کیا نزدیک کیا دور ۔۔۔ خوشونت سنگھ
کیا نزدیک کیا دور
خوشونت سنگھ
سر موہن لال نے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا۔ وہ ایک ریلوے اسٹیشن کے فرسٹ
کلاس کے ویٹنگ روم میں ٹھہرا ہوا تھا۔ آئینہ واضح طور سے دیسی تھا، کہیں سے چٹا
ہوا، کہیں سے پالش اترا ہوا۔ سر موہن لال کو آئینے پر افسوس بھی آیا اور ترس بھی
آیا اور پھر اس کی ہنسی نکل گئی۔
تم بھی اس ملک کی ہر ایک چیز کی طرح بیکار بیہودہ اور فضول ہو۔ سرموہن
لال آہستہ سے بڑبڑایا۔
آئینہ آئینہ دیکھنے والے پر مسکرایا اور پھر جیسے اس نے کہا، “تم مزے کرتے ہو
میرے یار! عزت آبرو قابلیت اور رنگ روپ خدا نے تمہیں سب کچھ دیا ہے۔ کیسے
تم مونچھوں کو تاؤ دیتے ہو۔ ولایتی سوٹ کوٹ کے کالر میں پھول، عطر پاؤڈروں اور
ولایت، صابنوں کا سہارا لے کر تم خوشبو ہی خوشبو بکھیر رہے ہو۔ ہاں میرے یار! تم
مزے کرتے ہو۔”
سر موہن لال نے چھاتی کو اور نکال کر دیکھا۔ ولایتی نکٹائی کو دوبارہ ایک ہاتھ لگا کر
محسوس کیا اور پھر کہیں جاکر آئینے کو چھٹی دی۔
سر موہن لال نے اپنی گھڑی کو دیکھا۔ اگر مل جائے تو ایک پیگ مزید وہ چڑھا
سکتا تھا۔
کوئی ہے؟”
سفید کپڑے پہنے جالی کے دروازے کے پیچھے سے ایک بیرا آیا۔
ایک چھوٹا۔” سر موہن لال نے آرڈر دیا اور پھر وہ بید کی گہری کری میں
دھنس گیا۔
شراب پیتا رہا اور سوچتا رہا۔
ویٹنگ روم کے باہر سر موہن لال کا سامان دیوار کے پاس رکھا پڑا تھا۔ ایک ٹرنک
پر پچھی، سرموہن لال کی دھرم پتنی بیٹھی پان چبا رہی تھی۔ وہ پرانے اخبار سے اپنے
آپ کو پیچھے کی ہوا دے رہی تھی۔ کچھی قد کی چھوٹی تھی، جسم کی بھاری اور عمر میں تقریبا” چالیس سال کے قریب ہو گی۔ ایک میلی سی سفید دھوتی اس نے باندھی ہوئی
تھی۔ میلی سفید دھوتی کا کنارا سرخ تھا۔ ناک میں اس کے لونگ تھا۔ لونگ میں سچا
موتی جڑا تھا۔ اس کی کلائیاں سونے کی چوڑیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ کتنی ہی دیر سے وہ بیرے کے ساتھ باتیں کر رہی تھی، اور پھر سر موہن لال نے بیرے کو اندر بلا لیا۔
بیرا اندر گیا تو پچھمی نے سامنے جاتے ہوئے ایک قلی کو آواز دے دی۔
ارے بھائی زنانہ ڈبہ کہاں پر آتا ہے؟؟
پلیٹ فارم کے بالکل آخیر پر مائی۔“
“تو پھر مجھے وہاں لے چلو۔”
قلی نے اپنے صافے کا انو بنایا۔ لوہے کے ٹرنک کو سر پر رکھا اور آگے آگے چل
دیا۔ شریمتی موہن لال اپنا ناشتہ دان اٹھائے اس کے پیچھے چل دی۔ راستے میں اس
نے ایک چھابڑی والے سے پان خرید کر اپنی چاندی کی ڈبیہ بھر لی۔ پلیٹ فارم کے
دوسرے سرے پر پہنچ کر وہ دوبارہ ٹرنک پر بیٹھ گئی اور قلی کے ساتھ باتیں کرنے لگی۔
کیا اس لائن پر گاڑیاں بھری ہی آتی ہیں؟”
آج کل تو تمام گاڑیاں ٹھسا ٹھس بھری ہوتی ہیں، مائی! لیکن تمہیں زنانہ ڈبے
میں جگہ مل جائے گی۔”
تو پھر میں یہ روٹی کا پھندہ بھی بیچ میں سے نکال دوں۔”
شریمتی موہن لال نے ناشتہ دان کھولا اور اس اس میں سے مڑی تڑی روٹیاں
نکال کر ان پر آم کا اچار رکھ کر کھانے لگی۔ جب وہ روٹی کھا رہی تھی، تو قلی اس کے سامنے ایڑیوں کے بل بیٹھا زمین پر لکیریں کھینچنے لگا۔
کیوں بہن، تم اکیلی ہی جا رہی ہو ؟”
کیونکر؟ میرا سائیں میرے ساتھ ہے بھر لو!! وہ ویٹنگ روم میں ہے۔ وہ تو
فرسٹ کلاس میں سفر کرتا ہے۔ وہ تو وزیر ہے اور بلسٹر بیرسٹر) ہے اور گاڑی میں
افسروں اور صاحب لوگوں سے اس نے ملنا ہوتا ہے۔ میں تو اپنی انٹر کلاس کے زنانہ
ڈبے میں ہی آتی جاتی ہوں۔”
کچھی خوشی خوشی باتیں کرتی رہی۔ باتیں کرنے کا اس کو شوق بڑا تھا، اور اس کے
گھر میں کوئی باتیں کرنے والا نہیں تھا۔ اس کے خاوند کے پاس اس کے لئے فرصت
کہاں؟ وہ چوبارے میں رہتی تھی اور اس کا خاوند نیچے۔ خاوند کو اپنی بیوی کے غریب
رشتے دار بھی کوٹھی کے آگے پیچھے پھرتے اچھے نہیں لگتے تھے، اس لئے ان کو بھی آنا
بند کر دیا گیا تھا۔
آخر سگنل ہوا اور گھنٹی بجی۔ گاڑی آرہی تھی۔ شریمتی موہن لال نے جلدی
جلدی روٹی ختم کی اور اچاری آم کی گٹھلی کو چوستے چوستے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ملکے پر ہاتھ دھونے اور کلی کرنے جاتے اس نے زور کا ایک ڈکار مارا۔ ہاتھ منہ دھو کر اس نے اپنی دھوتی کے پلو سے ان کو صاف کیا اور لاکھ لاکھ خدا کا شکر ادا کرتی ہوئی اپنے ٹرنک کے
پاس دوبارہ آکھڑی ہوئی۔
گاڑی آگئی۔ بالکل کچھی کے سامنے انٹر کلاس کا زنانہ ڈبہ تھا۔ اس کے ساتھ گارڈ
کا ڈبہ تھا اور پھر گاڑی ختم ہو جاتی تھی۔ زنانہ ڈبہ خالی تھا، لیکن باقی کی تمام گاڑی جیسے ٹھا ٹھس بھری ہوئی ہو۔ کچھی اپنے آپ کو سنبھالتی سمیٹتی اندر کھڑکی کے پاس ایک سیٹ پر جا بیٹھی۔ دھوتی کی ڈب میں بندھی ایک دونی نکال کر اس کو قلی کو چلتا کیا۔ اور پانوں کی ڈبیہ میں سے ایک پان کھایا اور کھڑکی پر اپنی کہنی رکھ کر باہر پلیٹ فارم پر رونق دیکھنے لگی۔ اس کے گال پان کے تھوک سے پھولتے جا رہے تھے۔
سر موہن لال جیسے ٹھنڈے مزاج کے آدمی کو گاڑی کے آنے سے کوئی فرق نہ
پڑا۔ وہ اپنی وہسکی پیتا رہا۔ صرف بیرے کو اس نے بلا کر کہا، جب سامان رکھا جائے، وہ اس کو بتا دے۔ گھبرانا جلدی کرنا، خاندانی ہونے کی تھوڑی نشانیاں تھیں؟ اور موہن
لال ایک مہذب گھرانے سے تھا جو کام بھی کرتے فخر سے حوصلے سے۔ پانچ سال جو
اس نے ولایت گزارے تھے۔ انگریزوں کا اٹھنا بیٹھنا اس نے کافی سیکھ لیا تھا۔ دیسی زبان وہ اب کم کم ہی بولتا تھا اور کبھی بولنا پڑے تو یوں بولتا تھا، جیسے کوئی گورا بولتا ہو۔ تھوڑے الفاظ منہ سے نکالتا اور جبڑے نکالتا ان کو منہ ٹیڑھا کر کے بولتا۔ انگریزی بہت اچھی بولتا تھا اور انگریزی بھی وہ جو آکسفورڈ یونیورسٹی میں نکھاری گئی تھی۔ باتیں کرنے کا بڑا شوقین تھا اور کسی بھی پڑھے لکھے انگریز کی طرح ہر موضوع پر بات کر سکتا تھا، چاہے بات کتابوں بابت ہو چاہے سیاست بابت اور چاہے کسی خاص آدمی بابت۔
کئی بار اس نے انگریزوں کے منہ سے بھی سنا تھا کہ اس کی انگریزی باکل فرنگیوں کی طرح تھی۔
سیر موہن لال کو ڈر تھا کہ کہیں اس کو اکیلے ہی سفر نہ کرنا پڑے۔ لیکن یہ تو ایک
چھاؤنی تھی اور یہاں سے ضرور کوئی انگریز افسر سوار ہو رہا ہو گا۔ اس خیال سے کہ کوئی باتیں کرنے والا اچھا ساتھ ملے گا اس کا دل خوش ہو گیا۔ باقی دیسیوں کی طرح کسی انگریز کے ساتھ باتیں کرنے کے لئے کبھی جلد بازی نہیں کرتا تھا اور نہ ہی وہ طویل
بحثوں میں پڑتا تھا۔ نہ ہی فضول ضدیں پکڑ کر بیٹھ جاتا تھا۔ اپنے کام کو ہمیشہ وہ ٹھنڈے مزاج سے کرتا۔ ہمیشہ وہ کوئی انگریزی اخبار لے کر ایک طرف بیٹھ جاتا۔ ہمیشہ ہی وہ
اخباروں کو اس طرح بند کرتا کہ اخبار کا نام دوسرے کو دکھائی دیتا رہے۔ انگریزی اخبار
اکثر انگریزی لوگ پڑھنے کے لئے مانگ لیتے، یا پھر کئی لوگوں کو اس کی ولایتی نکٹائی سے
اس کے کالج کا علم علم ہو ہو . جاتا۔ پھر ولایت کی یونیورسٹیوں، وہاں کے اساتذہ وہاں کی لائبریریوں، گھاس کے میدانوں کا ذکر چھڑ جاتا۔ اور اگر نہ کوئی اس کی نکٹائی کا خیال کرتا اور نہ کوئی اس کے انگریزی اخبار کی پرواہ کرتا تو سر موہن لال کوئی ہے” کہہ کر
میرے سے وہسکی منگوا لیتا۔ وہسکی کا انگریزی ساتھیوں پر ضرور اثر پڑ جاتا اور فورا دوستی بن جاتی۔ اور پھر سر موہن لال اپنے سونے کے سگریٹ کیس میں سے غیر
ملکی سگریٹ نکالتا۔ ہندوستان میں غیر ملکی سگریٹ! یہ اس نے کہاں سے خریدنے تھے؟ اور پھر اپنے ساتھیوں کو وہ اپنے سگریٹ پینے کے لئے دیتا اور یہ دوستی مزید پختہ ہو جاتی۔ پھر وہ انگریزوں کے ساتھ اپنے پیارے ولایت کی باتیں شروع کر دیتا۔ وہ پانچ سال! قسم قسم کے سوٹ پہننے، انگریزی کھیل کھیلنے، لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کے ساتھ انگریزی دعوتیں اڑائیں، اور پھر انگریزی طوائفوں کے بازار کی سیریں۔ ان پانچ سالوں کی شاندار
رنگین زندگی۔ ان پانچ سالوں کی زندگی سے بندہ ستالیس سال کی زندگی وار دے۔ یہ
دیسی زندگی! اس زندگی کی گندگی کمینگی جہالت۔ یہ زندگی کچھی کے ساتھ گزارنا پڑتی تھی۔ کچھی جس کے منہ سے ہمیشہ پیاز کی بو آتی رہتی۔
سر موہن لال ان ہی سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ بیرے نے آکر اس کو بتایا کہ اس
کا سامان انجن کے ساتھ والے فرسٹ کلاس ڈبے میں لاکر رکھ دیا گیا تھا۔ سر موہن لال
آرام سے اپنے ڈبے میں جا بیٹھا۔ یہ دیکھ کر اس کو افسوس ہوا کہ ڈبہ خالی تھا۔ آخر
اس نے ٹھنڈا سانس لیتے ہوئے وہی انگریزی اخبار، جس کو وہ کئی دفعہ پڑھ چکا تھا، نکال لیا اور سر موہن لال باہر پلیٹ فارم پر دیکھنے لگا۔ سامنے دو گورے فوجیوں کو جگہ کی تلاش میں تیز تیز چلتے دیکھ کر اس کا چہرہ کھل کھل اٹھا۔ گوروں نے تھیلے کندھوں پر
لٹکائے ہوئے تھے، اور شراب کی مدہوشی میں ان کے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ سر موہن
لال نے سوچا ان کو وہ اپنے ڈبے میں بٹھا لے گا۔ چاہے اس طرح کے فوجیوں کے
پاس ٹکٹ سیکنڈ کلاس کے ہی ہوتے ہیں، اس نے سوچا وہ گارڈ کو سمجھا دے گا۔
آخر کار ایک گورا اس ڈبے کے قریب آیا اور شیشے میں سے اندر دیکھتے ہوئے
اس نے اپنے ساتھی کو آواز دے کر بلا لیا۔
گورے ڈبے میں داخل ہوئے، انہوں نے سر موہن لال کو دیکھا اور پھر آنکھوں
ہی آنکھوں میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس کالے آدمی کو باہر نکال دینا چاہئے۔
پھر ان میں سے ایک آنکھیں نکالتا ہوا سر موہن لال پر برس پڑا ”جانتا۔۔۔
فوج ریز رو”
وہ تو ڈبہ فوجیوں کے لئے ریزرو تھا۔ اس ڈبے میں کوئی داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ
کس طرح اس میں سوار ہو گیا تھا۔
سر موہن لال آکسفورڈ یونیورسٹی کے لہجے میں ان سے انگریزی میں بات کرنے
فوجی تھوڑا سا حیران ہوئے۔ یہ تو انگریزی بولتا تھا۔ لیکن پھر انہوں نے نشے میں
وقت دماغ کو کچھ سمجھ نہ آئی۔ اتنے میں گارڈ نے سبز جھنڈی ہلائی۔ گوروں نے کوئی
حیل و حجت نہ کی نہ دلیل، سر موہن لال کا سامان اٹھا کر باہر پھینکنا شروع کر دیا۔ پہلے سوٹ کیس، پھر تھرموس بوتل، پھر بستر اور پھر انگریزی اخبار سر موہن لال غصے میں آگ بگولا ہو گیا تھا۔
انگریزی میں وہ ان کو برا بھلا کہنے لگا۔ گارڈ کو کہہ کر ان کو قید کروانے کی دھمکیاں دینے لگا
گورے ایک لمحہ کے لئے پھر حیران ہوئے۔ وہ تو واقعی انگریزی بولتا تھا۔
لیکن پھر ایک نے سر موہن لال کے منہ پر گھونسہ کھینچ مارا اور دوسرے نے دھکا
مارتے ہوئے اس کو چلتی گاڑی سے باہر پھینک دیا۔ سر موہن لال جھک کر اپنے بستر پرجا پڑا۔
سر موہن لال کے منہ میں جیسے زبان نہیں تھی۔ وہ قریب سے گزر رہی گاڑی کی
جل رہی بتیوں کو گھور رہا تھا۔ آخر اس نے سرخ بتی والا آخری ڈبہ دیکھا جس میں سبز جھنڈی اٹھائے گارڈ کھڑا تھا۔
گارڈ کے ڈبے سے پہلے زنانہ انٹر کے ڈبے میں کچھی تھی۔ کھا کھا کر موٹی ہوئی
بھی۔ اس کے ناک کے لونگ کا موتی اسٹیشن کی بتیوں سے لٹک رہا تھا۔ اس کا منہ
پان کی پیک سے بھرا ہوا تھا، جو وہ کتنی دیر سے جمع کر رہی تھی کہ گاڑی روانہ ہو گی تو وہ تھوکے گی۔ پلیٹ فارم کی روشنیاں ختم ہوئیں، تو شریتی موہن لال نے پچکاری
چھوڑی جو تیر کی طرح ہوا میں اڑتی چلی گئی۔