بایاں ہاتھ ۔۔۔ خالدہ حسین
Khalida Hussain is a very prominent name in Urdu short story. She does not believe in modern or traditional Afsana yet she is one of the pioneers of Urdu afsana.
بایاں ہاتھ
خالدہ حسین
جناب والا میں سچ کہوں گی. بالکل سچ. پورا سچ نہیں مگر سچ, گو کہ یہ سب کہتے ہوئے بھی میں نہیں جانتی کہ سچ کیا ہے۔ یہ تو ایک ایسی تشبیہہ ہے جو کوئی ایک دیکھے تو سیاہ بالکل سیاہ نظر آتی ہے کوئی دوسرا دیکھے تو روشن چمکتی دھوپ ایسی روشن ، تو کیا یہ کوئی آنکھ کا نقص ہے دونوں میں سے کون آشوب چشم کا شکار ہے بہرحال یہ تو بالکل غیر متعلق سی بات بیچ میں آن پڑی تھی۔
میں تو بات اس لمحے سے شروع کرنا چاہوں گی جب اپنے حواس پرسے میرا ایمان اٹھ گیا۔ وہ دن بڑا تباہی کا دن تھا صد حیف اس دن پر کہ جب یکدم یہ جانا کہ دنیا رنگوں ، خوشبووں اور آوازوں کا تنوع مر گیا ہر چیز کا ذائقہ ایک سا ثقیل، تہہ میں زبان پر جمنے لگا۔ تمام لمس ایک سے لمس ہوگئے ۔ بس ایک مٹیالا زرد نیند میں ڈوبا دن ہر چیز پر محیط ہو گیا۔ میں نے جو چیز منہ میں ڈالی ایک مٹیالا ذائقہ چھوڑ گئی ۔ چیزوں کے رنگ ان مٹی بھرساعتوں میں ڈوب گئے اور اپنے پیاروں کے لمس دور دراز کے لاتعلق سابقے بن گئے۔
کچھ دن تو میرے کنبے کے لوگ یہ سب کچھ دیکھتے اور برداشت کرتے رہے پھر سب کو میرے چہرے کی لاتعلقی اور خالی پن سے کوفت ہونے لگی۔ میرے زوج نے تنگ آ کر کہا مجھے لگتا ہے میں کسی پتھر کے ساتھ عمر قید کاٹ رہا ہوں ۔ مجھے اس کی یہ بات بہت پسند آئی کیونکہ ایک عرصے سے مجھے اپنا آپ سڑک کے کنارے کھڑے گرد میں اٹے حروفمٹے سنگ میل کی طرح نظر آ رہا تھا۔ شاں شاں شاں قریب سے تیزرفتار گاڑیاں گرد اڑاتی چلی جا رہی تھیں اور اب ہر طرف صرف شان شاں کی مسلسل دبی ہوئی کبھی ابھرتی ہوئی گونج تھی۔
شاید یہ سب باتیں آپ کو نہایت غیر ضروری اور لاتعلق نظر آئیں خود مجھ کو بھی ایسی ہی نظر آتی ہیں مگر پھر آخر آنکھ کو تو کچھ دیکھنا، کان کو تو کچھ سنا ہے۔ اگر یہ نہیں تو اس کے علاوہ بھی اور جو کچھ بھی ہے یہی ہے۔ شاید اب میں آپکو الجھا رہی ہوں میں اس تمہید کو ختم کرکے اب اصل واقعہ کی طرف آتی ہوں۔
جناب والا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا وہ دن بڑا خرابی کا دن تھا جب اپنے حواس پر سے میرا ایمان اٹھ گیا۔ کچھ روز تو میں اپنے آپ کو ملامت کرتی رہی۔ میں نے اپنے آپ کو خوب خوب کوساکہ اے بنت حوا لعنت ہے تچھ پر جو تو نے اپنے آپکو یوں نفس کے حوالے کردیا۔ ہاں یہ نفس کے حوالے کرنا نہیں تو اور کیا ہے کہ انسان ہوتے ہوئے کوئی اپنے حواس کی نعمتوں سے فیض یاب نہ ہو جی۔جی لبھانے والے رنگ دیکھے نہ میٹھی سریلی صدایئں اسکےکان میں پڑیں،انواع و اقسام کے ذائقوں کے لئے اس کی زبان مر جائے۔ چنانچہ میں نے اپنے آپ پر سو بار لعنت کی اور میں بہت روئی بہت گڑگڑائی اپنے خالق کے حضور کہ بس اب ایک مہیب اندیشہ میرے سامنے چلا آتا تھا۔ وہ اندیشہ ایک عجیب اٹل ساعت کا تھا۔ نہ ٹلنے والی ساعت۔
میں نے بہت چاہا میں ایک بار پھر وہی وجود بن جاؤں جو دراصل میں تھی۔ وہ جو دیکھنے والوں کو بہت بھاتا تھا۔جو لطیف خوشبوؤں اور رنگوں کی شبیہ تھی اور روح پرور موسیقی کی لہر تھی۔ لیکن ایسا نہ ہوا میں نے سب سے، ان سب سے جو میری ذات کے ساتھ کوئی تعلق رکھتے تھے کہا ، دیکھوسائیں سائیں کرتا ایک مہیب آسیب منہ کھولے میرے سامنے چلا آتا تھا۔ اگر اس آسیب نےمجھے نگل لیا تو تم کیا کروگے ؟ اور پھر مجھے اپنی اس بات پر خود ہی ہنسی آگئی ۔دراصل کہنا تو مجھے یہ تھا کہ اگر اس آسیب نے مجھے نگل لیا تو میں کیا کروں گی؟ آخر دوسروں کے لئے اس آنے والی واردات کی کیا اہمیت ہو سکتی تھی اور پھر کون سا تعلق ایسا ہے کہ ٹوٹ نہیں سکتا۔ جب مجھے یہ احساس ہوا تو میں اپنے خالق کے حضور بہت روئی، بہت گڑگڑائی کہ مجھے اس آنکھ کے عذاب سے پناہ میں رکھ کہ یہ وہ کچھ دیکھتی ہے جو اسے نہیں دیکھنا چاہئے۔ اور مجھے خود اپنی ذات سے پناہ میں رکھ کہ یہ بڑی سفاک ہے۔ جب اپنی جان پر ظلم کرنے پر آتی ہے تو ٹلتی نہیں۔مگر جناب والا میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ اس وقت بھی دراصل یہ رونا گڑگڑانا کچھ عجیب تھا کہ اندر سے جیسے گہرے خالی کنویں میں سے کوئی برابر کہتا چلا جاتا تھا کہ ایسا نہ ہو تو اچھا۔ اسی طرح ٹھیک ہے۔ ایک تاریک تجسس پنجے کھولے مجھے جکڑنے کو پل پل بڑھ رہا تھا۔
جناب والا۔ آپ ان باتوں سے یہ اندازہ نہ لگائیے کہ میں ان دنوں نارمل زندگی بسر نہیں کر رہی تھی جی نہیں ابھی مجھ میں اتنی روحانی منافقت تھی کہ میں تمام دنیا وی معمولات کو پورا کر سکوں اور دیکھنے والوں کو محض اتنا احساس ہوتا تھا کہ اس عورت کا چہرہ ایکدم سپاٹ اور خالی ہے اور اس کی آوازکہیں دور سے آتی محسوس ہوتی ہے۔
بس یہ انہی دنوں کا ذکر ہے جب میں اپنے شہر کے اس بڑے سٹور کے قریب سے گزری۔ ان دنوں اکیلے اکیلے سڑکوں پر پھرنا میرا کچھ معمول سا ہو گیا تھا۔ میں اس اسٹور کے باہر کھڑی ہوگی اور اسکے بڑے بڑے شوکیسوں میں جھانکنے لگی۔ کچھ لمحے میں نے تمام چیزیں ایک لاتعلقی سے دیکھیں ۔ وہی لا تعلقی جو ایک عرصے سے مجھ پر حاوی تھی مگر پھر وہ عجیب واقعہ ہوا۔
جناب والا۔ مجھے یوں لگا جیسے کسی نے بجلی کا تیز جھٹکا مجھے لگا دیا۔ سن سے بجلی کی تھرتھراہٹ سر سے لے کر میرے پاؤں کے ناخنوں تک پھیل گئی۔ پھر ایک دم ایک عجیب طرح کی میٹھی آسودگی میرے تمام جسم میں بھر گئی اور مجھے اپنے گرد رنگ ہی رنگ خوشبویں ہی خوشبویں ، سُر ہی سُر پھیلے نظر آئے۔ اتنی خوبصورت دنیا تو میں نے کبھی بھولے بسرے بچپن میں میں دیکھی ہوگی۔ جب کبھی میں ماں کا ہاتھ تھامے کھلونوں بھرے بازار سے گزرتی تھی۔ اب مجھے حیرت تھی کہ دنیا ایک دن اتنی خوبصورت اتنی رنگین کیونکر ہو گئی۔ شوکیس میں سجی خوبصورت بوتلیں اور ان پر لگے رنگارنگ لیبل میری آنکھوں سے چپک گئے۔ وہاں ان شیشوں کے اندر رنگ و بو وحسن و موسیقی کی ایک دنیا آباد تھی۔ وہ دنیا جو میرے لئے مر چکی تھی۔ یہ دنیا خریدی تو جاسکتی تھی مگر اس کے سراب ہوجانے کا خطرہ تھا ۔ میں مسحور نظروں سے وہ سب کچھ دیکھتی رہی ۔ مجھے وہ سات رنگا شیشہ یاد آگیا جو کبھی بچپن میں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر روشنی کے سامنے رکھ کر دیکھتی تھی۔ کس قدر خوبصورت چمکتے شفاف اور شگفتہ رنگ نکلتے تھے اس میں سے۔ جی چاہتا تھا ان کو انگلیوں سے چھو کر دیکھو، مٹھیوں میں قید کرلو۔ وہ رنگ اکیلے اس سات رنگے شیشے میں سے نہ نکلتے تھے۔ان کے ساتھ ہی وہ ایک خوشبووں، سروں اور محبت بھرے
لمحوں کی لہہریں تھیں کہ ارد گرد بہنے لگتی تھیں اور جاتے جاتے ایک نیم بے ہوش اداسی دل کو دے جاتی تھیں۔ تو آج وہ سب رنگ و بو حسن و موسیقی کی دنیا اس شو کیس کے شیشے کے ساتھ ناک چپکا دی تھی۔ اتنی بہت سی خوبصورت چیزیں گویا ایک جنت گم گشتہ تھی اور اس جنت گم گشتہ کو پالینے کا ایک جنون میٹھی میٹھی لہریں بن کر میرے دل و دماغ کو جکڑتا گیا ۔ میں ایک دھڑکتے لطیف جال میں لپٹ گئی کہ جس سے نکلنا اس خوبصورت دنیا کی موت تھی دنیا جو برسوں بعد مجھے نظر آئی تھی ۔وہ ایک عجیب شوق انگیز لہر تھی کہ مجھے مست بناتی چلی گئی۔
“بیگم صاحبہ اندر تشریف لے آئیں ” اسٹور کے دروازے پر سے سیلز مین نے مھجے مخاطب کیا تھا۔ میں چونکی۔ کوئی انجانا فیصلہ ابہام کی حدوں کو کاٹنے والی سوچ میرے ذہن میں داخل ہوئی۔ میں مسکراتی اندر چلی گئی۔
جناب والا میرا بیگ اس وقت بھی نقدی سے بوجھل تھا مگر وہ آسیب منہ کھولے چلا آ رہا تھا۔ وہ اٹل ساعت ا چکی تھی اور میں اس کے گھیرے میں تھی۔ نے بہت سی چیزیں نکلوا کر دیکھیں۔ پھر میں خود ہی اپنی اس فنکارانہ چابکدستی پر حیران رہ گئی۔ میرے بائیں ہاتھ نے خوبصورت رنگ برنگی چیزیں خاموشی سے ، یوں کہ دائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو، بیگ میں انڈیل لیں۔ رنگوں ، سُروں اور خوشبوؤں کی ایک دنیا میرے بیگ میں بند تھی۔ وہ ساتوں رنگ میری مٹھی میں اسیر تھے بظاہر میں نے ایک معمولی سی بوتل پسند کرکے اس کی قیمت ادا کی اور اڑتے قدموں کے ساتھ دکان سے نکل آئی۔ میں زمین پر نہیں گویا بادلوں پر چل رہی تھی۔ ایک رنگین امنگ میری آنکھوں میں اتر آئی تھی ایک خاص وحشی جذبہ میرے اندر رقصاں تھا۔
جناب والا۔۔ میراجی چاہتا تھا سڑکوں پر قہقہے لگاتی پھروں۔ آج پھر دنیا اتنے بہت سے رنگوں اور خوشبو سمیت زندہ ہوگئی تھی۔ گھر کی دہلیز پار کرکے میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ وہ بیگ کھولا اور رنگ و نور کی اس دنیا کو میز پر انڈیل دیا۔ ان سب چیزوں کو مختلف زاویوں سے الٹ پلٹ کر دیکھا۔ انکو سنگا اور ان کے رنگوں کو آنکھوں میں بسایا اور تب مدتوں کے ر کے آنسو بہہ نکلے۔
میرے کنبے نے مجھے کبھی روتے کبھی ہنستے دیکھا اور میز پر لگے رنگ و بو کے انبار کو بھی۔
“یہ تم نے کیا کیا ؟ ” اس نے خوف اور نفرت بھری آواز میں کہا۔ تب میں چونکی اور میں نے سوچا اور خود سے پوچھا، ہاں۔۔واقعی یہ تم نے کیا کیا ؟ اور اس سوچ کے ساتھ ہی وہ رنگ و نور کی دنیا پھر مرگی۔ وہ سب کچھ مردہ لکڑی میں سے نکلا برادہ بن گیا اور تمام دنیا پر وہ مٹیالا دن محیط ہو گیا ۔ چنانچہ جناب والا۔ میں نے وہ سب کچھ اٹھایا اور متعلقہ افسروں کو اطلاع کی۔
مجھے اپنے بائیں ہاتھ کی جدائی کا دکھ نہیں۔ جب وہ ہاتھ مجھ سے الگ ہوا تو گویا سیاہ اسیب بھی میرا وجود چھوڑ گیا۔ تب میں نے شکرادا کیا کے مجھے اس بائیں ہاتھ سے نجات ملی۔ اور اب صرف وہ نور بھرا پاکیزہ دایاں ہاتھ میرا ساتھی تھا اور میں خوش تھی اور کہتی تھی اے بنت حوا۔۔تو خوش قسمت ہے کہ آج ترے وجود کا سیاہ سایہ مٹ گیا اب تیرا یہ مبارک روشن دایاں ہاتھ تیری اچھی اچھی خبریں سب کو دیگا۔
مگر جناب والا۔۔ اب میں اصل واقعہ کی طرف آتی ہوں۔ یہ کل رات ہی کا ذکر ہے میں اس مٹیالے دن اور مٹیالی رات کی عادی ہو چکی تھی۔رنگ و نور،حسن و موسیقی کی اس دنیا کی یاد بھی میرے ذہن سے مٹ چکی تھی۔ وہ میرا بایاں ہاتھ سب منحوس یادیں اپنے ساتھ لے جا چکا تھا اور میں سکھ کی نیند سوئی تھی۔ سکھ کی گہری نیند مگر کل رات سکھ کی اس گہری نیند سے میں ایک سرسراہٹ سے جاگ اٹھی۔جیسے میرے بستر میں کوئی جاندار چل رہا ہو۔ میں نے بیڈ لیمپ روشن کیا اور یہ دیکھ کر میری پیشانی عرق ندامت میں ڈوب گئی کہ وہ سرسراتی، کلبلاتی چیز وہ میرا بایاں ہاتھ دوبارہ میرے بازو کی طرف بڑھ رہا ہے میں نے بہت کوشش کی کہ اپنے آپ کو اس بائیں ہاتھ سے محفوظ رکھوں رکھنےکی۔مگر دیکھئے۔ اب میں آپ کے سامنے ہوں۔ یہ پھر اسی طرح میری کلائی سے جڑا ہے۔ میرے وجود کا حصہ ہے جیسے کبھی کاٹا ہی نہ گیا ہو۔ جناب والا۔۔ کیا آپ بھی یقین نہ کریں گے کہ یہ کٹا تھا مگر پھر زندہ ہو کر آن جڑا۔۔۔صد حیف ہےمیرے وجود پر کہ میں اپنے بائیں ہاتھ سے نجات نہ پا سکی۔