سیب کے درخت ۔۔۔ محمود احمد قاضی
سیب کے درخت
( محمود احمد قاضی )
سہانی شام ایک بار پھر شہر پر اتر آئی ہے
مگر شہر کے اس سب سے زیادہ خوبصورت اور ہم دونوں کے پسندیدہ ریستوران میں خلاف معمول خاموشی ہے۔ چائے کا ہاف سیٹ منگوا لیا گیا ہے۔ وہ جلدی جلدی چائے اپنے حلق میں انڈیل رہا ہے اور میں حسب معمول چائے کی پیالی پر اپنے دونوں ہاتھ اسے ڈھانپنے کے انداز میں رکھے اس سے برآمد ہوتی نیم گرم نیلی بھاپ کو اپنے اندر اترتا ہوا محسوس کر رہا ہوں۔ اس نے سگریٹ سلگا لیا ہے اور اب لمبے لمبے کش لیتا دھویئں کے نیلگوں چھلے اپنے ارد گرد پھیلا رہا ہے۔ آہستہ آہستہ چائے سپ کرتے ہوئے میں سورچ رہا ہوں کہ آج خلاف معمول لوگ اتنے خاموش کیوں ہیں۔ حا لانکہ ریستوران میں بہت سے لوگ موجود ہیں ۔ ساری ہی میزیں آباد ہیں۔ مگر گفتگو مفقود۔ کبھی کبھار اکا دکا کھسر پھسر۔ ہلکی سی کھانسی کی آواز۔ بیروں کے برتن سمیٹنے کی آوازیں اور ہلکی موسیقی کا دھیما لہجہ اس ریستوران کے نیم روشن ماحول کو مزید پراسرار اور خاموش کئے دے رہا ہے۔
ہوں ۔۔۔۔ !
وہ ہولے سے غراتا ہے
میں مسکراتا ہوں
میرا خیال ہے تم کچھ کہنا چاہتے ہو۔
ہاں ۔۔۔ خاموش رہنے سے کچھ بولنا اچھا ہے۔
مگر بعض اوقات خاموشی ۔۔۔۔ !
وہ زور سے ٹیبل پر ہاتھ مارتا ہے۔ عزیز من فلسفہ با لکل نہیں چلے گا۔
ٹھیک ہے جیسا تم کہتے ہو ویسا ہی سہی
وہ دوسرا سگریٹ سلگاتا ہوا کہتا ہے۔
اچھا یہ تو بتاو تمہارا اس بحث کے بارے میں کیا خیال ہے
کیسی بحث
یہی جو عورت کی حکمرانی کے خلاف چل نکلی ہے۔
اس میں کچھ بھی نہیں۔ ایسی باتیں پہلے بھی ہوتی آئی ہیں۔ اصل مسئلہ تو اس ملک میں جمہوریت و پنپنے دینے کا ہے۔ اور اس میں بہت بڑی تاریخی حقیقت اور ضرورت کو جھٹلانے کے لیے ہی یہ ساری باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ عورت کی حکمرانی کا قصہ تو محض بہانہ ہے۔
مگر شاید ان کا یہ بہانہ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔
ہاں شاید۔
یا کیا ؟
اب اتنی جلدی بھی کیا ہے۔ اسی یا کو طے کرنے ے لیے ہمیں ابھی بہت سے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔
میں نے اسکے جواب کو اپنی بھاری مونچھوں کے پیچھے لمبی سی ہوں کر کے چھپا دیا ہے۔
تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد وہ گویا ہوتا ہے۔
یہ آج ۔۔۔۔ تمہارے سر پر عورت کیوں سوار ہو گئی ہے ؟
وہ اس لیے کہ عورت ہمارا نصف ہے۔ اس ملک کی نصف آبادی۔ ہمیں ایکدوسرے کو سمجھتے ہوئے ہی زندگی کرنی ہے۔ اس ملک کو چلانا ہے۔ اسکے جملے کو درمیان سے اچک کر میں کہتا ہوں
اور میخوں والے بھاری بوٹوں کی ٹھوکر سے بھی اپنے آپ کو بچانا ہے۔
اس بات پر گھبرا کر وہ اپنے دونوں ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیتا ہے۔
میں ہنس پڑتا ہوں
اتنے میں ایک دوسری میز پر بھی قہقہ لگتا ہے۔ ۔۔۔۔۔ پھر ایک اور قہقہہ !
اور یوں ریستوراں آوازوں سے لبا لب بھر جاتا ہے۔
جمہریت بہت بڑی نعمت ہے
جمہریت کا سلسلہ قائم رہنا چاہیئے۔
اب آمریت کے دن لد گئے۔
اخبارات، ٹیلی ویژن ریڈیو، جمہوری آزادی کی لہر میں بھگے نظر آتے ہیں۔ بلیک لسٹ پر سے تمام نام مٹا دئے گئے ہیں۔
جلسے جلوسوں پر کوئی پابندی نہیں۔
کچھ کہنے ۔۔۔۔ کچھ لکھنے پر کوئی روک ٹوک نہین رہی۔
کچلے ہوئے لوگوں کی آس امید بڑھی ہے
جمہوریت کا ثمر ! وہ مجھے ٹوکتا ہے۔
مگر ایک شک ہے ۔۔۔۔ جو ابھی تک اپنا پھن پھیلائے لوگوں کے سروں پر منڈلاتا ہے۔
پتہ نہیں کیا ہو جائے۔ نہ جانے کب وہ پھر آ جایئں۔انہیں تو بس بہانہ چاہیئے۔تو کیا یہ سب کچھ محض ایک بہانہ ہے۔فریب ہے۔ بہلاوا ہے۔ ۔۔۔۔۔ ایک وقفہ ہے یا ۔۔۔۔۔۔
یار اپنے اس یا کو دفعہ کرو اور مجھے اس شیشے کے پار دیکھنے دو۔ دیکھو باہر کتنا خوشگوار موسم ہو چلا ہے۔ پرندے پر پھیلائے آسمان کی نیلگوں وسعتوں میں چہچہاتے اڑ رہے ہیں۔ پھولوں درختوں اور لوگوں کے دلوں میں بہار اتر آئی ہے۔ اپنی اداسی، شک اور قنوطیت سے یہاں کی فضا کو مکدر مت کرو۔
لوگوں کو خوش ہو لینے دو، انہیں دل کھول کر باتیں کرنے دو۔ عورتوں کو اپنے مردوں کے ساتھ تفریح گاہوں میں گھوم لینے دو، نئی نویلی دلہنوں کے محبت بھرے مقید بوسوں کو آزادی کے ساتھ انسانوں سے، اپنے پیاروں سے محبت کر لینے دو۔ تمہارے کہنے کے مطابق اگر یہ ایک وقفہ ہی ہے تو اس وقفے کو اپنی منفی سوچ سے اور زیادہ مختصر مت کرو۔ ، مت کرو اسے مختصر !
وہ غصے میں آ جاتا ہے۔۔
میں اسکی طرف دیکھ کر مسکراتا ہوں۔ وہ کہتا ہے
اچھا۔ چلو یوں ہی سہی۔ تم خوش ہو تو میں بھی خوش ہو لیتا ہوں۔
ہم دونوں ایک ساتھ ہنستے ہیں تو وہ داڑھی والا اندر داخل ہوتا ہے۔ جس کے متعلق میں نے کبھی بھی اچھی رائے قائم نہیں کی کیونکہ وہ چہرے سے ہمیشہ خاموش، گھنا، مکار اور پر اسرار سا لگا ے۔میرے نزدیک یا تو وہ کوئی بہت ہی اچھا آدمی ہے یا بے حد برا ۔۔۔ یا پھر کوئی مخبر وغیرہ۔
وہ ایک ٹیبل پر بیٹھ جاتا ہے اور چائے کے لیے کہتا ہے۔ اور بغل میں دبا اخبار نکال کر پڑھنے لگتا ہے۔ کوئی خبر پڑھتے ہوئے بڑ بڑاتا ہے۔
کیا ہے یہ سب کچھ۔ ایک دم ایب سرڈ، فضول ۔۔۔۔۔ اب دیکھو ایک طرف تو جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے اور دوسری طرف ۔۔۔۔۔ ہا ہا ہا ۔۔۔۔ یہ دوسری طرف ہی تو اصل چیز ہے۔ امیہ بھی یہی ہے کہ لوگوں کو دوسری طرف جھاننے کا موقع ہی فراہم نہیں کیا گیا۔
چائے اس کی میز پر ٹھنڈی ہورہی ہے اور وہ مسلسل بڑ بڑائے جا رہا ہے۔
اب بتاو ۔۔۔ اس آدمی کے شک کے بارے میں تم کیا کہو گے۔
ارے اسکی اور اسکے شک کی ایسی کی تیسی۔ تم سب شکی مزاج لوگ یہاں سے دفان کیوں نہیں ہو جاتے۔
وہ پھر میز پر زور سے مکا مارتا ہے
ایسے مکوں سے کام نہیں چلے گا۔
تو پھر ۔۔۔۔۔۔
تو پھر کیا ۔۔۔ کچھ بھی نہیں ۔۔۔ ابھی تک تو ایسا ہی ہے۔
تو پھر چلو باہر چلتے ہیں۔ کہیں گھومتے ہین۔ مونگ پھلیاں کھاتے ہیں۔ کوئی اچھی سی فلم دیکھتے ہیں۔
باہر سڑک پر ایک جلوس رواں دواں ہے
جمہریت زندہ باد
جمہوریت پائندہ باد
وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہے۔ میں کہتا ہوں۔
ایک نھلے آدمی نے کہا تھا، ” اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ کل دنیا فنا ہو جائے گی تو بھی میں آج اپنے صحن میں سیب کے پودے لگانے سے باز نہیں آوں گا۔ “
یہ سب لوگ جنہیں تم دیکھ رہے ہو، یہ سب ایسی ہی آس اور امید سے بندھے ہیں۔
ہم دونوں کو ہلکاا سا دھکا لگتا ہے اور ہم دونوں بھی کچھ شک کچھ یقین ، تھوڑی سی آس اور تھوڑی سی امید کے ساتھ سڑک پر سے گزرتی مخلوق کے سمندر میں اتر جاتے ہیں۔