تیسرا پہر ۔۔۔ خالدہ حسین

تیسرا پہر

خالدہ حسین

اس سے پہلے کیا تھا اسے کچھ یاد نہ تھا۔

اس مضبوط ہاتھ کی گرمیاور اس کے  بے وزن پاؤں گویا ہوا میں  اڑتے ہوئے. چاروں سمت رنگوں کی چلمن.۔۔۔۔۔۔ اٹھتی گرتی.۔۔۔۔۔۔ اٹھتی گرتی۔ وہ اسی طرح شہر کی گنجان گلیوں اور دیہات کے شاداب  کھیتوں اور پہاڑوں کی سنگلاخ چوٹیوں کو عبور کرتے ہوئے چلے جاتے. بھاگتے بھاگتے یا شاید اڑتے اڑتے ہاتھوں میں پسینہ آ جاتا. کبھی لگتا وہ اس مضبوط ہاتھ کی گرفت سے نکل جائے گی مگر ایسا کبھی نہ ہوا. کہانی جو ایک بار شروع ہوتی لمبی سے لمبی ہوتی چلی جاتی. قصےمیں سے قصہ نکلتا وہ ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو جاتی۔.

“یہ کیسی کہانی ہے….؟” وہ بمشکل ہن۔”سی روکتی. بھلا شہزادیاں بھی بیڈمنٹن کھیلتی ہیں.

ان کی شٹل کاک بھی دوسروں کی منڈیر پر جا گرتی.اور بھلا ایران کی ملکہ روٹیاں کیوں پکانے لگی؟”. وہ بھی ہنس دیتا ہے. اس کے نمکین چہرے پر باریک ہونٹ مسکراہٹ میں پھیل جاتے ہیں اور ان کے اندر  موتیوں ایسے ہموار دانت جھلمل جھلمل کرتے ۔

“کہانیوں میں سب کچھ ہوتا ہے۔ ” وہ تمام جھگڑا چکا دیتا۔ ” چلو اپنی گاڑی میں سیر کریں۔ “

اور گاڑی کیا تھی ۔لکڑی کی چوکی کے نیچے عجیب سا اسپرنگ ایک ہینڈل جس کو سب گاڑی کی چابی کہتے تھے, پھر وہ دونوں. اس چوکی پر  اکڑوں بیٹھ جاتے ۔ چابی کو بل دے کر کسا جاتا اور وہ چوکی برآمدے کے ہموار فرش پر چلنے لگتی۔ .

. بیچ میں وہ دن دن بھر جدا رہتے۔ وہ اپنے کالج یہ اپنے اسکول مگر سہ پہروں اور ڈھلتے سورج اور سیاہ راتوں میں وہ پھر اس طلسماتی دنیا میں جا نکلتے۔. کھلی چھت پر کھر ی چارپائی پر لیٹے لیٹے وہ پھر کہانیاں شروع کر دیتا. ایسے میں چاروں سمت عجب روشنی سی پھیل جاتی۔ نیچے گلی میں مدھم بتیاں اور ان میں چلتے پھرتے لوگسب انجانے دیس سے آئے لگتے۔ کوئی سند باد جہازی اور کوئی یمنی شہزادہ. کوئی خواجہ سگ پرست. ایک جادوگلی کے. ایک سرے سے دوسرے تک پھیل جاتا کبھی کبھی رات کی تاریکی میں کوئی بھولا بھٹکا سفید پرندہ بری طرح پھڑ پھڑاتا سر کے اوپر سے  گزر جاتا۔  تنہا اپنی ڈار سے بچھڑ کر اس کا دل رک جاتا۔

“راج ہنس تھا۔ ”  وہ بتاتا

“راج ہنس. ؟”

” نہین۔  دراصل یہ شہزادہ تھ۔ جادو نگری میں بھولے سے قدم رکھ دیا تھا۔ تب سے بس راج ہنس بن گیا۔ “ا

. ہمیشہ… ہمیشہ کے لئے.. گرم گرم آنسو اس کی آنکھوں میں ابلتے

. نہیں اس کی بہن ہے وہ سات سال تک چپ رہے گی… ساتویں سال کے آخری دن… راج ہنس شہزادہ بن جائے گا

اچھا…. وہ سکھ کا سانس لیتی۔.

سات سال… سات سال خاموش رہنا…. وہ سوچتی۔ زبان  اس کے دانتوں میں دھڑکتی اور گلے میں لفظ گدگداتے. ہاں سب ہو سکتا ہے.. سات سال چپ ہی رہا جا سکتا ہے کہ زبان ایک  فالتو بے جان شے منہ میں پڑی رہے۔ اسے اپنی زباناوپری شے کی طرح گلے میں اٹکی محسوس ہوتی

…. وہ دن بھی عجب سا تھا۔ بتایا نا تب دن رات سب کچھ وقت کا ہر پہر عجب سا ہوتا تھا.کچھ ہونے نہ ہونے کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا. چیزیں ہوتے ہوئے بھی نہیں ہوتی تھیں اور نہ ہوتے ہوئے بھی زمین سے آسمان تک بھری رہتی. وہ دن بھی عجب تھا اسکول کالج سردیوں کی چھٹیوں کے لئے بند تھے.. وہ دن گھومتے رہتے۔ وہ اس کا  ہاتھ پکڑے چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں پر پھرتا رہا دور آسمان میں گم ہوتےپہاڑوں کی لمبی قطار نیلے نیلے دھویئں میں چھپی تھی اور اس دھویئں  کے کنارے کنارے نارنجی روشنی سب کچھ جادو بھرا نظر آ رہا تھا۔.

“اس نے ایک روشن قوس کی طرف اشارہ کیا۔…. وہ دیکھو روشنی کی لکیر.”

معلوم نہیں کس چیز کا عکس تھا

… چلو ادھر.

وہ اس کا ہاتھ پکڑ کے چلنے لگا

.”.نہیں وہ ایک دم ڈر گئی. اس کے اوپر نہیں جانا”

“مگر.. مجھے تو جانا ہے.دیکھنا ہے اس طرف کیا ہے۔ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ “.

. وہ تیزی سے آگے بڑھنے لگا اسے یوں لگا جیسے اس کے قدم زمین کے ساتھ نہیں لگ رہے۔ وہ اس کے پیچھے بھاگی مگر وہ تو قوس پار کر چکا تھا اور دوسرے ہی لمحے ایک راج ہنس آسمان کی طرف اڑتا نظر آیا اور دور سرمئی میں پہاڑوں میں گم ہوگیا.

اس نے زور سے پکارنا چاہا مگر یک لخت .تھی وہ وہیں  ایک سبز ٹیلے پر ڈھیر ہوگی.آسمان خالی آواز اس کے گلے میں دب گئی. جیسے منوں ملبہ اوپر آن گرا ہو۔ تب اچانک اسے وہ شہزادہ یاد آیا جو راج ہنس بن گیا تھا۔ وہ ایک نئے عزم کے ساتھ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ آنکھیں خشک کین اور ان میں گرنے والے بالوں کو سمیٹ کر پیچھے گردن پر جمایا اور کنپٹیوں سے اپنا چمکتا ہیئر بینڈ اٹھا کر ماتھے سے گزار کے عین سر کے درمیان جمایا۔ اس کا چلہ شروع ہو چکا تھا۔ لفظ اس کے لیے مر چکے تھے۔

راج ہنس بن جانے والے کے بارے میں لوگوں نے یہی جانا کہ وہ پھر کوہ پیمائی پر نکل گیا ہے۔ وہ پہلے بھی اسی طرح چلا جایا کرتا تھا۔ کیوں کہ اسے نیلے بادلوں اور سرسبز چوٹیوں اور بہتے جھرنوں سے بہت پیار تھا مگر اصل حقیقت تو صرف وہی جانتی تھی۔

ہر تیسرے پہر وہ سفید براق، لمبی خوبصورت گردن والا راج ہنس نہ جانے کن وادیوں سے اس کے پاس جھیل کنارے آتا۔ وہ اس کے ساتھ لپٹ جاتی، اس کے گلے میں بانہیں ڈالتی، دونوں خاموش رہتے مگر راج ہنس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہتے جو زمین پر گرتے ہی موتی بن جاتے۔ وہ موتیوں کو چن چن کر جھولی بھرتی اور ان کی لڑیاں پرو کے چھپا چھپا کے رکھتی۔

اس چھوٹی سی پٹاری میں جس میں آج تک اس نے اپنی ہر قیمتی شے رکھی تھی۔ راج ہنس ہجر و فراق کی گھڑی میں اس تیسرے پہر کی زرد روشنی میں آتا۔ روزانہ وہ اس کے ساتھ جنگلوں وادیوں میں کلکاریاں مارت پھرتی اور جاتے ہوئے راج ہنس جھیل کنارے آنسووں کے موتی بکھیر جاتا۔

آخر وہ دن آ گیا۔ وہ صبح سویرے ہی اپنا پسندیدہ گیت گانے لگی۔ پھولوں میں ہم آتے ہیں ۔۔۔۔آتے ہیں ۔۔۔ٹھنڈے موسم میں ۔ وہ وادیوں پہاڑوں میں اچھلتی گاتی پھرتی۔ لوگ اس کی آواز پر حیران رہ گئے۔ اس گنگ شہزادی کو بولنا کس نے سکھایا۔ اور بولی بھی تو کیسا بولی کہ سب بولنے والے اس کے سامنے خاموش ہو گئے کہ جس کی میٹھی بات وادی وادی، پہاڑ پہاڑ، صحرا صحرا گونجتی پھرتی ہے۔ کہیں جس کی راہ میں آڑ نہیں۔ لوگ کیا جانیں آج ساتواں برس تمام ہوتا ہے۔ آج اس کا راج ہنس اپنی اصلی صورت میں لوٹ آے گا۔ وہ اس کی نرم مسکراہٹ دیکھے گی۔ اس کا ہتھ تھامے گلی گلی گھومے گی۔ ‏

اس شام اس نے اپنا خوبصورت ترین لباس پہناجس کا ریشم ہواوں  میں لہراتا  تھااور اس کے بال جو ایک ہالے کی صورت اس کے چہرے کے گرد پھیلے تھے.اس وق وہ دنیا کی خوبصورت ترین لڑکی تھی۔ ہاں  اس کا راج ہنس اسے اسی طرح دیکھتا تھا. اس نے جھیل کنارے پکار لگائی۔

“پھولوں میں ہم آتے ہیں…. آتے ہیں.۔۔۔۔ ٹھنڈے موسم میں۔ “

 پھر آسمانوں کو کاٹتی پہاڑوں کو پارٹتی.. درختوں پر سرسراتی.ہواوں میں  لہراتی. ایک میٹھی،جادو بھری گونج اٹھی اور ساری وادی میں پھیل گئی. آسمان کے ایک کنارے سے دوسرے تک…

” تم  کس کو لینے آتے ہو… آتے ہو.. ٹھنڈےموسم میں۔ “

یہ آواز ٹھنڈ کی لہر بن کر اس کے اندر اتری اور روشنی بن کر  بن کر رگوں میں پھیل گئی.. اس کا راج ہنس نہ معلوم وادیوں سے اتر کر اس کے پاسآن ر کا مگر آج تو تمہیں اپنی اصلی صورت میں لوٹنا تھا. نے اس کی گردن میں باہیں ڈالیں۔

“ہاں. اپنی اصل صورت میں مراجعت کروں گا مگر ابھی کچھ لمحے باقی ہیں. او میرے ساتھ چلو۔ آج میں تمہیں  اس وادی میں لے کر جاؤں گا جہاں سے میں آتا ہوں اور وہ درخت بھی دکھاوں گا  گا جو میرا بسیرا ہے۔ “.

. راج ہنس نے کہا میرے پروں پر بیٹھ جاؤ. اپنی اصل صورت میں معراجعت سے پہلے ہم آج گلی گلی کوچے کوچے شہرشہر وادی وادی گھومیں گے. جیسے پہلے گھومتے تھے. وہ اس کے پروں پر بیٹھ گئی. کتنی اونچی اڑان تھی اس کی. بادلوں سے بھی اوپر۔ وہ اپنے شہر  کے گلی کوچے اور پھر اونچے پہاڑ، سرسبز وادیاں ،  طوفانی دریا سب. کھلونے نظر آ رہے تھے. وہ اس کی گردن سے لپٹ گئی اور قہقہے اس کے بھیتر سے پھوٹنے لگے۔ راج ہنس نے کہا۔  وہ دیکھو میرا بسیرا قریب آرہا ہے. میری گویائی تو آج سات سال پورے ہوتے ہی لوٹ آئی تھی. وہ سامنے ہے میری وادی۔ اس نے غور سے  دیکھا مگر سامنے تو ایک ان ہونا بادل تھا۔  بس ایک مسلسل تیسرا پہر۔ ڈھلتا دن

؟”. “کہاں ہے کدھر ہے ۔کون سی وادی

“ابھی ذراآنکھیں ملو۔ تمہیں ٹھیک سے نظر آئے گا۔ “

“… “مگر میری آنکھیں ۔۔۔۔۔۔ تم تو جانتے ہو شروع ہی سے میں دور کی شے صاف نہیں دیکھ سکتی

“ہاں مگر اب دیکھ سکوں گی.”

 وہ ایک جھیل کے کنارے اتر گئے۔

تب اس نے دیکھا. وہ اپنی اصل من موہنی صورت میں لوٹ آیا تھا.دراز قد، سانولا رنگ، جادو بھری مسکراہٹ، مگر بال صرف بال تھے کہ ر اج ہنس ہی کے رہ گئے تھے۔  اسٹیل گرے… چمکتی چاندنی۔ چکا چوند پھیلاتی۔ کشادہ ماتھے سے اٹھتی شعایئں۔.اس نے غور سے دیکھا آج اس کی تپسیا سپھل ہوئی تھی۔ . آج  ہی تو پہلی بار اس نےایک کھریبازی جیت لی تھی جس میں کوئی شک و شبہ نہ تھا۔ جو جیت ہی جیت تھی۔ .

. “وہ سامنے دیکھو۔ ” اس نے بڑھتے پھیلتے نارنجی شعاعوں کے تیسرے پہر میںان ہونے بادلوں کی طرف اشارہ کیا اور آگے بڑھنے لگا.

. ” مگر اب تو تمہیں وہاں نہیں جانا. اب تو تم وہاں نہیں جاؤ گے.آج تو تمہاری مراجعت کی ساعت ہے۔   تم اپنے اصل وجود.میں واپس آئے ہو۔ وجود جو میرا تمہارا ایک ہے۔ “

. ” ہاں آج ہی  تو میری مراجعت کی گھڑی ہے. اصل وجود میں لوٹنے کی.”  اس کے راج ہنس بال ادھر ادھر لہرانے لگےپھر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس تیسرے پہر کی وادی کی طرف بڑھنے لگا۔  اس نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام  رکھا تھا مگر اس کی  اپنی ہی گرفت اس ہاتھ پر ڈھیلی پڑنے لگی۔ وہ  اس کی تیز رفتاری پر دھک رہ گئی۔

. تیسرا پہر پھیلتے پھیلتے آنکھوں سےآ ٹکرایا کرایا

” تم کس کو لینے آتے ہو ۔۔۔۔ آتے ہو ۔۔۔۔۔ ٹھنڈے موسم میں ” دور ایک گونج اٹھی۔.

. وہ زمین پر اندھی گر گئی. کیا تم نہیں جانتے…کیا تم نہیں جانتے۔۔۔۔ہم تم کو لینے آتے ہیں.. آتے ہیں..  ٹھنڈےموسم میں۔…

اس کی آواز جنگلوں پہاڑوں سے ٹکرائی۔ سمندروں، دریاوں میں بہہ گئی۔

اس نے اپنی پٹاری میں پڑی لڑیوں کو گنا۔

وہ ایک دن کا دھوکا کھا گئی تھی۔

سب داستانوں کی آزمائش کی گھڑی ختم نہ ہوئی تھی,. اس کا آخری دن تھا. اس نے  ایک دن پہلے اپنا چلہ توڑ دیا تھا۔ وہ ایک دن جو ازلی ابدی تیسرا پہر ہے۔ جس کی مٹیالی سرخی سے یہ دنیا اگی ہے۔  .

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031