبھی صبح کی پہلی کرن ، کھڑکی کے کواڑوں میں سے اترتی اور اُسے سڑک پر کوڑا ڈھوتی اس بھنگن کا پتہ دیتی جس کی جوانی اب ڈھلک چکی تھی۔ دن کی آخری کرن بھی ، جاتے جاتے کھڑکی پر شام کا پردا گرانے لگتی تو ایک نظر اُس کتیاکو ضرور دیکھ لیتی ، جس کے تھن زمین تک لٹک چکے تھے ! پتہ نہیں کیوں ایسے میں وہ اپنے سینے کے اندر چھپی اُمنگوں کو ڈھونڈنے لگتی جو شاید اُس کے بزرگوں کی قبروں کی طرح بیٹھ چکی تھیں (یہ ایسی قبریں تھیں جن پر انتظار کی گھاس بھی نہیں اگتی تھی۔)
وہ اکثر سوچتی ۔ نہ جانے کیا ہو جاتا جو وہ کسی ایسے کی خواب گاہ میں چلی گئی ہوتی جو اُس ہزار سال پہلے کے مقدس باپ کے کسی بیٹے کے بیٹے کے بیٹے کے بیٹے کے بیٹے میں سے نہ ہوتا اور وہ اُس کے حلال بچے جن دیتی ؟ وہ برسوں سے گھر کے پردے، چادریں ، دستاریں، دو پٹے ، سرہانوں کے غلاف اور نجانے کیا کیا دھو رہی تھی ۔ ایسے جان مار کر دھوتی جیسے میل اُن میں نہیں اُس کے اپنے آپ میں ہو، پھر جب تک صحن میں دھوپ تیز رہتی ، تار پر خودکو پھیلائے ٹکی رہتی ۔ جب اُس کا رواں رواں سوکھ جاتا تو گٹھڑی بن جاتی۔
پھر استری گرماتی . ایک ایک سلوٹ پر جب پانی کے ٹھنڈے چھینٹے پھینک، استری رکھتی تو شر شر کرتی آواز اُس کے بدن کو گدگداتی اور ٹکور کی ایک لہر سارے جسم میں سرایت کر جاتی۔ آٹا گوندھتی تو جیسے خود گندھی جارہی ہو، جب پانی کی پھوار سے اسے پتلا کرتی جیسے بھی اس کا اپنا جسم لیوی ہوا کرتا تھا تو فورا گھر کے کسی مرد کی اُدھر آ جانے کی آہٹ سے اور روٹی جلد مانگ لینے کے ڈر سے لیوی کو خشکے میں داب دیتی لیکن جب آنا چمڑا ہو نے لگتا جیسے اب اس کا جسم ہو چکا تھا) تو نجانے کیوں وہ جھنجھلا جاتی اور پانی کے چھینٹے پھینکنے لگتی۔ رفتہ رفتہ سات روٹیوں کا آٹا، چودہ روٹیوں کا اور چودہ روٹیوں کا آٹا اٹھائیس روٹیوں کا ہو جاتا۔ پھر اٹھائیں روٹیوں کا نجانے کتنے سالوں کا … پیشتر اس کے کہ وہ برس برس کے سینکڑوں پیڑے بناتی، وہ چکلے پر لیٹیاں لینے لگتی ۔ پھر تپتے ہوئے توے پر باز و ٹانگیں پھیلائے چت ہو جاتی پھر روٹی پک چلتی تو سب اُسے اپنے کمائے ہوئے رزق حلال کی طرح کڑک کڑک کرتے کھا جاتے۔ پھر برتن نلکے کے نیچے رکھ دیتی۔ پانی کھلا چھوڑ دیتی … ہاتھوں سے بدن کے سبھی نشیب کھر چ کھرچ کر چھوڑے ہوئے سالن کی ساری چکناہٹ دھو ڈالتی۔ اس کے بعد اپنی ساری تکان ، اپنے گھر والوں کے خراٹوں میں بانٹ آتی اور خود ڈیوڑھی میں گرتی دھوپ میں سکھنے کے لیے بیٹھ جاتی۔
تھوڑی دیر میں سفید دوپٹوں میں لپٹی گلی کی چھوٹی چھوٹی بچیاں اُس کے پاس آجاتیں جب وہ اتنی بڑی بی بی ، چھوٹے قد کی بہت سی بیبیوں کو پڑھانے لگتی۔ چھوٹی بیبیاں سفید برفانی چڑیوں کی طرح اپنے مخملیں پروں میں خود کو سمیٹے ، بڑی بی بی کی چونچ سے گرتے ہوئے لفظوں سے دانے چگتی رہتیں اور جب وہ سپارے کھولتیں تو اُسے لگتا جیسے سب کے سروں سے دو پٹے اتر گئے ہیں، وہ اسی شک میں اپنا آپ ٹٹولتی اور اُسے دیکھ کر سب بچیاں بھی اپنے اپنے سروں کو ٹٹول کراطمینان کر لیتیں۔
جب چڑیاں دانے چگ لیتیں اور وہ ددھوپ میں پڑے پڑے سُوکھ جاتی تو فریم میں لگا رو مال اٹھا کر پھول کاڑھنا شروع کر دیتی۔
سارا سال پھول کاڑھتی۔۔۔۔ پیلے نیلے، ہرے موسم ہو نہ ہو۔۔۔۔ بے موسمی پھول جو نہ صرفرومال
بلکہ اُس کی چار پائی ، گھر کے صحن درودیوار سب کو رنگ دیتے، مہکا دیتے رنگ رنگ کے یہ پھول گھر کی چوکھٹ کو جو کبھی اُس نے تو پار نہ کی تھی ،مگر یہ پھول کر جاتے۔ حتی کہ گلی سے ہوتے ہوئے سڑک تک جا پہنچتے ۔ شہر کا ایک ایک چوراہا پھولوں سے سج جاتا۔ شاید یہ اُس کے خوابوں کا موسم ہوتا۔ لیکن جلد ہی اُس کے باپ کے قدموں کی چاپ سوئی کی طرح اُس کی انگلی کی پور میں چبھتی ، وہ چونک جاتی اور اگلے ہی لمحے اپنے خوابوں کے موسم سے لوٹ آتی ۔ پھول سمٹ کر اُس کے بدن میں چھپ جاتے۔
ایسے میں شام کے سائے رگوں میں اترنے لگتے ۔
بدن کے سارے پھول آنکھیں بیچے سو جاتے ۔
اُس کے باپ اور بھائیوں کی آنکھیں اُسے کیتلی میں کھولنے کو کہتیں ۔ اور وہ ایساہی کرتی پھر پیالیوں میں بٹ کر پیش ہو جاتی … سب چسکیاں بھر بھر اُس کا نام ونشان مٹا دیتے اور پھر شام رات کے لحاف میں سر چھپا لیتی۔ وہ دوبارہ طشتری میں آٹے کی طرح ڈھیر ہوجاتی اور اسی طرح دن کی چکی سے گزر، تکان باپ اور بھائیوں کے خراٹوں میں بانٹ اپنے کمرے کی اسی کھڑکی کی سلاخوں میں کھڑی سامنے والی ویران اور کالی سڑک کو آنکھوں میں اتار لیتی
ایک رات یوں بھی ہوا
سارا شہر سو یا پڑا تھا ، بس اُس کی کھڑ کی جاگ رہی تھی، کوئی سایہ کھڑکی کے آس پاس منڈلانے لگا۔ وہ خوف سے کانپ اٹھی ڈرتے ڈرتے بستر سے اٹھی ، قریب تھا کہ بے اختیار ہو کر کسی کو پکارتی
ہو کر کسی کو پکارتی۔
سایه بولا۔
” شی چپ ۔۔۔۔ ایک نسوانی آواز ہانپ رہی تھی ، وہ قدر ے مطمئن ہوگئی۔ ہے۔ایسے لگ رہا تھا ہانپتی کانپتی نسوانی آواز میلوں دوڑ کے آئی ہو مجھ سے ڈرو نہیں۔۔۔۔۔ مجھے پناہ چاہیے.۔۔۔ بس رات کی رات پو پھٹنے سے پہلے ہی چلی جاؤں گی ۔ وہ واقعی اسے اپنے ہی سائے میں چھپا ہوا وجود نظر آ رہا تھا اور اس کی آواز میں اتنی لجاجت تھی کہ وہ انگار نہ کرسکی اور دبے پاؤں گھر کے عقبی راستے سے اُسے اپنے کمرے میں لے آئی..
یہ پہلی بار تھا کہ اتنی رات گئے اُس کے پہلو میں کوئی اور بھی تھا …
پیشتر اس کے کہ صبح تیرگی کی چادر کھینچتی ، اپنے ہی سائے میں چھپی عورت گھر کے
اُسی عقبی راستے سے لوٹ گئی … پتہ نہیں اُسے کہاں جانتا تھا اور وہ کہاں سے آئی تھی ۔ یہ وہجان
نہ سکی۔
اُس صبح وہ دیر تک سرہانے پر سر رکھے لیٹی رہی بستر چھوڑنے کو جی ہی نہ چاہ رہا تھا موسم میں اک عجیب سا نیا پن تھا پہلی پہلی بارش کی پھوار …. دن بھر اس بے نام سی کسک نے اس کے رُو آں رُو آں کو تازہ کیے رکھا۔ شاید اس لیے کہ احساس جرم دُور پار سے بھی گھات لگائے نہ بیٹھا تھا کہ رات کی رات اُس کی ہمبستر تقدس او ناپاکی کے کسی بھی شجر کے شاخسانے میں شمار نہ کی جاسکتی تھی۔
( افسانوی مجموعہ:: کنٹرول:: سے)