موت کا نیا رنگ ۔۔۔ خالد فتح محمد

موت کا نیا رنگ

( خالد فتح محمد )
رات بہت ٹھنڈی اور تاریک تھی۔ تاریک شاید اسے لیے تھی کہ وہ آنکھیں بند کیے لیٹا ہوا تھا اور ٹھنڈی اس لیے کہ اسے اگلے ہی موڑ پر اپنی موت نظر آرہی تھی۔ وہ ایک طویل عرصے سے بیمار تھا۔ وہ ہمیشہ یہی سوچا کرتا کہ بیماری کاروگ لگنے کے بجائے وہ مر جائے تو بہتر ہوگا۔ قسمت نے س کی یہ سوچ پوری نا کی اور اسے موت کی بجائے بیماری دے دی۔

اب وہ ایک عرصے سے بیمار تھا اور اس ضد میں کہ مرے گا نہیں!

اس کا گھر شہر کے آخری کونے یا ایک طرف سے آغاز میں تھا۔ گھر کے بعد یا اس سے پہلے ہر سو ایک وسعت تھی جس کا اسے تب کوئی اندازہ نہیں تھا۔ یہ وسعت گھر کے باہر سے ہوتی ہوئی ناصرف اس کے آنگن تک سکڑی ہوئی تھی بلکہ اس کے کمزور سے جسم کے اندر بھی ایک طاقت کی طرح گھر کئے ہوئے تھی۔ وہ یہی وسعت اپنے اندر کی کسی کوٹھری میں چھپائے بڑا ہوا تھا۔ یہ وسعت صرف اس کے اپنے اندر ہی محسوس ہوتی تھی اور جب وہ اسے اوروں میں دیکھنے کی کوشش کرتا تو تنگ نظری ہی نظر آتی۔ وہ اپنے گھر میں ایک مصروف زندگی گزارتا آرہا تھا کہ بیماری نے اسے آن دبوچا۔ وہ ہسپتال میں لیٹا ہوا تھا اور اس کے جسم پر کئی ٹوٹیاں اور تار لگے ہوئے تھے جنہوں نے سرہانے پڑی سکرین کو روشن رکھا ہوا تھا۔ وارڈ میں آٹھ گھنٹوں کی شفٹ میں تین نرسیں کام کرتی تھیں۔ وہ رات کو بارہ سے آٹھ تک والی نرس کو نہیں دیکھ پاتا تھا، اگرچہ اسے خواب آور دوا یا ٹیکہ تو نہیں لگتا تھا لیکن اس کی ڈیوٹی شروع ہونے سے پہلے ہی وہ سو جاتا تھا۔ ان نرسوں کے کام کے اوقات تو تبدیل ہوتے رہتے تھے لیکن اس نے ہررات آخری شفٹ والی نرس نہیں دیکھی تھی۔

اس نے سوچا کہ وہ اب انتالیس برس کا ہوگیا ہے۔ بظاہر یہ ایسی عمر ہے جس میں انسان بزرگی میں پاؤں رکھتا ہے لیکن جب وقت کے جسم پر نظر ڈالی جائے تو یہ ایک گود میں کھیلنے والے بچے کی عمر لگتی ہے۔ وقت کی اکائیوں میں تو اس نے ابھی رینگنا بھی شروع نہیں کیا تھا۔ شاید اسی لیے اس کی شادی نہیں ہوئی تھی کیوں کہ وہ اپنے گھر میں سب سے چھوٹا تھا اور کسی نے اس کی شادی کروانے کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا۔ جب اس کی شادی کے بارے میں سوچنا شروع کیا جانے لگا تو لڑکی والے اس کی عمر بیچ میں لے آتے۔ اپنی عمر کو کسی متنازع مسئلے کی طرح گھسیٹا جانا اسے پسند نہیں آیا اور اس کے ذہن میں ایسی اہم شخصیت آگئی جس کی عمر کم و بیش اَسی کے پیٹے میں تھی اور اس نے سترہ یا اٹھارہ برس کی لڑکی سے شادی کی تھی۔ جس لڑکی کے لیے اس کا رشتہ آیا تھا تب اس لڑکی کی عمر بیس سال تھی اور خود اس کی اپنی اکتیس برس۔ تب اس نے مایوس ہو کر شادی نا کرنے کا فیصلہ کرلیاتھا۔

اب وہ انتالیس برس کا تھا اور اس کی زندگی کی ڈوری ڈاکٹروں کے ہاتھ میں تھی۔ وہ مرنا نہیں چاہتا تھا لیکن اسے یہ خیال بھی آتا کہ وہ زندہ کس کے لیے رہے؟ اس کے برے بھائی اور بہن اسے زندگی میں بے سہارا چھوڑ کر دوسرے جہان میں جا چکے تھے اور وہ تنہائی کے دوزخ کی آگ میں جلتے ہوئے ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں پہنچ گیا تھا۔

وہ بچپن سے ہی کمزور رہا تھا۔ میٹرک تک اس کا ناک بہتا رہا جس کی وجہ سے اس کا کوئی دوست نہیں تھا۔ ناک سے بہتے نیلے سے مواد کی وجہ سے اس کے ہم جماعتوں کو گھن آتی اور وہ اس کی صحبت سے گریز کرتے۔ ہم جماعتوں کے اس گریز کی وجہ سے وہ بالکل اکیلا ہو گیا اور ایک وقت آیا کہ اسے اپنے اس اکیلے پن میں لطف آنے لگا۔ وہ کسی بینچ پر گھنٹوں اکیلے بیٹھا رہتا اور اسے اپنے اکیلے ہونے کا احساس ہی نہ ہوتا۔ وہ بینچ پر بیٹھا کسی تصوراتی دنیا میں کھو جاتا جہاں حقیقت نام کی کسی چیز کا گزر نہیں تھا۔ یہ ایک ایسی فنٹسی تھی جس میں سے وہ باہر نہیں آنا چاہتا تھا۔ وہ اپنے گرد خواب بنتا رہتا یا خواب ایک مکڑی کی طرح تھے جنہوں نے اسے اپنے جالے میں پھنسا دیا تھا۔ وہ ایک ایسی لذت سے ہمکنار تھا جس کی ساجھے داری وہ کسی سے نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ اپنے آپ کو اس زندگی کے خارزار میں برہنہ تن محسوس کرتا تھا اور اسے لگتا کہ یہ تنہائی ہی اس کا زرہ بکتر ہے۔ تنہائی آکاس بیل کی طرح اس کی آکسیجن ختم کرتے ہوئے اسے گھن کی طرح کھائے جارہی تھی اور ایک دن اسے اچانک محسوس ہوا کہ اسے علاج کی ضرورت ہے۔ ڈاڑھی بناتے ہوئے اسے اپنی آنکھیں زرد، ان کے نیچے حلقے اور گال پچکے ہوئے لگے۔ اسے لگا کہ چہرہ گوارا صورت ہوتے ہوتے بدشکل نظر آنے لگا تھا۔ تمام بیمار لوگوں کی طرح اسے اپنی بقا صحت میں نظر آئی اور اس نے صحت مندرہنے کے لیے اپنا علاج کرانے کا فیصلہ کر کے ایک کم جانے جانے والے لیکن مہنگے پرائیویٹ ہسپتال میں داخلہ لے لیا۔ اس کے خون، پیشاب، چھاتی، دماغ، دل اور گردوں کے متعدد مہنگے ٹیسٹ کروائے۔ اسے ایک کمرہ الاٹ کر دیا گیا جسے اس کی خواب گاہ کی طرح آرام دہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ اسے ان ٹیسٹوں کے متعلق کچھ بتایا نہیں گیا اور وہ جب بھی جاننا چاہتا تو اسے بتایا جاتا علاج شروع کر دیا گیا ہے۔

جس نرس کی پچھلے ہفتے رات کی ڈیوٹی تھی اب وہاں صبح کے وقت وہ اس کے پاس موجود تھی۔ اس پر ڈیوٹی دینے والی باقی دونوں نرسیں زیادہ خوش شکل تھیں لیکن اس نرس کے چہرے کے نمک اور آنکھوں کی چمک میں ایسی کشش تھی جو اسے ہمیشہ اپنی طرف متوجہ رکھتی۔ وہ اس کے بیڈ کے سامنے سٹینڈ پر پڑی فائلوں پر کہنیاں رکھے کھڑی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔

’’عابد صاحب! آپ نے کئی دنوں سے شیو نہیں کی؟‘‘ نرس کی نرم آواز میں پیشہ وارانہ غصہ تھا۔ اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر گالوں پر کانٹوں کو محسوس کیا۔ نرس اسے غور سے دیکھتی رہی تھی جسے اس نے بھی محسوس کیا۔ ’’میں ابھی باربر کو بلاتی ہوں جو آپ کی ڈاڑھی کو شیو کردے گا‘‘۔ اسے کچھ ندامت سی بھی ہوئی کہ صبح جب اس نے دانت صاف کئے تو اپنی ڈاڑھی کو نہیں دیکھا۔ نرس اسی وقت باہر چلی گئی اور وہ خالی ذہن سے سامنے دیکھتا رہا۔ اسے اچانک محسوس ہوا کہ وہ اپنا ہی قیدی ہے اور جب تک ہسپتال سے نا نکلے رہائی حاصل نہیں کر سکتا۔ نرس حجام کے ساتھ جب آئی تو اسے نرس کا جارحانہ اور اپنا دفاعی رویہ پسند نہیں آیا۔ اس نے حجام کو گول آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا جہاں ڈاڑھی کے سفید اور کالے بال چہرے کا تاثر بنائے ہوئے تھے۔ حجام نے اس کا چہرہ گیلا کرکے فوم لگانا شروع کی تو اس نے نرس کے ساتھ فلرٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔

’’نرس! اگر میں مونچھیں نا منڈوائوں تو؟‘‘ اسے فوراً اپنے سوال کے سطحی پن کا احساس ہوا لیکن اب وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔وہ نظر بچاتے ہوئے نرس کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔ وہ جانتا تھا کہ اس پر مامور نرسوں میں یہ سب سے زیادہ منہ پھٹ تھی اور اسے کسی ایسے ہی جواب کی توقع تھی۔ وہ اپنے پیشہ ورانہ علم اور منطق سے اسے ہمیشہ شرمندہ سا کر دیا کرتی تھی اور اس نے ایسی کسی شرمندگی سے بچنے کے لیے خود کو تیار کیا ہوا تھا۔ اس نے ایک بے تاثر سے چہرے کے ساتھ نرس کو دیکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسے لگا کہ وہ اپنے کردار کو کسی حدتک کامیابی سے نبھا بھی رہا ہے۔

            ’’دیکھو!‘‘ نرس نے حجام کو مخاطب کیا۔ ’’مونچھیں مت صاف کرنا‘‘۔ نرس نے عام قسم کی زبان استعمال کی۔ حجام نے فوم لگا کر ڈاڑھی مونڈی تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے روک کر نرس کی طرف دیکھا جو غور سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ پھر اس نے مسکراتے ہوئے نرس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے با ت کی، ’’نیچے کی طرف سے مونچھیں سیدھی کر دو‘‘۔ حجام نے قینچی اور استرے کی مدد سے مونچھیں ہموار اور سیدھی کرنے کے بعد اپنا جھولا اٹھایا اور چلا گیا۔

’’ْ مسٹر عابد!‘‘ اس نے چہرے اور مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سوالیہ نظر سے نرس کی طرف دیکھا۔ وہ نرس کے لہجے سے تھوڑا سا پریشان ہوا کیوں کہ اس کی آواز میں معمول کی پیشہ وارانہ کاٹ کے علاوہ اپنایت کا عکس تھا۔ ’’مسٹر عابد!‘‘ اس نے دہرایا۔ وہ ہر قسم کا خیال ذہن سے نکال کر تمام توجہ سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ ’’یہ ایک ہائی پروفائل سیٹ اپ ہے جس کے ہر ملازم کو متعدد سبز باغ دکھا کر ملازم رکھا ہوا ہے۔ وہ اپنے حلف کے تحت ہسپتال کے معاملات کسی کو بتا نہیں سکتے ہیں۔ آپ یہاں داخل ہونے والے مریضوں سے کافی حد تک مختلف ہیں اس لیے میں آپ کو سچ کی تلخی سے متعارف کروانا چاہتی ہوں‘‘۔ عابد نے گھبرا کر نظر اس کے چہرے سے ہٹا کر باہر دیکھنا شروع کر دیا۔ ’’یہاں صحت مند مریضوں کو بیماری کا جھانسا دے کر صحت مند تو رکھا جاتا ہے لیکن اس کی جیبیں خالی کر دی جاتی ہیں۔ مریضوں نے زندہ رہنے کے لیے ان کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلنا ہوتا ہے۔ یہ مریض کو بیماری کبھی نہیں بتائیں گے اس لیے کہ اسے کوئی عارضہ ہوتا ہی نہیں۔ آپ مکمل طور پر صحت مند ہیں لیکن یہ آپ کو کبھی ڈسچارج نہیں کریں گے اور آپ علاج کراتے کراتے کسی لاعلاج مرض میں مبتلا ہو جائیںگے۔ یہاں سے جانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ انہیں بتادیں کے آپ جانا چاہتے ہیں۔ وہ آپ سے کچھ کاغذوں پر دستخط لیں گے۔ جن میں میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں اور آپ بیمار ہونے سے پہلے ہی یہاں سے چلے جائیں گے‘‘۔ نرس اس کے ردعمل کے لیے خاموش ہو گئی۔ وہ زندگی میں سیکھ چکا تھا کہ کبھی کسی پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ وہ خاموش اسے ہی دیکھتا رہا۔ ’’میں آپ کے انچارج ڈاکٹر کو مطلع کرتی ہوں کہ آپ جانا چاہتے ہیں‘‘۔

وہ حیرت زدہ، تھوڑا سامنہ کھولے اسے دیکھتا رہا۔ اسے ہسپتال میں آنے کے بعد اپنے گرد بھاری زنجیروں کا احساس ہوتا تھا لیکن اب اچانک اسے یہ زنجیریں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ وہ آزادی کی طرف جارہا تھا۔ ’’آپ ایک مہینہ یہاں رہے ہیں اور آپ کا ذہنی توازن وہ نہیں جو ایک ماہ پہلے تھا۔ سو آپ جائیں اور آزاد اور صحت مند رندگی گزاریں‘‘۔

اسے وہاں لیٹے ہوئے عجیب سی بے بسی کا احساس ہوا۔ وہ مریض ہوتے ہوئے بھی مریض نہیں تھا اور صحت مند ہونے کے باوجود صحت مند نہیں تھا۔ اسے اچانک اس قلعہ نما چار دیواری میں اپنا دم گھٹتے ہوئے لگا اور ان فصیلوں کے باہر سے اسے اپنے لیے بلاوے آتے محسوس ہوئے۔

’’میں ابھی جا کر متعلقہ ڈاکٹر کو بھیجتی ہوں‘‘۔ نرس نے اس کے جواب کا انتظار نہیں کیا۔ اس نے سوچا کہ کیا وہ کسی اور دھوکے کا شکار تو نہیں ہورہا؟ اگر نرس اسے رہائی دلانا چاہتی ہے تو اسے کیا اعتراض ہو سکتا ہے اور اگر وہ یہاں سے جا کے کسی نئے جیل میں بند ہو جانا چاہتا ہے تو شاید دونوں جیلوں کے درمیان میں کوئی کھڑکی ہو جہاں سے اسے مختصر سے عرصے کے لیے ہی سہی، تازہ ہوا اور روشنی توآسکیں گی۔ اس نے نئے جیل میں منتقل ہونے کا فیصلہ کر لیا!

نرس قدرے بھاری ڈاکٹر کے ساتھ آئی جسے اس نے پہلے دیکھا ہوا تھا۔ وہ جب ہسپتال میں داخل ہونے آیا تھا تو اسی ڈاکٹر کے ساتھ معاملات طے ہوئے تھے۔ اس ڈاکٹر کو دیکھتے ہی اسے خوف سے بھری جھرجھری آئی جو پہلی ملاقات میں بھی آئی تھی۔ اسے یہ ڈاکٹر اپنی دادای کی سنائی ہوئی ایک کہانی کے اس سانپ کی طرح بھیانک لگا تھا جس کے ذمے خزانے کی رکھوالی تھی۔

’’آپ جانا چاہتے ہیں؟‘‘ ڈاکٹر نے نرس کی طرف دیکھتے ہوئے اس سے پوچھا۔

’’جی ہاں‘‘۔ اس نے قدرے جھجکتے ہوئے جواب دیا۔ وہ ڈاکٹر کے ہسپتال چھوڑنے کی وجہ جاننے سے تھوڑا سا خائف تھا۔ وہ جب داخل ہونے آیا تھا توبھی ڈاکٹر نے کافی سوال پوچھے تھے۔ اس نے بھی اپنا اعتماد بحال کرنے کے لیے نرس کی طرف دیکھا جو لاتعلقی سے دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ وہ چاہتے ہوئے بھی نرس کو اپنی تائید کے لیے نہیں کہہ سکتا تھا۔

’’ٹھیک! اس صورت میں آپ کو چند ایک سرٹیفکیٹوں پر دستخط کرنے ہوں گے‘‘۔ اس نے حکم دینے کے انداز میں نرس کی طرف دیکھا اور کمرے سے چلا گیا۔نرس نے فائلوں کو اٹھایا، ایک نظر کمرے کو دیکھا اور اس کے پاس کھڑی ہوگئی۔

’’آپ یہاں سے جانے کے بارے میں سوچیں۔ آپ زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ یہاں رہیں گے‘‘۔ نرس نے پیشہ وارانہ حکم دیا۔ ’’آپ کا سارا سامان حوالے کر دیا جائے گا۔ اس کی لسٹ بنی ہوئی ہے‘‘۔ عابدنے جواب نہیں دیا۔ اس کی زندگی ایک مکمل ترتیب کے احاطے میں تھی، اسے یہ ہسپتال بھی اپنے قوانین کا ماتحت لگا گونرس نے انہیں دبے الفاظ میں پیدا گیر کہا تھا۔ ’’میں وہ سرٹیفکیٹ لاتی ہوں تھوڑی دیر میں‘‘۔ جواب کا انتظار کئے بغیر وہ چلی گئی۔

اسے قدرے پریشانی بھی لاحق ہوئی۔ گو یہاں کا ایک ماہ کافی مہنگا تھا لیکن اس کے شب و روز کسی الجھن کے بغیر گزرے۔ گھر میں اس کی زندگی پر کئی عوامل اپنا اثر ڈالتے تھے۔ سب سے پہلے تو گھر بذات خود ایسا آسیب تھا جو ہر وقت اسے خوف زدہ رکھتا۔ وہ گھر جس میں ایک خاندان رہا کرتاتھا اب اس اکیلے کے پاس تھا اور اس کے ہر کمرے میں سے اسے یادوں کا جمگھٹا نکلتے ہوئے محسوس ہوتا۔دو ملازم اس کی تنہائی کا علاج نہیں تھے اور دوستوں کا ہر وقت بپا رہنے والا میلہ اسے مصنوعی اور عارضی لگتا۔ وہ جانتا تھا کہ اسے اکیلے رہنے کی عادت ہوگئی ہے اور اگروہ شادی کربھی لے تو وہ تنہائی کا ہی متلاشی رہے گا۔ وہ اکیلا ہونے کے باوجود ایک ہجوم کے ساتھ زندگی گزار رہا تھا اور ہجوم کا حصہ ہونے کے باوجود اکیلا تھا۔

نرس ہسپتال کی فائل میں کچھ کاغذ لے آئی جن پر اس نے دستخط کر دیئے۔ ’’آپ کی گھڑی، موبائل فون، بٹوہ اور چابیاں میرے پاس ہیں جو آپ کو میں باہر دے دو گی‘‘۔

’’میرے پاس سواری نہیں، میں جاؤں گا کیسے؟‘‘ وہ جانا چاہنے کے باوجود جانا نہیں چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہاں سے نکلتے ہی وہ خود کو بے یار و مددگار محسوس کرے گا۔

’’آپ ہسپتال کی کار میں جائیں گے۔ آپ کے گھر اطلاع کردی گئی ہے۔ آپ مکمل طورپر صحت مند ہیں اس لیے آپ اپنی صحت کے بارے میں سوچنابند کرکے اور مسائل کے بارے میں سوچیں‘‘۔ نرس کے الوداعی الفاظ نے اسے چونکا دیا۔ اس کے ایسے کون سے مسا ئل تھے جن کے بارے میں اسے سوچنے کی ضرورت تھی؟ اسے لگا کہ وہ تو خواب اور حقیقت کے درمیان میں ایسی زندگی جی رہا تھا جس کا کوئی بھی سرا اس کے ہاتھ میں نہیں تھا۔ اچانک اسے احساس ہوا کہ وقت اسے شکست دے چکا ہے اور صرف وہ اس شکست کو ماننے کو تیار نہیں ہے۔ اس نے نرس کی طرف دیکھا۔ نرس خواہش میں لپٹی اپنائیت سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اسے اپنی سانس رکتے ہوئے محسوس ہوئی۔ نرس مسکرائی ’’عابد صاحب! رابطہ رکھیے گا‘‘۔ عابد کو محسوس ہوا کہ نرس کی دعوت میں کوئی اور دعوت بھی چھپی ہوئی ہے۔ اس نے اپنے خیال کی تصدیق کے لیے ایک بار پھر نرس کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا رہی تھی۔

عابد ہسپتال کی کارمیں جب بیٹھا تو اسے اداسی نے آن گھیرا۔ کیا وہ ہسپتال چھوڑنے سے اداس تھا یا اپنے گھر کی تنہائی سے جسے وہ بارونق نہیں بنانا چاہتا تھا۔ اس کے تعلق والوں کا ایک وسیع حلقہ تھا جن سے اسے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ اس نے گھر کے راستے میں اپنے اردگرد دیکھنے کی کوشش ہی ناکی کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ ایک مہینے کے اندر ان سڑکوں اور موڑوں میں کیا تبدیلی آسکتی ہے۔ وہ جب اپنے دومنزلہ مکان کے داخلی دروازے میں سے اندر داخل ہوا تو اس کی ماہر نظر نے اپنے چھوٹے سے لان اور پھولوں کی کیاریوں کا تفصیلی اور تنقیدی جائزہ لیا۔ اس نے اپنی نظر کو اس طرح تربیت دی ہوئی تھی کہ وہ سرسری سی نگاہ میں ہی خرابی کو دیکھ جاتا۔ اسے لان میں کوئی جڑی بوٹی اور کیاریوں میں کہیں کچھ فالتو اگا ہوا نظر نہیں آیا۔ وہ مطمئن سا کار میں سے نکلا تو اس کا ڈرائیور اور باورچی جو گھر کو سنبھالتا بھی تھا، اپنے استقبال میں کھڑے نظر آئے۔ وہ دونوں کی وہاں موجودگی اور ان کی فرض شناسی سے خوش بھی ہوا۔ اسے لگا کہ اس نے اپنا گھر صحیح لوگوں کے حوالے کیا ہوا تھا۔ پورچ میں پام کے کئی گملے رکھے تھے جنہیں وہ کئی گھنٹے غور سے دیکھتا رہتا تھا۔ وہ سوچتا کہ ایسے ہی پام کے درختوں کے درمیان میں کاسٹرو بیٹھتا رہا ہوگا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ یہاں وہی پام گملوں میں آرائش کے لیے لگائے گئے تھے۔ دونوں ملازم جھجکتے ہوئے آگے بڑھے اور اس کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ اسے ان کی جھجک میں ایسی اپنائیت نظر آئی جو ہسپتال کی نرسوں میں مفقود تھی۔ وہ نرسیں اس کے ساتھ بے تکلفانہ گفتگو ایک تکلف کے ساتھ کرتی تھیں جس سے اسے کبھی الجھن ہوتی۔ اس نے ان ملازموں کے ساتھ کبھی غیر ضرور ی بات نہیں کی تھی لیکن آج ان کے جھجک بھرے خلوص سے وہ کچھ شرمسار سا ہوا۔ اس نے دونوں کو جھجکتے ہوئے گلے لگایا اور گھر کے اندر داخل ہو گیا۔ گھر میں اسے سناٹے کی گونج سنائی دی جسے بند کھڑکیوں کے شیشے اور ان پر پڑے بھاری پردے باہر جانے سے روکے ہوئے تھے او راسی طرح باہر کے شور کو اندر آنے سے۔ وہ لائونج میں کھڑا فیصلہ کرنے لگا کہ یہاں ہی بیٹھ جائے یا خواب گاہ میں جا کر تھوڑا سستا لے۔ اس نے سوچا کہ وہ ہسپتال میں خوب سو کے آیا ہے اس لیے فوری طور پر اسے نیند کی ضرور ت نہیں۔ اس نے چند دوستوں کو بلانے کا سوچا اور پھر اسے خیال آیا کہ وہ ان کے ساتھ کیا بات کرے گا؟ کیا اس کے پاس ہسپتال میں گزارے ایک مہینے کا معمول ہر بار سنانے کی ہمت یا خواہش ہے؟ وہ اپنی سوچ کی خاموشی کو رضامندی سمجھا اور لائونج میں کھڑے رہنا اسے غیر مہذب لگا جب کہ بیٹھنا اسے خود سے بھی شکست لگا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ ایک شکست خوردہ آدمی ہے، اتنا شکست خوردہ کہ زندہ رہنے سے بھی خائف تھا۔

            وہ ایک صوفے پر بیٹھ گیا۔ باورچی نے جلدی سے آگے بڑھ کے کھڑکی کے پردے ہٹائے تو کمرہ روشنی سے بھر گیا۔ اس نے ستائش سے بھری متشکرانہ نظر سے باورچی کی طرف دیکھا۔ اسے پہلی بار احساس ہوا کہ باورچی ایک جوان آدمی ہے۔ وہ جانتا تھا کہ باورچی ایک غیر شادی شدہ آدمی ہے۔ کیا باورچی کا غیر شادی شدہ ہونا اس کی وجہ سے تھا؟ وہ ہر کسی کے غیر شادی شدہ یا شادی شدہ ہونے کا ذمے دا ر نہیں۔ کیا وہ نرس بھی غیر شادی شدہ تھی؟ اگر وہ غیر شادی شدہ ہوئی تو؟ وہ نرس ا سکے لیے ایک فرشتہ ثابت ہوئی۔ یہ اس کی وجہ سے تھا کہ وہ اس وقت اپنے گھر میں بیٹھا بہت سی غیر اہم باتوں کے درمیان میں اس کے متعلق سوچ رہا تھا؟اگر وہ اسے ہسپتال کی قید سے آزادی نا دلواتی تو وہ ابھی تک ان ڈاکٹروں کا قیدی ہوتا۔ اچانک اس کے ذہن میں نرس کا بدن گھوم گیا۔ اسے بھرے ہوئے جسم والی ایسی عورتیں پسند تھیں جن کی چھاتیاں ایک مقناطیسی کشش لیے ہوئے ہوں۔ وہ نرس بھی ایسی ہی تھی۔ اتنی عمر ہو جانے کے باوجود اس کے کسی عورت کے ساتھ ایسے تعلقات نہیں تھے جو اس کی تسکین کا باعث بنتے۔ وہ تو صرف عورتوں کے جسموں کو اپنی نظروں سے تولتے ہوئے سکون حاصل کرتا رہتا۔ اسے نرس میں ایسی عورت نظر آئی جو ذہنی ناآسودگی کو اپنے بدن کی آگ سے آسودہ کر سکتی تھی۔ اس نے اپنی جھجک کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نرس سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کر لیا، اسے نرس کی آنکھوں میں الوداعی تاثر بھی اکسا رہا تھا۔ اس نے ہسپتال کے کاغذوں میں سے نمبر لے کے ڈائل کیا تو دوسری گھنٹی پر ایک مترنم آواز نے اسے اپنی طرف کھینچا۔ اس نے جب نرس کے ساتھ ملانے کا کہا تو ایک لمحے کی جھجک کے بعد اسے بتایا گیا کہ اس وقت وہ ڈیوٹی پر نہیں تھی۔ اسے مایوسی ہوئی۔ اس نے سوچا کہ اس کے ساتھ ہمیشہ ایسے ہی ہوتا ہے کہ لڑکی نزدیک آنے سے پہلے ہی دور ہو جاتی ہے۔ اپنی مایوسی دور کرنے کے لیے اس نے باورچی کو ٹی وی کا ریموٹ پکڑانے کا کہا۔ ٹی وی کو آن کرتے ہی اسے یقین نا آیا کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے؟ اسے سکرین پر اپنی ہی تصویر واپس گھورتے ہوئے نظر آئی۔ ٹی وی رپورٹر ایک نہایت اہم انکشاف کرنے والا تھا اور اس کے ساتھ وہی نرس کھڑی اپنے ہاتھ مل رہی تھی۔ اس وقت وہ ہسپتال کی وردی میں نہیں تھی۔ ٹی وی رپورٹر کے بقول مس بتول نے اپنی جان کی پروا نا کرتے ہوئے اس دہائی کا سب سے بڑا انکشاف کیا تھا۔ وہ ایک ایسے ہسپتال میں کام کرتی تھی جہاں مریضوں کو صحت مند بنانے کے بجائے ایک پالیسی کے تحت صحت مند نہیں ہونے دیا جاتا تھا۔ چینل نے دعویٰ کیا ہسپتال جناب عابد، جو ایک امیر اور شریف النفس انسان ہیں، وہ اور ان سے کئی لوگ یہاں اپنے مالی ذرائع لٹاتے ہیں۔ رپورٹر کے مطابق حکومت کو ایسے جعلی ہسپتالوں کو بند کرکے مس بتول جیسی ذمے دار شہری کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔ چینل نے یہ بھی تقاضا کیا کہ عابد جیسے ہسپتال کے شکار لوگوں کو ان کا سرمایہ واپس ملنا چاہیے۔ اس نے باورچی کی طرف دیکھا جو نہایت انہماک سے ٹی وی سکرین پر نظر جمائے ہوئے تھا۔ اسے رپورٹر کی باتوں پر شک بھی ہوسکتا تھا لیکن ہسپتال کی عمارت پس منظر میں ہونے کی وجہ سے یقین نا کرنا دن کو رات کہنا تھا۔ نرس اسے گھبرائی ہوئی لگی۔ وہ ہاتھ ملتے ہوئے مسلسل اردگرد دیکھ رہی تھی۔ اسے احساس ہوا کہ وہ اسے تلاش کر رہی ہے۔ اسے کار میں بیٹھنے سے پہلے نرس کے چہرے کے تاثرات پھر یاد آگئے اور اس کا جی نرس کو ملنے کو کر آیا۔ اس نے باورچی کی طرف دیکھا:

’’ڈرائیور کے ساتھ جاؤ اور ۔۔۔‘‘ اس نے ٹی وی سکرین کی طرف اشارہ کیا، ’’اسے اپنے ساتھ لےآؤ۔ میرا کہنا کہ اس نے بلایا ہے۔ جاؤ‘‘۔ اسی وقت رپورٹر نے مائیک نرس کے ہاتھ میں تھما دیا۔

’’یہ بے ضابطگی منظر عام پر لانا میرا فرض تھا۔ میں نے اپنے عہد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک رسک لیا ہے جو مجھے ہی لینا تھا کیوں کے وہاں کام کرنے والے باقی لوگ خاموش ہیں‘‘۔ نرس اسے خوف زدہ لگ رہی تھی لیکن اس کی آواز میں اعتماد اور ٹھہرائو نے اسے حیران کر دیا۔ اسے لگا کہ شاید اس وقت وہاں کھڑے وہ اکتاہٹ کا شکار تھی اور اپنا نقطہ نظر بتاتے ہوئے اس کی اکتاہٹ اور خوف دور ہو گیا تھا۔ اس نے چینل بدلا تو وہاں بھی یہی خبر چل رہی تھی۔ اسے ایک دم خیال آیا کہ ایسا تو نہیں کہ نرس سے یہ سب کہلوایا جارہا ہو؟ پھراسے اپنی سوچ پر حیرت بھی ہوئی کہ وہ ایسے معاشرے کا حصہ تھا جہاں سچ کو بھی جھوٹ کی آنکھ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ نرس کی باتیں سننے لگا۔ وہ ایک ہی لہجے میں بولے جارہی تھی جیسے کچھ رٹا ہوا بول رہی ہو۔ اس کی آواز صاف اور ایک مصنوعی سا اعتماد لیے ہوئے لگی۔ اسے اب نرس کے گھر پہنچنے کا انتظار تھا۔ اچانک اسے خیال آیا کہ اس نے نرس کو گھر کیوں بلا بھیجا ہے؟ کیا وہ اس کے ملازموں کے ساتھ آجائے گی؟ اسے اپنے اس غیر منطقی فیصلے پر حیرت کے ساتھ خود پر غصہ بھی آیا۔ اگر وہ آگئی تو؟ اس نے سوچا کہ وہ ناہی آئے تو بہتر ہوگا!

اب اسے ٹی وی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اپنے ساتھ یہی مکالمہ کر رہا تھا کہ نرس آئے گی کہ نہیں؟ وہ چاہتا تھا کہ آئے اور ہمیشہ کی طرح خائف بھی تھا کہ وہ کسی عورت کے ساتھ بیٹھ کر خیالات کی ساجھے داری کر سکے گا؟ عورتیں ہمیشہ اس کے اعتماد کی کمی کا باعث بنی تھیں۔ اسی وقت دروازہ کھلا اور نرس کو وہاں کھڑے دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ دروازے میں کھڑی بے یقین سی نظر سے اسے دیکھ رہی تھی۔ ڈرائیور کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ سے اسے الجھن ہوئی۔ اس نے اسے ناراض نظر سے دیکھا۔

’’ٹی وی والوںکی گاڑیاں ہمارے پیچھے باہر کے گیٹ تک آگئی ہیں‘‘۔ ڈرائیور نے نرس کی طرف فخر سے دیکھتے ہوئے کہا۔ تب اسے اس وقت کی حالت کی گمبھیرتا کا احساس ہوا۔ نرس ٹی وی چینلوں کو درکار تھی اور وہ اچانک اس کا محافظ بن گیا تھا۔ نرس نے اسے ہسپتال کا ایک نشانہ قرار دیا تھا۔ اس کا گھر میں آنا دونوں کو فریق ظاہر کرتا تھا اور اسی لیے وہ چینل باہر گیٹ تک پہنچ گئے تھے۔

’’شکاری پیچھا کرتے ہوئے پہنچ گئے؟‘‘ اس نے اپنی بات میں مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی۔ جہاں وہ اس کے آنے سے خوش ہوا تھا اسے چینل والوں کے گیٹ تک آنے کی پریشانی بھی تھی۔ اسے اپنی حالت دڑبے میں بند ان مرغیوں کی طرح لگی جو باہر ٹہلتے ہوئے بلے سے ڈرے اندر رہنے کو ترجیح دیں۔ وہ نرس کے ساتھ اندر بند ہونے سے خوش بھی تھا کہ وہ اس کے ساتھ وقت گزار سکے گا۔

’’جی ہاں! شکاری، شکار کے تعاقب میں یہاں تک بھی آگئے‘‘۔ نرس نے کھڑکی کے باہر دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ اس کی آواز میں خوف اور شک کی ہلکی سی کپکپی تھی۔ اسے نرس کا خوف زدہ ہونا اچھا بھی لگا۔ ہسپتال کی کرتوتوں کا بھانڈا پھوڑ کروہ اسے جہاں ایک انوکھی قسم کی عورت لگی تھی، اپنے خوف کی وجہ سے وہ اسے اپنے جیسے ہی محسوس ہوئی۔ نرس ابھی تک دروازے کے بیچ میں کھڑی تھی اور ڈرائیور اس کے ساتھ تھا۔ اسے ڈرائیور کا وہاں کھڑے ہونا معیوب سا لگا۔

’’تم باہر جا کر گیٹ کے پاس ٹھہرو اور یہ یقین کرو کہ کوئی اندر نا آئے۔ کوئی بھی‘‘۔ اس نے سختی سے کہا ’’اور فضلو کو بھیجو‘‘۔ اس کی آواز میں دبدبہ تھا جو ڈرائیور نے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ وہ ٹانگوں میں دم دبا کر باہر چلا گیا۔ ’’آپ کھڑی کیوں ہیں۔ آئیے اور جہاں جی چاہے بیٹھیں‘‘۔ وہ ایک طرف ہٹ گیا تا کہ نرس جہاں چاہے بیٹھ سکے۔ نرس نے ایک بار پھر کمرے کا سرسری سا جائزہ لیا اور ایک صوفے کی طرف بڑھ گئی۔

’’آپ کی مسز کہاں ہیں؟‘‘ نرس نے بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ اسے نرس گھبرائی ہوئی اور کسی حد تک پریشان سی لگی۔ وہ نرس کی اس حالت سے لطف اندوز بھی ہوا۔ اس نے سوچا، زندگی کے کچھ معاملات میں وہ اکیلا ہی پریشان ہوتا ہے۔ اس نے خود کو برتر محسوس کیا۔

’’میں غیر شادی شدہ ہوں‘‘۔ اب اسے اپنا اعتماد کم ہوتے محسوس ہوا۔ وہ جانتا تھا کہ شادی کرنا زندگی میں کوئی کامیابی نہیں اور نا کرنا کسی طرح ناکامی بھی نہیں لیکن اسے محسوس ہوا کہ اس وقت یہ ایک ناکامی تھی۔ نرس نے چہرے کے ہر ردعمل کو چھپاتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔ اس نے نرس کا چہرہ پڑھنے کی ناکام کوشش کی، اسے نرس کی چمکتی ہوئی آنکھوں میں حیرت نظر آئی۔ اسے ایسے لگا جیسے نرس پوچھ رہی ہو، خیریت رہی؟

ٹی وی کی سکرین پر اب کوئی اور سکینڈل زیر بحث تھا۔نرس اور اس کے ہسپتال کا قصہ شاید پرانا ہو چکا تھا۔ ’’میری بھی شادی نہیں ہوئی’’۔ نرس نے ہنستے ہوئے کہا۔ اسے نرس کی بات صرف اسے آرام سے کر دینے کے لیے لگی۔ اگر کسی کی شادی نا ہوئی ہو تو اس میں ہنسنے کی کیا بات تھی؟ اس نے نرس کی طرف دیکھا، اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔ اس نے سوچا، کیا یہ قہقہے کی وجہ تھی یا اس غلط بیانی کا نتیجہ جو نرس نے اپنی شادی کے سلسلے میں کی تھی؟ اسے نرس ایک بہتر اداکارہ لگی۔ وہ جانتا تھا کہ زندگی میں جینا ایک مسلسل اداکاری کا عمل ہے اور اس ڈرامے میں بھی اداکاروں کے مختلف معیار ہیں۔ اس نے خود کو ہمیشہ کم معیار سمجھا تھا۔وہ پوچھنا چاہتا تھا کہ اس کی شادی ناہونا تو محض ایک اتفاق تھا لیکن کیا اس کی شادی کسی حادثے کی وجہ سے نہیں ہوئی؟ اسے ہمیشہ کی طرح کم ہمتی نے آن دبوچا۔

’’آپ اس گھر میں اکیلے رہتے ہیں؟‘‘ نرس نے پوچھا۔ اس نے یہ سوال جھجکتے ہوئے کیا تھا۔ اسے نرس کسی بڑے پلاٹ کا اہم کردار لگی۔ پہلے اس نے ہسپتال کے خفیہ طریقوں کا پردہ چاک کر کے اسے ہسپتال سے رہائی دلائی۔ پھر اچانک اسے خیال آیا کہ اپنے گھر میں تو وہ اسے خود لایا تھا۔ ایسی حالت میں وہ کسی بڑے پلاٹ کا حصہ کیسے ہو سکتی ہے؟ اس نے نرس کی طرف دیکھا۔ وہ خالی نظر سے پردوں کے پار دیکھنے کی کوشش میں تھی۔ وہ اسے اس فالج زدہ مریض کی طرح لگی جو اپنی یاداشت کو قائم رکھنے کی کوشش میں ہو۔ اس کے چہرے کے تاثرات مسلسل تبدیل ہورہے تھے اور اسے نرس کی ذہنی صحت پر شک گزرنے لگا تھا۔

’’مجبوری ہے!‘‘ اس نے اپنی بات کو جتنا ذومعنی بنانا ممکن تھا بنانے کی کوشش کی۔ نرس اس کے جواب پر مسکرائی۔ اس کی مسکراہٹ اپنائیت میں ڈوبی ہوئی تھی اور اگلے ہی لمحے اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ اسے نرس کسی ذہنی الجھن کو سلجھاتے ہوئے لگی۔ اسے اس پر ترس بھی آیا۔ اس نے شاید صرف اس کے لیے اتنا بڑا خطرہ مول لیا تھا۔ ’’آپ آگئی ہیں تو اب اکیلا تو نا رہا؟‘‘ اس نے سوالیہ انداز میں جواب دیا۔ وہ اس آنکھ مچولی کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ ’’ہسپتال تو ایک عرصے سے چل رہا تھا اور لوگ وہاں زیر علاج بھی تھے۔ کسی کو ہسپتال کے روئیے یا طریق کار پر شک یا شکایت نہیں تھی۔ آپ نے جو کیا، کیا اس کی ضرورت تھی؟‘‘ وہ جانتا تھا کہ جھولے میں بلی کا دم گھٹنے لگتاہے۔ اس لیے اسے باہر نکالنا ضروری ہوتا ہے۔ اس نے بغیر تفصیلی سوچ کے بلی کو جھولے سے باہر نکال ہی دیا۔ نرس کو اس سوال کی توقع نہیں تھی یا وہ اسے کسی سوال کے پوچھنے کا اہل ہی نہیں سمجھتی تھی۔ نرس نے پہلے اسے بے یقینی کے ساتھ دیکھا، جیسے وہ اس کی طاقت کا اندازہ لگا رہی ہو او رپھر اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی۔ اسے لگا کہ نرس کو اپنی الجھنوں کا حل مل گیا ہو۔

’’میں تو چلی جاؤں گی تھوڑی دیر تک۔ آپ تو اکیلے ہی ہوئے!‘‘ نرس نے ایک ادا سے مسکراتے ہوئے کہا اور سوال کا جواب بھی نا دیا۔ ساتھ ہی اسے نرس کی مسکراہٹ میں ایک سوال محسوس ہوا۔ اس نے اپنی سوچ کی تصدیق کے لیے ایک دم نرس کی طرف دیکھا لیکن اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ اسے حیرت ہوئی کہ نرس ایک دم اپنے چہرے کے تاثرات کیسے بدل لیتی ہے؟ کمرے میں ٹی وی لگا ہونے کے باوجود خاموشی تھی۔ ’’اب آپ کے سوال کا جواب!‘‘ نرس نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کے دیکھنے میں اتنی شدت تھی کہ وہ اس نظر کی تاب نا لاسکا اور نیچے دیکھنے لگا۔ اسے خود پر غصہ بھی آیا۔ اس نے نظر اٹھا کر نرس کی طرف دیکھا اور دونوں نے ایک مختصر سے عرصے کے لیے ایک دوسرے کی نظر کو جکڑے رکھا۔ ’’یہ ہسپتال شہر کے ایک طاقت ور سیاسی اور دولت مند کاروباری خاندان کی ملکیت ہے۔ کہاجاتا ہے کہ ان لوگوں کے کاروبار میں دو نمبر سرمایہ ایک اہم شریک ہے۔ یہ کرنسی کا غیر قانونی کاروبار بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے مختلف ممالک کے اہم غیر قانونی کاروباری لوگوں کے ساتھ ان کا تعلق اور لین دین ہے جن میں دہشت گرد بھی شامل ہیں۔ یہ ہسپتال دہشت گردو کی پناہ گاہ بھی ہے‘‘۔ وہ رکی اور اس نے عابد کی طرف غور سے دیکھا۔ اس کی نظر میں اب دلچسپی تھی، نرس اسے اپنے نظام کا حصہ نا لگی۔ وہ نرس کی طرف ایسے دیکھ رہا تھا کہ اس کے ہر سانس کو بھی محسوس کر سکے۔ ’’عابد صاحب! یہ بہت ظالم لوگ ہیں۔ میری زندگی غیر محفوظ ہے لیکن مجھے پروا نہیں۔ کسی نے تو کبھی سیٹی بجانا تھی سو یہ ناممکن سا کام میں نے کیا۔ یہ ایک بے سہارا ہستی ہی کر سکتی تھی‘‘۔ نرس کی آواز میں اب شدت آگئی تھی۔ وہ ہر لفظ کو غور سے سن رہا تھا اور اس کے اندر کی گہرائی میں ایک خوف بھی جنم لے رہا تھا۔ ’’دہشت گرد یہاں سے لانچ کیے جاتے ہیں اور ان کی موجودگی کو چھپانے کے لیے کچھ مریض بھی ہسپتال میں داخل کر دیے جاتے ہیں جیسے آپ‘‘۔ اسے اچانک اپنے پیٹ میں تیزابیت محسوس ہوئی۔ وہ جانتا تھا کہ یہ اس کے خوف زدہ ہونے کی نشانی ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ نرس اس سے آگے کوئی بات نہ کرے پھر بھی وہ سب کچھ سننا چاہتا تھا۔

’’میرا ان سے کیا واسطہ؟‘‘ اس نے اچانک اپنی صفائی پیش کرنا چاہی۔

آپ کا ان سے کوئی واسطہ نہیں لیکن اگر فوج، پولیس یا رینجرز وہاں آجاتے تو آپ کا واسطہ بن جاتا۔ ہسپتال والے ہمیشہ آپ جیسے چند معصوم اور بے گناہ لوگوں کو ساتھ رکھتے ہیں تا کہ اپنی معصومیت اور بے گناہی ثابت کر سکیں‘‘۔ وہ خوف زدہ سی معصومیت کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی۔ پھر وہ ہلکا سا مسکرائی۔ عابد کو لگا کہ برف باری کے عین بیچ میں اس کی نظر کے سامنے ایک گلاب کھل اٹھا ہے۔وہ نرس کو عجیب سی نظر سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر میں اکتاہٹ، حیرانی، گھبراہٹ اور کہیں گہرائی میں امید تھی۔ نرس وہ بات کررہی تھی جو اس کے دوستوں کے درمیان میں بحث کا موضوع ہوتی ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اپنی بات جاری رکھے۔ اس نے نرس کی طرف حوصلہ بڑھانے والی نظر سے دیکھا ۔ ’’عابد صاحب! آپ جانتے ہیں کہ دہشت گردو ں کو ختم کرنا اتنا آسان کام نہیں۔ وہ جلد ہی ہر آنگن میں موجود ہوں گے، گھر کے افراد کی طرح، لیکن کوئی انہیں پہچانتا نہیں ہوگا‘‘۔وہ اٹھ کر کھڑکی تک گئی اور کچھ دیر باہر دیکھتی رہی۔ ’’وہ لوگ ابھی تک گھر کے باہر موجود ہیں‘‘۔ اس کی آواز میں گھبراہٹ اور خوف تھے۔ پھر وہ کسی سوچ میں گم اپنی جگہ پر آکے بیٹھ گئی۔ ’’آپ نے کبھی دوسرے سیاروں سے آئی ہوئی مخلوق پر بنے فلم دیکھے ہیں؟‘‘ نرس تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوئی تاکہ وہ اس کا چہرہ دیکھ سکے۔ نرس کو اس کا چہرہ ہر قسم کے تاثر سے خالی لگا۔

’’میں ایسے بے سروپا قسم کے فلم نہیں دیکھتا‘‘۔ اس نے غصے سے جواب دیا۔ نرس کے چہرے پر تذبذب پڑھا جا سکتا تھا۔

’’آپ کا نا دیکھنا آپ کے نقطہء نظر کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن میں آپ کو ایک تنبیہ کرنا چاہتی ہوں۔ ‘‘ نرس نے ہاتھ ملتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ان فلموں کے کردار ہماری زمین کے جس فرد کو بھی چھوتے ہیں، وہ ان جیسا ہو جاتا ہے‘‘۔ وہ رکی، اس نے تھوک نگل کر اپنا اعتماد بحال کیا، ’’ہسپتال والوں کو آپ جیسے لوگوں کی تلاش ہوتی ہے۔ آپ تو ان کا پسندیدہ ترین شکار ہیں۔ بڑا گھر، مالی آسودگی اور کوئی ذمے داری نہیں۔ دوسرے سیارے سے آنے والی مخلوق آپ کو چھو لے گی اور آپ بھی ان جیسے ہی ہو جائیں گے‘‘۔ نرس رکی۔ عابد کو اپنے پیٹ میں تیزابیت محسوس ہوئی اور اس نے اٹھ کر پردے میں سے باہر جھانکا، وہاں ٹی وی چینلز کے کریو کھڑے اس کھڑکی کی طرف دیکھ رہے تھے جہاں وہ کھڑی تھی۔ ’’آپ کو حیران ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ ان کی اکثریت کو چھوا جا چکا ہے۔ اب وہ آپ کو بھی چھونا چاہتے ہیں‘‘۔ نرس ہنسی، اس کے ہنسنے میں تلخی، مایوسی اور پریشانی تھی۔ ’’آپ اچھے آدمی ہیں، ایسا ہونا نہیں چاہیے لیکن ہونا ہے، میری معرفت!‘‘ نرس نے لمبا سانس لیا۔ عابد حیرت میں گم اسے دیکھ رہا تھا۔ نرس نے اسی وقت بیگ میں سے موبائل فون نکال کر نمبر ملا کے فون اس کی طرف بڑھایا۔ عابد نے خوف، نا پسندیدگی اور پریشانی سے فون پکڑکر کان کو لگایا تو ادھر سے بھاری اور اجنبی لہجے میں ہیلو کہا گیا۔

اسے اپنے پیٹ میں پھر تیزابیت محسوس ہوئی!

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930