سانس لیتی شال ۔۔۔ کوثر جمال

سانس لیتی شال

کوثر جمال

تھکن سے چور، ایک لمبے سفر کے بعد جب میں اور جاوید اپنے گھر واپس پہنچے تو ہماری زنگی بھر کے صبر و انتظار کا پھل نور کی صورت میں ہماری گود میں تھا۔ شادی کے بائیس برس بعد ہماری اپنی بیٹی ہماری زندگی کو مکمل کرنے، ہماری تنہائیوں کو بانٹنے آ چکی تھی۔ گھر جب پہنچے تو اس وقت نور اپنی باسکٹ میں سو رہی تھی اور اسے جاوید نے اٹھا رکھا تھا۔ گھر پہنچتے ہی میں نے اپنا ہینڈ کیری لاؤنج میں رکھا اور سیدھی باتھ روم چلی گئی۔ واپس آئی تو دیکھا کہ جاوید نے نور کو لاؤنج کے صوفے پر گہرے براؤن رنگ کی گرم شال میں لپیٹ کر لٹا دیا تھا۔ یہ شال اس صوفے ہی پر عموما” رکھی رہتی تھی اور لاؤنج میں صوفے پر لیٹ کر ٹی وی دیکھتے ہوئے میں سردی کی صورت میں اسے اپنے اوپر اوڑھ لیا کرتی تھی۔ لیکن آج ننھی نور کو پہلی بار گھر پہنچنے کے بعد اس شال میں لپٹا دیکھ کر میری عجیب سی کیفیت ہو گئی۔ یادوں کا منہ زور ریلہ مجھے سمے کی لہروں پر بہاتا ہوا کہیں سے کہیں لے گیا۔
۔۔۔۔۔ عشروں پہلے، زندگی میں سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا گھر کے تمام افراد کے زندہ سلامت ہونے کی صورت میں ہوتا ہے۔ یعنی میرا بچپن باپ کی چھایا اور ماں کی ممتا سے آباد تھا۔ میں تب سکول کی کسی جماعت میں پڑھتی تھی۔ ابا جی روز شام کو جب دفتر سے گھر آتے تو ان کے ہاتھ میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا۔ گھر کا سودا سلف ، تازہ پھل یا کھانے پینے کی کوئی نہ کوئی مزیدار چیز۔۔۔ شاید اسی لیے ہم بہن بھائی شام کو ان کی واپسی کا بےچینی سے انتظار کیا کرتے۔۔۔۔۔ وہ سرما کی کوئی سرد شام تھی۔ اس روز بھی جب وہ گھر میں آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک پیکٹ تھا اور آنکھوں میں وہ مخصوص مسکراہٹ جو اس وقت دکھائی دیتی جب ان کا دل سچ مچ کسی بات پر خوش ہوتا۔ یہ ان کی دلی مسرت کے اظہار کا ایک خاص انداز تھا۔۔۔۔۔ ’’یہ کیا ہے؟‘‘ ۔۔۔۔ ماں نے پوچھا تو ابا جی کہنے لگے کہ کھول کے دیکھ لو۔ ماں نے پیکٹ کھولا۔ یہ گہرے براؤن رنگ کی بڑی سی اونی شال تھی۔ ماں نے پھر پوچھا کہ یہ کس کے لیے ہے؟ تو ابا جی کی مسکراتی آنکھوں نے بتایا کہ تمھارے لیے۔ یہ سن کر امی جان کا چہرہ کچھ اتر سا گیا۔ کہنے لگیں، آپ کو بس یہی رنگ ملا؟ ۔۔۔۔ امی کی یہ بات سن کر ابا جی کچھ بجھ سے گئے پھر کہنے لگے، ’’تم نے صرف رنگ دیکھا، یہ بھی تو دیکھو خالص اون کی یہ کشمیری شال کتنی اعلیٰ ہے۔ بڑی محنت سے میں نے تمھارے لیے کشمیر سے منگوائی ہے۔‘‘ امی یہ سن کر چپ ہو رہیں۔۔۔۔۔ بعد میں یہ شال بھی امی کی قیمتی اشیأ کے صندوق میں محفوظ ہو گئی اور کبھی کبھار کسی خاص موقع پر ہی وہ اسے استعمال کرتیں۔ ۔۔۔۔ برسوں بعد ابا جی کے انتقال کے بعد میں نے محسوس کیا کہ امی اب یہ شال باقاعدگی سے استعمال کرنے لگی تھیں۔۔۔۔ چند برس اور گزرے تو امی بھی اس فانی دنیا کو خیر باد کہہ گئیں۔۔۔۔ ان کی وفات کے بعد جب میں آسٹریلیا سے واپس پاکستان گئی تو مجھے اپنا آبائی گھر پہلی بار اجنبی سا لگا۔ میں بے سکون سی گھر بھر میں گھومتی، ابا کے کمرے میں جاتی کبھی امی کی چارپائی پر لیٹتی لیکن اپنا آپ خلا میں ڈولتا محسوس ہوتا۔ ۔۔۔ ایک روز بھابیوں نے امی کی قیمتی اشیأ کا صندوق میرے سامنے رکھا اور کہا ان کی جو چیزیں مجھے پسند ہیں وہ لے لوں۔ صندوق میں رکھی ہر چیز میں سے امی کی مخصوص مہک اٹھ رہی تھی۔ لیکن ایک چیز ایسی بھی تھی جس میں امی اور ابا جی دونوں موجود تھے، یہ وہی گہرے براؤن رنگ کی کشمیری شال تھی۔ میں نے بس اسی کا انتخاب کیا اور اسے آسٹریلیا اپنے ساتھ لے آئی۔ بعد ازاں وہ شال گویا میرے لیے امی ابو کی محبت کا استعارہ بن گئی۔ وہ مستقل اس صوفے پر پڑی رہتی جس پر لیٹ کر ٹی وی دیکھنا یا کوئی کتاب پڑھنا میرا پسندیدہ معمول تھا۔ مجھے ذرا سردی محسوس ہوتی تو شال کو اوڑھ لیتی اور بیک وقت مامتا کی گرمی اور باپ کی شفقت کے حصار میں خود کو محفوظ محسوس کرتی۔
۔۔۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا۔ شال کی عمر بھی ہماری عمروں کی طرح بڑھتی رہی۔ نور جب پیدا ہوئی تو امی کے لیے ابا کی لائی یہ شال چالیس برس پرانی ہو چکی تھی۔ لیکن یہ ایسے اچھے مٹیریل سے بنی تھی کہ اس کی شان میں کوئی خاص فرق نہیں آیا تھا۔ کئی دھلائیوں کے بعد یہ کچھ سکڑ کر اتنی رہ گئی تھی کہ جب جاوید نے گھر میں داخل ہونے کے بعد نور کو اس میں لپیٹا تو یوں لگا جیسے نور کے لیے ہی یہ سکڑ کر مختصر ہوئی تھی۔ ۔۔۔۔ میں یادوں اور احساسات کے مدو جزر میں گھری نور کو دیکھ رہی تھی۔ چہرہ جانے کب میرے خاموش آنسوؤں نے تر کیا تھا۔ مجھے نور شال میں نہیں بلکہ اپنے نانا نانی کی گود میں لیٹی محسوس ہوئی۔ مجھے لگا ابا جی نے اسی روز کے لیے یہ شال خرید کر امی کو دی تھی۔ شاید اسی شال کی مدد سے انھوں نے اپنی اکلوتی بیٹی کی اکلوتی اولاد کو اپنی آغوش میں لینا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اب نور چار سال ہو چکی ہے۔ عجیب بات ہے اکثر وہ لاؤنج کے کارپٹ پر لیٹ کر یہ شال اپنے اوپر اوڑھ لیتی ہے۔۔۔۔۔ کچھ بے جان اشیأ کتنی زندہ ہوتی ہیں !!!!

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031