دوسرا آدمی ۔۔۔ خالدہ حسین
دوسرا آدمی
خالدہ حسین
یہ سیٹ بھی مجھے چانس پر ملی تھی۔
۲۳-A میں نے بورڈنگ کارڈ پر نمبر دیکھا۔ سیٹ شیشے سے ہٹ کر تھی۔ بیٹھتے ہوئے میں نے سوچا اگر آج نہ بھی ملتی تو ایسی کوئی بات نہ تھی۔ یوں بھی فوکر میں سفر کرنا اچھا خاصا بیزارکن تھا۔ اس سے تو اچھا ہے، انسان کسی بس میں بیٹھ جائے۔ میں نے عادتاً بیٹھتے ہی پیٹی باندھنا شروع کردی۔ اب سب لوگ اندر داخل ہو رہے تھے۔ پیٹی باندھ کر میں نے اپنے ہم سفروں کا جائزہ لیا۔ فلائٹ میں ابھی دس منٹ باقی تھے۔ سب سیٹیں ہولے ہولے بھر رہی تھیں۔ مجھے نہ معلوم کس کی سیٹ ملی ہے، یک دم مجھے خیال آیا۔ یہ میرے ساتھ والی سیٹ بھی ابھی تک خالی تھی۔ کیا معلوم اس پر کون آئے گا۔ اور یہ سب کے سب اتنے بہت سے لوگ کون کون سے کونوں سے نکل کر آج یہاں آن بیٹھے تھے۔ باہم۔ ایک ساتھ۔ یہ بھی عجب اتفاق تھا۔ انسانوں کی ایک گنتی ایک جگہ باہم تھی، جن کا آپس میں کوئی میل کوئی رشتہ نہ تھا۔ مگر پھر بھی وہ باہم تھے۔ میں نے غور سے دیکھا۔ اب آہستہ آہستہ سب کے چہرے مانوس نظر آنے لگے تھے۔ جیسے وہ سب کے سب اتفاق سے نہیں بلکہ بلاوے سے آئے ہوں۔
میری برابر کی قطار میں ایک عورت گول مٹول سے بچے کو گود میں لئے بیٹھی تھی۔ ایک چھوٹی سی لڑکی سرخ ربن پہنے اس کے برابر کی سیٹ میں تھی۔ بچہ عورت کی باہوں سے اچھل اچھل کر باہر نکل رہا تھا اور وہ بناوٹی غصہ سے اس کو سنبھالے جا رہی تھی۔ چھوٹی لڑکی شیشے سے باہر دیکھ رہی تھی۔ عورت نےآنکھوں کو ٹھنڈک دینے والے نیلے کپڑے پہن رکھے تھے اور اس کے دائیں رخسار پر آنکھ کے قریب ایک بڑا سیاہ تل تھا۔ سب لوگ ایئرہوسٹس سے اپنی اپنی پسند کا اخبار لے رہے تھے۔ اکثر لوگ پیٹیاں باندھ چکے تھے۔ میرے برابر بیٹھی عورت اب اپنی پیٹی کے ساتھ الجھ رہی تھی۔ تب یک دم وہ تیز تیز قدم اٹھاتا دھڑام سےآکر میرے ساتھ کی سیٹ میں بیٹھ گیا۔
’’۲۴۔A یہی ہے۔ تھینک گاڈ۔‘‘ اس نے ہانپتے ہوئے پیشانی کا پسینہ پونچھا۔
’’السلام علیکم خواتین و حضرات۔۔۔ آپ سے درخواست ہے اپنے حفاظتی بند۔۔۔‘‘ میرے برابر والے نے اپنے نیچے آجانے والی پیٹی کے ساتھ الجھنا شروع کردیا۔ بہت دیر تک اس کے ہاتھ پیٹی کا سرا ٹٹولنے کی کوشش کرتے رہے۔
’’ادھر دیکھیے۔‘‘ میں نے غیر ارادی طور پر پیٹی کھینچ کر اس کے آگے کردی۔ اور تب پہلی بار میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ عجب مانوس صورت تھی۔ میں سوچ میں پڑگیا کہاں دیکھا ہے اسے۔ میں نے یاد کرنا چاہا۔ اب ہوائی جہاز کے انجن اسٹارٹ ہو چکے تھے۔ میرے برابر والی عورت خاموش ساکت بیٹھی تھی۔ بچہ گود میں بیٹھا ٹافیاں چبا رہا تھا اور اس کی ٹھوڑی شیرے سے لتھڑی تھی۔ سرخ ربنوں والی چھوٹی لڑکی شیشے سے باہر جھانک رہی تھی۔ حد نظر تک۔۔۔ تمام سیٹوں پر اخبار ہی اخبار کھلے تھے۔ انجنوں کے شور کے باوجود جہاز کے اندر عجب طرح کی خاموشی تھی۔
’’السلام علیکم خواتین و حضرات۔ آپ کا کپتان۔۔۔ آپ سے مخاطب ہے۔ ہم۔۔۔ ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے انشاء اللہ۔۔۔ منٹ میں۔۔۔‘‘ شور میں ڈوبتی ابھرتی آواز آ رہی تھی۔ میں نے آواز سے کپتان کی شکل و صورت کا اندازہ لگانا چاہا۔ یہ کتنی عجیب بات تھی۔ سب سے زیادہ اہم شخص کو ہم میں سے کوئی بھی نہ جانتا تھا۔ کوئی بھی نہ دیکھ سکتا تھا اور اس کے باوجود اس کے بغیر اس جہاز کا، ہم سب کا کوئی مفہوم نہ بنتا تھا۔
’’کتنے منٹ بتائے ہیں؟ آواز صاف نہیں آرہی۔‘‘ میرے برابر بیٹھے نے کہا۔
’’غالباً پچاس منٹ۔‘‘ میں نے پھر اس کی طرف غور سے دیکھا۔ ہاں۔ ناک۔ ہماری مخصوص چپٹی ناک۔ میں دل میں ہنسا۔ اسی لیے اتنی مانوس صورت ہے۔ مگر اس ناک کے علاوہ بھی کچھ تھا۔ جو بالکل اپنا، خود اپنا حصہ لگتا تھا۔
’’یہ بھاگ دوڑ بہت پریشان کرتی ہے صاحب۔ اتنی مشکل سے پہنچا ہوں، حالانکہ آج نہ بھی جاتا تو ایسی کوئی بات نہ تھی۔‘‘
’’اچھا تو آپ بھی۔‘‘ میں نے دل میں سوچا۔ تو کیا اتنے بہت سے لوگ یونہی غیر ضروری طور پر سفر کر رہے ہیں۔ اگر یہ آج نہ بھی آتے تو کیا تھا۔ مگر اس کے باوجود سب کے سب آ چکے ہیں۔ ان کے آنے کا واقعہ ہو چکا ہے، ہمیشہ کے لیے۔ معلوم نہیں کہاں کہاں سے۔ سب کے سب ایک جگہ۔ ایک نکتہ پر آن رکے ہیں۔ اگر میں نہ آتا۔ نہیں۔۔۔ اگر وہ آجاتا جس کی سیٹ پر میں آیا ہوں تو سب کچھ بدل جاتا۔ میں ان بہت سوں کو نہ دیکھتا اور یہ بھی مجھے نہ دیکھتے۔ شاید ہم سب ایک دوسرے کو دیکھنے کی خاطر یہاں جمع ہیں۔ ہمارا باہمی رشتہ محض اسی قدر ہے۔ اورایک وہ شخص جس کو سب سے زیادہ دکھائی دینا چاہیے۔ وہ غائب ہے۔ صرف اس کی آواز حاضر ہے۔
اب جہاز رن وے پر چل رہا تھا۔
’’صاحب یہ فوکر کی فلائٹ بہت رف ہوتی ہے۔ اور ایسی کوئی مجبوری بھی نہ تھی۔ پھر بھی معلوم نہیں کیوں۔ اچھی بھلی سیٹ کینسل کراتے کراتے رہ گیا۔ خیر۔‘‘ میرے ساتھ والے نے ماتھے کا پسینہ پھر پونچھا۔
’’ٹیک آف پر اچھا خاصا حبس سا ہو جاتا ہے۔ یہ ہوا کا رخ ٹھیک کرنا پڑے گا۔‘‘ اس نے ہاتھ بڑھا کر اوپر لگے بٹن کو ادھر ادھر گھمانا شروع کیا۔ اس کا بازو دیکھ کر میں ایک دم ٹھٹک گیا۔ اتنا مانوس بازو۔ میں پھر سوچ میں پڑگیا۔ سیاہ بالوں بھری کلائی۔ نیچے نیچے جاتی وہ ہلکی نیلی رگیں۔ یہاں تک کہ ناخنوں کی ساخت بھی۔ میں نے کنکھیوں سے اس کی طرف دیکھا۔ پسینے کے قطرے ابھی تک پیشانی پر چمک رہے تھے۔ سانس کا اتار چڑھاؤ اس کی سیٹ سے ہوتا میری سیٹ میں داخل ہو رہا تھا۔
’’شاید ہم پہلے کہیں مل چکے ہیں۔‘‘ اب کے اس نے میری آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔
’’جی ہاں غالباً۔‘‘ اب ہم دونوں سوچ میں پڑگئے۔
’’اڑنے لگا ہے۔ اڑ رہا ہے نا امی۔‘‘ برابر کی قطار میں سرخ ربنوں والی چھوٹی لڑکی نے شیشے سے باہر جھانک کر کہا۔
’’چپ رہو۔‘‘ عورت نے ڈانٹ کر کہا اور بچے کو زور سے اپنےساتھ چمٹا لیا۔
میں نے شیشے میں دور ہوتی زمین کو جھانکا۔
’’ہمارے پائلٹ بہت قابل ہیں۔ اےون۔‘‘
’’جی یقیناً۔ میں نےاس کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ غیرمعمولی طور پر سرخ ہو رہاتھا۔ حالانکہ جہاز میں خاصی خنکی تھی۔ میں نے دیکھا اس نے اپنی بیلٹ خاصی سخت باندھ رکھی تھی۔ سامنے نو سموکنگ کا نشان بجھ گیا۔ میں بیلٹ کھول کر اطمینان سے بیٹھ گیا مگر وہ اسی طرح بیٹھا رہا۔ اب بہت شوخ میک اپ کیے ایئرہوسٹس کھانے کی طشتریاں لیے گھوم رہی تھی۔ سرخ عنابی رخساروں کے ساتھ اس نے بے حد سیاہ آنکھیں اور گہرے نیلے پپوٹے بنا رکھے تھے۔ اس کے ساتھ جامنی اور ہرے رنگوں کے کپڑے۔ مجھے عجب اکتاہٹ کا احساس ہونے لگا۔
’’باہر چلو۔ باہر چلو۔‘‘ عورت کی گود سے بچے نے ہمک ہمک کر باہر نکلنا شروع کر دیا۔
’’چپ کرو۔ چپ کرو۔‘‘ وہ ہماری طرف دیکھ کر شرمندہ سی ہوگئی۔
’’باہر چلو۔‘‘ میرے برابر والے نے کہا۔ بابر۔ عجب بات ہے کہ ایک بار اندر آجاؤ تو باہر نہیں جا سکتے۔ جانا بھی چاہیں تو نہیں جاسکتے۔ پسینہ اس کی کنپٹیوں سے قطرہ قطرہ گر کر گردن پر بہہ رہا تھا۔ ایئرہوسٹس نے ہمارے سامنے کھانے کی طشتریاں رکھ دیں۔ عورت کی گود میں بیٹھے ہوئے بچے نے ہاتھ مار کر سامنے رکھی طشتری الٹا دی۔
’’افوہ۔ بدتمیز۔‘‘ عورت نے گھبرا کر پھرہماری طرف دیکھا۔ میں نے فوراً کھانے پر نظریں جھکا دیں اور کھانے کی تیاری کرنے لگا۔ اب جہاز خاصا رف چل رہا تھا۔ کبھی کبھی یوں گڑگڑاہٹ ہوتی گویا کوئی بس نہایت ٹوٹی پھوٹی سڑک پر بھاگتی چلی جاتی ہو۔ ایئرہوسٹسز چلتے میں اپنا توازن برقرار رکھنے میں مصروف تھیں۔
’’یہ تو عام سی، معمولی بات ہے۔ یہ گڑگڑاہٹ۔۔۔ موسم بھی کچھ ایسا ہی ہے۔‘‘ میرے ساتھ والے نے شیشے سے باہر بادل بھرےآسمان کی طرف دیکھا۔
’’ہاں۔ آج شام بارش کی فورکاسٹ ہے۔‘‘ مجھے یاد آیا۔ پھرمیں ایک ناخوشگوار مصروفیت سمجھ کر کھانے پر جھک گیا۔ سب لوگ کھانے میں مصروف تھے۔ یک دم میرے برابر کی قطار میں بیٹھی عورت نے خوفزدہ ہوکر چیخ ماری۔ وہ ایک عجیب اذیت ناک چیخ تھی۔ مجھے یوں لگا جیسے میں مدت سے اس چیخ کے انتظار میں تھا۔ یہ چیخ کہیں ازل سے میرا پیچھا کر رہی تھی اور آج میرے روبرو تھی۔ وہ جسے ہونا تھا اور نہ ہوچکتا تھا، آج میرے سامنے موجود تھا۔ اور اس کے ہوچکنے کے بعد ایک پتھریلی خاموشی تھی۔ میرے ہاتھ پلیٹ ہی میں منجمد ہوکے رہ گئے۔ اس واردات کو دیکھنے کے لیے میں نے عورت کی طرف آنکھیں اٹھائیں۔ وہ واردات جو خود میرے اندر سے نکل کر باہر آگئی تھی یا شاید وہ ایک ساعت تھی جو منظر میں ڈھل گئی تھی۔ تب میں نے دیکھا۔۔۔ میں نے دیکھا کہ عورت کے چہرے پر عجب دہشت برستی تھی۔ وہ لرزتی انگلی کے ساتھ ہماری جانب اشارہ کر رہی تھی۔
’’وہ۔ وہ۔ وہ۔‘‘
اب کچھ لوگوں نے کھانے پر سے نظریں اٹھا کے پیچھے مڑ کے ہماری طرف دیکھا۔ میں نے خود بھی اپنی طرف دیکھا مگر میں کچھ بھی نہ دیکھ سکا۔
’’وہ۔۔۔ خدا کے لیے دیکھو۔۔۔ وہ۔۔۔‘‘ عورت کا چہرہ زرد پڑتا جا رہا تھا۔ اس کا انگلی اٹھاتا ہاتھ تیز ہولیں پتے کی طرح لرزتا تھا۔ اب ایئرہوسٹس اور اسٹورڈ ہماری طرف لپکے۔
’’وہ۔۔۔‘‘ اب عورت نے چلا چلا کر رونا شروع کردیا۔ ایئرہوسٹس لپک کے میرے ساتھ والے کے اوپر جھک گئی۔ تب میں نے اس کی طرف گھوم کر دیکھا۔ اس کا سر کرسی کی پشت سے ٹکا تھا اور پسینے میں ڈوبا زرد۔۔۔ بالکل زرد چہرہ۔ سامنے بالکل سامنے دیکھتا تھا، جب کہ آنکھیں کھلی بالکل ساکت تھیں۔ اس کا مانوس بالکل مانوس بازو میرے بازو کو چھو رہا تھا۔
’’اوہ۔۔ مائی گاڈ۔‘‘ ایئرہوسٹس اب ڈاکٹر کے سٹیتھوسکوپ کو گھور رہی تھی جو میرے ساتھ والے کے سینے میں گاڑے چلا جا رہا تھا۔ پھر وہ سٹیتھوسکوپ ڈاکٹر کے گلے میں جھولتا رہا۔ اور اس نے وہ مانوس بالکل مانوس کلائی، ہلکی نیلی رگوں اور کالے بالوں سے ڈھکی کلائی ہاتھ میں لے کر انگلیاں نبض پر رکھیں اور پھر ہاتھ چھوڑ دیا۔
’’یہ آپ کے ساتھ تھے۔ کیا آپ ان کے ساتھ تھے؟‘‘ ڈاکٹر نے کانوں سے سٹیتھوسکوپ اتار کر مجھ سے کہا اور جواب سنے بغیر ایئرہوسٹس کو ساتھ لے کر چل دیا۔ جانے سے پہلے اس نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرے اور جیب میں سے بورڈنگ کارڈ نکالا۔ اب عورت خاموش ہوچکی تھی۔ نہیں، بلکہ سب مسافر بھی خاموش ہوچکے تھے۔ سرخ ربنوں والی لڑکی نے بھی اپنی ماں کی گود میں منہ چھپا لیا تھا۔
’’خواتین و حضرات۔ آپ کا کپتان آپ سے مخاطب ہے۔ آپ کے دائیں ہاتھ مرغلہ ہلز نظر آرہی ہیں۔ جن کی چوٹیاں برف سے۔۔۔‘‘
مگر اب سامنے سے دو اسٹور ڈاسٹریچر اٹھائے چلے آ رہے تھے۔ سب سرگھمائے پیچھے ہماری طرف۔ نہیں۔ میری طرف دیکھ رہے تھے۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ ان سب کو یوں اس طرح میری طرف دیکھنا تھا۔ اسی لیے وہ نہ جانے کہاں کہاں سے چل کر یہاں آن بیٹھے تھے۔ اسٹریچر رکھ کے اسٹورڈز آگے بڑھے۔ ان کے لوہے جیسے ہاتھ میرے بازوؤں میں گڑ گئے۔ پھر انہوں نے مجھے اٹھا کر اسٹریچر پر ڈالنے کی تیاری کی۔ میری زبان بے جان برف کی ڈلی میرے منہ میں بند تھی۔ میں چلایا، ’’مگر۔ مگر۔ میں تو زندہ ہوں۔ مرا تو وہ ہے۔ وہ۔‘‘
’’سب یہی کہتے ہیں!‘‘ انہوں نے مجھے اٹھا کر اسٹریچر پر ڈال دیا۔