راستہ ۔۔۔ ڈاکٹر کوثر جمال
“راستہ”
(مائکرو فکشن)
پچھلی صدی کی بات ہے۔ فارلینڈ کے ایک بڑے شہر میں دسمبر کی سرد رات تھی اور موسم غضب کا طوفانی ۔ چنگھاڑتی ہوئی تند وتیز ہوائیں کشادہ سڑک کے دو رویہ اگے بلند و بالا درختوں کو جھکانے پر تلی ہوئی تھیں۔ ایسے میں وہ سردی سے بچاو کے لیے ٹوپی، مفلر اور اوور کوٹ میں چھپی، مخالف ہواوں سے الجھتی، دو پیڈل آگے اور ایک پیچھے کی رفتار سے سائیکل چلا رہی تھی۔ سرسری دیکھنے سے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ لڑکی ہے یا لڑکا۔ عام دنوں میں وہ سائیکل پر یہ راستہ دس منٹ میں طے کر لیا کرتی تھی۔ لیکن آج اس کا وقت اور سائیکل کے پہیے ہواوں کے رحم و کرم پر تھے۔ تمام تر دقت کے باوجود اس کا حوصلہ البتہ جوان اور دل کسی نوخیز رومانی کیفیت سے سرشار تھا۔ اسے آج رات اپنے ہوسٹل واپس پہنچنا اور کسی سے ملاقات کرنا تھی ۔۔۔۔۔۔
اس سنسان سڑک کے ایک طرف بند کھڑکیوں والی کئی منزلہ رہائشی عمارات تھیں اور دوسری جانب وسیع و عریض میڈیکل یونیورسٹی۔ یونیورسٹی نے اس کا دھیان ایوا کی موت کی طرف موڑ دیا۔ آہ وہ حسین جسم خودکشی کے پھندے میں جھول چکا تھا۔ یونیورسٹی سے ملحقہ ہسپتال کے مردہ خانے میں پڑی ایوا کی سرد لاش کے تصور نے اس کے تمام جسم میں کپکپی اتار دی۔ کیا بس یہی راستہ بچا تھا اس کے لیے؟ ۔۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اسے اپنے عقب میں کسی دوسرے سائیکل سوار کی موجودگی کا احساس ہوا۔ اسے اس خیال سے جھرجھری سی آئی کہ شہر کے اس علاقے میں پچھلے کچھ عرصے سے چوری کی وارداتیں بڑھ گئی تھیں۔ ایک آدھ ریپ کا واقعہ بھی ہوا تھا۔۔۔۔۔ وہ سائیکل لمحہ بہ لمحہ اس کے قریب آرہی تھی۔ اس نے اپنی رفتار تیز کرنا چاہی لیکن ایسا محسوس ہوا جیسے ٹانگوں میں سکت نہیں رہی۔ اس کے آس پاس کا سارا ماحول جو پہلے پراسرار اور رومانی تھا اب ہیبت ناک ہو چکا تھا۔ سڑک پر روشنی نہ ہونے کے برابر تھی۔ آسمان پر چاند تارے کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ سخت سردی کے باوجود خوف کے پسینے میں نہا گئی۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ سائیکل سوار کسی سرشاری کے عالم میں اس کے پاس سے گزرا۔ سائیکل کی پچھلی نشست پر کوئی لڑکی بیٹھی تھی جس نے اپنی بانہیں سائکل سوار کی کمر کے گرد لپیٹ رکھی تھیں۔ یہ کوئی جوڑا تھا، محبت کے نشے میں گم، آس پاس کی دنیا سے قطعی لاتعلق ۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں کسی بات پر کھلکھلا کے ہنسے اور آگے بڑھ گئے۔۔۔۔ مرد کی ہنسی کو چہرہ بننے میں بس ایک ساعت لگی۔ اسی ایک ساعت میں اس کی سائیکل ایک جھٹکے سے ڈگمگائی اور سنبھل گئی، شاید وہ سڑک پر پڑی کسی ٹوٹی ہوئی ٹہنی پر سے گزری تھی۔ ۔۔۔۔۔۔
سڑک کے ایک طرف درختوں کے بیچ ایوا کھڑی مسکرا رہی تھی۔
(کوثر جمال)