سلطنت(مصنف) ۔۔۔ محمود احمد قاضی
سلطنت
محمود احمد قاضی ایک کہنہ مشق اور منجھے ہوئے لکھاری ہیں۔ کہانی ان کے خون میں رچی ہو ئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’’کہانی جبر کو نہیں ،صبر کو مانتی ہے۔ میں جیسی بھی کہانی لکھ رہا ہوں، اسے میں ہی لکھتا ہوں۔ کہانی مجھے ہرگز نہیں لکھتی۔‘‘ ’’سلطنت‘‘ محمود احمد قاضی کے افسانوں کامجموعہ ہے، جس میں اُن کی 18 کہانیاں شامل کی گئی ہیں۔دلچسپ طور پر ہر کہانی ایک کردار کے احوال پر مشتمل ہے جیسا کہ بادشاہ، دربان، غلام، مسخرہ، ایلچی، مؤرخ، بہروپیا، مکینک، بازی گر وغیرہ۔
ادارہ پینسلپس کی کوشش ہے کہ، اپنے قاری کے لئے ہر شمارے میں ایک کہانی شامل کی جائے۔
مصنف
اس بڑی بلڈنگ میں چھوٹے سے دفتر کو ڈھونڈنا آسان نہیں تھا۔ چھٹی منزل پر کئی چکردار راہداریوں کو عبور کرنے کے بعد اور پسینے میں نہا جانے کے بعد وہ سیڑھیوں کی ریلنگ سے لگا سستا رہا تھا کہ اچانک ہی وہ بورڈ جس پر ” مخلص پبلی کیشنز ” لکھا تھا اس کی نگاہوں کے سامنے آ گیا۔ 4 انچ ضرب 8 انچ کا یہ بورڈ خاموشی سے ان راہداریوں میں اس کی آج کی اس سیر بے لطف کے دوران چھپا رہا تھا اور اب ایک دم سے اس کے سامنے آ گیا تھا۔ شاید اس کا منہ چڑانے کے لئے۔ اس نے جیب سے رومال نکال کر گردن پر آئے پسینے کو خشک کیا تو گریبان میں سے امڈتی پسینے کی اس ناگوار بو کو محسوس کیا جو صبح کے چھڑکے گئے ٹالکم پاوڈر کی خوشبو کو نگل چکی تھی۔ اس کی طبیعت بھاری ہو رہی تھی اس لئے اس نے واپس جانے کا ارادہ کر لیا تھا لیکن پھر خود ہی اس کے قدم اس دروازے کی طرف اٹھ گئے۔ اندر کا ماحول ٹھندا اور پر سکون سا محسوس ہوا۔ دو تین آدمی میزوں کے قریب جھکے ہوئے کسی کام میں الجھے ہوئے تھے ان کے قریب موجود کتابوں کے شیلف ڈھیروں کتابوں کا بوجھ نہ سہارتے ہوئے سے محسوس ہوئے۔ ان سے پرے شیشے کے کیبن میں وہ شخص بیٹھا تھا جس سے کہ اسے ملنا تھا لیکن اس کی میز کے گرد اس وقت دو آدمی موجود تھے۔ وہ ان سے ہا تھ ہلا ہلا کر اور مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہا تھا۔اسکے ہونٹ تیزی سے حرکت کر رہے تھے۔ان کے سامنے چائے رکھی تھی اور بسکٹ بھی تھے۔ اس نے ان دونوں آدمیوں کے اٹھنے کا انتظار کرنے کے لئے موقع غنیمت جانا اور کتابوں میں گھس گیا۔ خوبصورت چمکیلے ٹایئٹلوں والی کتابیں ان کے ہاتھ میں آکر واپس اپنی جگہوں پر جا رہی تھیں۔ چھپے ہوئے حروف والے کاغذ کی ایک اپنی مخصوص خوشبو اس کے وجود کو ہلائے دے رہی تھی۔ اسے یہ خوشبو بہت پسند تھی۔ اس نے کافی وقت گزاری کر لی تھی بہت سی کتابوں کے ورق الٹ پلٹ لیے تھے لیکن وہ لوگ بھی اٹھ نہیں رہے تھے، پھر نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے شیشے کے کیبن میں لگے خوبصورت کلاک کی طرف دیکھتے ہوئے قدم اندر کی طرف بڑھا دیے۔ ان میں سے کسی نے بھی اس کی آمد کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا تھا۔ وہ بدستور اپنی باتوں میں مگن تھے جن کو اب وہ بھی سن رہا تھا۔ ان کے درمیان پچھلی رات کو ہونے والی عقیقے کی کسی تقریب کا ذکر ہو رہا تھا۔ چند لمحوں تک جب وہ ان کی میز کے قریب کھڑا رہا تو اس شخص نے جس سے کہ اسے ملنا تھا اور جس کے بال ماتھے کے قریب سے گرنا شروع ہو گئے تھے بغیر کسی تمہید کے اس سے مخاطب ہو کر کہا :
” اگر آپ کو کوئی کام ہے تو باہر میرے سٹاف سے مل لیجئے۔ “
” جی نہیں۔۔ ان سے نہیں مجھے آپ سے ملنا ہے۔”
” اچھا تو ٹھیک ہے، ملیے۔ “
” مجھے عین صاحب نے آپ سے ملنے کے لیے کہا تھا۔ “
یہ کہتے ہوئے ایک فائل جو اس نے بغل میں دبا رکھی تھی۔ اس کے سامنے رکھ دی۔
اس شخص نے فائل کو کھول کر دیکھنے سے پہلے اس کے کور پر موجود کسی طرح کی گرد کو کھوجنے کی کوشش میں اپنا ہاتھ اس پر ایسے پھیرا جیسے اسے اپنے ذہن میں مرتب شدہ نتائج کے مطابق وہاں کچھ نہ پا کر مایوسی ہوئی ہو۔ کچھ دیر تک اس لا یعنی عمل سے گزرنے کے بعد آخر کار اس نے فائل کھول ہی لی۔ وہ مشینی انداز میں ورق الٹتا رہا اور وہ کھڑا رہا کیوں کہ اس نے اسے بیٹھنے کے لیے ابھی تک نہیں کہا تھا۔ بظاہر وہ بغور اس فائل کا مطالعہ کرتا رہا پھر فائل کو بند کرنے کے بعد اس نے اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا:
” محترم ۔ میرے پاس تو اس وقت کام کا بہت رش ہے۔ ویسے بھی اب ایسی چیزوں کو پڑھنے کی کسے فرصت ہے۔ فی الحال میں معذرت چاہوں گا شاید پھر کسی وقت آپ کے کسی کام آ سکوں۔ “
” در اصل مجھے کہا گیا تھا کہ ۔۔۔”
” آپ عین صاحب سے میرا سلام کہیے گا۔ شاید ایک دو روز میں میری ان سے براہ راست بات چیت بھی ہو جائے۔ اس کے علاوہ کوئی خدمت ہو تو حکم کیجئے۔ ” ایک توقف کے بعد اس نے کہا، ” ویسے بہتر ہوتا کہ آپ اب تک اپنے آپ کو بدل لیتے۔ ایسے خیالات کے ساتھ جینا ہمیشہ ہی مشکل ثابت ہوتا ہے۔ “
اس نے پھر اپنی فائل بغل میں دابی اور وہاں سے نکل پڑا۔ اسی وقت پبلشر کی میز کے گرد بیٹھے اشخاص میں سے ایک نے جو نوجوان سا شخص تھا جانے کی اجازت چاہی اور وہ اور وہ نوجوان شخص اکٹھے ہی وہاں سے نکلے تھے۔ سیڑھیوں سے نیچے اتر کر جب وہ سانس بحال کرنے کے لیے ایک لمحے کے لیے رکا تو اس نے اسے اپنے قریب پایا۔ وہ اس سے ہی مخاطب تھا۔
” جناب کیا آپ میرے ساتھ چلنا پسند کریں گے ؟ “
” کہان ۔۔۔۔ اور آپ کون صاحب ہیں ؟ “
” آیئے۔ ۔۔ آپ کا فائدہ ہی ہو گا۔ آپ کا جو کام یہاں نہین ہوا وہ شاید میں کردوں۔ میں نے نیا نیا کاروبار شروع کیا ہے۔ حالانکہ ہے تو سراسر رسک لینے والی بات لیکن میں کوشش کروں گا کہ آپ کے کام آ جاوں ۔ ” اسکے حیرانی میں ڈوبے ہوئے وجود کو اوپر سے نیچے تک وہ کچھ لمحات تک دیکھتا رہا پھر قریب ہی کمپاونڈ میں موجود ایک چم چم کرتی کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس نے کہا۔ ” پلیز۔۔۔”
وہ اس کے ساتھ چل پڑا اور کئی مصروف بازاروں سے ہوتا ہوا ایک گنجان علاقے میں پہنچ گیا۔ وہاں اس کا دفتر بھی ایک بڑی بلڈنگ کی چھٹی منزل پر ہی واقع تھا اس کے دفتر مین البتہ شیشے نہیں لگے تھے۔ سیدھا سادا سا ایک کمرہ تھا جہاں کتابیں ایک انبار کی صورت پڑی تھیں۔ شیلفوں کے بغیر وہ بے ترتیب سی لگ رہی تھیں۔ وہاں ایک کچی عمر کا کلرک نما شخص پہلے ہی سے موجود تھا۔ نوجوان نے کلرک کو چائے لانے کو کہا اور اسے بیٹھنے کو۔ پھر اس نے بھی فائل کی ورق گردانی شروع کر دی ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد بولا
” مجھے لگتا ہے آپ کے اندر اب بھی امید باقی ہے اور یہی امید آپ دوسروں کو بھی دلانا چاہتے ہیں، جب کہ ۔۔۔۔ خیر ۔۔۔۔ میں نے ابھی ان چیزوں کو سرسری نظر سے ہی دیکھا ہے ۔ انہیں آپ میرے پاس چھوڑ جایئں۔ میں اپنا اطمینان کر لوں تو آپ کو اطلاع کر دوں گا۔
” لیکن مجھے تو دوسرے شہر سے آنا ہوگا اس لیے مجھے کوئی تاریخ اور وقت دے دیں تو بہتر ہو گا۔”
” ٹھیک ایک ماہ بعد۔”
” یہ عرصہ کچھ زیادہ نہین ؟ ‘
” میرے خیال میں نہیں۔”۔یہ کہہ کر وہ دوسرے کاموں میں منہمک ہونے لگا تو اس نے محسوس کیا کہ اب اس کی یہاں ضرورت نہیں رہی تھی۔وہ اٹھا اور وہاں سے نکل کر فٹ پاتھ پر چلنے لگا۔
اصل میں اسکی دو تین کتابوں کے مسودے کافی عرصے سے تیار پڑے تھے مگر کوئی پبلشر نہیں مل رہا تھا۔ اسی اثناء میں اسکے ایک جاننے والے نے اس پہلے پبلشر کا حوالہ دے کر بھیجا تھا اور اس کے انکار کے بعد یہ دوسرا شخص ۔۔۔ صورت حال کچھ اس کے حق میں نہیں جا رہی تھی۔وہ اس سے پہلے دو کتابوں کا مصنف تھا۔ حکومت وقت نے بوجوہ اسکی دونوں کتابوں پر پابندی لگا دی تھی اور اب مزید کتابوں کی اشاعت کا مرحلہ اسے درپیش تھا۔ وہ کسی خوش فہمی میں مبتلا ہوئے بغیر تھک تھکا کر اپنے شہر لوٹ آیا اور زندگی کی دوسری قسم کی فضول اور لغو مصروفیات میں الجھ کر رہ گیا۔ وہ اپنی دیرینہ عادت کے مطابق دن میں بھی خواب دیکھنے لگ گیا۔ وہ اکثر بیٹھے بیٹھے چلتے چلتے فینٹیسیز میں چلا جاتا تھا۔
” شاید ایسا وقت آپ پر بھی آتا ہو کہ جو چیز آپ کو حاصل نہ ہو رہی ہوآپ کی دسترس میں نہ ائی ہو اس کی دستابی آپ ایسے دن مین نظر آنے والے خوابوں کے ذریعے کر لیتے ہوں ۔۔۔ مثلا کوئی لڑکی جس سے آپ محبت کرتے ہوں ۔۔۔ ایک خوبصورت گھر جس کے آگے ایک چھوٹا سا لان ہو ۔۔۔کسی بہت ہی پسندیدہ اور بڑیشخصیت سے ملنے کی خواہش وغیرہ ۔۔۔۔ یہ چیزیں اگر نہ مل رہی ہوں تو انہیں تصوارات میں دیکھ لینا، محسوس کر لینا، میرے خیال میں کوئی بری بات بھی نہین اور پھر آپ کے ایسے عمل سے جب دوسروں کو کوئی نقصان نہ ہو رہا ہو تو اس ذاتی عمل سے گزرنے میں کوئی قباحت ہونی بھی نہیں چاہیئے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کچھ نہایت عملی قسم کے لوگ ہم جیسے دن کو خوابون میں بسر کرنے والوں کے خلاف طرح طرح کے بیان دیتے رہتے ہیں۔ دراصل ایسے حضرات کو بیان بازی کی لت پڑی ہوتی ہے جبکہ میرے خیال مین ایسا کرنے میں اس لیے بھی کوئی ہرح نہیں کہ پہلے پہل ہر چیز آپ کے لیے ایک خواب بن جاتی ہے۔ اور پھر میرے تجربے میں یہ بات آئی ہے کہ میں نے چند ایسی چیزیں ضرور حاصل کر لی تھیں جو پہلے پہل محض میرے دن کے خوابوں کا حصہ تھیں۔ “
وہ اپنے آپ سے اکثر ایسی گفتگو کرنے کا عادی تھا اس لیے وہ کسی حد تک مطمئن تھا کہ مزید کتابیں چھپوانے کی خواہش جو اس وقت ایک خواب تھی کل کلاں تعبیر کی صورت میں سامنے آ سکتی تھی جیسے کہ اچانک یہ اجنبی پبلشر اس سے وعدہ کر بیٹھا تھا۔
ایک ماہ کا عرصہ پلک جھپکنے میں گزر گیا۔ جب اشتیاق زیادہ ہو تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ دیر گراں نہیں گزرتی۔ وہ ٹھیک وعدے والی تاریخ اور وقت پر پبلشر سے ملنے پہنچ گیا لیکن اس کا کمرہ بند ملا۔ وہاں ایک بڑا سا تالا پڑا تھا۔ ساتھ والے دفتر سے پتہ کیا تو وہاں بیٹھے تاش کھیلتے لوگوں میں سے ایک نے جوابا بڑا سا سر ہلا کر صرف اتنا کہا ، ” پتہ نہیں “
اس نے راہداری میں سے گزرتے ہوئے ایک اور شخص سے بھی معلوم کرنے کی کوشش کی تو جواب وہی آیا، ” پتہ نہیں “۔ اس نے کچھ دیر وہاں انتظار کرنے کی ٹھانی اور سیڑھیوں کی ریلنگ سے لگ کر وہاں دو گھنٹے تک کھڑا رہا مگر وہ نہ آیا۔ کمرہ بدستور بند تھا۔ واپسی پر کسی قدر مایوسی ہوئی لیکن ابھی اسکے پاس قسمت آزمانے کے چانسز تھے۔مزید ایک ماہ بعد وہ پھر آیا تو وہ اسے مل گیا۔ اس سے معذرت کرنے لگا، ” در اصل میں ملک سے باہر چلا گیا تھا۔ ایک پراجیکٹ تھا اسے حاصل کرنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے ۔۔۔ خیر آپ مطمئن رہیے ۔ آپ کا کام ہو جائے گا۔ میں باہر جانے سے پہلے آپ کے مسودے کو صحیح طرح سے دیکھ نہیں سکا۔ اب جلد ہی دیکھ لوں گا۔ آپ اگلے ہفتے آ جایئے۔ آپ کو جو زحمت ہوئی اس کے لئے ایک بار پھر معذرت۔”
اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی معذرت قبول کر لی اور اگلے ہفتے اس کے پاس آنے کے لیے اپنے آپ کو ابھی سے تیار کرنے لگا۔ اگلا ہفتہ کتی دور تھا، یوں چٹکی بجاتے ہوئے آ گیا۔ اب کی بار وہ آیا تو کمرہ پھر بند تھا۔ اس بار اس نے ادھر ادھر سے پتہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اسے ان کا جواب پہلے ہی سے معلوم تھا۔ اب کے وہاں سے واپس آنے کے بعد وہ اپنے ذاتی کاموں میں ایسا الجھا کہ ڈیڑھ ماہ کا عرصہ گزر گیا۔ پھر اسے فلو نے آ لیا۔ یوں مزید ایک ماہ صحت کی بحالی میں گزر گیا اس لیے وہ تقریبا اڑھائی ماہ کے بعد پھر آیا تو اس کا کمرہ تو اسے کھلا ملا لیکن وہاں اسکی جگہ کوئی اور شخص بیٹھا تھا۔ اب وہاں کتابیں بھی نہیں تھیں بلکہ کمرے کی دیواروں کے ساتھ چھت تک بڑے بڑے گتے کے ڈبوں کی قطارٰیں تھیں اور ان کے درمیان کچھ اور طرح کی فضول چیزیں پڑی تھین۔ اب یہ کمرہ ایک طرح کا گودام سا لگ رہا تھا۔ اس نے جھجھکتے ہوئے سوال کیا، ” وہ پبلشر صاحب کہاں ہیں ؟ “
” پبلشر ۔۔۔ کون پبلشر۔۔۔؟ “
” جی یہاں ایک کتابوں کی دوکان تھی بلکہ کتابیں یہاں سے چھپتی بھی تھیں ۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ ۔۔۔”
” میں آپ کا مطلب سمجھ گیا۔ آپ غین صاحب کی بات کر رہے ہین۔ شاید جو ہم سے پہلے یہاں ہوا کرتے تھے۔ “
” جی ہاں۔ آپ ٹھیک سمجھے۔ وہ کہاں ہیں ۔؟’
” پتہ نہیں ۔۔۔” اس نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے کہا
وہ اپنا سا منہ لے کر وہاں سے واپسی کے لیے مڑ گیا۔