خشک کیچڑ ۔۔۔ کوثر جمال
Dr. Kausar Jamal is a senior Pakistani poet and fiction writer working as a language professional in Australia. She has published a collection of her Urdu short stories ‘Jahan-e-Digar’ . Travelogue ‘Cheeni MangoloN ke Shehr MeiN’ , and a collection of Chinese folk stories translated in Urdu ‘Moor Shahzadi’ are among her many collections.
خشک کیچڑ
(کوثر جمال)
یہ کوئی چالیس برس پہلے کی ایک سہ پہر تھی، بہار اور گرمیوں کے سنگم پر کھڑی، تھوڑی سی اونگھتی ہوئی، تھوڑی سی بیدار۔ وہ دونوں کالج یونیفارم میں کتابیں سینوں سے لگائے [ کہ کالج جانے والی نچلے متوسط گھرانوں کی لڑکیاں اس دور میں بڑے بیگوں کی بجائے اسی طرح کھلی کتابیں اٹھایا کرتی تھیں]، تیز تیز قدموں سے اب اس پل پر پہنچ چکی تھیں جس کے نیچے سے شہر کا برساتی نالہ شہر کی گندگی لیے گزرتا تھا۔ پل کے دونوں اطراف اب گھروں یا خالی زمین کی بجائے حدِ نظر تک دکانیں ہی نظر آتی تھیں۔ شہر تیزی سے بڑھ رہا تھا اور لوگوں کے کاروبار بھی اسی رفتار سے پھل پھول رہے تھے۔ برساتی نالے کے ساتھ ساتھ اگے قدیم درختوں میں سے ابھی کچھ کٹ جانے سے بچ رہے تھے اور سر جھکائے، بانہیں لٹکائے کسی سوچ میں غرق محسوس ہو رہے تھے۔ پل کے بائیں جانب سیڑھیاں اتر کر ایک ڈھلوان سے کچا راستہ اس کالونی کی طرف جاتا تھا جہاں بلدیہ کے محکمہ صفائی کے نچلے درجے کے ملازمین رہائش رکھتے تھے۔ وہ دونوں جب اس ڈھلوان تک پہنچیں تو دیکھا کہ نشیب میں آباد ان چھوٹے چھوٹے گھروں کی کالونی کی طرف کئی بھنگنیں بلدیہ کے بھاری بھرکم جھاڑو اٹھائے اپنے اپنے مسکنوں کو رواں تھِیں۔ اس کالونی میں ایک گھر فقیر مسیح کا بھی تھا جو کچھ روز پہلے ان دونوں کو کالونی میں لا کر اپنے گھر کا نقشہ سمجھا چکا تھا۔ لیکن اس روز انھوں نے شام ہو جانے کی وجہ سے فقیر مسیح کے اصرار کے باوجود اس کے ہاں جا کر چائے پانی پینے سے معزوری ظاہر کی تھی۔
اس روز رات کو رابعہ نے کئی بار سوچا ۔۔۔۔۔ کیا مجھے فقیر مسیح کے ہاں چائے بھی پینا پڑے گی، انھی برتنوں میں، جن میں وہ اور اس کے گھر والے کھاتے پیتے ہیں۔ اس سے آگے وہ کچھ نہ سوچ سکی۔ اس کا تخیل گندگی، بو اور مکھیوں کی بھنبھناہٹ کے تصورات میں الجھتا چلا گیا۔ فقیر مسیح اس محلے کے تقریبا” ہر گھر کی گندگی اورفضلہ اٹھاتا تھا۔ ابھی ان محلوں میں جدید ٹوائلٹس کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا۔ کام کر چکنے کے بعد وہ اپنا فضلے سے بھرا بڑا سا کنستر اٹھا کر جانے سے پہلے یہ ضرور کہا کرتا: “چنگا فیر بی بی جی میں ہن چلّا واں” ۔۔۔۔ ایسے موقعوں پر اکثر رابعہ کی ماں اسے کچھ کھانے کے لیے روک لیا کرتی۔ وہ “چنگا بی بی جی” کہہ کر کنستر اٹھا کر باہر گلی میں ایک طرف رکھتا ، پھر واپس آ کر اپنی قمیض کی جیب میں سے صابن کی گھسی ہوئی ٹکیہ نکال کر صحن کے ایک طرف لگے نل کے پانی اور صابن سے خوب مل مل کر ہاتھ دھوتا۔ صابن کی ٹکیہ واپس جیب میں رکھتا اور گیلے ہاتھوں کو اپنی ہی قمیض سے خشک کر لیتا۔ رابعہ کی ماں، نماز روزے کی پابند ایک نیک دل عورت تھی۔ وہ فقیر مسیح کو رات کا بچا ہوا یا پھر صبح کا بنا تازہ کھانا اُس خاص پلیٹ میں دیا کرتی جو اس کے لیے مخصوص تھی اور گھر کے عام استعمال کے برتنوں سے الگ رکھی جاتی تھی۔ رابعہ نے گھر میں کئی بار چھٹیوں کے دنوں میں فقیر مسیح کو زمین پر بیٹھے کھانا کھاتے دیکھا تھا۔ وہ جلدی جلدی بڑے بڑے لقمے پیٹ میں اتارتا۔ کھانا کھا چکنے کے بعد وہ اپنی انگلیوں کو چاٹتا، ہاتھ اور پلیٹ دونوں کو دھوتا اور پلیٹ نلکے کے پاس ایک طرف رکھ دیتا۔ اسے بھی معلوم تھا کہ یہ پلیٹ اس کے لیے الگ رکھی جاتی تھی ۔۔۔۔۔
“نہیں، میں فقیر مسیح کے گھر اس کے برتنوں میں چائے نہیں پیوں گی ۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں کھاوں گی، میں کوئی بہانا کر دوں گی۔” رابعہ نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا۔ انقلاب کا راستہ تو شروع ہوتے ہی کٹھن ہونا شروع ہو گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج جب وہ اس بستی میں داخل ہوا ہی چاہتی تھیں تو رابعہ کا دل گبھرانے لگا۔ کچھ تیز چلنے سے اور کچھ سامنے دمکتے سورج کی ترچھی شعائوں سے وہ پسینے میں نہا گئی۔ اُس کی سفید قمیض کی پہلے سے کچھ زرد پڑی بغلیں گیلی ہو چکی تھیں۔ اس کے پسینے کی بو تیز اور ناخوشگوار تھی۔ “میری طبیعت کچھ گبھرا رہی ہے تابی، کیوں نہ پھر کسی روز یہاں آئیں” اس نے تابندہ سے یہ بات اس وقت کہی جب وہ فقیر مسیح کے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر تھیں۔ تابندہ اسے غیر یقینی نگاہوں سے دیکھ کر مسکرائی اور کہا: “مائی ڈئیر کامریڈ، انقلابی اپنے اٹھتے قدموں کو واپس نہیں موڑتے، آج تو جانا ہی ہو گا ۔۔۔۔ وہ لوگ ہمارا انتظار کر رہے ہیں” ۔۔۔۔۔
تابندہ اور رابعہ، دو نو آموز انقلابی لڑکیاں اس شہر میں عورتوں کے مارکسی تعلیمی یونٹ سے وابستہ تھیں۔ ان کا یونٹ شہر کی لیبر یونینز کے ساتھ مل کر کام کرتا تھا۔ کالج کے بعد کسی نہ کسی لیبر یونین کی عورتوں کو انقلابی جدوجہد کی تعلیم دینے کے لیے وہ اس طرح کے وزٹ کیا کرتی تھیں۔ انھیں یہ کام کرتے ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ یوں اس راہ کا ہر مرحلہ ان کے لیے نیا، کبھی دلچسپ اور کبھی مشکل ثابت ہوتا۔ صنعتی ایریا کی ورکرز اور ریلوے کالونی کے وزٹ کے بعد یہ ان کا تیسرا پڑاو تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ عملہ صفائی کی کالونی میں جانے پر تابندہ کو بھی ابتدا میں کچھ الجھن سی ہوئی تھی۔ لیکن پھر اسے اب تک کے سٹڈی سرکلز کی ایک شام یاد آ گئی۔ وہ جب کبھی کمزور پڑنے لگتی تو ایسی ہی کسی بات سے روشنی لے لیا کرتی جو کامریڈ نوید تاریخی و جدلیاتی مادیت کے اسباق پڑھاتے ہوئے کہہ جایا کرتے تھے۔ ہاں تو اس روز انھوں نے کہا تھا: “یہ علم جو آپ حاصل کر رہے ہیں، یہ اس وقت تک کچھ بھی نہیں جب تک کہ آپ علم کو عمل نہ بنائیں۔ ہم طبقاتی سماج کے خاتمے کی بات کرتے ہیں، اسے ختم کرنا چاہتے ہیں، اس عمل کا آغاز ہمیں اپنے آپ سے کرنا ہو گا، اپنی طبقاتی سوچ اور سماجی و نفسیاتی رویے ختم کرکے۔ طبقات میں بٹے معاشرے کا سب سے خطرناک پہلو وہ ہے جو ہماری سوچوں، رویوں اور سماجی اقدار میں موجود ہے۔ یہ ہماری نفسیات کا حصہ بن چکا ہے۔ اس سے نجات کوئی آسان کام نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کیچڑ کے گڑھے میں گر جائے اور آس پاس پانی کی ایک بوند بھی نہانے اور اس کیچڑ کی صفائی کو نہ ہو۔ ایسے میں کیچڑ سوکھ جاتا ہے اور ایک بار جھاڑنے سے نہیں اترتا۔ اسے بار بار جھاڑنا پڑتا ہے” ۔۔۔۔۔۔تابندہ کو یاد آیا کہ اس روز سٹڈی سرکل میں موجود کامریڈ منصور نے سر نوید کی اس بات میں گرہ لگاتے ہوئے کہا تھا : “جب تک کہ پانی میسر نہ آ جائے” یہ سن کر سب ہنسنے لگے تھے۔ کامریڈ نوید کا احترام ہونے کے باوجود ان کے سٹڈی سرکل میں ایسی ہلکی پھلکی جملہ بازی ہوتی رہتی تھی۔
تو تابندہ بی بی، یہ سارے کام کیچڑ جھاڑنے اور پرانے رویوں کی صفائی کے مترادف ہیں، وہ اکیلے میں خود سے یہ بات کہہ کر مسکرا دی تھی۔
بلدیہ کے عملہ صفائی کی کالونی مفلسی اور بدحالی کی ایک ایسی تصویر تھی جو ان لڑکیوں نے خانہ بدوشوں کی جھونپڑیوں کے علاوہ اور کہیں نہیں دیکھی تھی۔ تنگ کچّی گلیوں کے دونوں اطراف نیچی چھتوں کے ڈربہ نما گھر آباد تھے۔ حیرت ہے ان گلیوں میں کوئی درخت، کوئی پودا کوئی پھول نہیں تھا۔ کیا فطرت بھی اس طبقے سے روٹھی ہوئی تھی۔ کالونی کے لوگوں نے انھیں کسی عجوبے کی طرح دیکھا۔ جیسے وہ بھول کر اس طرف آ نکلی ہوں۔ بوسیدہ اور ناکافی کپڑوں میں نیم عریاں میلے کچیلے بچوں نے ان کے پیچھے پیچھے چلنا شروع کر دیا۔ ہوتے ہوتے یہ تعداد بڑھتی گئی اور دونوں لڑکیاں اپنے آپ میں سمٹتی گئیں۔ ان کا اعتماد ہر اٹھتے قدم کے ساتھ کمزور پڑ رہا تھا۔ اچانک ایک مانوس آواز نے انھیں تھام لیا۔ یہ فقیر مسیح تھا۔ اس کے چہرے کی کسی ہوئی جلد اور تیل میں چپڑے سیاہ بال ترچھی دھوپ میں چمک رہے تھے۔ خوشی سے اس کی باچھیں کھلی جا رہی تھیں۔ آج بیبیاں اس کے گھر آئی تھیں۔ بہت مبارک دن تھا۔ اس نے ٹاٹ کا پردہ ایک طرف کرکے انھیں گھر کے اندر آنے دیا۔ بچوں کا غول اب گلی ہی میں روک دیا گیا۔ یہ گھر چھوٹے سے صحن کے بعد ایک کمرے پر مشتمل تھا۔ صحن میں ایک کنستر میں اگی بوگن بیلیا کی بیل یوں کسمسائی جیسے کھلے دروازے سے اندر آئی ہوا نے اُسے گدگدایا ہو۔ چلو کوئی پودا تو نظر آیا۔ تابندہ نے خوش دلی سے سوچا۔ اس گھر کا اکلوتا کمرہ فقیر مسیح کی کل کائینات تھا۔ کمرے کے دروازے پر ہوا اور روشنی کے آنے اور مکھیوں کی روک کے لیے لنڈے بازار سے خریدا جالی کا سفید پردہ لٹک رہا تھا۔ اس کمرے میں اس کی نوبیاہتا بیوی اور ماں کے علاوہ اور بھی کئی عورتیں موجود تھں۔ ایک دیوار کے ساتھ رکھی چھوٹی سی پیٹی پر پڑا سازو سامان چھت کو چھو رہا تھا۔ ایک طرف مٹی کے تیل کا چولہا، جس کے آس پاس سمٹا سمٹایا کچن تھا۔ یہیں ایک موڑھے پر فقیر مسیح کی ادھیڑ عمر ماں نے مسکرا کر انھیں خوش آمدید کہا۔۔ کچن کی دوسری طرف رنگین پایوں والا بڑا سا پلنگ تھا۔ یہ شاید اس کی بیوی اپنے جہیز میں لائی تھی، پلنگ پر نئی بے داغ بڑے بڑے سرخ پھولوں والی چادر بچھی تھی۔ کمرے کی ایک دیوار پر لٹکتے سنہرے فریم میں حضرت بی بی مریم اور ان کی گود میں ننھے عیسیٰ کا وجود اس گھرانے کے عقیدے کی خبر دے رہا تھا۔ اپنے گھر میں خود سے ذرا اونچے طبقے کی مسلمان زادیوں کو دیکھ کر فقیر مسیح کے چہرے کو فخر کے ہالے نے دمکا رکھا تھا۔ کمرے کی چوتھی طرف جہاں دو بید کی پرانی کرسیاں اور ان کے سامنے ایک چھوٹی سی چوبی میز رکھی گئی تھی اس پر پانی سے بھرے دو شیشے کے گلاس پہلے سے موجود تھے۔ کروشیے سے بنی جالی دار ٹکیوں سے گلاسوں کو ڈھانپ دیا گیا تھا، جس سے اس گھر کی عورتوں کا سلیقہ جھلکتا تھا۔ یہ کرسیاں ان دونوں کے بیٹھنے کے لیے تھیں۔ پلنگ پر بیٹھی کئی عورتِیں مشتاق چہروں کے ساتھ انقلابی جدوجہد کا پہلا سبق لینے کے لیے تیار نظر آ رہی تھیں۔
وہ ایک گھنٹے سے کچھ زیادہ یہاں رکیں۔ دونوں لڑکیوں نے جدوجہد میں عورتوں کے کردار اور استحصالی طبقاتی نظام سے متعلق بہت سی باتیں کیں۔ تاہم یہ تدریس کی ون وے ٹریفک ہی تھی۔ سیکھنے والیاں سیکھنے سے زیادہ دیکھنے میں مصروف رہیں۔ کچھ نگاہوں میں اشتیاق تھا، کچھ میں گمان اور وسوسے۔ اور زیادہ تر میں یہ حیرت کہ کالج کی ان لڑکیوں کو اس جدوجہد سے آخر کیا ملے گا۔ سب سے زیادہ پریشانی فقیر مسیح کی ماں کی آنکھوں سے جھلک رہی تھی۔ یہ کوئی نیا ہی راستہ تھا جس پر اس کا اکلوتا بیٹا نہ جانے کیوں چل نکلا تھا۔ فقیر مسیح کی بیوی نے اس دوران چائے کے ساتھ پکوڑے بنا ئے۔ اب میز پر ایک چھوٹی سی پلیٹ میں کچھ بسکٹ، چائے سے بھری دو پیالیاں اور میزبانوں کا بے پایاں اصرار انھیں دعوتِ طعام دے رہا تھا۔ یہ سب کچھ صرف ان کے لیے تھا۔ اس بے پناہ خلوص کے سامنے وہ دونوں نہ نہ کرنے کے باوجود کھانے پینے سے مکمل انکار نہ کر سکیں۔ تابندہ کے اندر انقلابی ولولے کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اس کی جھجک کو بہا کر لے جا چکا تھا۔ رابعہ کو بھی اس کی دیکھا دیکھی، کچھ نہ کچھ زہر مار کرنا پڑا۔
واپسی کے راستے پر سورج کی تپش میں کمی آ چکی تھیں۔ ان کے طویل سائے ان سے آگے آگے مطمعن قدموں سے چل رہے تھے۔ کالونی کے بچوں کو فقیر مسیح ڈانٹ ڈپٹ کر بھگا چکا تھا۔ اس سے جدا ہونے سے پہلے رابعہ نے پرانی بات پھر دہرائی: “دیکھو، بھُولے سے بھی میری امی کو پتہ نہ چلے کہ میں کیا کام کرتی ہوں۔ ورنہ میری تو پڑھائی بھی رک جائے گی”۔۔ فقیر مسیح نے دونوں کانوں کو ہاتھ لگا کر پرانا وعدہ دہرایا: ” نہ بی بی جی توبہ، انقلابی اپنا وعدہ نئیں توڑدے۔ مجھے ملوم ہے یہ بڑا خفیہ کام ہے۔”
پھر وہ چلتے چلتے فقیر مسیح کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئیں۔ نالے کے اطراف اگے قدیم درختوں میں پرندوں کا شور بڑھ چکا تھا۔ جب وہ پل کی سیڑھیوں کے قریب پہنچیں تو اچانک رابعہ نے جیسے کسی ہیجانی کیفیت میں تابندہ کو دھکیل کر ایک طرف کیا اور راستے سے چند ہی قدم دور جا کر قے کر دی۔ اس کا رنگ زرد ہو رہا تھا۔ آس پاس لوگوں نے انھیں گردنیں موڑ کر دیکھا لیکن اپنے اپنے مسکنوں کو پہنچنے کی جلدی میں کسی کے پاس رکنے کی فرصت نہیں تھی۔ کچھ دوچار فارغ لوگوں کو تابندہ نے خود ہٹ جانے کا اشارہ کیا اور رابعہ کا ہاتھ پکڑ کر پل سے ذرا دور لے گئی۔ اس نے رابعہ کی پشت کو ہلکے ہاتھوں سے ملتے ہوئے کہا:
” آو، تھوڑی دیر کے لیے کہیں بیٹھ جاتے ہیں۔ تمھاری حالت سنبھل جائے تو پھر چلیں گے اور اگر طبیعت زیادہ خراب ہے تو گھر جانے سے پہلے ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔” تابندہ دل میں سوچ رہی تھی کہ ہم اپنے گھر والوں کو تاخیر سے آنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ گھڑ کے سناتے ہیں، آج تو رابعہ کی خراب طبیعت کی وجہ سے جھوٹ نہیں بولنا پڑے گا۔
“نہیں اب میں ٹھیک ہوں” رابعہ نے دوپٹے سے منہ صاف کرکے مریل سی آواز میں کہا۔ پھر اچانک وہ تابندہ کے روبرو آ گئی اور پوچھا:
“کیا تمھیں کچھ محسوس نہیں ہوا؟، وہاں چائے پی کر؟”
“نہیں ۔۔۔۔ بلکہ اچھا لگا ۔۔۔۔ مجھے اچھا لگا کہ مجھ پر لگی کچھ خشک کیچڑ جھڑ گئی۔ ” تابندہ نے اعتماد سے رابعہ کی انکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا اور یوں کہا جیسے وہ رابعہ کے ساتھ ساتھ خود کو بھی کسی بات کا یقین دلا رہی ہو۔
رابعہ خاموش رہی۔ اس کی چپ میں البتہ آئیندہ کی کئی سچائیوں کا شور تھا۔