زنخا ۔۔۔ خالد فتح محمد
زنخا
خالد فتح محمد
اکبر خان اچانک جاگنے کی کیفیت میں آ گیا
اس کا دادا آہستگی کے ساتھ اٹھ کر باہر چلا گیا تھا جہاں سے باتوں کی آواز آرہی تھی ۔ اکبر خان حیران ہوا کہ آنے والے گھر تک اپہنچے کیسے ؟ اس کا دادا بتایا کرتا تھا کہ کئی سال پہلے وہ لوگ نیچے
گاوں میں رہا کرتے ۔حجرے میں کبھی کبھار سبزآنکھوں، بھورے بالوں اور مضحکہ خیز لہجے والا ایک غیر ملکی آیا کرتا تھا اور وہ خانون اور ملکوں کے ساتھ دیر تک باتوں میں مصروف رہتا ۔ایک مرتبہ اس نے پیشین گوئی کی تھی کہ چند سالوں کے بعد پہاڑوں کے دامن میں یہ وادیاں میدان جنگ بن کر ایسے لوگوں سے بھر جائیں گئیں جنہیں کسی سے کوئی ہم دردری نہیں ہوگی اور وہ ہمارے لوگوں کو اور ہمارے لوگ انھیں مارتا شروع کردیں گے۔ سامنے والے میدان کو سڑک دو حصولں میں تقسیم کرکے اسے دشمن اور اپنے علاقے میں تقسیم کردے گی ۔ دادا یہ سن کر خوف زدہ ہو گیا تھا۔ اس نے اپنے خاندان کو محفوظ رکھنے کے لیے ایسی جگہ منتقل ہونے کا فیصلہ کیا جہاں کسی کی رسائی نہ ہو سکے۔ اس نے بہت تلاش اور سوچ بچار کے بعد اس جگہ کو اپنا گھر بنانے کا فیصلہ
کر لیا۔ اس جگہ تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ یہاں آنے کے لیے تین پہاڑوں کا چکر کائنا پڑتا تھا، چکر کاٹتے ہوئے راستہ گم ہوجانے کا احتمال رہتا اور راستہ گم ہوجانے کی صورت میں
بھولنے والے کا زندہ بچ جانا محال تھا۔ ان کا گھر پہاڑ کی چوٹی پر ایک غار نما مکان تھا جس کے سامنے ایک قدرتی تالاب تھا جس میں بارشوں کا پانی اکٹھا ہوتا رہتا جو کھانا پکانے، پینے اور نہانے کے کام آتا، انھوں نے کپڑے
کبھی دھوئے ہی نہیں تھے۔ ان چٹانوں پر کسی قسم کی رویئدگی نہیں تھی اس لیے وہ بھیڑ بکریاں نہیں پال سکتے تھے۔ زندہ رہنے کے لیے پہلے دادا اور اب اس کا باپ محمد گل کراچی میں محنت مزدوری کر کے گھر چلاتا۔
اکبر خان اجنبیوں کی آمد سے گھبرا گیا ، اسے تجسس تھا کہ دادا کس سے باتیں کر رہا ہے؟ وہ آواز وں کی سمت میں رینگنے لگا۔ اس وقت کالے پہاڑ پر صبح کی نرم سپیدی نظر آنا شروع ہوئی گئی۔ اجنی اور دادا اس کی طرف پیتھ کیے میدان کی طرف اشارے کرتے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔
اکبر خان وہیں رک گیا ، وہ نہیں چاہتا تھا کہ دادا اسے چوری چوری ان کی باتیں سنتے ہوئے دیکھے، چنانچہ پر وہ کپڑے جھاڑتا ہوا أن تک پہنچ گیا۔
اجنبی ایک شیطانی تیزی کے ساتھ اس کی طرف مڑا، اس کی آنکھیں قدرے تر چھی اور ناک چپٹی تھی۔ دھوپ میں رہنے کی وجہ سے اس کی سفید رنگت تا نبے جیسی ہو گئی تھی ۔ اکبر خان کو وہ آدمی اچھا لگا۔ وہ تو اپنے باپ اور دادا کی شکلیں دیکھنے کا عادی تھا، اسے اجنبی کی آنکھوں میں صبح کی سفیدی جیسی نرمی کا احساس ہوا۔ ان کی نظریں ملیں تو اکبر خان نے شرما کر نیچے دیکھنا شروع کردیا۔
اجنبی ان کے ساتھ رہنے لگا۔ وہ اپنے ساتھ آنا اور گھی لایا تھا۔ اکبر خان تو اپنے دادا کے ہاتھ کی پکائی کچی سی روٹیوں کا عادی تھا، یہ اجنبی کے ہاتھ کا کمال تھایا گھی کا کہ اکبر خان ہر وقت بھوک محسوس کرتا۔ اجنبی اپنی رائفل ہمیشہ ساتھ رکھتا اور ہر پرندے کی پرواز کی رفتار کے مطابق مشق کے طور پر نشانہ لیتا رہتا۔ اکبر خان دلچسپی سے دیکھتا کہ اجنبی کس طرح ایک آنکھ بند کیے اپنا نشانہ پرندے کی چونچ کے قریب رکھتا اور تھوڑا فاصلہ اس کی پرواز کی رفتار کے ساتھ چلنے کے بعد گھوڑا دبا گر منہ سے ٹھاہ کی آواز نکالتا۔ وہ اکثر اکبر خان کو بتاتا:
“ایک جنگجو کو جنگ کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ وہ اس وقت ہر طرف سے دشمنوں سے گھرے ہوئے ہیں ۔ حالات اس موڑ پر چکے ہیں جہاں انھوں نے اپنی سلامتی کے لیے نہ تو کسی سے سمجھوتہ کرتا اور نہ ہی کسی کو معاف کرتا ہے۔”
اجنبی کے آنے کے بعد دارا گاوں کے زیادہ چکر لگانے لگا تھا۔ اکبر خان کو چیرت ہوئی کہ دادا پہلے گاؤں جانے سے کترایا کرتا تھا لیکن اب اجنبی جب بھی چاہتا وہ فورا چل پڑتا۔ اجنبی بھی کبھی کبھار دو سے تین دنوں کے لیے چلا جاتا اور ان دنوں میں اکبر خان اداس ہو جاتا ، اے شاید اجنبی کی عادت ہو گئی تھی۔ وہ ہر وقت اکٹھے ہوتے۔ کئی دفعہ اسے محسوس ہوتا کہ اجنی اسے غور سے دیکھ رہا ہے، اسے اپنے کان جلے ہوئے محسوس ہوتے اور وہ خواہش کے باوجود اس کی طرف دیکھ نہ پاتا۔ ایسے موقعوں پر اجنبی اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے کچھ عرصہ ساتھ لگائے رہتا۔ اکبر خان کو شروع شروع میں یہ عجیب سا لگا تھا، جذبات کا یہ اظہار باپ اور دادا کے پیار سے مختلف تھا، پھر وہ اس کو سمجھتے ہوئے عادی ہو گیا۔
ایک دن دا دا گاؤں گیا ہوا تھا اور اس نے اگلی رات سے پہلے واپس نہیں آتا تھا۔ اجنی اور اکبر خان غار نما کمرے کے باہر بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک اکبر خان کے کان سرخ ہوگئے ، اجنی نے مسکراتے ہوئے اسے ساتھ لگایا تو اکبر خان نے اس کی چھاتی پر اپنا سر رکھ دیا۔
اس رات اجنی جلد سو گیا جب کہ اکبر خان دیر تک جاگتا رہا۔ اسے اجننی اپنا محافظ لگا، اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ خود کو محفوظ محسوس کیا۔ اس کی ماں اسے پیدا کرتے ہوئے مر گئی تھی۔ جب وہ پیدا ہورہا تھا تو باپ اور دادا اسے دنیا میں لانے کی کوشش کرتے ہوئے ماں کی زندگی نہیں بچا سکے تھے۔ باپ اور دادا نے اسے محبت اور لاڈ سے پالا تھا لیکن وہ ان کے قریب نہ ہو سکا۔ جب بھی اس کا باپ آتا تو وہ دادا سے کہتا کہ اسے بیوی کی ضرورت ہے اور دادا کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ بیوی کی قیمت ادا کر سکتے
اکبر خان نے سوئے ہوئے اجنبی کو جگا کر بتایا کہ وہ اسے آقا کہا کرے گا_آقانے ہلکا سا قہقہ لگایا اور اپنی بندوق اٹھا کر ایک طرف چلا گیا تو اکبر خان ایک مطمئن سیسانس لے کر سوگیا۔
آقا کچھ بے چین سارہنے لگا تھا۔ نیچے وادی میں گزرتی سڑک پر گاڑیوں کی آمدورفت بڑھ گئی تھی ، فضا میں ہر وقت جہازوں کی آوازیں آتی رہتیں اور آس پاس گولے پھٹتے ہوئے بھی سنے جاسکتے تھے۔ ایک دفعہ آقا کئی دنوں کے بعد آیا تو اس کی ٹانگ زخمی تھی اور زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ کافی کمزوربھی ہو گیا تھا۔ اسے ہلکا ہلکا بخار رہتا ، اس نے ایک دن کہا:
میری ٹانگ گلتی جارہی ہے۔‘‘ آتا ان کی زبان صحیح طریقے سے بولتا تھا لیکن اس کے باوجود اکبر خان کو اس کا بات کرنے کا انداز مختلف سالگتا۔” تمہیں زخم سے تھوڑا اوپر سے ٹانگ کو کاٹنا ہوگا‘‘
اکبر خان نے مارے ڈر کے رونا شروع کردیا۔ آقا آگ بگولہ ہو گیا۔ اکبر خان نے پہلی مرتبہ اسے اس مزاج میں دیکھا تھا، وہ سہم گیا۔ آقا نے اسے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا، تھپڑوں اور مکوں سے مارنا شروع کر دیا۔ خوف سے اکبر خان کے آنسو خشک ہو گئے ۔ وہ بے حس و حرکت کھڑا کانپے جارہا تھا۔ آقا تیز تیز لنگڑاتے ہوئے غار نما کمرے کے دہانے پر رکھے اپنے جھولے کو اٹھا لایا اور اس میں سے کلہاڑے سے ملتا جلتا ایک چھوٹا سا اوزار نکالا، اسے غور سے دیکھتے ہوئے اکبر خان کے ہاتھ میں تھما کر خود ایک پتھر پر لیٹ گیا اور زخمی ٹانگ کے اوپر سے شلوار ہٹا دی۔
“ایک ہی وار میں اسے الگ کردو”‘
آقا کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ اکبر خان خوف اور تذبذب سے کبھی آقا کی گینگرین زدہ ٹانگ کو اور بھی دور خلا میں دیکھے جارہا تھا۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ اس کے لیے ٹانگ پر کلہاڑی جیسے اوزار کو مار ناممکن نہیں ہوگا ۔ اگر وہ ایسا کر گیا اور ایک ہی وار میں ٹانگ نہ کٹی تو ۔۔۔۔۔۔ اکبر خان نے وہاں سے بھاگ جانے کا سوچا لیکن آقا کے چہرے کی رنگت، زخم سے آتی ہوئی ہو اور اس کے اپنے خوف نے سے روک دیا۔ اس نے ہمت مجتمع کرنے کے لیے چاروں طرف دیکھا اور پھر لمبی سانس لے کر کلہاڑے
کو مضبوطی سے تھام کر زخم سے تھوڑا اوپر نشانہ لے کر ایک شیطانی تیزی اور طاقت کے ساتھ پھل کو ٹانگ
کے آر پار کر دیا۔ پنڈلی کی مضبوط ہڈی کی مزاحمت کو پھل کی تیز دھار اورضرب کی شدت ختم کر گئی اور ٹانگ کٹ کر بے جان شاخ کی طرح زمین پر گر پڑی۔ زخم سے خون کا ایک دھارا نکلا اور آقا ایک دردناک چیخ کے بعد بے ہوش ہو گیا ۔ اکبر خان دور خلا میں خالی نظروں سے دیکھنے لگا اور پھر خلا گول دائروں سے بھر گیا۔ یہ دائرے متحرک تھے اور اکبر خان اپنی آنکھیں بند کر کے دائروں کے اس سمندر کو عبور کر گیا ۔ آقا کی ٹانگ سے خون نکل رہا تھا ۔ اکبر خان نے گھبراہٹ میں آقا کے تھیلے کو الٹ دیا۔ جھولے میں سے ایک کوئی ، پلاسٹک کی گول گول چھڑیاں، لوہے کے بنتے ، کچھ تاریں، پستول ، رائفل اور پستول کی گولیاں اور پٹیاں تھیں ۔ اکبر خان نے پٹیوں سے ٹانگ کازخم باندھا اور آقا کو پانی پلایا۔
آقا کے بے جان جسم کی حرکت نے اکبر خان کو زندگی کو درپیش مسائل کے روبرو کردیا، وہ اب بقینی اور خوف کی کیفیت میں سے باہر نکل آیا ۔ آقا کے جسم سے بخار کے شعلے نکل رہے تھے، اکبر خان کو اچانک اس کی زندگی کی فکر لاحق ہوگئی اور ساتھ ہی کٹی ہوئی ٹانگ کا بھی مسئلہ تھا: اے ٹانگ کو زمین پر سے اٹھاتے ہوئے خوف اور کراہت محسوس ہورہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ زخم سے خون نکلنا بند ہو گیا ہے۔
آقا نے آنکھیں کھول کر اکبر خان کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں شناخت نہیں تھی، پھر آہستہ آہستہ وہ اردگرد چکر کاٹ کر اکبر خان پر ٹک گئیں، وہ ہلکا سا مسکرایا۔ اس کی مسکراہٹ میں اداسی تشکر اور اطمینان تھے۔ اکبر خان نے اس کے چہرے کا پسینہ پونچھا۔ دونوں نے ٹانگ کے کاٹے جانے کا ذکر نہیں کیا۔ ا قارات وہیں لیٹا رہا اور اکبر خان نے رات اس کے سرہانے بیٹھ کر گزار دی۔
صبح کی نزم سپیدی میں آقا نے اکبر خان کو کٹی ہوئی ٹانگ جھولے میں رکھنے کو کہا۔ اکبر خان نے کٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ کوئی اور دوسرا سامان بھی واپس رکھ دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد دادا گاوں سے دائیں آ گیا، آقانے اکبر خان کو وہاں سے چلے جانے کا اشارہ کیا اور اس کے اٹھ جانے کے بعد دونوں دیر تک باتیں کرتے رہے۔
آقا اکبر خان کے سہارے چلنے لگا۔ زیادہ حرکت سے ٹانگ میں درد اور خون رسنا شروع ہوجاتا تھا اس لیے وہ کم سے کم چلتا۔ آہستہ آہستہ آقا صحت مند ہونے لگا لیکن اسے چلنے میں دشواری رہتی ۔ وہ سارادن نشانے کی مشق کرتا رہتا اور اکبر خان نے دیکھا کہ کبھی کبھی اس سے چھپ کر جھولے میں سے کوتی نکال کر اسے تاروں سے پروتا رہتا۔
ایک دن آقا نے اکبر خان کوکوئی پہنائی جو کافی وزنی تھی اور پہننے کے بعد اسے کافی الجھن محسوس ہوتی رہی ۔ کوٹی کے دائیں طرف استر کے اوپر ایک بٹن تھا اور بائیں طرف دوتار تھے جنھیں جڑنے نہیں دینا تھا۔
اکبر خان کو ہدایت کی گئی کہ اس نے دن میں کم از کم دس مرتبہ کوئی پہن کر بٹن دبانے کی مشق کرنا تھی۔ تار کsی حالت میں نہیں چھونا تھے ورنہ دھماکے میں سب مارے جائیں گے۔ اکبر خان سوچتا: کوئی اسے کیوں پہنائی جارہی ہے؟ اگر اسے پہننے کے بعد ذرا سی بے احتیاطی سے دھا کہ ہوسکتا ہے تو پہننا ضروری ہے؟ کیا وہ انکار کر دے؟ آقا کا غصہ یاد آتے ہی اس کو دھماکے کا خوف جاتا رہا۔
اکبر خان کو آقا کچھاو میں لگتا، وہ ذرا سی آہٹ پر بھی چونک اٹھتا۔ آقا نے کہا کہ وہ تینوں باری باری پہرہ دیا کریں گے اور دن کے وقت ان کی حرکت کم سے کم ہو گی تا کہ انھیں ہوائی جہاز سے نہ دیکھا جا سکے ۔ داداا گاوں چھوڑ کر پہاڑ کی چوتی کی حفاظت میں آیا تھا لیکن اب یہ چوٹی غیر محفوظ ہوگئی تھی ، کیا گاوں بھی اتنا ہی غیر محفوظ تھا ؟ پر تھا لیکن نیچےمیدان میں تو لوگ ایک دوسرے کو مار رہے تھے ۔کیاآقا کو چوٹی پر کسی کے آجانے کا انتظار تھا یا خوف ؟اگر خوف تھا تو کس کا ؟ اور اگر انتظار تھا تو کس کا ؟
دادا کا پہرہ تھا۔ سورج غروب ہونے کے جلد بعد تین آدمی آقا سے ملنے آئے ۔ وہ تینوں ایسے بھاری اسلحے سے لیس تھے جو اکبر خان نے پہلےکبھی نہیں دیکھا تھا۔ داوا نے فورا آقا کو اطلاع دی۔ آقا حیران نہیں ہوا، لگا کہ اسے ان کا انتظار تھا۔ وہ چاروں دیر تک باتیں کرتے رہے ، پھر آقا نے اکبر خان کو بلایا
یہ میرے ساتھی ہیں ۔ میرے یہ ساتھی، میں اور بے شمار ، اس نے نیچے دور تک پھیلے ہوئے میدان کی طرف اشارہ کیا جو وہاں تک پھیلے ہوئے ہیں مل کر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ ایک جنگ ہے۔ مخالف ہمیں ختم کرنے کے درپے ہیں اور ہم ان پر ترس نہیں کھائیں گے۔ اس جنگ میں تمھیں بھی شامل ہوتا ہے۔
اکبر خان بوکھلا گیا۔ وہ کسی جنگ کا حصہ نہیں تھا۔ اس کا باپ کراچی میں پہرے دار تھا۔ وہ سال میں ایک مرتبہ آکر انھیں اپنی بچت دے جاتا جسے دادا بہت کنجوسی کے ساتھ خرچ کرتا۔ وہ آقا کے ساتھ رہنا ضرور چاہتا تھا لیکن کسی جنگ میں شامل ہو کر مرتا یا جان لیںا نہیں چاہتا تھا۔
” دیکھو نڈے ” اکبر خان کا ایک ساتھی بولا ، ” مرنا یا مارنا ہماری مجبوری ہے۔ ہم اور تم ایک خطے کے لوگ ہیں ۔ جب ہمیں مارا جائے تو ہم بھی ضرور ماریں گے ۔”
اکبر خان کی کسی کے ساتھ دشمنی نہیں تھی۔ اس نے اپنے دادا سے سنا تھا کہ کراچی وہاں سے اتنا دور تھا جتنا کہ سوچا جا سکتا ہے۔ اس کا باپ وہاں اپنی محنت سے پیسے کما رہا تھا، اس کا دادا بھی کراچی میں کام کرتا رہا تھا اور جب اس کا باپ کام چھوڑنے کا فیصلہ کر لے تو اسے اپنا حصہ ڈالنے کے لیے نکلنا ہوگا نہ کہ کسی کو مارنے کے لیے۔
” ہم تمھیں کوئی بہنوا کر اس کا استعمال سکھائیں گے۔ پورے علاقہ میں تم سورما کہلواو گے ۔ لوگ بچوں کا نام اکبر خان رکھیں گے۔ ” دوسرے ساتھی نے کہا۔
” میرا جھولا لاو ” آقا نے حکم دیا تو وہ خوف کے بوجھ تلے سر جھکائے ہوئے جھولا لے آیا۔
آقا کے تیسرے ساتھی نے کوئی کو نکال کر اپنی جیبی ٹارچ روشن کی اور گول چھڑیوں سے لگی تاروں اور لوہے کے بٹنوں کو غور سے دیکھا۔ اطمینان کر لینے کے بعد اس نے جیب سے چھوٹا سا آلکالا۔
“اس میں بیٹری لگی ہوئی ہے۔ اس نے آلہ تھیلی پر رکھ کر اکبر خان کو دکھایا ، ” اس کو کوئی کی تاروں کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا۔ اس کے اوپر یہ سوئچ ہے۔ اس نے سبز رنگ کے بٹن پرانگلی
رکھی، “جب اس بٹن کو دبایا جائے تو یہ سرخ رنگ کی بتی جل جائے گی۔۔۔۔ایسے۔! ” ………..ایسے ؟“اس نے اکبر خان کو شرخ بتی دکھائی، “جب یہ بات نظر آئے تو جان لو کہ کوئی زندہ ہے اور دائیں ہاتھ والا بین دبانے سے دھا کے ہو جائے گا۔”
”دیکھونڈ ے۔۔۔۔ گھبرانا یا ڈرنا نہیں۔ ہم تمھیں بار بار مشق کرائیں گے۔ اگر تم اپنا کام پورا کرنے سے پہلے ڈر گئے یا ناکام ہو گئے تو ہم تمھارے دادا کو جان سے مار دیں گے۔ ” پہلے آدی نے کہا۔ ”میں تاریں جوڑ رہا ہوں۔ ” ۔ یہ کہہ کر اس نے تاریں جوڑ دیں، “اب کوئی پہنو”
اکبر خان نے کوئی پہن لی۔ اس پر گویا جادو کر دیا گیا تھا، وہ بغیر سوچے ہر کام کیے جارہا تھا۔
“یہ آلہ بائیں ہاتھ والی جیب میں ہوگا اور تم جیب میں ہاتھ ڈالے اسے پکڑے رھوگے ۔۔اب اسے جیب میں رکھو اور سبزیٹن دبا و”۔ اکبر خان نے آلہ جیب میں رکھ کر انگلیوں سے محسوس کرتے ہوئے بٹن دبا دیا۔ آدمی نے آلہ باہر نکالاتو سرخ بتی جل رہی تھی۔
“شاباش !تم یہ مشق کرتے رہو گے۔“
” زنخے ! اپنی چال ٹھیک کرو۔ ہم نے تمھیں بھیڑ والی جگہ پر چھوڑتا ہے جہاں تمھاری وجہ سے کم از کم پچاس آدی مریں گے۔ ایک کے بدلےپچاس … اگر تم کامیاب ہو گئے تو تمھارے دادا کو انعام ملے گا ور نہ اسے …………. اگر لوگ تمھاری چال کی وجہ سے متوجہ ہو گئے تو نا کام ہونے کا ڈر ہے اس لیے اب کے بعد لمبے قدم لے کر چلا کرو۔”
اکبر خان نے سوچا کہ وہ زنخا تو نہیں تھا۔ اس نے آقا کے ساتھ مرضی سے رشتہ بنایا تھا اور یہ لوگ اسے مجبوری سمجھے، وہ اس رشتے کو ختم کردے گا۔ زنخا تو عورتوں جیسا ہوتا ہے۔ اکبرخان چپ سادھے بائیں ہاتھ سے سبز بٹن دبا کر بتی جلاتا رہا۔ اس رات آقا ، دادا کو کام سے گاؤں بھیج کر خود پہرے پر کھڑا ہوگیا اور اس کے ساتھی…………
اکبر خان تمام رات ایک سزا کا ٹتارہا !
صبح کی زم سپیدی میں ابھی آقا پہرے پر ہی تھا اور اس کے ساتھی بھی وہیں چلے گئے ۔
“کوئی پہن کر مشق شروع کرو۔ تمھارے دادے کے آنے کے بعد ہم نے جانا ہے۔”
دادا نے شام تک واپس آتا تھا۔ اکبر خان نے کوئی پہنی اور بایاں ہاتھ جیب میں ڈال کر سبز بٹن دباتا ، سرخ بتی جلاتا اور پھر بجھاتا ہواچاروں کی طرف چل پڑا۔ پہلے آدمی نے اسے آتے ہوئے دیکھا تو مسکراتے ہوئے باقیوں کو بھی بتایا۔ تیسرا آدمی اسے دیکھ کر اطمینان سے مسکرایا۔ اکبر خان نے ایک لمبا قدم لے کر دائیاں ہاتھ استر والے بین پر رکھا اور آہستہ سے بٹن دبا دیا …….؟