آدھے گھنٹے کا خدا ۔۔۔ کرشن چندر
آدھے گھنٹے کا خدا
( کرشن چندر )
وہ آدمی اس کا پیچھا کر رہے تھے۔ اتنی بلندی سے وہ دونوں نیچے سپاٹ کھیتوں میں چلتے ہوئے دو چھوٹے سے کھلونوں کی طرح نظر آ رہے تھے۔ دونوں کے کندھوں پر تیلیوں کی طرح باریک رائفلیں رکھی نظر آ رہی تھیں۔ یقیناً ان کا ارادہ اسے جان سے مار دینے کا تھا۔ مگر وہ لوگ ابھی اس سے بہت دور تھے۔ نگاہ کی سیدھ سے اس نے نیچے کی طرف دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں اندازہ کیا۔ جہاں پر میں ہوں وہاں تک ان دونوں کو پہنچے میں چار گھنٹے لگیں گے۔
تب تک۔ ۔ ۔ اس نے پُر اُمید نگاہ سے گھوم کر اپنے اُوپر پہاڑ کی چوٹی کو دیکھا۔ ساردو پہاڑ کی بارہ ہزار فٹ اُونچی چوٹی اس سے اب صرف ایک گھنٹے کی مسافت پر تھی۔ ایک دفعہ وہ چوٹی پر پہنچ جائے پھر دونوں کے ہاتھ نہ آ سکے گا۔ ساردو پہاڑ کی دوسری طرف گڈیالی کا گھنا جنگل تھا جو اس کا دیکھا بھالا تھا۔ جس کے چپے چپے سے وہ اتنی ہی آگاہی رکھتا تھا جتنا اس جنگل کا کوئی جنگلی جانور رکھ سکتا ہے۔ اس جنگل کے خفیہ راستے، جانوروں کے بھٹ، پانی پینے کے مقام سب اسے معلوم تھے۔ اگر ایک دفعہ وہ ساردو پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گیا تو پھر اپنا پیچھا کرنے والوں کے ہاتھ نہ آ سکے گا۔ جب وہ چوٹی پر پہنچ جائے گا تو اسے دوسری طرف کی سرسبز ڈھلوانوں پر گڈیالی کا جنگل دکھائی دے گا اور جنگل سے پرے سرحد کا پل جسے ڈائنا میٹ لگا کر اُڑا دیا گیا تھا۔
گرے ہوئے پل کے اس پار اس کا اپنا دیس تھا۔ ایک بار وہ چوٹی پر پہنچ جائے۔ پھر اسے نیچے ڈھلوان کے گھنے جنگل کو طے کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ اگر پل نہیں ہے تو کیا ہوا، وہ بہت عمدہ تیراک ہے۔ وہ گڈیالی ندی عبور کر کے اپنے دیس پہنچ جائے گا۔ اور چوٹی تک پہنچنے میں اسے صرف ایک گھنٹہ لگے گا اور وہ دونوں اس کے دشمن ابھی اس سے چار گھنٹے کی مسافت کے فاصلے پر تھے۔ ۔ ۔ نہیں وہ اسے نہیں پکڑ سکتے۔ وہ جوان ہے، مضبوط ہے اور چار گھنٹے ان سے پہلے چلا ہے۔
وہ اسے نہیں پکڑ سکتے۔ وہ ابھی اس چٹان پر پندرہ بیس منٹ بیٹھ کر دم لے سکتا ہے اور دور نیچے کھیتوں سے گزرتے ہوئے گھاٹیوں کی طرف آنے والے ان دونوں آدمیوں کو بڑے اطمینان سے دیکھ سکتا ہے جو اس کی جان لینے کے لئے آ رہے ہیں۔ وہ مسکرا بھی سکتا ہے، کیونکہ وہ ان سے بہت دور ہے۔ یقیناً اُنہوں نے اسے دیکھ لیا ہے۔ کیونکہ نیچے کے کھیتوں سے چوٹی تک اس طرف پہاڑ جس کے اُوپر وہ چل رہا ہے، بالکل ننگا ہے۔ بس چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں ہیں۔ سنہتے کی اور لال ٹینا کی جن میں آدمی چھپ بھی نہیں سکتا اور زمین سے لگی ہوئی پتلی چھدری گھاس ہے اور نیچی نیچی سیاہ چٹانیں۔ رات کی بارش سے بھیگی ہوئی اور پُرانی کالی پھسلواں۔ اس پُرانی کالی سے بند پانی کی بند پانی کی بُو آتی ہے اور بھر بھری مٹی پر قدم پھسلتے ہیں۔
اسے بہت ہوشیاری سے آگے کا فاصلہ طے کرنا ہو گا۔ جبھی تو اس نے فاصلے کو طے کرنے کے لئے جو آدھے گھنٹے میں بآسانی طے ہو سکتا ہے۔ ایک گھنٹہ رکھا ہے۔ بس اسے صرف اس بات کا افسوس ہے کہ وہ نیچے کے گاؤں سے بھاگتے وقت کیوں اپنی رائفل ساتھ نہ لا سکا۔ ۔ ۔ بھاگتے وقت اس نے رائفل وہیں چھوڑ دی۔ یہ ایک ناقابل معافی حادثہ تھا مگر اب کیا کیا جا سکتا تھا؟ اگر اس کے پاس اس وقت اپنی رائفل ہوتی تو وہ دونوں نیچے سے آنے والے اس قدر بے خوفی سے اس کا پیچھا نہیں کر سکتے تھے۔ وہ آسانی سے کسی چٹان کی اوٹ میں دبک کر کسی مناسب جگہ پر ان کا انتظار کر سکتا تھا اور اپنی رائفل کی رینج میں آتے دیکھ کر ان لوگوں کو گولی کا نشانہ بنا سکتا تھا۔
مگر وہ کیا کرے، اس وقت وہ بالکل نہتا ہے اور اب ہر لحظہ اس کی یہ کوشش ہو گی کہ وہ ان کی بندوق کی مار سے آگے چلتا رہے۔ اس نے تعاقب کرنے والوں کے پیچھے بھی دور تک کھیتوں کو دیکھا اور کھیتوں سے پرے سے آلوچے اور خوبانیوں کے درختوں سے گڑھے موگری کے گاؤں کو دیکھا۔ ایک لمحہ کے لئے اس کے دل کے اندر اُداسی کی ایک گہری سرخ لکیر کھینچتی چلی گئی۔ اس خنجر کی باریک اور تیز دھار کی طرح جس کا پھل اس وقت موگری کے دل میں پیوست تھا۔
موگری جو سیا کے پھولوں کی طرح خوبصورت تھی۔ کاشر کے لئے یہ ضروری ہو گیا تھا کہ وہ موگری کی جان لے لے چمکتی ہوئی گہری سیاہ آنکھوں والی موگری۔ انگاروں کی طرح دہکتے ہوئے ہونٹوں والی، انیس برس کی موگری وہ جب ہنستی تھی تو ایسا لگتا تھا گویا سیا کی ڈالیوں سے پھول جھڑ رہے ہیں۔ ایسی مہکتی ہوئی سپید ہنسی، اس نے کسی دوسری لڑکی کے پاس نہ دیکھی تھی، ہنسی جو سیا کے پھولوں کی یاد دلائے یا اچانک پر کھول کر ہوا میں کبوتری کی طرح اُڑ جائے اور وہ ذرا سے کھلے، ذرا اسے بند انگاروں کی طرح دہکتے ہوئے شریر ہونٹ۔
ان ہونٹوں پر جب وہ اپنے ہونٹ رکھ دیتا تھا تو اسے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے اس کے خون کے بہاؤ میں چنگاریاں سی اُڑتی چلی جا رہی ہیں۔ جیسے جذبہ پگھل کر خون اور خون پگھل کر شعلہ اور شعلہ پگھل کر بوسہ بن گیا ہو۔ اور وہ پوری طرح موگری کے چہرے پر جھک جاتا تھا۔ اتنے زور سے کہ موگری کی سانس اس کے سینے میں رُکنے لگتی اور وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اس کے منہ پر طمانچے مارکر ہی اپنا چہرہ اس کے چہرے سے الگ کر سکتی تھی۔
”تم پاگل جانور ہو کہ کاشر“!
وہ ہانپتے ہوئے کہتی۔
”اور تم آگ ہو! “ وہ خود اپنے جذبے کی شدت سے ڈر کر ذرا پیچھے ہٹتا ہوا کہتا۔
”میرے گاؤں میں کوئی نہیں
جانتا کہ میں ایک دشمن کے بیٹے سے پیار کرتی ہوں۔ “
”میرے سپاہیوں میں سے بھی کوئی نہیں جانتا کہ میں گڈیالی کے جنگل میں روز کسی سے
ملنے جاتا ہوں۔ “
وہ دونوں گڈیالی کے جنگل میں جیپ کے کسی کچے راستے پر بیٹھ جاتے۔ دیودار کے ایک ٹوٹے ہوئے تنے پر۔ پیچھے جیپ کھڑی ہوتی۔ سامنے ایک چھوٹی سی ڈھلوان کی گہری اور دبیز گھاس۔ کوئی چشمہ تقریباً بے آواز ہو کر بہتا تھا۔ جنگلی پھلوں پر پانی کے قطرے گر کر سو جاتے اور چاروں طرف بڑے بڑے ستونوں کی طرح اُونچے اُونچے دیوار اور ان کے گھنے چھتناروں میں سے سبزی مائل روشنی دور اُونچے لٹکے ہوئے فانوسوں کی طرح چھن چھن کر آتی ہوتی۔
۔ ۔ کاشر کو ایسا محسوس ہوتا گویا وہ کسی مغل بادشاہ کے دیوان خاص میں بے اجازت آ نکلا ہے۔ یہاں آ کر وہ دونوں کئی منٹ تک جنگل کے گہرے سناٹے میں کھو جاتے اور آہستہ آہستہ سرگوشیوں میں باتیں کرنے لگتے۔ کبھی ایسا لگتا جیسے سارا جنگل چپ ہے۔ کبھی ایسا لگتا جیسے سارا جنگل ان کے اردگرد سرگوشیوں میں باتیں کر رہا ہے۔
موگری، علاقہ غیر کے گاؤں سے ایک ٹوکری میں پھل اُٹھائے ہوئے گڈیالی کے پل تک آتی تھی جو کاشر اور اس کے سپاہیوں کی عملداری میں تھا۔ سیا، ناشپاتی، کیلے، آلو یا بہی کے مب، اودے انگوروں کے گچھے یا صرف اخروٹ اور مکئی کے بھٹے اور وہ چھوٹی چھوٹی خوش رنگ خوبانیاں جنہیں دیکھ کر سنہری اشرفیوں کا دھوکہ ہوتا ہے اور موگری اتنی خوبصورت تھی کہ پل کی حفاظت کرنے والے سپاہی چند منٹوں میں اس کی ٹوکری خالی کر دیتے تھے۔ سب سے آخر میں کاشر آتا اور جب کاشر موگری کے نزدیک آتا تو سب سپاہی ہٹ جاتے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے۔ ۔
لیکن جس دن موگری کی مخبری پر علاقہ غیر کے گاؤں والوں نے گڈیالی کا پل جو اس کی تحویل میں تھا، ڈائنامیٹ سے اُڑا دیا، اسی دن اسے شدید دھچکا سا لگا۔ جیسے اس کے دل کے اندر بھی کوئی پل تھا جو ڈائنا میٹ سے پُرزے پُرزے ہو گیا تھا اور وہ باہر کا پل تو کبھی نہ کبھی پھر بن جائے گا۔ لیکن اندر کا پل کون بنا سکے گا پھر سے؟ اس لئے وہ وحشت زدہ سا ہو کر پل کے ٹکڑوں کو ان گہرے پانیوں میں جاتا ہوا دیکھتا رہا۔ جہاں لطیف سے لطیف جذبے بھی بھاری پتھر بن کر ایسے ڈوب جاتے ہیں کہ پھر کبھی نہیں اُبھر سکتے۔
وہ رونا چاہتا تھا مگر اس کی آنکھوں میں آنسو نہ آ سکے اور وہ موگری کو گالی دینا چاہتا تھا۔ مگر اس کی زبان پر الفاظ نہ آ سکے وہ جانتا تھا کہ ہر سپاہی کی نگاہ اس پر ہے۔ وہ نگاہ بظاہر کچھ نہیں کہتی۔ لیکن خاموش لہجے میں شکایت کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ جب وہ ان نگاہوں کی تاب نہ لا سکا تو اپنی رائفل لے کر گڈیالی ندی میں کود پڑا۔ وہ اس کے سپاہی بھونچکے ہو کر اس کی طرف دیکھتے رہ گئے۔ وہ ندی پار کر کے گڈیالی کے جنگل میں گھس گئے۔
کئی دن تک وہ اکیلا بھوکا پیاسا اس جنگل میں گھومتا رہا اور وہ ان تمام جگہوں پر گیا جہاں پر وہ موگری کے ساتھ گیا تھا اور ان جگہوں پر جا کر اس نے ان تمام جذبوں کو بھلانا چاہا جنہوں نے موگری کی موجودگی میں اس کے لئے دھندلے دھندلے شفق زار تعمیر کیے تھے۔ کئی بار وہ موگری کی عدم موجودگی میں بھی یہاں آیا تھا تو بھی اسے ہر جگہ موگری کی عدم موجودگی میں بھی اس کی موجودگی کا احساس ہوا تھا۔ وہ پیڑ کاتنا جہاں موگری بیٹھی تھی۔
اس کے گرد اک ہالہ سا کھنچا معلوم ہوتا تھا۔ موگری نہ تھی۔ پھر بھی گویا جھرنے کے پانیوں میں اس کی آواز کی روانی گھل گئی تھی۔ ہر پھول میں اس کے بالوں کی مہک تھی اور وہ زمین جہاں پروہ بیٹھتے تھے، وہاں سے موگری کے جسم کی سوندھی سوندھی مہک آتی تھی۔ ۔ ۔ مگر آج وہاں کچھ نہ تھا۔ جذبوں کے شفق زار چھٹ گئے تھے۔ پیڑ کا تنا محض پیڑ کا تنا تھا اور پانی کا جھڑنا، پانی کے جھرنے کی طرح بہہ رہا تھا۔ ہر چیز انجانی اور اجنبی اور اس سے الگ الگ کھڑی تھی۔
وہ چیخ مار کر سارے جنگل کو جگا دینا چاہتا تھا۔ مگر اس کا حلق بار بار گھٹ رہا تھا۔ اس کے سارے احساسات پر اک دھند سی چھائی ہوئی تھی، جنگل میں بے سمت گھومتے گھومتے کئی بار اسے خیال آیا کہ اگر وہ اس دھند کو اپنے ناخنوں سے چیر دی تو شاید اندر سے موگری کا زندہ اور اصلی چہرہ صحیح و سلامت نکل آئے گا۔ وہ موگری جسے وہ اپنے دل سے پہچانتا تھا۔ مگر دھند کسی طرح نہ چھٹی۔ اور گہری ہوتی گئی۔
جنگل میں اس کا دم گھٹنے لگا۔ پیڑوں کا گھیرا اس کے لئے تنگ ہونے لگا۔ اسے ایسا محسوس ہونے لگا، جیسے چاروں طرف سے جنگل کے پیڑ جھک کر اس پر گرنے والے ہیں۔ پھر وہ گھبرا کر جنگل سے باہر بھاگ نکلا اور گڈیالی کا جنگل طے کر کے وہ ساردو پہاڑ کی برفیلی چوٹی کے دوسری طرف اُتر گیا۔ جہاں موگری کا گاؤں تھا۔ کئی دنوں تک وہ بھیس بدلے ہوئے ٹوہ لیتا رہا۔ کسی کو اس پر شبہ نہ ہوا کیونکہ اس کی شکل و صورت ایسی تھی جیسے علاقہ کے لوگوں کی ہوتی ہے۔
اس کے کپڑے بھی پھٹے ہوئے تھے اور وہ ان کی زبان بخوبی بول سکتا تھا اس لئے کسی کو اس پر شبہ نہ ہوا اور وہ ایک دن موقعہ دیکھ کر آدھی رات کو موگری کے گھر کے اس کمرے میں گھس گیا۔ جہاں موگری سو رہی تھی۔ موگری کمرے میں اکیلی سو رہی تھی۔ اس نے آہٹ کیے بغیر کنڈی اندر سے چڑھا دی۔ رائفل کندھے سے اُتار کر ایک کونے میں رکھ دی۔ اور آہستہ آہستہ دبک کر وہ موگری کے بستر کے قریب چلا گیا۔ قریب جا کر اس نے اپنا خنجر نکال لیا۔
وہ خنجر ہاتھ میں لئے دیر تک کھڑا رہا اور موگری کی سانسوں کی پُر سکون آواز سُنتا رہا۔ چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا۔ وہ موگری کے چہرے کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس کے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ وہ ایک بار ماچس جلا کر موگری کا چہرہ دیکھ لے۔ مگر بڑی جانکاہ کاوش سے اس نے ایک اذّیت ناک خواہش کو اپنے دل میں روک دیا۔ دیر تک وہ خنجر لئے جونہی کھڑا رہا اور موگری کے سانسوں کے اس بے آواز جھرنے کو سنتا رہا جو اب اس کے دل کی طرف بہہ رہا تھا۔
وہ ہولے ہولے موگری کے چہرے پر جھک گیا۔ بس ایک الوداعی بوسہ اور پھر خنجر! ۔ ۔ ۔ مگر جُھکتے جُھکتے اس کے سانس کی رفتار تیز ہوتی گئی۔ اس کے دماغ میں سنسناتی ہوئی گونجیں سی چاروں طرف پھیلنے لگیں اور اس نے اپنے جلتے ہوئے کانپتے ہوئے ہونٹ موگری کے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ ۔ ۔ موگری کے سارے جسم میں ارتعاش سا پیدا ہوا۔ اسے محسوس ہوا، جیسے موگری چیخ مارنے کو ہے مگر اس نے ایسی مضبوطی سے اپنے ہونٹوں کو موگری کے ہونٹوں سے ملا رکھا تھا کہ چیخ مارنے کا سوال ہی نہ پیدا ہوتا تھا۔
پہلے تو موگری کا سارا جسم برف کی طرح سرد ہونے لگا اور ہمیشہ یونہی ہوتا تھا۔ اسے اس سے پیشتر کے بہت سے رنگین اور خوبصورت لمحے یاد آئے۔ جب موگری پیار کرتے کرتے یک لخت اس کے بازوؤں میں سرد پڑ جاتی تھی اور کئی لمحوں تک اس کی یہی کیفیت رہتی تھی جیسے وہ دل و جان سے اس کی مزاحمت کر رہی ہو۔ پھر ہولے ہولے اس کے بوسوں کی آنچ سے اس کا سارا جسم گرم ہونے لگتا ہولے ہولے گویا برف پگھلنے لگتی۔ اور بدن میں انگڑائیاں اور پھر پھریریاں جاگنے لگتیں اور گرم گرم سانس آنچ کی طرح پگھلنے لگتا اور وہ بے اختیار ہو کر کاشر سے لپٹ جاتی اور اپنے بازو اس کی گردن میں حمائل کر دیتی۔
موگری کے دل کے اندر غالباً محبت اور نفرت کا ہر آن بدلتا ہوا میزانیہ سا چلتا رہتا تھا۔ اپنا دشمن سمجھ کر وہ اس سے نفرت کرتی تھی۔ اپنا محبوب سمجھ کر اس سے محبت کرتی تھی اور کبھی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکی تھی۔ اس وقت بھی یہی ہوا۔ موگری کا سرد پڑتا ہوا خوفزدہ اور اپنے آپ میں اکیلا جسم دھیرے دھیرے لو دینے لگا۔ جیسے انگ انگ سے روشنی پھوٹ نکلے۔ ایسی روشنی جسے آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں صرف ہاتھ محسوس کر سکتے ہیں۔
موگری نے یقیناً اس بوسے کو پہچان لیا تھا۔ خوبصورت اور پُر خطر زندگی بسر کرنے والی عورت کی زندگی میں بہت سے بوسے آتے ہیں۔ دیمک کی طرح چاٹ جانے والے بوسے اور جونک کی طرح چمٹ جانے والے بوسے۔ روکھے سوکھے پاپڑ نما بوسے اور ایسے لجلحے اور گندے بوسے گویا ہونٹوں پر کیڑے چل رہے ہوں۔ شرمائے ہوئے سہمے ہوئے بوسے۔ اور خوفزدہ کمزور اور بیمار بوسے اور صحت مند اور شریر بوسے۔ موگری ایسی خوبصورت عورتوں کو ہر قسم کے بوسوں سے واسطہ پڑتا تھا۔
مگر وہ یہ بھی جانتی ہیں کہ ان میں سے کون سا بوسہ ایسا ہوتا ہے جو دل پر دستک دیتا ہے۔ صرف اسی دستک کے جواب میں وہ بوسے کو جواب میں بوسہ دیتی ہیں۔ ورنہ صرف ہونٹ پیش کرتی ہیں۔ مگر اس بار موگری صرف چند لمحوں کے لئے برف کی طرح ٹھٹھری رہی۔ پھر اس نے اپنے اُوپر جھکے ہوئے ہونٹوں کے لمس کو پہچان لیا۔ اور پہچان کر بھی گو وہ چند لمحوں کے لئے وحشت زدہ اور ٹھٹھری سی رہی مگر ہولے ہولے اس کی مغائرت دور ہوتی گئی۔
آدھی رات کے نیم گرم اندھیرے میں کسی غیر متوقع خوشی سے اس کی ساری روح کانپ اُٹھی۔ اور وہ خود سے کاشر کی بانہوں میں آ گئی اور اس طرح آئی جیسے اب تک کبھی نہ آئی تھی۔ کاشر نے محسوس کیا جیسے آسمان زمین پر اُتر آیا ہو اور زمین لمبے لمبے سانس لے کر ہانپنے لگی۔ ایک شعلہ سا تھا جو برف کی پہنائی میں ڈوب رہا تھا۔ برف کی ٹوٹتی ہوئی ٹکڑیاں گلاب کی بکھری ہوئی پتیاں۔ سسک سسک کر سلگتا ہوا سنگیت۔ ۔ ۔ جسم کے حصار کو توڑنے کی کاوش میں افتاں و خیزاں۔
یکایک حصار ٹوٹ گیا۔ ۔ ۔ مچھلیاں طوفان میں بہہ گئیں۔ بہت سارے چراغ اک دم گل ہو گئے۔ پھر سارے احساس نیم غنودگی کی سبز جھیل میں کھو گئے۔ ۔ ۔ جب وہ جاگا تو اسی طرح گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اور موگری اس کی بانہوں میں بے خبر سو رہی تھی۔ جانے اس بے خبری میں کب کاشر نے خود اپنے ہاتھ کا خنجر اپنے پہلو میں رکھ لیا تھا۔ ۔ ! ٍ
اس نے پہلو بدل کا آہستہ سے خنجر نکالا۔ آہستہ سے موگری نیند میں کسمسائی۔ جھلے ہوئے کاشر کو موگری کا ہاتھ اپنی پیٹھ پر محسوس ہوا۔ تھپکتا ہوا۔ نیند کی ترغیب دیتا ہوا۔ پیشتر اس کے کہ وہ پھر اپنے جذبات کے دھارے میں بہہ جائے، اس نے ایک ہی جھٹکے سے پورا خنجر ہتھی تک موگری کے دل میں اُتار دیا۔ موگری چیخ بھی نہ سکی۔ ہولے ہولے اس کا کانپتا ہوا جسم ٹھنڈا ہوتا گیا۔ مگر کاشر نے موگری کو بہت دیر تک اپنے جسم سے الگ نہیں کیا۔
ہولے ہولے کا شر کے جسم نے موگری کے مرتے ہوئے جسم کے ہر ارتعاش کو اپنے اندر جذب کر لیا۔ اور جب موگری کا جسم بالکل ٹھنڈا ہو گیا تو اس نے موگری کے جسم کو اپنے جسم سے الگ کر دیا۔ اس ٹھنڈے ہونٹوں کو پھر اس طرح بوسہ دیا جیسے وہ کسی قبر کو بوسہ دے رہا ہو۔ پھر کنڈی کھول کر باہر آنگن میں آیا اور تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے وہ آنگن کی دیوار پھلانگ کر ایک احمق کی طرح سرپٹ بھاگنے لگا کیونکہ اب اس کے دماغ کی ہر رگ اور نس تانبے کے تاروں کی طرح جھنجھنا رہی تھی اور جسم کے روئیں روئیں میں خطرے کی گھنٹیاں بج رہی تھیں۔
یہ اس کی خوشی قسمتی تھی کہ سارا گاؤں نیند میں ڈوبا ہوا سو رہا تھا۔ کسی نے اس کے جسم میں بجتی ہوئی خطرے کی گھنٹیوں کی پر شور صدا کو نہیں سُنا۔ اور وہ کھیتوں سے نکل کر ساردو پہاڑ کی چڑھائی چڑھنے لگا۔ صبح جب موگری کے بھائیوں نے موگری کی لاش دیکھی اور دیوار سے لگی ہوئی رائفل کو پہچانا تو اس کا تعاقب کیا۔ مگر اب تک اسے چار گھنٹے کا اسٹارٹ مل چکا تھا۔