
یاسمین ۔۔۔ ڈاکٹر کوثر جمال
یاسمین
ڈاکٹر کوثر جمال
(1)
اکیسویں صدی پالنے میں انگوٹھا چوستی ہے۔
گھر میں ایک سے زیادہ عورتیں ہیں اور دو ملازمائیں، پھر بھی گھر کے کاموں کا پھیلاو کسی کی پکڑ میں نہیں آ رہا۔ نسیماں کپڑے دھونے لگتی ہے تو صبح سے شام کر دیتی ہے۔ اور پھر اونچی تیکھی آواز میں پکارتی ہے:
“یاسمین ۔۔۔۔ کپڑے کوٹھے پر ڈال آو۔” یاسمین اسے منہ بسور کر دیکھتی ہے، جیسے کہہ رہی ہو، یہ کام تو میرا نہیں ہے، نسیماں کے ذرا پیار سے پچکارنے پر وہ چپکے سے نچڑے ہوئے کپڑوں کی ٹوکری اٹھا کر سیڑھیاں چڑھنے لگتی ہے۔
باورچی خانے سے آواز آتی ہے: “یاسمین پیاز چھل گئے ہیں تو لا دو۔ یاسمین کچن سے باہر پیڑھی پر بیٹھی، پیازوں کی جلن سے لگاتار آنسو بہاتی اور پیاز چھیلتی جاتی ہے۔ پیاز چھیلنے اور کاٹنے کے بعد وہ ادرک اور لہسن چھیلے گی، پھر انھیں پیس کر باورچی خانے میں پہنچائے گی، سبزی دھو کر کاٹے گی۔ اور پھر جب کھانا بن جائے گا تو گھر کی کوئی عورت کہے گی، ‘آج ہانڈی میں نے بنائی۔’
کچن میں گندے برتنوں کا ڈھیر پھر سے بننا شروع ہو گیا ہے۔
ایک آواز گونجی:
“یاسمین ابھی ٹی وی روم کی صفائی تو رہتی ہے۔”
یاسمین سب کمروں کی صفائی کرتی ہے۔
“ماما، یاسمین سے کہو نا میرے ساتھ کھیلے۔” دوپہر دو بجے کے بعد حمزہ تواتر سے یہ مطالبہ کرتا ہے۔ ماں اسے کہتی ہے: “جب وہ کام ختم کر لے گی تو پھر تمھارے ساتھ کھیلے گی۔” لیکن ۔۔۔۔ یاسمین کے کام ختم ہوں تو ۔۔۔۔
یاسمین کے مصروف دن میں سے سہ پہر کے ایک دو گھنٹے نکال کر حمزہ کو دیے جاتے ہیں۔ یہ یاسمین کے دن کا بہترین وقت ہے۔ وہ اب ویکیوم کلینر، ڈش واشر، پیلر، چاپر یا کسی اور طرح کی مشین نہیں بلکہ ایک کھلونا ہے، حمزہ کا کھلونا۔
حمزہ اپنے کھلونوں کی بڑی سی ٹوکری اٹھا کے لایا اور ٹی وی روم کے قالین پر کھلونے ڈھیر کر دیے۔ پھر اس نے یاسمین کے ساتھ مل کر قلعہ بنانے کا کام شروع کیا۔ کچھ دیر بعد میرا اتفاقا” وہاں سے گزر ہوا تو ایک شاندار قلعہ دونوں بچے تیار کر چکے تھے۔ فوجی گاڑیاں، ٹرک، توپیں، طیارے اور جانے کیا کیا تباہی کے سامان، اب یہ سب کھلونے ایک ترتیب سے قلعہ کی صورت مجھے بہت کچھ سمجھا رہے تھے۔ حمزہ کے پاس یہ سارے ہتھیار اور فوجی ساز و سامان کے کھلونے کہاں سے آئے۔ پھر مجھے کسی یاد نے شرمسار کیا۔ ابھی پچھلے مہینے کچھ کھلونے تو میں حمزہ کے لیے بدیس سے لے کر آئی تھی۔ میرے اندر کسی نے مجھے ہی تنبیہ کی:
“بچوں کو تم لوگ کس لاپرواہی سے ہتھیاروں کے کھلونے دیتے ہو اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ بچے ان کھلونوں کے ساتھ کھلیتے کھیلتے اور کیا کچھ سیکھ جاتے ہیں۔”
کھیلتے کھیلتے اچانک حمزہ کو یاد آیا کہ یہ تو کارٹون دیکھنے کا وقت ہے۔ وہ اپنے قلعہ کو وہیں چھوڑ ٹی وی آن کرکے صوفے میں دھنس کے بیٹھ گیا۔
“اُف، یہ ٹی وی روم میں تو پاوں رکھنے کی جگہ نہیں رہی۔ ہر طرف کھلونے” حمزہ کی ماہم باجی نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
“یاسمین چلو، کھلونوں کو ٹوکری میں ڈال کے واپس اس کے کمرے میں رکھ کے آو۔”
یاسمین اب پھر حمزہ کا کھلونا نہیں رہی۔ وہ کھلونوں کو واپس ٹوکری میں رکھ رہی ہے۔
دن کا ہنگامہ اب سرد ہو چکا ہے۔ کمروں کی صفائی ہو چکنے کے بعد وہ پھر سے زندگی کے عمل دخل سے گندے ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ کپڑے دھل چکے ہیں۔ الگنی پر ڈالے جا چکے ہیں۔ دوپہر کا کھانا کھایا جا چکا ہے۔ کچن میں جھوٹے برتنوں کا ایک جم غفیر ہے جس میں چائے کی پیالیوں نے مزید اضافہ کر دیا ہے۔ کچن سے پانی کی دھار گرنے اور برتن دھلنے کی آوازوں کے ساتھ ساتھ ایک دلگداز گیت کی دھن سنائی دے رہی ہے۔ میں نے کچن میں پہنچ کر دیکھا کہ یہ یاسمین کی آواز تھی، اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ اپنے زاویے بدل رہی تھی۔
“یاسمین؟” میں نے اسے چونکا دیا۔
“آنٹی آپ؟ ” اس نے استفہامیہ نگاہوں سے مجھے دیکھا۔
“یہ تم کیا گنگنا رہی تھیں؟”
“آنٹی جی یہ گیت میری ماں گایا کرتی ہے۔ مجھے بہت پسند ہے۔۔”
“تو پھر گاو نا، رک کیوں گئیں؟”
“سچ آنٹی جی؟ آپ کتنی اچھی ہیں۔”
میں نے پینے کے لیے ابلے ہوئے ٹھنڈے پانی کی بوتل سے اپنا گلاس بھرا تو یاسمین کو اچانک کچھ یاد آ گیا۔
“آنٹی جی آپ پانی لینے خود کیوں کچن میں آتی ہیں۔ مجھے کہنا تھا میں آپ کو پانی لا دیتی۔”
مجھے تب یاد آیا۔ وقفے وقفے سے گھر کے کونے کھدروں سے یہ آواز آتی رہتی ہے:
“یاسمین، پانی کا ایک گلاس تو لانا۔”
میں نے یاسمین کو بتایا کہ مجھے اپنے سب کام خود کرنے کی عادت ہے۔ میں نے اسے گھر کے وہ تمام کام بتائے جو میں بدیس میں اپنی ملازمت کے علاوہ کرتی ہوں۔ اور جو یہاں ان گھروں کی عورتیں نہیں کرتیں جن گھروں میں یاسمین جیسے بچے کام کرتے ہیں۔
“آنٹی جی آپ مجھے اپنے ملک بلا لیں۔ میں آپ کے سارے کام کر دیا کروں گی۔”
مغربی ملک میں کل وقتی ذاتی نوکر؟ میں نے اسے خاموش مسکراہٹ سے دیکھا اور ایک لمحے میں خود کلامی اور گہری سوچ کی صدیاں مجھ پر سے بیت گئیں۔
“مغربی ملک ۔۔۔۔ وہاں میں تمھیں بھلا کیسے لے جا سکتی ہوں۔ وہاں اگر یاسمین پیدا ہوتی تو سکول جایا کرتی۔ اور اگر اس کے ماں باپ تنگ دست ہوتے، تو حکومت ان کی مدد کرتی۔ وہاں بھی سکولوں کے بچے کام کرتے ہیں لیکن تجربے کی دولت سمیٹنے کے لیے۔ خود سے کمانے اور اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کا چلن سیکھنے کے لیے۔ وہاں کے بچے یہاں کے بچوں جیسے نہیں ہیں۔ یہاں تو امیر والدین کی اولاد کبھی کبھی زندگی بھر کمائی نہیں کرتی اور ماں باپ کی دولت اڑاتی ہے یا پھر ان سے مانگ کر کھاتی ہے۔ اور جو غریب ہیں ان کے بچے کیڑے مکوڑوں کی طرح بڑھتے چلے جاتے ہیں اور ہوش آتے ہی اپنے ماں باپ کو پالنے لگتے ہیں تاکہ وہ اور بچے پیدا کریں اور خوشحال گھرانوں کو ‘آل-اِن-ون’ مشینیں فراہم کریں۔ ۔۔۔۔۔ وہاں میں تمھیں نہیں لیجا سکتی یاسمین۔ وہاں کے معاشرے آزادیوں اور پابندیوں کا نادر تانا بانا ہیں۔ تم وہاں ہوتیں اور تمھارے باپ نے تمھیں چھ مہینوں کی مزدوری کے واسطے فروخت کر دیا ہوتا تو وہ عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہوتا اور تم ریاست کی تحویل میں ۔۔۔۔۔ “
“آپ کیا سوچنے لگیں آنٹی؟”
۔۔۔۔ یاسمین نے مجھے لمحہ موجود سے پکارا۔۔۔۔۔۔
میں پانی کا گلاس لے کر کچن سے باہر آ گئی۔ اور یاسمین اپنی ماں کے گیت کے سرور میں ڈوبی تیز تیز برتن دھونے لگی۔
رات کے کھانے سے پہلے، جب پلیٹوں، گلاسوں اور چمچوں کو دسترخوان پر رکھنے کے لیے اکٹھا کیا جانے لگا تو ایک بار پھر ملا جلا شور اٹھا:
“یاسمین برتن اچھی طرح نہیں دھوتی۔”
“جانے کن خیالوں میں ڈوب کر برتن دھوتی ہے۔ یہ دیکھو، پلیٹ پر جمی چکنائی، یہ دیکھو کانٹے کے اندر جمے ہوئے انڈے کے ذرات۔”
“اور اب تو برتن توڑنے بھی بہت لگی ہے۔”
میں نے یہ آوازیں اپنے آس پاس سنیں تو ایک زہر خند میرے لبوں پر پھیل گیا۔ ٹھیک ہے یاسمین ، اور توڑو برتن۔ غریب گدھے پر جب بہت زیادہ بوجھ لادا جائے گا تو وہ پانی میں بیٹھ کر نمک کی بوری کا بوجھ کم تو کرے گا ہی۔
رات:
زندگی سوپ اوپیرا کے طویل، مجہول، نشہ آور سحر سے نکل کر اپنے اپنے کمروں میں آرام کرنے کو جا چکی ہے۔ اب یاسمین کچھ نیکیاں اور کمائے گی۔ گھر کی خواتین جو دن بھر اس سے اور نسیماں سے لامتناہی کام کرواتے کرواتے تھک چکی تھیں، یاسمین ان کے پاوں اور ٹانگیں اور بازو دبا کر ان کے کام نہ کرنے کی تھکن اتارے گی۔ یہ سب ہوتے ہوتے جب رات ڈوبنے لگے گی تو وہ سٹور روم میں سے لحاف، کمبل اٹھا کر سب کمروں تک پہنچائے گی۔ پھر وہ کمروں میں رات کی چائے کے جھوٹے برتن اٹھا کر کچن میں واپس جائے گی۔ اور ۔۔۔۔ جب رات سو جائے گی تو یاسمین بھی سونے کو چلے گی، بےسدھ ہو کر سونے کے لیے، اُس سپاہی کی شان کے ساتھ جو دن بھر مصروفِ جدل رہا۔ اُس کا تھکن سے چور بدن گہری نیند کا مزہ لوٹے گا۔ پاوں تلے کچلی ہوئی گھاس رات بھر میں نیند کی اوس پی کر، اگلے دن سے کہے گی، دیکھو میں روندھے جانے کے باوجود ابھی سرسبز و شاداب ہوں، کیونکہ میں ۔۔۔۔ بہت سخت جان ہوں۔
(2)
یہ ہفتے کا دن تھا۔ فروری کی طویل بارشوں کے بعد ایک اجلا دن جس میں آتی بہار کی مہک اور کھلے دنوں کا اجالا تھا۔ ہفتہ اور اتوار دونوں دن حمزہ کا سکول بند رہتا ہے۔ اس نے حال ہی میں سکول جانا شروع کیا ہے۔ ۔۔۔۔ اس روز صبح کے دس یا گیارہ کا وقت تھا جب حمزہ اور یاسمین کی لڑائی ہوئی۔ دونوں ایک دوسرے پر جسمانی تشدد کا الزام لگا رہے تھے۔ یاسمین نے مجھے اپنی کلائی دکھائی جس پر حمزہ کے دانتوں کے نشان تھے۔ حمزہ کو اس کی ماں کی طرف سے ہلکی سی ڈانٹ پڑ چکی تھی۔ لیکن جب یاسمین روتی ہوئی اپنی فریاد مجھ تک لے کر آئی تو مجھے شدت سے یاسمین کی تنہائی اور بیچارگی کا احساس ہوا۔ مجھے حمزہ ان والدین کی بگڑی ہوئی اولاد لگا جو اپنے بچوں کو بے پناہ پیار دیتے ہیں اور پھر ان کی زیادتیوں پر ہلکی سی تنبیہ کرکے سمجھتے ہیں کہ انصاف ہو گیا۔ خصوصا” ایسی حالت میں کہ ان کے بچے کی زیادتی کا نشانہ بننے والا گھر کا نوکر ہو۔ اس احساس سے غصہ میرے دماغ کو چڑھ گیا۔ میں نے سوچا کہ حمزہ کی بدترین سزا یہ ہو گی کہ اس سے یاسمین نامی کھلونا چھین لیا جائے۔ تو میں نے تیسری دنیا کے کسی تھانیدار کی طرح حمزہ کو دھمکی دی:
“اب اگر تم یاسمین کے ساتھ کھیلے تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔ آخر تمھارا تعلق کیا ہے اس کے ساتھ؟”
یہ تو معلوم نہیں کہ حمزہ پر اس دھمکی کا کیا اثر ہوا لیکن وہ دم دبا کر وہاں سے چل دیا۔
“اور تم یاسمین ۔۔۔ ” اب میں نے یاسمین کو مخاطب کیا: “اگر حمزہ تم سے دوبارہ کھیلنے کو کہے تو مت کھیلنا اس کے ساتھ۔ “
یاسمین نے اپنے بڑے سے سر کو تائید میں ہلایا۔ اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ حمزہ کو اتنی زبردست ڈانٹ پلائے جانے پر وہ بہت خوش تھی۔
سہ پہر کا وہ وقت جب حمزہ یاسمین کے ساتھ کھیلا کرتا تھا، وہ وقت اس نے کارٹون دیکھ کر خاموشی سے گزارا۔
آج گھر میں کپڑے دھونے کا دن بھر لمبا ہنگامہ بھی نہیں تھا۔ یاسمین کچھ فارغ تھی۔ میں نے اسے اپنے کمرے میں بلایا۔ میرا جی چاہتا تھا کہ اس کی کہانی سنوں۔
اس کی کہانی میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس بار وطنِ عزیز میں گزارے کچھ عرصے میں میں نے اس جیسے بچوں کو اپنے عزیزوں، دوستوں، کامریڈوں، این جی او والے انسان دوستوں کے ہاں کثرت سے دیکھا تھا۔ یہ بچے جو ایک سال یا چھ ماہ کے معاہدے پر خرید لیے جاتے ہیں۔ بچوں کے کھانے، لباس اور رہائش کی ذمہ داری کے علاوہ ان کے والدین کو کچھ ہزار ماہانہ دیے جاتے ہیں۔ بچے فراہم کرنے والے ایجنٹ اپنی سروس کی قیمت علیحدہ وصول کرتے ہیں۔
لیکن جب یاسمین نے اپنی کہانی سنانا شروع کی تو وہ گھریلو کام کرنے والی مشین کی بجائے ایک جیتا جاگتا حقیقی بچہ بن گئی۔ اس کے چہرے پر متضاد کیفیات کے رنگ آنکھ مچولی کھیلنے لگے۔ اس کی آواز احساسات کے زیر و بم سے بھر گئی۔ اس کی باتوں میں ایک بات ایسی تھی جو اس کی یاد میں روزِ اول کی طرح تازہ تھی۔
“وہ شام کا وقت تھا آنٹی۔ اور میرے ابو مجھے کہیں لے کر جا رہے تھے۔ اور میں بار بار پوچھتی تھی کہ آپ مجھے کہاں لے کر جا رہے ہیں ۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔ لیکن میرے ابو چپ تھے۔ اور مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا۔ پھر ہم کھیتوں میں سے گزر کر پکی سڑک پر آ گئے تھے۔ وہاں ایک کار کھڑی تھی۔ ہمیں دیکھ کر وہ جو آدمی تھا نا کار چلانے والا۔ وہ کار میں سے باہر نکلا۔ اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیگم صاحبہ بھی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس آدمی نے کار کا پچھلا دروازہ کھولا تھا۔ میرے ابو نے کہا، بیٹھو۔ میں سمجھی ابو بھی میرے ساتھ جائیں گے، تو میں بیٹھ گئی۔ ابو پیچھے ہٹ گئے اور اس آدمی نے دروازہ بند کر دیا۔ میں رونے لگی تو ابو نے کہا: “روو مت، یہ بہت اچھے لوگ ہیں۔ تمھیں اچھا کھانے کو دیں گے اور ہمیں بھی پیسے دیں گے۔ تمھاری ماں بیمار ہے۔ اس کی دوائی لانی ہے۔ ” ۔۔۔۔۔ پھر ۔۔۔۔ وہ کار چل پڑی۔ ابو پیچھے رہ گئے۔ میں بہت ڈر رہی تھی۔۔۔”
“پھر کیا ہوا؟”
“پھر ۔۔۔۔ ان کے گھر میں بھی میں بہت ڈرتی تھی۔ اتنا بڑا گھر تھا۔ اور وہ دونوں جب کام پر چلے جاتے تھے تو گھر کو باہر سے تالا لگا دیتے تھے اور میں گھر میں اکیلی ہوتی تھی۔ تو ۔۔۔۔ مجھے بہت ڈر لگتا تھا۔ مجھے لگتا تھا اس گھر میں بہت سارے بھوت ہیں۔ میں سارا دن روتی رہتی تھی۔ “
تو یہ تھی یاسمین کے بچپن کی ایک یاد ۔۔۔۔ تنہائی اور بھوتوں کے خوف سے سہما ہوا بچپن ۔۔۔۔ بچپن جسے ہم اور آپ “حسین” کہتے ہیں۔
لیکن اس وقت جو یاسمین میرے سامنے تھی اسے اپنی موجودہ زندگی کو جینا آ چکا تھا۔ کیونکہ وہ زیادہ تر وقت چہکتی رہتی تھی۔ گانے گنگناتی۔ ٹی وی شوق سے دیکھتی اور ہر وقت کام اور خدمت کرنے پر تیار رہتی۔ وہ اس سانچے میں ڈھل چکی تھی جو اس کے والدین، معاشرے اور ریاست نے مل جل کر اس کے لیے تیار کیا تھا۔
سہ پہر ڈھلنے کو تھی۔ صحن میں لگے آم کے ایک بڑے درخت پر چڑیوں نےغضب کا شور مچا رکھا تھا۔ میں آم کے ان پتوں کو تشویش سے دیکھنے لگی جو منہ سڑی کی بیماری کی وجہ سے سیاہ پڑ چکے تھے۔ اچانک کسی نے پیچھے سے آ کر میری کمر کے گرد اپنی بانہیں حمائل کر دیں۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔ یہ یاسمین تھی۔ میں اس کی بے تکلفی پر حیران ہوئی تو اس نے میرے چہرے کو فورا” پڑھ لیا:
“سوری آنٹی، آپ پیچھے سے بالکل میری امی کی طرح لگتی ہیں۔ مجھے لگا میری امی ہیں۔”
یاسمین ابھی اچھی طرح اپنی ماں سے مل بھی نہ پائی تھی کہ میں نے پیچھے مڑ کر اس کا حسین واہمہ توڑ دیا تھا۔ میں نے ایک نرم ہاتھ اس کے سر پر رکھا۔ بس یہی تھا جو میں اسے دے سکتی تھی۔
شام کے سائے طویل ہو رہے تھے۔ گھر میں بتیاں روشن ہوئیں۔ میں نے آج کے اخبار کو پڑھنے کے لیے اٹھایا۔ تازہ اخبار میں اب ایسا کچھ نہیں ہوتا کہ اسے صبح صبح شوق سے پڑھا جائے۔ پہلا صفحہ ہمیشہ کی طرح ان خبروں سے بھرا ہوتا ہے جنھیں “خبر” ہونا ہی نہیں چاہیے۔ حکومتیں اپنی کارکردگیوں سے متعلق کتنا جھوٹ بولتی ہیں۔ دوسرا صفحہ مصلحت آمیز اداریے کے علاوہ کچھ چیختے، بلبلاتے یا مکھن لگاتے کالموں کا صفحہ ہے۔ یہ سب بھی محض ایک تکرارِ مسلسل ہے اور بس ۔۔۔۔ تیسرے صفحے کا ایک چوتھائی حصہ ایک اشتہار نے سیاہ کر رکھا ہے۔ “بچوں کو بچاو” نامی غیر سرکاری تنظیم کو کچھ ماہرین اور ورکرز کی ضرورت ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بے پناہ کام کرتے ہیں۔ اف اتنا بڑا اشتہار ۔۔۔۔ کتنا پیسہ ہے ان کے پاس ۔۔۔ رپورٹیں، تجزیے، سیمینار، بچوں کو بچانے کے منصوبے۔ یہ کن بچوں کو بچا رہے ہیں؟
اور ایک بچہ جو صبح سے خاموش تھا۔ میرے عین سامنے آ کر للکارا:
“میرا اور یاسمین کا تعلق ہے۔” حمزہ نے میرے سامنے جیسے کوئی اہم اعلان کیا۔
میں نے اخبار سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا۔ وہ سنجیدہ بلکہ جنگجوانہ انداز سے دونوں ہاتھ اپنی کمر پر رکھے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا تھا۔ تو گویا موصوف نے یہ تمام دن لفظ “تعلق” کی باریکیاں سمجھنے میں گزار دیا تھا۔ اور اب وہ مجھے میرے صبح کے سوال کا جواب دے رہا تھا۔
“میرا اور یاسمین کا تعلق ہے۔ اور وہ یہ کہ میں نے اس سے پانی مانگا تو اس نے مجھے پانی لا کر دیا۔”
حمزہ نے اچھی طرح ایک ایک لفظ پر زور دے کر مجھے اپنے اور یاسمین کے تعلق کی نوعیت سمجھانے کی کوشش کی۔ میں نے دیکھا کہ یاسمین پانی کا گلاس پکڑے کمرے کے دروازے پر چور سی بنی کھڑی تھی۔
میں نے اس صورتحال میں موجود مضحکہ خیزی پر اپنی ہنسی کو دباتے ہوئے اسے کہا:
“تو پھر؟”
“تو پھر یہ کہ وہ میرے ساتھ اب کھیلے گی۔” حمزہ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔ قریب کھڑی یاسمین کی آنکھیں میری اجازت کی منتظر تھیں۔
“ٹھیک ہے کھیلو، لیکن یاسمین پر اپنا ہاتھ نہ اٹھانا۔” میں نے انھیں کھیلنے کی اجازت دیتے ہوئے کہا۔
دونوں بچے باہم کھیلنے پر لگائی گئی ایک روزہ پابندی کے ختم ہونے سے بے پناہ خوش ہوئے۔
اب وہ کھیل رہے ہیں۔ وہ صرف بچے ہیں۔ بچے جو کھیل سے حد درجہ پیار کرتے ہیں۔ بچے جنھیں ہم جولیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچے جو باہمی رنجشیں جلد ہی بھول جاتے ہیں۔ ۔۔۔۔ تعلق؟ ۔۔۔۔ بچوں کو اس لفظ سے کیا لینا دینا۔ یہ تو ہم بڑوں کا مسئلہ ہے۔
لیکن زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ یاسمین کو ایک اور بے رحم حقیقت کا سامنا کرنا پڑا۔ حمزہ کے دوست سچل اور ماریہ اپنے نئے جوگرز پہنے دھپ دھپ کرتے گھر میں داخل ہوئے۔ حمزہ چشمِ زدن میں کسی بے کار کھلونے کی طرح یاسمین کو بھول گیا۔ اس کے کھیل کے ساتھی اب بدل چکے تھے۔ اسے اب یاسمین کی قطعا” کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یاسمین دروازے کی چوکھٹ میں کھڑی ایک حسرت ناک تصویر کی مانند تینوں بچوں کو کھیلتے دیکھتی رہی۔ پھر یہ تصویر چوکھٹ کے فریم سے نکل کر کہیں دور چلی گئی۔ کہاں؟ ۔۔۔۔۔ یہ گھر زیادہ بڑا نہیں ہے۔ یاسمین یہیں کہیں ہو گی۔ ہاں وہ قریب ہی ہے۔ خالی اور ٹھنڈے ڈرائنگ روم کے قالین پر لیٹی وہ اپنی ماں کا گیت گنگنا رہی ہے۔ اس کی ساری توانائی اور زندگی کی حرارت شاید اسی گیت میں ہے۔
(3) تین برس بعد جب میں نے دوبارہ وطن کا سفر کیا تو اس گھر کے حالات تقریبا” ویسے ہی تھے۔ البتہ یاسمین کچھ بدلی بدلی سی تھی۔ دراصل وہ یاسمین نہیں شاہین تھی، یاسمین کی چھوٹی بہن۔ گھر والے شاہین سے بہت تنگ تھے۔ ان کے بقول وہ ڈھیٹ اور کام چور تھی اور موقع غنیمت جان کر کبھی کبھی حمزہ کی پٹائی بھی کر دیتی تھی۔ جواب میں اس پر بھی کسی نہ کسی بڑے کا ہاتھ اٹھ جاتا تھا لیکن شاہین ایسی درگت کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ اس سب کے باوجود وہ شاہین کے ساتھ گزارا کر رہے تھے کیونکہ وہ انھیں کم اجرت پر دستیاب تھی۔ میرے پوچھنے پر مجھے بتایا گیا کہ یاسمین کی پچھلے برس جنوری میں اس کے والدین نے شادی کر دی تھی۔ اب تو وہ ایک بیٹی کی ماں بھی بن چکی تھی۔ پندرہ برس کی ماں ۔۔۔۔ میں نے اپنے تصور میں پرانی یاسمین کو دیکھنا چاہا تو میرے ذہن کے کمپیوٹر نے اس کی کتنی ہی ڈوپلیکیٹس تیار کر دیں۔