سلطنت ۔ (دربان۔) ۔۔۔ محمود احمد قاضی
سلطنت
محمود احمد قاضی ایک کہنہ مشق اور منجھے ہوئے لکھاری ہیں۔ کہانی ان کے خون میں رچی ہو ئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’’کہانی جبر کو نہیں ،صبر کو مانتی ہے۔ میں جیسی بھی کہانی لکھ رہا ہوں، اسے میں ہی لکھتا ہوں۔ کہانی مجھے ہرگز نہیں لکھتی۔‘‘ ’’سلطنت‘‘ محمود احمد قاضی کے افسانوں کامجموعہ ہے، جس میں اُن کی 18 کہانیاں شامل کی گئی ہیں۔دلچسپ طور پر ہر کہانی ایک کردار کے احوال پر مشتمل ہے جیسا کہ بادشاہ، دربان، غلام، مسخرہ، ایلچی، مؤرخ، بہروپیا، مکینک، بازی گر وغیرہ۔
ادارہ پینسلپس کی کوشش ہے کہ، اپنے قاری کے لئے ہر شمارے میں ایک کہانی شامل کی جائے۔
دربان
ہم سب دارالحکومت میں جمع تھے کہ ہمیں بادشاہ کی طرف سے کھانے کی دعوت موصول ہوئی تھی۔
ہاتھوں میں دعوت نامے پکڑے جن پر ہمارے نام اور نمبر درج تھے ہم فلائنگ کوچوں کے ذریعہ محل کی چاردیواری میں داخل ہوئے۔ مرد حضرات نے اس تقریب کے لیے اپنے بہترین کپڑوں کا انتخاب کیا تھا ان کے چہرے اور جسم آفٹر شیولوشنوں اوریو ڈی کلونوں سے مہک رہے تھے۔ عورتوں نے چمکیلے رنگ رنگیلے لباس پہن رکھے تھے۔ ملبوسات کے رنگوں سے میچ کرتے جوتے ان کے پاؤں میں لشک ر ہے تھے اور اسی رنگ کے آویزے اور بندے ان کے کانوں میں لہک لہک جاتے تھے۔ رنگ و نور ایک سیلاب تھا کہ یہاں امڈ آیا تھا۔ محل کے صدر دروازے پر سیکیورٹی سٹاف کی چیکنگ کے بعد ہم سب لفٹ کی طرف روانہ ہوگئے لفٹ باری باری ہم سب کو لے کر پانچویں منزل کی طرف چل پڑی اب ہم سنگ سفید کے بہت بڑے استقبالیہ کمرے میں تھے جہاں چھت سے نہایت خوبصورت اردگرد پھیلی روشنی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی یہیں سے وہ سبزہ زار اور وسیع لان نظر آرہا تھا جو پانچویں منزل پر واقع ہونے کی وجہ سے ایک معلق باغ کا منظر پیش کر رہا تھا یہاں ایک طرف شامیانے نصب تھے اور قریب ہی کھانے کی میزیں سجائی گئی تھیں۔ ہلکی موسیقی کی خوبصورت دھنوں کے جلو میں ہمارے قدم اس وسیع لان کے درمیان بنے پانی کے حوض کی سمت میں بڑھ رہے تھے۔ حوض کے درمیان بنے فوارے سے اطراف سے پڑھنے والی روشنی سے ممعکس ہوتا ہوا پانی اچھلتاا ہوا عجیب سماں پیدا کر رہا تھا ۔ اسی مبہوت کردینے والے چار چوفیرے میں گھرے ہوئے میرے آگے بڑھتے ہوئے قدم رکنے لگے کہ میں نے اسے دیکھا۔ وہ محراب نما داخلی دروازے کی دیوار کے ساتھ اپنے لمبے قد ،گرانڈیل جسم، بڑی بڑی مونچھوں، خوبصورت پگڑی اور سفید براق وردی کے سینے پر سجے پیتل کے چمکدار تمغوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ اپنے دونوں ہاتھوں میں سفید دستانے پہنے اور ایک ہاتھ میں نیزہ تھامے میں وہ مجھے اتنا ساکن اور بے حرکت نظر آیا کہ اگر وہکبھی کبھی اپنی آنکھیں نہ جھپکا رہا ہوتا تو میں سمجھتا شاید وہ کوئی مشینی آدمی ہے۔
اکتوبر کی شام کی ہلکی خنکی میں حیرت زدہ کھڑا میں اسے دیکھے جا رہا تھا۔ مجھے لگا وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں مجھ سے ہم کلام ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہونٹ ساکت۔ آواز ندارد۔۔مگر ترسیل ہو رہی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ مجھ سے کوئی سوال کرنا چاہتا تھا۔ مگر کیوں ؟ اس کا مجھ سے کیا رشتہ تھا ؟ کیا وہ میرا گرا یئں تھا، دوست تھا یا۔۔۔۔ میں متذبذب حالت میں وہیں کھڑا رہا ۔ بادشاہ سے مصافحہ کرنے کے بعد سب لوگ کھانے پر ٹوٹ پڑے تھے۔ پلیٹوں پر چمچوں کی کھنک اور بوٹیؤں کے کچر کچر دبائے جانے کی آواز کی خراشوں کے درمیان اس کی آنکھیں مجھ سے ہم کلام ہوئیں۔ ” ہیلو “
” ہیلو” میں نے مصافحہ کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ اس نے اپنی جگہ سے جنبش تک نہ کی۔ میں نے حیرانی سے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا، ” بھئی ہاتھ تو ملاو”
“نہیں میں ایسا نہیں کر سکتا۔ “
” کیوں ؟ “
“میں اپنے کسی عضو کو ہلا نہیں سکتا ۔ اسی طرح اٹینشن ۔۔۔پگڑی کا شملہ اونچا۔ مونچھوں کا یہی زاویہ۔ نیزے پر دایئں ہاتھ کی گرفت۔۔۔ پہلو میں لڑکا بایاں ہاتھ ۔۔۔چمک دارجوتے۔۔۔چوڑی دار پاجامہ انگرکھا نماز لمبا کرتا۔۔۔۔ سفید دستانے۔۔۔مگر مجھ سے ہاتھ ہلانے کی، منہ پر بیٹھی مکھی اڑانے کی، چھینکنے کی، تھوکنے کی، کھنکھارنے کی، ڈکار لینے کی، جمائی لینے کی، ہنسنے کی، بولنے کی، ایک دو قدم آگے پیچھے جانے کی اجازت نہیں۔
” مگر کیوں “
” وہ اس لئے کہ میں ایک دربان ہوں اور مجھے اپنی شفٹ میںاسی آسن، اسی حالت میں پتھر کی طرح جامد و ساکت کھڑے رہنے کا حکم ہے۔۔۔۔مجھے اس کے علاوہ کچھ کرنے کا اذن ہی نہیں۔
” مگر یہ تو سراسر زیادتی ہے۔”
ل” لیکن وہ کہتے ہیں یہ میری ڈیوٹی ہے۔۔۔ اس کے عوض مجھے جو بھی ملتا ہے اسی سے وہاں پیچھے خانپور سانسی میں موجود میری بوڑھی ماں میرے مریض باپ اور بیوی بچوں کا پیٹ بھرتا ہے
اسکول کی فیس ان کی یونیفام نان نفقہ سب کچھ اسی سے چلتا ہے۔۔”
ارے یار چھوڑو یہ سب کچھ ، آو میرے ساتھ کھانا کھاؤ۔ “
” بھوک تو مجھے بھی بہت لگی ہے لیکن کیا کروں مجبور ہوں۔ میں تو یہاں سے ہل بھی نہیں سکتا اورتم کھانے کی بات کر رہے ہو۔۔۔۔ بادشاہوں کا کھانا میری قسمت میں کہاں۔ میں تو ایک دربان ہوں، بے نمبرا ہوں، یہاں کھانا اسے ملتا ہے جسے نمبرالاٹ ہوتا ہے۔ ویسے بھی ایک دربان کے مراتب اور بادشاہ کے کھانے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔”
“اس فرق کو چھوڑو اور آؤ میرے ساتھ کھانا کھاؤ۔ ” “
نہیں میں ایسا نہیں کر سکتا سچ پوچھو تو مجھے بھوک اتنا نہیں ستاتی جتنا یہ احساس کہ میں یہاں سے ہل نہیں سکتا۔۔۔ میں کبھی کبھار زیر ناف کھجانا چاہتا ہوں، مسکرانا چاہتا ہوں، بولنا چاہتا ہوں مگر میں ایسا اس لئے نہیں کرسکتا کہ ہر وقت نگران آنکھوں کے نرغے میں رہتا ہوں اور اب تو شاید ایسی باتوں، ایسی فضا کا عادی ہو چلا ہوں کہ،
پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی : اب کسی بات پر نہیں آتی۔ “
“ارے ایک دربان اور شعر۔۔۔؟ میں چونکا مگر اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ، “مجھے واقعی اب کسی بات پر افسوس نہیں ہوتا۔ ہاں افسوس ہے تو اس بات کا کہ آج تک بہت سی ہونے والی چیزوں ا ور واقعات میں میری اپنی مرضی کا عمل دخل نہیں رہا ۔ مثلا سکول میں داخلے کا وقت آیا تو میری مرضی نہیں پوچھی گئی اور اسی طرح ٹاٹ والا سکول میرا مقدر بنا۔ ہائی سکول میں تھا تو مجھ سے پوچھے بغیر سکول چھڑوا دیا گیا۔ ملازمت بھی مجھے میری مرضی کی نہیں ملی۔ کھانے پینے، پھلوں کا انتخاب جوتوں کپڑوں کی پسند میں میری مرضی شامل نہیں رہی۔ شادی کردی گئی یہاں بھی دوسروں کی مرضی چلی۔ اور وہ جو ٹوٹی چق کے پیچھے کھڑی گھنٹوں میرا انتظار کیا کرتی تھی پتھر کی ہو گئی۔”
“انہوں نے اپنی مرضی مجھ پر ٹھونس دی اور ایک ایسی عورت میرے سپرد کر دی جسے میں جانتا تک نہ تھا ۔ بیوی تو میری اچھی ہے۔ بھلی مانس سی عورت ہے۔ مگر میری مرضی کی نہیں۔ دوستوں میں بیٹھتا ہوں تو وہاں بھی میری مرضی نہیں چلتی۔ میرا جی چاہتا ہے کراری مرچوں والے آلو چھولے کھاون مگر وہ آئس کریم کھانے پر مصر ہوتے ہیں۔ شام کو میں اپنے کوارٹر میں میں اونچی آواز سے ” ککر تےانگور چڑھایا ہر گچھا ذخمایا ” یا ” آئی جان شکنجے اندر جیوں ویلن وچ گنا ۔۔۔”گانا چاہتا ہوں مگر وہاں بھی “اونچی آواز میں بات کرنا منع ھے ” کا بورڈ مجھے خاموش کر دیتا ہے اور یوں میری مرضی دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ کیا تم میری مرضی مجھے لوٹانے میں میری کوئی مدد کر سکتے ہو ؟ کیاتم۔۔۔”
اسکا فقرہ نامکمل رہتا ہے کہ مجھے میرے دوست کھانے کے لئے پکار رہے ہیں، اشارے کر رہے ہیں۔
” تم جاو۔۔۔تمہارا انتظار ہو رہا ہے۔۔۔”
” اور تم ؟ “
“مجھے تو بس یونہی کھڑے رہنا ہے اور اپنی شفٹ کے ختم ہونے کا انتظار کرنا ہے۔ ”
میں بادل ناخواستہ کھانے کی میز کی طرف چل پڑتا ہوں۔ کھانا زہر مار کرتا ہوں کہ میرا دھیان اب بھی دربان میں اٹکا ہوا ہے۔ میں سوچتا ہوں کوئی تدبیر کرنی چاہیے کہ وہ وہاں کھڑے کھڑے ہل جل سکے ، کسی کو آتے جاتے مذاق کر سکے، کوئی فقرہ اچھال سکے، مسکرا سکے، ہنس سکے، حتی کہ کسی واقف کار کو آنکھ ہی مار سکے۔۔۔۔۔ میرا ذہن الجھا رہا ۔۔۔۔۔ کھانا بہت اچھا تھا مگر مجھے لگ رہا تھا جیسے میں ریت نگل رہا ہوں۔
کھانا کھا کر فارغ ہوئے تو پھر وہیں سے گزر ہوا۔ وہ ابھی تک اسی حالت میں اسی آسن میں بت بنا کھڑا تھا۔ پگڑی کا وہی اکڑا ہوا کلف دار شملہ، مونچھوں کا وہی زاویہ،وہی سفید براق بے شکن وردی۔ ایک ہاتھ ویسے ہی نیزے پر جما ہوا۔ میرا اس کا ایک بار پھر آمنا سامنا ہو رہا تھا لیکن اب تو اس کی آنکھیں بھی خاموش تھیں
” ہیلو “
جواب ندارد
“کچھ بولو۔۔۔ کچھ کہو بھائی۔۔۔”
خاموشی اس کے ہونٹوں اسکے سارے وجود کے ساتھ لپٹی رہی البتہ اس کی آنکھوں میں اب بھی ایک سوال چھپا بیٹھا تھا۔
” دیکھو سنو۔۔۔”
میں اسے کچھ کہنا چاہتا تھا کہ قریب سے گزرتے ہوئے ایک شخص کا ہلکا سا دھکا لگا اور میں چکنے فرش پر پھسلتا ہوا خود بخود لفٹ کے دروازے کے عین سامنے جا پہنچا۔
” آو بھائی۔۔۔” کسی نے مجھے لفٹ کی طرف کھینچا اور میں اس دربان کی آنکھوں میں اٹکا سوال وہیں چھوڑ کر لفٹ کے ذریعے نیچے اتر آیا۔