بند گلی ۔۔۔ محمود احمد قاضی

بند گلی

محمود احمد قاضی

مکان دلوانے والا جب مجھے اس گلی میں چھوڑ گیا تو میں حیران ہوا۔ یہ ایک بند گلی تھی۔ شروع ہی سے بند گلی کو دیکھنے لے لیے ، اس میں رہنے کی خواہش نے پتا نہیں کیوں میرے اندر بسیرا کر رکھا تھا۔ یہ خواہش اب پوری ہو رہی تھی۔ اسی لیے میں کسی قدر سرشاری کی حات میں تھا۔ لیکن میرے اندر ایک ڈر بھی تھا۔ میں سوچتا، اگر کسی دن اس گلی میں کوئی حادثہ ہو جائے ۔ آگ لگ جائے ، دنگا فساد ہو جائے تب یہاں سے نکلنے کا بس ایک ہی راستہ ہوگا۔ لوگوں کا ہجوم اور اکیلا راستہ۔ ایسے میں اگر میں ادھر پھنس جاوں تو پھر۔ کیا میرا دم نہ گھٹ جائے گا ؟ تو میں اس ملی جلی کیفیت میں ادھر پہنچا تھا۔

گلی زیادہ چوڑی تھی نہ تنگ، بس مناسب تھی۔ زیادہ تر مکان ہوا دار تھے، ان کے روشن دان باہر کی طرف کھلتے تھے۔ یہاں دھوپ بڑے واضح انداز میں آتی تھی اور شام کو سائے بھی خوب پھیلتے تھے۔ جدھر سے گلی بند تھی ادھر ایک بھاری دروازے والا مکان تھا۔ اس کا ماتھا فراخ تھا، اس کی بیٹھک کی سلاخ دار کھڑکیوں پر مہین سے گلابی پردے لہراتے تھے۔ میرے والے مکان میں کسی قدر تنگی تھی۔ وہاں ہوا تھی بھی اور نہیں بھی تھی۔ سانس کھینچ کے لینا پڑتا تھا۔ مکان کی فضا میں بھاری پن تھا۔ وہاں سکڑے سمٹے سائے ہر وقت ہراتے رہتے تھے۔ میں نے بڑے اور کھلے کمرے کو اپنا مسکن بنا لیا۔ یہاں سے باہر کی آوازیں بلا روک ٹوک اندر آ سکتی تھیں۔یعنی زندگی کی گہما گہمی نجھ سے صرف چند قدم کے فاصلے پر تھی۔ میں سارے مکان میں گھوما پھرا۔ پچھلا کمرہ سیلن زدہ تھا۔ باورچی خانے میں کاکروچ مزے کرتے تھے۔ غسل خانہ کائی زدہ تھا۔ وہاں ایک بہت پرانی لکڑی کی چوکی پڑی دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی نہ افسوس۔

میں ایک الجھے ہوئے تاثر کے ساتھ باہر آیا۔ ٹائلٹ ٹوٹا پھوٹا تھا۔ مجھے گھن آئی، یہاں صفائی کی اشد ضرورت تھی۔ صحن تکونا سا تھا۔ ایک طرف سے کھردرا اور ایک طرف سے چکنا۔ اوپر گیا، کوٹھے پر لٹکتی رسی سے ٹکرا گیا۔ شاید یہ دھلے ہوئے کپڑے سکھانے کے لیے تانی گئی تھی۔ دایئں طرف والے مکان کے کوٹھے پر ایک نکڑ میں ایک بے ڈھنگا سا کمرہ بنا تھا۔ اس کے آگے ایک بے جوڑ سا برآمدہ تھا۔ ایک طرف کبوتروں والی چھتری تھی، اس چھتری کو ایک ڈوری کی حرکت سے اوپر نیچے کیا جا سکتا تھا۔ پاس میں ایک جای دار بڑا سا کبوتروں والا پنجرہ گڑا تھا۔ وہاں کبوتروں کی آواز کی گونج نمایاں تھی۔ ایک ادھیڑ عمر بندہ وہاں ایک کبوتر کو ہاتھ میں پکڑے بیٹھا اس کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔ میرے وجود کی آہٹ پر اس نے سر اٹھایا،

” نئے آئے ہو ؟ “

” ہاں “

” میں عبد الحمید” اس نے ہاتھ آگے کیا

میں نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ وہاں گرم جوشی تھی۔

” شاید اکیلے ہو”

“ہاں “

” ٹھیک ہے۔ اچھا ساتھ رہے گا۔ “

” تم مجھے خاصے پڑھے لکھے لگتے ہو۔ پھر یہ کبوتر بازی۔۔۔۔”

” کبوتر بازی نہیں، محض ضد بازی ہے”۔

” کیا مطلب ؟ “

” تب میں تھرڈ ایئر میں تھا۔ ان دنوں تمہارے والے اس مکان میں نئے کرائے دار آئے ہوئے تھے۔ ابھی انہیں آئے چند ہی دن ہوئے تھے کہ میں دھوپ سینکنے اوپر آیا۔ ان کی ایک بی بی غالبا نہانے کے بعد اپنے بال سکھانے کے لیے پہلے سے اپنے کوٹھے پر موجود تھی۔ میں نے اس پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی اور پھر دوسری طرف دیکھنے لگا۔ وہ غصے میں بھناتی ہوئی نیچے اتر گئی۔ تھوڑی دیر بعد اس کا شوہر اوپر آیا۔ وہ اول فول بکنے لگا۔ مجھے خبر ہی نہ تھی کہ یہ سارے کلمات میرے بارے میں تھے۔ پھر جب یہ واقعہ گلی بھر کی خبر بن گیا تو مجھے بھی خبر ہوئی۔ اس عورت کا شوہر مجھ سے اس بات پر ناراض تھا کہ میں نے اس کی عورت کی طرف بھرپور نظروں سے دیکھ لیا تھا اور یوں اس کی بے پردگی ہوئی تھی۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ محض اتفاق تھا، میں نے جان بوجھ کر اور قصدا ایسا نہیں کیا تھا۔

جب ان لوگوں کو غصہ کم نہ ہوا اور وہ اپنے سخت رویے پر بضد رہے تو میں بھی ضد پر آ گیا۔ میں نے کتابیں پھینک دیں اور چند کبوتر لے کر اوپر آ گیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں میں ایک پکا کبوتر باز بن گیا تھا۔یہیں پر کبوتروں کی نسل کی بڑھوتری بھی جاری رہی۔ کراس بریڈنگ بھی ہوتی رہی۔ یہیں کبوتروں کی کلیاں کٹتی رہیں۔ شرطیں ہوتی رہیں اور اپنے مخالف کبوتر بازوں کے کبوتروں کے ساتھ ٹکریاں بھی لڑائی جات رہیں۔ وہ عورت دوبارہ کوٹھے پر نظر نہیں آئی۔ بلکہ کچھ عرصے بعد وہ لوگ یہ گھر ہی چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے۔ مجھے انکے جانے کا افسوس ہوا کہ میرے رویے کی بنا پر وہ ادھر سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ لیکن، نہیں، میں شاید بھول رہا ہوں ، ان کے یہاں سے جانے کا سبب میں نہ تھا بلکہ دروازہ تھا۔”

” دروازہ ؟ “

” سنا ہے وہاں نچلے کمرے میں ایک بند دروازہ ہے۔ اس کو لکڑی کے تختے لگا کر میخوں سے بند کر دیا گیا ہے۔ انہیں راتوں کو اس بند دروازے کے پیچھے سے سرسراہٹ جیسی آواز آتی تھی۔ انہیں اسکے علاوہ کوئی تنگی تکلیف نہ تھی۔ یہ آواز اکثر راتوں کو انہیں پریشان ضرور کر دیتی تھی۔ غالبا ان کے یہاں سے جانے کی ایک وجہ میں بھی تھا لیکن اصل وجہ یہ دروازہ ہی تھا۔ “

” دلچسپ” میں مسکرایا۔

” کیا تم اس دروازے کی نوعیت جاننے کی کوشش کرو گے یا پھر تم بھی ڈر کر یہاں سے بھاگنے کی کرو گے ؟ “

” دیکھو حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔ “

رات آئی تو میں اس آواز کا منتظر رہا۔ بڑے کمرے کی جنوبی دیوار کی بغل میں واقعی ایک بھاری دروازہ موجود تھا۔ میں نے اسے چھو کر دیکھا۔ ٹھونک کر دیکھا۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ میں سوچتا رہا کہ آخر یہ دروازہ کھلتا کہاں پر تھا اور دوسری طرف کیا تھا ؟ کوئی خلا یا کچھ اور ؟ ۔ رات کے پچھلے پہر میری نیند ٹوٹی، میرے قریب ایک ہلکی سی سرسراہٹ تھی۔ لیکن یہ وہی آواز تھی جیسی کہ مجھے بتائی گئی تھی۔ سو میں مست ہو کر سو گیا۔ بعد میں آنے والی راتوں کو اکثر یہ ہونے لگا۔ یہ سرسراہٹ سی تھی۔

ایک آدھ بار تو مجھے اپنے قریب کسی کے وجود کا احساس بھی ہوا۔ میں نے سوچا، یہ محض میرا واہمہ تھا۔ شروع میں مجھے چونکہ ایک کہانی سنادی گئی تھی۔ اب میں اس ے اثر میں تھا اور کچھ نہ تھا۔ بظاہر مجھے اس گھر میں اور کوئی مسئلہ درپیش نہ تھا۔ اس غیر مرئی تاثر کے سوا مجھے سکون تھا، آرام تھا۔ اس دوران جب بھی مجھے کوٹھے پر جانے کا اتفاق ہوتا تو وہ کبوتر باز مجھے دیکھ کر مسکراتا۔

” کچھ ہوا ؟”

” نہیں۔ “

” عجیب ہو تم بھی۔ مجھے تو تم بھی کسی بھوت جیسے لگتے ہو۔ بے آواز و پر چلے آتے ہو، مجھے اپنے قریب تمہارے ہونے کا احساس خاصی دیر بعد ہوتا ہے۔ “

” تمہارا خیال ہے بس “

وہ زیر لب مسکراتا ہوا کبوتروں کو دانہ ڈالنے لگتا یا اوپر آسمانوں میں تیرتے اپنے کسی کبوتر کی واپسی کا منتظر نظر آنے لگتا۔

ایک شب کی درمیانی ساعتوں میں، میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ مجھے اب اس دروازے سے کراہت محسوس ہونے لگی تھی۔ میں دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔ خاصی دیر لگی مجھے اس کام میں۔ لیکن کامیابی ہو ہی گئی۔ دروازہ ھلا تو ایک باسی ہوا کے جھونکے نے میرے چہرے کو سہلایا۔ میں نے قدم آگے بڑھائے، آگے ایک اور دروازہ تھا۔ میں متحیر کھڑا رہا۔ پھر میں نے اسے بھی کھول دیا۔ اسے کھولا تو آگے اس جیسا ہی ایک اور دروازہ موجود تھا۔ میں مزید آگے بڑھا۔ میں دروازے پر دروازہ کھولتا چلا گیا۔ سات دروازے کھول چکا تو آٹھواں سامنے آ گیا۔ میں نے جب اسے بھی کھول لیا تو دیکھا کہ میں پھر سے پہلے دروازے کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔ دروازہ پہلے کی طرح بند تھا۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031