مہندی والی ۔۔۔ محمود احمد قاضی
مہندی والی
محمود احمد قاضی
بڑی سڑک کی بغل سے جو کئی ذیلی راستے پھوٹتے تھے انہی میں سے ایک پر یہ سفید رنگ کی بگال صفت کوٹھی موجود تھی. سارے اسے مہندی والی کوٹھی کہتے تھے کہ اس کی مالکن مہندی کی بہت شوقین تھی. اس نے اپنی کوٹھی کے بڑے سے لان میں مہندی کے دو، چار بوٹے بھی لگا رکھے تھے. ویسے اب تو اسے مہندی سے اتنا لگاؤ نہیں رہا تھا مہندی والی تہمت اس پر اب بھی.برقرار تھی۔ لوگ اسے مہندی والی ہی کہتے تھے. اس نے شروع ہی سے چونکہ اپنی زندگی کو چند ضابطوں کے تحت بسر کیا تھا وہ کسی قدر سخت مزاج بھی مشہور تھی. ویسے وہ سوشل ورک پر یقین رکھتی تھی. جس وقت کرونا کا حملہ ہوا تو تب ہی سے مستحقین میں راشن کے پیکٹ تقسیم کرنے میں لگی تھی. اس نے سینیٹائزر گلوز اور ماسک بھی مختلف طبی اداروں کو دیے تھے. پھر اس نے اپنی کوٹھی کے لان میں ہیں احتیاطی تدابیر کو اختیار کرتے ہوئے پچاس ساتھ لوگوں کا اکٹھ کیا. ہر بندہ دوسرے سے ایک میٹر کے فاصلے پر بیٹھا. ہر ایک کے لیے ماسک اور گلوز اسی نے مہیا کیے گئے تھے. گیٹ پر سینیٹائزر سے لوگوں کے ہاتھوں کو سینی ٹائز کیا جاتا تھا. وہاں مقررین بولے. کرونا انفیکشن کے تحت مفید معلومات اور تدبیروں پر مبنی خیالات کا. بر ملا اظہار ہوا. جب وہ خود بولی تو اس نے کہا آپ دیکھ لینا آج کے بعد یہ دنیا بدل جائے گی ایک نوجوان اخبار نویس نے کہا لیکن میڈم لوگوں کے خیالات تو آپ سے مختلف ہیں. اول تو وہ اس حقیقت سے ہی انکاری ہیں کہ یہ کوئی بیماری ویماری ہے. ان کے نزدیک یہ فراڈ ہے. ایک طبقہ یہ کہتا ہے.. جہاں تک اموات کا تعلق ہے تو یہاں تو ہر سال ٹریفک حادثات میں ہزاروں افراد موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں ابھی ابھی اعلیٰ عدالت کے ایک جج نے فرمایا ہے کہ لاک ڈاؤن سے بندے اگر کرونا سے محفوظ ہو گئے تو کیا وہ بھوک سے نہیں مریں گے. آپ ہفتہ، اتوار کو جو مارکیٹیں بند کرنے کا کہہ رہے ہیں تو کیا ہفتہ اتوار کو کرونا کی چھٹی ہوتی ہے کسی کو کچھ نہیں کہتا. یہاں تو پولن الرجی سے بھی بہت سے بندے ختم ہو جاتے ہیں.. تو محترمہ میں آپ کے خیالات سے اتفاق نہ کرنے کی جسارت کروں گا یہاں کچھ بھی نہیں بدلے گا.. یہ دنیا ویسی کی ویسی ہی رہے گی۔
اس شخص کی باتوں کو کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ الٹا اس سے ناراض ہوئے تھے۔.
مہندی والی اس کالونی کی بلکہ شہر کی معروف ترین شخصیت تھی. وہ ایک نامور گائناکالوجسٹ تھی. لوگوں میں اس کی ایک اہمیت اور قدر تھی ۔ وہ جدھر جاتی لوگ اس پر اپنی مسکراہٹ کے پھول نچھاور کرتے تھے۔.
لوگ اپنے محتاط رویے میں اور وہ اپنی محدود سرگرمیوں میں مگن تھی کہ انہونی ہو گئی۔. اس کے ہسپتال میں لائی گئی ایک زچہ کو کرونا اس وقت ڈکلیر ہوا جب وہ آپریشن تھیٹر میں اس کے ساتھ مصروف تھی. یہ سیزیرین کیس ساتھ تھا. اس نے زچہ اور بچہ دونوں کو بچا تو لیا لیکن انہیں قرنطائن بھی کر دیا. بچہ انکوبیٹر میں تھا اور اس کی ماں علیحدہ ایک کمرے میں رکھی گئی تھی. وہ دونوں ماں اور بچہ دونوں صحت یاب ہو کر گھر چلے گئے لیکن مہندی والی خود کرونا کا شکار ہوگئی۔.
اس کیکوٹھی کے بیک یارڈ میں ایک طرف گیراج تھا اور دوسرے کونے میں کسی وقت ایک واش روم پتہ نہیں کس ضرورت کے تحت بنوا دیا گیا تھا.. یہ بیکار پڑا رہتا تھا۔ ادھر جانے کی کسی کو ضرورت ہی نہ تھی کہ گھر کے اندر معقول تعداد میں واش روم سے موجود تھے.. لیکن اب اس واشروم کی ضرورت پڑ گئی تھی کہ مہندی والی نے خود کو ادھر اس واش روم کے دروازے کے قریب اپنی ذاتی گاڑی میں قرنطائن کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا. گاڑی کے شیشے بند رکھے جاتے. صرف ضرورت کے وقت کھلتے بلکہ صرف ایک ہی دروازہ استعمال میں لایا جاتا. کھانا وانا پانی ادھر سے آتا جب اسے واشروم کی ضرورت ہوتی. تو گاڑی کا دروازہ کھول دیتی اور اندر چلی جاتی پھر واپس آ کر خود کو گاڑی میں بند کر دیتی… حالانکہ وہ کلاسٹرو فوبیا میں مبتلا ایک خاتون تھیں لیکن ان دنوں میں پتہ نہیں کس طرح اس نے اپنے آپ کو ایک بند جگہ میں رہنے پر آمادہ کر رکھا تھا. شاہد ایک بڑے خوف سے بچنے کے لیے اس نے چھوٹے خوف کے ساتھ رہنا پسند کر لیا تھا
ضرورت کے وقت لوگ اس تک آتے تھے. چٹوں کا تبادلہ ہوتا. وہ زیادہ احکامات واٹس ایپ کے ذریعے صادر کرتی تھی۔
ایک بندہ آیا۔
. اس نے مہندی والی سے تین لاکھ روپے قرض لے رکھا تھا ہر چیز اشٹام پر درج تھی.. شرائط اور اقساط کی تفصیل یہاں موجود تھی. وہ شخص پابندی سے اقساط کی ادائیگی کر رہا تھا. اس نے التجا کی مادام۔ آپ ان دنوں ایک مہلک بیماری میں مبتلا ہیں ویسے تو زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن کچھ پتہ نہیں کہ بندے کے ساتھ کیا ہو جائے گا ایسے واقعات اور حالات کو مدنظر رکھ کر آپ میرا باقی کا قرض معاف کر سکتی ہیں؟. جو کہ اب آدھا رہ گیا ہے. میرا چھوٹا سا کاروبار تھا وہ آج کل ٹھپ ہے ایسے میں اگر آپ مجھ پر مہربانی کریں تو میں باقی کی ساری زندگی آپ کا شکر گزار رہوں گا. اس کی طرف سے جواب آیا. معاف کیا.. وہ شخص خوشی خوشی گھر لوٹ گیا. پھر چند وہ لوگ آئے جو شہر کی ایک گہما گہمی والی مارکیٹ کی دکانوں میں اس کے کرایہ دار تھے. وہ ملتجی تھے کہ اس وبا کے دنوں میں ان کا کرایہ معاف ہونا چاہیے. وہ مان گئی کہ ٹھیک ہے.. یہ سارے لوگ بھی خوش ہو گئے۔ سارے شہر میں اس کی واہ واہ ہوگئی۔.
لوگ اسے خداترس خاتون گرداننے لگے.. پی ٹی وی چینلز نے اس کی تعریفوں کے پل باندھے
ایک ہفتہ ۔۔۔ دو ہفتے ۔۔۔۔ دو ماہ گزر گئے.. وہ چنگی بھلی ہو کر اپنی گاڑی سے باہر آگئی. روزمرہ کے واقعات جب اس پر سے ہو کر گزرنے لگے تو اس نے اعلان کیااشٹام کی حیثیت بحال ہے۔ قرض ویسے ہی وصول ہوگااور کرایہ دار بدستور کرایہ ادا کریں گے. رعایت واپس لی جاتی ہے. متاثرہ لوگ سٹپٹا گئے۔. انہوں نے اس سے ملنے کی کوشش کی. کامیاب نہ ہوئے۔ترلے، منتیں، سفارشیں کچھ کام نہ آیا۔ وہ نہ پسیجی، لوہے کا تھن ہو گئی۔.
تب لوگوں کووہ اخبار نویس یاد آیا جس نے کہا تھا ۔۔۔ یہ دنیا ویسے کی ویسی ہی رہے گی.