سلطنت ( فالتو لوگ ) ۔۔۔ محمود احمد قاضی
سلطنت
محمود احمد قاضی ایک کہنہ مشق اور منجھے ہوئے لکھاری ہیں۔ کہانی ان کے خون میں رچی ہو ئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’’کہانی جبر کو نہیں ،صبر کو مانتی ہے۔ میں جیسی بھی کہانی لکھ رہا ہوں، اسے میں ہی لکھتا ہوں۔ کہانی مجھے ہرگز نہیں لکھتی۔‘‘ ’’سلطنت‘‘ محمود احمد قاضی کے افسانوں کامجموعہ ہے، جس میں اُن کی 18 کہانیاں شامل کی گئی ہیں۔دلچسپ طور پر ہر کہانی ایک کردار کے احوال پر مشتمل ہے جیسا کہ بادشاہ، دربان، غلام، مسخرہ، ایلچی، مؤرخ، بہروپیا، مکینک، بازی گر وغیرہ۔
ادارہ پینسلپس کی کوشش تھی کہ، اپنے قاری کے لئے ہر شمارے میں ایک کہانی شامل کی جائے۔آج اس کتاب کی آخری یعنی 18ویں کہانی پیش کی جا رہی ہے۔
فالتو لوگ
موٹر سائیکل کے بلگ میں کچرا پھنس جانے کے سبب اسے یہاں رکنا پڑا تھا۔
بسوں، ٹرکوں اور بڑے بڑے ٹریلروں کے پاؤں کی چرچراہٹ اور انجنوں کے شور کے درمیان وہ کھڑا تھا۔ کچھ عرصے سے یہاں کی فضا اتنی آلودہ اور زہریلی ہو چکی تھی کہ ماسک کے بغیر سانس نہیں لی جاسکتی تھی۔ ناک پر چڑھے ماسک کے راستے سے بھی وہ بڑی مشکل سے سانس لے رہا تھا۔ اپنی تیکھی ہوتی سانسوں کے ساتھ اس نے پلگ کا کچرا صاف کیامگر موٹر سائیکل پھر بھی سٹارٹ نہ ہوئی۔ خرابی شاید کوئی اور ہی تھی۔
اب اس کے پاس انتظار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ مگر کس چیز کا انتظار۔ وہ آپ ہی آپ مسکرا یا پھر موٹر سائیکل کو سڑک کے کنارے ا بھری ایک چٹان کے سہارے کھڑی کرکے وہ پیشاب کرنے کے لئے نیچے اتر گیا۔ آگے ایک بڑا جنگل تھا۔ جگہ بڑی خوبصورت تھی۔ اس کی ناک پر چڑھے ماسک کے راستے ایک غیر مانوس سی خوشبو نے اس کے پھیپڑوں میں دھمال ڈالنی شروع کر دی تھی۔ اس نے ایک دم ماسک ا تار دیا۔ اس کے بعد اس نے ماسک کے بغیر پہلی سانس لی تھی۔ اتنی صاف ستھری ہوا اور فضا۔
اپنے مدتوں کے لگے روگ کا بوجھ اتار کر وہ آگے بڑھنے لگا۔
آگے جنگل اور اسکی خاموشی تھی تھی۔۔۔ ہوا تھی اور خوشبو تھی
وہ باہیں پھیلا کر اونچی آواز میں ہنسا۔ اس کی ہنسی کی بازگشت دیر تک اس کے کانوں میں گونجتی رہی۔
وہ خوشی سے چھلانگ لگا کر بندروں کی طرح ٹپوسیاں مارتا آگے ہی آگے بڑھتا رہا۔ اور پھر ایک دم رک گیا۔جنگل اجانک ختم ہوگیا سامنے ایک مردہ شہرلیٹا ہوا تھا۔ وہ اس شہر کی ٹوٹی پھوٹی فصیل کے ٹوٹے پھوٹے بڑے دروازے سے گزر کر اندر آیا تو حیرانی کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ اس شہر کے خاموش بازار اور گلیاں اور سارا آل دوالا اتنا صاف ستھرا تھا کہ محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ماشکی نے ابھی ابھی پانی کے چھڑکاو کے بعد جھاڑو دی ہو۔ بڑے بازار اور ارد گرد سے اسکی طرف آتی اور اس کے ساتھ معانقہ کرتی گلیوں کی چوڑی اینٹیں سانس لیتی محسوس ہو رہی تھیں۔ مردہ شہر کے اندر زندگی کی رمق ابھی باقی تھی۔بندہ نہ بندے کی ذات۔ مگر لگتا تھا جیسے سب لوگ اپنی دکانیں ، کاروبار اور گھر چھوڑ کر ابھی ابھی گئے تھے۔ اور بہت جلد واپس آنے والے تھے۔ دکانوں پر کھلونے سجے ہوئے تھے۔ موچی کے اوزار اسی طرح چمک رہے تھے۔ لوہار کی دکان پر اس کا ساز و سامان اسی طرح پرا تھا اور اسکی چھوٹی سی بھٹی کی راکھ ابھی تک نیم گرم سی لگتی تھی۔ روئی دھننے والے کی دھنکی چھت کے ساتھ ٹنگی، ہوا کے ساتھ ہلارے لے رہی تھی۔ ایک طرف پڑا کسی گائے ،بھینس کا گوبر اب بھی گیلا سا لگ رہا تھا۔ ہوا میں تازہ گیلی مٹی کی باس گھل مل گئی تھی اور وہ اپنے روگی پھیپھڑوں کے ذریعے نہایت آرام اور آسانی کے ساتھ سانس لے رہا تھا۔
وہ بہت خوش تھا، اسکے پاوں کہیں ٹکتے ہی نہ تھے۔ وہ اس شہر کی خاموشی میں ڈوبی سنسان گلیوں اور بازاروں کا ایک سرسری چکر لگا کر اس شہر کی ایک نکڑ پر پہنچ گیا تھا اور ایک اونچے ٹبے پر بیٹھ کر فطرت کا نظارہ کرنے لگا۔ اس نے دل ہی دل میں اپنے اور اپنی طرح کے اور لوگوں کے روگ کو ایک بڑی سی گالی دی اور ہنس پڑا۔ اس کے قہقہے کی گونج چاروں طرف دھمال ڈال رہی تھی اور اس کا جثہ خوشی کی پھوار میں بھیگتا چلا جا رہا تھا۔ وہ آنکھیں بند کر کے وہیں لیٹ گیا اور فطرت کی ست رنگی پینگ کے ہلارے لینے لگا۔ پھر شاید اس کی آنکھ لگ گئی کیوں کہ اس کے کانوں میں راستہ بناتی اس کرلاٹ نے ہی اس کی گہری نیند کا در وا کیا تھا۔
اس نے آنکھیں کھول کر ادھر ادھر دیکھا۔ آواز وقفے وقفے سے آ رہی تھی۔ کوئی رو رہا تھا۔ بھاری، کھردری مردانہ آواز تھی۔ وہ ٹبے کی دایئں طرف کی اترائی اترنے لگا۔ آواز درختوں کے ایک جھنڈ کے پیچھے سے آ رہی تھی۔
نزدیک جا کر دیکھا تو آواز ایک کنویں سے ا رہی تھی۔ کنویں کی ٹوٹی منڈیر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے نیچے جھانکا۔ نیچے بہت نیچے جہاں اندھیرا اور روشنی ایک دوسرے کی جھولی میں بیٹھے ہوئے تھے ، ایک بندہ ایڑیاں اٹھا اٹھا کر آوازیں دے رہا تھا،
” ہے کوئی جو مجھے یہاں سے نکالے “
” کوئی ہے ۔۔۔۔ کوئی ہے ۔۔”
کوئی ہے کوئی ہے کی آواز جب سارے چار چوفیرے کا چکر لگا کر کنویں کی طرف پلٹتی تھی تو صرف کو کو کو ۔۔۔ای ای ای ۔۔۔ اور ، ہے ہے ہے کی گونج پیدا ہوتی تھی۔
اس نے آدھے دھڑ کو کنویں میں لٹکا کر پوچھا، ” کون ہو ۔۔بھائی تم کون ہو ؟ “
” میں ایک بندہ ہو ں جی ۔۔۔ میں ایک جگتی ہوں ۔۔”
” جگتی “
” ہاں ۔۔۔ میں اپنے سردار کو جگتیں سناتا تھا اور اسے خوش رکھتا تھا، مگر یہ باتیں تم بعد میں مجھ سے پوچھ لینا۔ پہلے مجھے یہاں سے نکالو تو۔ اب تو میرے جسم سے، یہاں سے کانٹے چھبنے سے نکلنے والا خون بھی سوکھ گیا ہے۔ تمہاری مہربانی، میرے سوہنے، مجھے یہاں سے نکالو۔۔۔کوئی تدبیر کرو۔۔۔اب تو میری سانسیں بھی اکھڑنے لگی ہیں۔۔۔آو۔۔”
وہ اوپر کھڑا سوچنے لگا کہ اسے کیسے یہاں سے نکالا جائے۔ قریب کھڑے ایک لمبے درخت کی شاخ توڑ کر اس نے کنویں میں کافی نیچے جھکتے ہوئے اس کو نیچے کھڑے بندے کی طرف بڑھایا۔ اس شخص نے شاخ کو پکڑنے کے لئے ایک دو بار اپنے جسم کو اوپر کی طرف اچھالا پھر اس کا ہاتھ شاخ تک پہنچ ہی گیا۔ وہ آہستہ آہستہ کنویں کی دیوار کے ساتھ پاوں ٹکاتا اوپر آنے لگا۔ اس نے کافی تگ و دو کے بعد اسے اوپر کھینچ لیا۔ وہ چھوٹے سے قد کا چھوٹی آنکھوں والا گندم رنگ آدمی تھا۔ اوپر آ کر اس نے لمبی سی سانس لی اور اندھیرے میں سے ایک دم روشنی میں آ جانے کی وجہ سے اس نے اپنے ہاتھ آنکھوں پر رکھ لئے۔ کچھ دیر بعد اس کی سانسیں بحال ہویئں تو وہ بولا، ” مہربانی، اچھے ادمی۔ تمہاری مہربانی۔ میرے پاس تمہیں دینے کے لئے تو کچھ نہیں۔۔۔ مگر خیر کوئی بات نہیں میں تمہیں بہت مزیدار قسم کی جگتین ضرور سناوں گا اور یوں تمہارا جی خوش ہو گا۔
” تم اپنی جگتیں پھر کبھی سنا لینا، پہلے یہ بتاو کہ یہ سب کیسے ہوا ؟ “
” ہونا کیا تھا۔ میں سردار کو جگتیں سناتا رہا ۔۔سناتا رہا۔۔۔وہ خوش ہوتا رہا۔۔۔ہوتا رہا۔۔۔پھر پتہ نہیں کیوں ایک دن وہ میری ایک جگت سے ناراض ہو گیا۔ یہ ایک کانے کی جگت تھی۔۔۔ مجھے خیال ہی نہ رہا کہ میرا سردار بھی کانا تھا۔ اس نے اپنی اکلوتی آنکھ کو لال پیلی کرتے ہوئے حکم دیا ” اسے اندھے کنویں میں پھینک دیا جائے” ۔۔ اور یوں مجھے اندھے کنویں میں پھینک دیا گیا۔۔۔وہ دن اور آج کا دن ۔۔۔”
” یہ تو سب ٹھیک ہے لیکن تم ۔۔۔”
” تمہاری طبیعت میں جلدی بہت ہے۔ میں بتاوں گا تمہیں، سب بتاوں گا مگر ابھی مجھے باہر کا سواد تو لینے دو”۔۔۔ وہ خاموشی سے اسکے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ ابھی تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ ایک طرف سے آواز آئی،
” ادھر کوئی ہے تو مجھے آ کر یہاں سے نکالے۔۔۔مجھے یہاں سے باہر نکالے ۔۔۔”
” یہ تو سانگی ہے۔۔۔میرا یار ۔۔۔” کنویں میں سے نکلنے والا شخص بولا
” سانگی ۔۔۔ تمہارا یار۔ “
” ہاں ہاں ساری بستی میں اس جیسا کوئی دوسرا فنکار نہیں تھا۔ یہ وزیر کا نوکر تھا اور بڑے کمال کے اور نت نئے سوانگ بھرتا تھا۔کبھی چور کا، کبھی ڈاکو کا، کبھی بکری کا اور کبھی بھیڑ کا ۔۔۔ کبھی وہ بلی بن جاتا اور بعض اوقات خرگوش۔۔۔۔بڑا گنی آدمی ہے جی ۔۔۔ لیکن یہ یہاں ۔۔یہ بھی شاید میری طرح ۔۔۔ بہر حال، آو باقی باتیں پھر۔۔پہلے اسے یہاں سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ “
وہ ایک اصطبل نما کوٹھری میں چارپائی کی ادوائن کے ساتھ بندھا پڑا تھا اور کُرلا رہا تھا۔ دونوں نے مل کر اسے کھولا اور باہر نکالا۔۔۔ اس نے بتایا
” بس جی۔ وزیر مجھ سے بہت خوش تھا۔۔۔ میرے سوانگ اسکے ہونٹوں پر ہنسی لے اتے تھے۔۔۔لیکن پھر میں نے ایک ایسا سوانگ بھرا کہ ۔۔۔ میں نے بیوقوفی یہ کی کہ ایک چاپلوس کا سوانگ بھر لیا۔ بس اس وقت سے ہی میں یہاں بندھا پڑا تھا۔ “
ان کے ساتھ چلتے چلتے اس نے پوچھا
” مگر یہ ۔۔۔ یہاں اس بستی میں اتنی خاموشی کیوں ہے۔ باقی سب لوگ کہاں ہیں اور “
” اور کے ما ما جی ذرا چھری تلے سانس لو۔۔۔اور اس اجنبی شخص کا شکریہ ادا کرو جس نے مجھے اور تمہیں مدتوں کی قید سے رہائی دلوائی ہے۔ “
وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے تھوڑا سا جھکا
” جناب، آپ کی بڑی مہربانی ۔۔۔ بڑی کرپا ے آپ کی “
اس بستی میں اب وہ تین بندے تھے اور ایک چوک میں کھڑے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے کہ ایک شخص کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی۔
” جانے والے راہیو، میری بات بھی سنو۔۔۔۔ میں اس بستی کا سب سے بڑا آتش بازی کا ماہر تھا۔ شادیوں اور خوشی کی دوسری محفلوں میں ، میں اپنے اس خاندانی فن کا مظاہرہ کیا کرتا تھا ۔۔۔ اور اپنے ایک سچے مگر ان کے مزدیک ایک جھوٹے مظاہرے کی وجہ سے یہ سزا بھگت رہا ہوں ۔۔مجھے بھی ساتھ لے چلو۔”
انہوں نے مل کر آتش باز کو قید سے رہائی دلائی تو اس وقت ایک اور طرف سے آواز آئی۔دایئں طرف موجود ایک موٹے تنے والے درخت سے ایک شخص بندھا ہوا تھا۔ اس کے تن پر کپڑوں کے نام پر بس ایک لنگوٹی ہی تھی۔
اس بندے کو کھولا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ ایک گویا تھا۔ وہ ماہیئے ٹپے گا کر لوگوں کے دل بہلاتا تھا مگر سرکاری گویے کی دن رات کی سازشوں اور کان بھرنے کی وجہ سے اس کے لوک گیتوں کی خوشبو کو دربار نے پسند نہ کیا اور ۔۔۔” انہوں نے اسے تسلی دی اور اسے لے کر آگے چل پڑے۔
اسکے بعد انہیں ایک رنگریز اور ایک بندر کا تماشہ دکھانے والا ملا۔ انہوں نے ان کو بھی قید سے رہائی دلوائی۔ بستی کی فصیل سے باہر ہونے سے پہلے ان سب کو ایک عورت کے کراہنے کی آواز سنائی دی۔ اس آواز نے انہیں بہت پریشان کیا کیوں کہ انہیں اسکی قید والی جگہ کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ آواز بھی بہت دھیمی تھی۔اسے تلاش کرتے کرتے وہ تھک گئے۔ آخر کار ایک ٹوٹے پھوٹے مکان کی دیوار کے ساتھ کان لگا کر سننے سے پتہ چلا کہ وہ اس دیوار کے اندر قید تھی۔دیوار توڑی گئی تو وہ اس کے ایک بڑے سے خانے میں بہت برے حالوں دستیاب ہوئی۔ اس کے بالوں میں مٹی اور ہاتھوں پاوں میں زنجیریں تھیں۔ ہوش میں آنے پر اس نے بتایا کہ وہ بادشاہ کے دربار میں ایک نرتکی تھی۔ اس کا رقص دیکھ کر لوگوں کی سانسیں رک جاتی تھیں مگر بادشاہ زادے کے عشق میں گرفتار ہونے کی وجہ سے اسے دیوار میں چننے کی سزا دی گئی تھی۔
وہ ان سب فنکاروں کی کہانی سننے کے بعد اور ان کے پوری طرح ہوش میں آنے کے بعد ان کو ساتھ لے کر آبادی کی طرف بڑھنے لگا۔ اس بستی کی بربادی کا سبب اس کی سمجھ سے باہر تھا کہ نامعلوم یہ بستی کھنڈر کیوں بن گئی تھی۔
وہ ان سب کو ساتھ لے کر سڑک تک پہنچا تو اسکی سانس اکھڑنے لگی تھی۔
اسی پرانے روگ نے ایک بار پھر اس کے پھیپھڑوں کو جکڑ لیا تھا۔ اس نے جلدی سے ماسک اپنی ناک پر چڑھا لیا اور اس طرح اس کی سانس قدرے بحال ہوئی لیکن جب اس نے ان فنکاروں کی طرف دیکھا تو حیران رہ گیا کہ وہ جو اس اجڑی بستی میں اپنی قید میں بھی بڑی آسانی سے سانس لے رہے تھے۔ اب اپنے سینے پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ بات فورا ہی اسکی سمجھ میں اگئی۔ یہاں باہر کی فضا میں ۔۔۔ زندہ لوگوں کی بستی میں وہ بغیر ماسک کے سانس نہیں لے سکتے تھے۔۔۔۔ مگر وہ مجبور تھا۔ اس کے پاس اور کوئی ماسک نہیں تھا۔۔۔۔وہ ادھر ادھر بہت بھاگا۔ سڑک پر آنے جانے والوں کو اس نے بہت آوازیں دیں۔ ان کو خدا کا واسطہ دیا کہ کوئی فالتو ماسک ادھار مل جائے ۔۔۔ مگر کہاں ۔۔۔کسی نے اس کی بات پر دھیان نہ دیا۔
ان فنکاروں کو اب سانس لینے میں بہت مشکل پیش آ رہی تھی۔ ان کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔
اس نے انہیں کہا
” تم سب لوگ جلدی سے بھاگ کر اسی مردہ شہر کی قید میں چلے جاو ۔۔۔ کم از کم وہاں تم سانس تو لے سکو گے۔ “
مگر وہ نہیں مانے۔ وہ کسی طرح بھی وہاں واپس جانے پر رضامند نہیں تھے۔ اس نے دیکھا وہ سینے پر ہاتھ رکھے نیچے کی طرف جھکتے چلے جا رہے تھے۔ سڑک کے کنارے کھڑے ہوئے اس نے محسوس کا کہ ماسک کے باوجود اس کی سانسیں بھی اب بے ترتیب ہونے لگی تھیں۔