سلطنت ( مورخ ) ۔۔۔ محمود احمد قاضی
سلطنت
محمود احمد قاضی
ایک کہنہ مشق اور منجھے ہوئے لکھاری ہیں۔ کہانی ان کے خون میں رچی ہو ئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’’کہانی جبر کو نہیں ،صبر کو مانتی ہے۔ میں جیسی بھی کہانی لکھ رہا ہوں، اسے میں ہی لکھتا ہوں۔ کہانی مجھے ہرگز نہیں لکھتی۔‘‘ ’’سلطنت‘‘ محمود احمد قاضی کے افسانوں کامجموعہ ہے، جس میں اُن کی 18 کہانیاں شامل کی گئی ہیں۔دلچسپ طور پر ہر کہانی ایک کردار کے احوال پر مشتمل ہے جیسا کہ بادشاہ، دربان، غلام، مسخرہ، ایلچی، مؤرخ، بہروپیا، مکینک، بازی گر وغیرہ۔
ادارہ پینسلپس کی کوشش ہے کہ، اپنے قاری کے لئے ہر شمارے میں ایک کہانی شامل کی جائے۔
مورخ
مصنف اس وقت اپنی تازہ کہانی ضبط تحریر میں لا رہا تھا اور کہانی کے اس اختتامی مرحلے پر نہایت رواں تھا اس کا دل اور روح دونوں شانت تھے۔ اپنی اس تخلیق کی تکمیل کے وقت وہ عجلت میں بالکل نہ تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ عجلت تلوار کی دھار جیسا وہ پل صراط ہے جولکھنے والے کو ذرا سی بے احتیاطی کی وجہ سے کسی بھی وقت ان دیکھے تخلیقیت کے اندھے کنویں میں گرا سکتی ہے کہ مصنف نے جب اپنی کہانی کے کلوزنگ سینٹنس میں یوں لکھا کہ
” اگرچہ رات اس وقت کچھ زیادہ ہی تاریک ہوئی جاتی ہے مگر اطمینان کے لئے یہ کیا کم ہے کہ اس پرانے تنہا اور اداس بلبل کے قریب وہی پرانا جگنو اپنے دل کو روشن کئے ہوئے موجود ہے “۔مصنف نے مسکراکر قلم اپنے ہاتھ سے نیچے رکھا اور چراغ کی مدھم لو پر نظر رکھتے ہوئے اس نے اپنے دونوں ہاتھ آسودگی کےساتھ انگڑائی لینے کے انداز میں او پر بلند کیے اور عین اسی وقت اس کے مکان کا بیرونی دروازہ دھڑا دھڑ پیٹا جانے لگا۔وہ ” آتا ہوں۔۔۔آتا ہوں۔۔۔” کہتا ہوا اٹھا اور اس بے وقت آنے والے کے بے صبرے پن کو کوستا ہوا اوپری منزل کے جھروکے کی طرف بڑھا۔ ۔۔۔ جو کوئی بھی تھا نہایت عجلت میں تھا اور جھروکے کے عین نیچے دروازے کو مسلسل پیٹے جا رہا تھا۔۔۔۔ ” کون ۔۔۔ کون ہے بھائی ؟ ‘ جواب نہ ملنے پر وہ چکردار سیڑھیوں کی طرف لپکا۔ ایک ہی جست میں دو سیڑھیاں طے کرتا جب وہ دروازہ کھولتا ہے تو دیکھتا ہے کہ ایک بدحواس بوڑھا اپنے سفید سر اور داڑھی کے ساتھ اسکے دروازے سے لگا کھڑا سردی سے کانپے جاتا ہے۔ اس نے جلدی سے اس بوڑھے کا ہاتھ پکڑا اور اسے اندر کی طرف کھینچا اور اپنے پیچھے دروازہ بند کرتا اسے اپنے ساتھ لئے اوپر والی منزل پر چلا آیا۔ ۔۔۔ بوڑھا تیز تیز سانس لے رہا تھا اور اب بھی اسکا سانس بحال نہیں ہو رہا تھا۔ مصنف نے میز پڑی صراحی سے نقشین کٹورے میں پانی انڈیلا اور بوڑھے کے منہ سے لگا دیا۔ بوڑھا غٹا غٹ سارا پانی پی گیا۔ اب اسکے اوسان قدرے اپنے آپ میں تھے اور وہ بٹر بٹر مصنف کو دیکھے جا رہا تھا۔
” بابیو ۔۔۔ اگر ہوش حواس بحال ہو چکے ہوں تو ۔۔۔۔”
بابے نے انگلی کے اشارے سے اسے خاموش رہنے کو کہا اور پھر خود بھی کچھ دیر خاموش رہ کر کہنے لگا
” میں جانتا ہوں کہ وہ گلی میں موجود ہیں لیکن یہ سب تو چلتا ہی رہتا ہے کہ یہ کھیل کا حصہ ہے “
” کون سا کھیل ۔۔۔ ؟ “
بابے نے لا یعنی انداز میں ہاتھ چلاتے ہوئے فضا کو سونگھا
” My Foot “
” لیکن کیا تم مجھے بتاو گے کہ تم کون ہو اور اس سمے کیا بپتا تمہیں ستاتی ہے کہ رات کے اس پہر مجھ غریب کے غریب خانے کو نوازتے ہو۔ “
” تم شاید مجھے نہیں جانتے ۔۔۔ اگر جانتے ہوتو شاید پہچان نہیں پا رہے ۔۔۔ اصل میں میں ایک مورخ ہوں۔”
” ہاں اب میں تمہیں پہچان گیا۔ تم واقعی ہمارے عہد کے معروف مورخ ہو اور تمہاراچرچا تو سلطنت کے ایوانون سے لے کر فقیر کی کٹیا تک پھیلا چلا جاتا ہے۔ لیکن تم اس وقت ۔۔۔ اور یہ تم کن لوگوں کی بات کر رہے تھے۔۔۔؟”
” تم انہیں چھوڑو، وہ جو کوئی بھی ہیںمیں ان سے چھپتا چھپاتا یہاں تک پہنچا ہوں۔ تم سے ملاقات کرنے میں ایک خطرہ تو موجود رہے گا ہی مگر کیا کروں تم سے ملنا بھی بہت ضروری تھا۔ کیونکہ تمہارے بیان کے بغیر میرا کام ادھورا رہا جاتا ہے۔ بس تم جو کچھ بھی مجھ سے کہو گے میں اپنے ذہن مین محفوظ کر لوں گا کیونکہ میری یاد داشت بہت اچھی ہے۔ ویسے بھی مجھے اپنی تحریر کے چرائے جانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے اس لئے میں تاریخ کو اپنے ذہن میں مرتب کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔۔۔ اب کہو تم کیا کہتے ہو ؟ “
” کس بارے میں ؟ “
” ارے اپنے بارے میں ۔۔۔ لوگوں کے بارے میں۔ “
” پھر بھی، پھر بھی ۔۔۔ مجھے کوئی تازہ چیز چاہیے بالکل انوکھی ۔۔ نئی ۔۔ کوئی اچھوتا خیال ۔۔۔ فکر نو ۔۔۔ “
” لیکن ۔۔۔؟ “
” اچھا ٹھہرو میں تمہاری الجھن دور کئے دیتا ہوں۔ جیسے کہ سب کو معلوم ہے کہ میں اپنے ملک کی تاریخ کو مرتب کرنے کے کام میں برسوں سے لگا ہوا ہوں اب چونکہ میرا طریقہ کار دوسروں سے مختلف ہے اس لئے مجھے ہر وقت ہر گھڑی ہر قسم کے لوگوں سے ملنا پڑتا ہے اور ان سے واسطہ رکھنا پڑتا ہے۔ میں نے اپنے کام کے سلسلے میں بہت سی تکلیفیں اٹھائی ہیں ، بڑی مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ لوگ اصل میں تعاون کرنے سے ہچکچاتے ہین۔ لیکن میں کسی نہ کسی طرح کچھ نہ کچھ کر ہی لیتا ہوں حالانکہ میں نے اس ضمن میں یہ الزام بھی برداشت کیا کہ میں لوگوں کی ٹوہ میں رہتا ہوں اور حتی کہ ان کی پرایئویٹ لائف کے چھپے گوشوں کو بھی بے نقاب کرنے کی کوشش کرتا ہوں، وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اور دیکھو ۔۔۔ ” وہ ہنستا ہے۔
” یہ تو سارا کام ہی وغیرہ وغیرہ قسم کا ہے اور یوں وغیرہ وغیرہ قسم کی سرگرمیاں ہی میرا موضوع بنتی ہیں کیوں کہ پہلے سے مرتب شدہ تاریخ اور عجائب گھر کے کیسوں مین بند تاریخ تو تم جانتے ہی ہو۔ ۔۔” وہ پھر ہنستا ہے۔۔۔۔۔” اب دیکھو ناں ! کسی کو کیا معلوم کہ محلہ چاہ باغ والا کی کلی چپما کلی کی بارہ سالہ بچی کے کینسر زدہ پھیپھڑوں کے مفت علاج کے پیچھے کیا کہانی ہے اور اس بچی کا باپ اپنے اس بیان سے کہ ” مین اپنی بچی کا علاج زکواۃ کے پیسوں سے کرانے پر رضا مند ہوں ” پر کیوں راضی ہوا۔ کسی کو نہیں معلوم کہ گلی نمبر سات کی وہ چلبلی حسینہ ڈاک اپنے اصل پتے کی بجائے ایک خاص پوسٹ بکس نمبر پر کیوں منگواتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ مختلف گلیوں میں جلنے والے لیمپ کون سا ہاتھ ایک خاص وقت پر بجھاتا رہتا ہے۔ ہاکی کے قومی کھلاڑی کا گھٹنا کس نے اور کیوں توڑا ۔۔۔ شہر کے لکڑ ہارے کو کتا کھانسی کیوں ہوئی تھی ۔۔۔ قدرت اللہ درزی نے عورتوں کا ناپ لینا کیوں چھوڑ دیا تھا اور وہ دھوبی جو لوگوں کے کپڑوں کی میل کچیل کو دھو دھو کر صاف کر چکا تھا تو اسکے اپنے دلدر کیوں دور نہیں ہوئے تھے ؟ اور ایسی سینکڑوں ہزارون اور لا یعنی وارداتیں، باتیں، رودادیں، حکائتین ۔۔۔۔ واقعات ۔۔۔ کھیل تماشے وغیرہ جن سے اوروں کو کوئی دلچسپی نہیں رہتی میرا اصل موضوع رہے ہیں۔ میری ایسی ہی حرکتوں کو وہ خرافات کہتے ہیں اور مجھے سنکی اور قنوطی کے خطاب سے نوازتے ہیں۔ بہر حال میں اپنا یہ کام نہایت انہماک سے کر تھا کہ میں نے کہیں سے ایک عبارت پڑھ لی اور وہ کچھ یوں تھی ” اگر تم کسی ملک کے بارے میں کھوج لگانے نکلو وہاں کے لوگوں سے جانکاری تمہارا مدعا ٹھہرے تو تمہیں چاہئے کہ وہاں کی سڑکوں، کارخانون، مشینوں کی گڑ گڑاہٹ ، چمنیوں سے اٹھنے والے دھوئین اور معاشی ترقی یا تنزلی کے ساتھ ساتھ وہاں کے گویوں، موسیقاروں،شاعروں، ادیبوں، مصورون، اداکاروں اور رقص کرنے والوں سے میل جول بڑھاو اور ان کے اندر جھانکو کیوں کہ وہ وہاں کی ذہنی تربیت اور تہذیبی وراثت کے اصل امین ٹھہرتے ہیں۔ اس غرض سے میں نے ایسے تمام لوگوں سے ملاقاتوں اور انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا، لیکن یہیں سے وہ خرابی بھی پیدا ہوئی کہ میرے ساتھ وہ سب لوگ بھی معتوب ٹھہرائے جانے لگے اور اس دن سے وہ لومڑی کے چہرے اور پاوں والے میرے پیچھے اور میں ان کے آگے بھاگتا ہوں۔ اور اب میں یہاں ہوں کہ تم یہاں کے ایک نوجوان اور ذہین قلم کار ہو اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم یہاں کے بارے مین بہت کچھ جانتے ہو۔ ۔۔۔۔ لیکن یہ لومڑی کے چہرے اور پاوں والے نہیں جانتے کہ وہ جو کچھ جانتے ہیں وہ اصل نہیں۔ اصل تو کچھ اور ہے اور اس اصل کا مکمل بھید پانے کے لئے مجھے تمہاری مدد درکار ہے، کیا تم میری مدد کرو گے ؟’
” لیکن بابا جی، ۔۔۔ بھولے بادشاہو ۔۔۔ میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ مجھے جو کچھ کہنا ہوتا ہے وہ میں لکھ دیتا ہوں ۔۔۔ میری تحریریں ہی میرا خیال اور میری فکر ہیں اور وہ آپ کے سامنے ہی ہیں۔ “
نیچے دروازہ ایک بار پھر بے دردی سے پیٹا جانے لگا۔
دونوں ہڑ بڑا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
” یہ وہی ہوں گے۔۔۔۔” مورخ بڑبڑایا
مصنف بھی اب فکرمند ہوا اور کمرے میں ٹہلنے لگا۔
” خیر کوئی بات نہیں ۔۔۔ دیکھا جائے گا ۔۔۔” اب بڑ بڑانے کی باری مصنف کی تھی پھر اسی بڑ بڑاہٹ کے دوران اس نے کہا:
” با با جی ۔۔۔۔ سنو ۔۔۔سنو وہ اب دروازہ توڑنے ہی والے ہیں”
” اسی لئے میں کہتا ہوں کہ کچھ تو کہو ۔۔۔۔ ہاں کہہ دو ۔۔۔ اور سرخرو ہو جاو ۔۔۔ پھر میں یہاں سے فرار ہونے کی کوشش کروں گا۔ “
” میں کیا کہوں ۔۔۔۔ اس وقت مجھے کچھ سوجھ ہی نہیں رہا۔” پھر کچھ سوچتے ہوئے اس نے میز پر پڑی اپنی تازہ تحریر اٹھائی اور اس کی آخری لائن پڑھ کر سنانے لگا
” ٹھیک ہے ۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔ میرا کام بن گیا ۔۔۔ رات ۔۔۔ تاریکی اور جگنو ۔۔۔ہا ہا ہا ۔۔۔”
بوڑھا مورخ خوشی سے ناچنے لگا
دھپ ۔۔۔ دھپ ۔۔۔دروازے پر دستک تیز ہو گئ۔
بوڑھا فورا سنجیدہ ہو گیا ۔۔۔ ” لو اب میں جاتا ہوں ۔۔۔ تمہارے مکان کے پچھواڑے سے نیچے کودتا ہوں اور انہیں چکمہ دے کر یہاں سے نکلنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ ” پھر وہ بابا نہایت پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مکان کے پچھواڑے کی سمت بھاگا اور مکان کی پچھلی دیوار پر ہاتھ جما کر نیچے کی طرف لٹکتے ہوئے پرلی طرف کود گیاَ