سلطنت ( خواجہ سرا ) محمود احمد قاضی
سلطنت
محمود احمد قاضی ایک کہنہ مشق اور منجھے ہوئے لکھاری ہیں۔ کہانی ان کے خون میں رچی ہو ئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’’کہانی جبر کو نہیں ،صبر کو مانتی ہے۔ میں جیسی بھی کہانی لکھ رہا ہوں، اسے میں ہی لکھتا ہوں۔ کہانی مجھے ہرگز نہیں لکھتی۔‘‘ ’’سلطنت‘‘ محمود احمد قاضی کے افسانوں کامجموعہ ہے، جس میں اُن کی 18 کہانیاں شامل کی گئی ہیں۔دلچسپ طور پر ہر کہانی ایک کردار کے احوال پر مشتمل ہے جیسا کہ بادشاہ، دربان، غلام، مسخرہ، ایلچی، مؤرخ، بہروپیا، مکینک، بازی گر وغیرہ۔
ادارہ پینسلپس کی کوشش ہے کہ، اپنے قاری کے لئے ہر شمارے میں ایک کہانی شامل کی جائے۔
خواجہ سرا
خیر سے ضل الٰہی کی یہ تیسری شرعی شادی تھی اور اس ہنگامہ خیز تقریب سعید کو منعقد کرنے کے لئے اس گہری ہوتی رات کو محلات میں جو سنگ سرخ کے مہیب ستونوں پر قائم تھے ایک بڑا ہی خاص پروگرام مرتب کیا گیا تھا. محلات کو ایک انوکھے انداز میں سجانے کے لیے پیپر سے بنی ہزاروں لاکھوں جھنڈیاں بنوائی گئی تھی. سینکڑوں ہزاروں قمقموں اور فانوسوںوں کے ہوتے ہوئے بھی محلات کی غلام گردشوں منڈیروں اور راستوں کے دورویہ سینکڑوں من سرسوں کے تیل سے جلنے والے ہزاروں لاکھوں دئیے بھی مہیا کیے گئے تھے. محلات کے احاطوں میں بنے بیسیوں خوبصورت فواروں کا پانی مختلف قسم کی جیومیٹریکل اشکال بناتا خاص قسم کی موسیقی کے جلو میں یہاں وہاں ناچتا تھا. محلات کے جنوبی کونے میں بنے ظل الہی کے ذاتی چڑیا گھر کے تمام جانور اور پرندے البتہ اس وقت اپنے آرام میں خلل پڑنے کی وجہ سے کچھ بے چین سے تھے جب کہ خود چڑیا گھر کا کیوریٹر بھی اس شوریلی اور سریلی تقریب کا حصہ بنا اپنے فرض سے غافل ہوا جاتا تھا. محلات کے شمالی اطراف کے احاطے میں نصب چھولداریوں اور شامیانوں تلے مختلف اقسام کے کھانوں کو پکا نے کئ لئے خاص باورچی ہنرمند خانسامے اپنی اپنی ریسیپیز کے خاندانی رازوں اور انوکھے طریقوں کو آزمانے کے لیے بے قرار تھے. راجواڑے کے بہترین چنیدہ موسیقار اور گویئے اپنی اپنی گائیکی کی ٹولیوں اور اپنے اپنے بینڈ باجوں کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لئے یہاں موجود تھے. ان کے قریب ہی اپنے وقت کے مانے ہوئے انعام یافتہ اور شاہی سندیافتہ آتش باز بھی اپنی آتش بازی کا مظاہرہ کرنے کے لئے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے لیے ایک خاص مقابلہ کرنے کو تیار کھڑے تھے۔
آتش باز دو گروپوں میں بٹے ہوئے تھے ان میں سے ایک گروپ استاد گروپ اور دوسرا شاگرد گروپ کہلاتا تھا اور ان دونوں گروپوں کا مقابلہ دیکھنے کی چیز ہوتا تھا. مقابلے کی اسی فضا میں سفید براق وردیوں میں ملبوس بیرے ادھر ادھرپھر رہے تھے اور طرحدار چلبلی رقاصائیں جھومتی جھامتی ایک دوسری پر گری پڑتی تھیں. اپنی دیرینہ سلیقہ شعاری میں گندھی تہذیب سے لیس ، پہرے دار،مصاحب، ملازمین خاص، امیر کبیر، وزیر حتی کہ خواجہ سرا تک اپنی حیثیت کو بھلائے ہوئے ایک دوسرے میں یوں گھل مل گئے تھے کہ پہچان مشکل تھی کہ یہ یوں تو خوشی کی گھڑی تھی لیکن ان کے لئے مشکل کی گھڑی تھی اور آج ان کی صلاحیتوں کا امتحان بھی تھا. اس وقت محلات سے پرے تو رات تھی اور مخلوق لحافوں گدڑیوں اور پھٹے کمبلوں میں اپنی بدقسمتی سے لپٹی سوتی تھی مگر ادھر محلات میں رات نے دن کا لبادہ اوڑھ لیا تھا یہاں اس وقت ہزاروں کی تعداد میں مختلف قسم کے جانور یعنی نیل گائے ہرن چھترے بکرے مرغ تیتر بٹیر اور مرغابیاں کاٹی جارہی تھی. مختلف قسم کے مصالحوں کی خوشبو ادھر ادھر ہلکورے لے رہی تھی اورظل الٰہی اس وقت اپنے غسل خاص سے فارغ ہوچکے تھے اور انھیں ان کے ملازمین ایک خاص وضع کا شاہی دولہوں والا زرتار لباس پہنا رہے تھے. وہ اس وقت لباس زیب تن کرتے ہوئے زیر لب مسکرا رہے تھے. آج ان کی مراد بر آئی تھی اور راجواڑے کی سب سے زیادہ خوبصورت دوشیزہ ان کی رانی بننے جارہی تھی حالاں کہ یہ ان کی تیسری مسلسل شاد لیکن شاہی خاندان کے باہر ان کی پہلی شادی تھی اسی لئے انہوں نے اپنی ہونے والی دلہن کو عوامی دلہن کا خطاب دے ڈالا تھا. ابھی کچھ ہی دیر بعد وہ ایک خاص جلوس میں شامل ہوکر نکاح مسنونہ کی تقریب میں جلوہ گر ہونے کو تھے اور ۔۔۔۔۔۔۔
انہیں لمحات مسرت کو دوام بخشنے کے لیے زنانہ محلات بھی ایک شایان شان طریقے سے سج سجاکر روشنیوں میں نہا رہے تھے۔ منجھلی رانی صاحبہ بھی اس وقت عطریات میں بسے پانی سے غسل کرنے کے بعد اور لباس سے خاص زیب تن کرنے کے بعد مہمانان خاص کی آمد کی منتظر تھیں۔۔بڑی رانی صاحبہ کے محل میں البتہ کچھ خموشی افسردگی اور یاسیت کے سائے لہراتے تھے روشنیاں بھی ذرا کم ہی چلائی گئی تھی اور خود رانی صاحبہ نے ابھی تک نہانے اور نیا لباس پہننے کی طرف بھی توجہ نہیں دی تھی۔۔ وہ ایک منقش کرسی پر ایک طرف کو جھکی بیٹھی کچھ سوچے جا رہی تھیں۔ کچھ عرصہ پہلے وہ ایکدم تنہا کردی گئی تھیں۔ انہیں اپنا متروک ہونا پسند نہ تھا۔ منجھلی رانی صاحبہ کی آمد کے بعد سے ہی ضل الہی کا رویہ ان کے ساتھ سرد ہوگیا تھا۔ اب وہ انہیں کبھی کبھار ہی بلاتے تھے اور خود ان کا ادھر آنا تو تقریبا موقوف ہو چکا تھا۔ رانی صاحبہ کو اپنے اس طرح رد کئے جانے کا بہت رنج تھا اور اب تیسری رانی کی آمد نے تو انہیں غم سے نڈھال ہی کر دیا تھا۔ انہیں علم تھا کہ اب ان کا وجود ایک فالتو چیز اور محض ایک شے ہونے کی طرح کا ہو کر رہ جائے گا۔ظل الہی کا التفات کم سے کم ہو رہا تھا بلکہ اب تو عالم یہ تھا کہ انکے خاص مقربین ملازمین اور خادمایئں تک ان سے کنی کترانے لگی تھیں گوکہ شاہی شیڈول کے عین مطابق ان کے لیے خاص وقت پر کھانا لباس زیورات اور دوسری قسم کے تمام لوازمات او ر خدمات مہیا کی جا رہی تھیں لیکن وہ اس روٹینی فضا کے پیچھے چھپی لایعنیت اور لاتعلقی کو بھی محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتی تھیں۔ رات کے ایک خاص پہر میں انکے سونے کا بندوبست آرام اور سکون سب کچھ ایسا ہی تھا لیکن شاید ویسا نہیں تھا یا انہیں سب کچھ ویسا محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ اب بھی ان کی عزت تو کی جاتی تھی مگر احترام میں کمی آچکی تھی۔بس یہی دکھ انہیں اندر سے کھوکھلا کیے دے رہا تھا اندر گھلتی جارہی تھیں لیکن بے بس تھیں۔ ان کے پاس اپنی خوشیوں کو دوبارہ پالینے کا کوئی طریقہ موجود نہیں تھا۔ ایک ٹھوس ٹھنڈی لمبی زندگی ان کے پیش نظر تھی کہ وہ اب بھی جوان تھیں اور اپنے رنگ ڈھنگ سے زندگی کرنے کی خواہشمند تھیں۔لیکن محل کے اصول و ضوابط آڑے آتے تھے اب اگر وہ اپنے چنچل پن کا مظاہرہ کرنے کا ٹھان لیتیں تو ایک طرح کی قیامت برپا ہونے کا اندیشہ تھا۔ اس وقت وہ ایسے ہی اندیشوں میں گھری تھی کیونکہ خاص الخاص ملازم خواجہ سراؤں کے انچارج خواجہ سرا نے جو خواجہ سراؤں کا گرو کہلاتا تھا باریابی کی اجازت چاہی جو انہوں نے چند لمحے سوچنے کے بعد اپنے سر کے ایک خاص اشارے سے دے دی تھی۔۔
گرو نے اندر آ کر کہا
” غلام سلام پیش کرتا ہے رانی صاحبہ “
” آو گر وآو۔ ہم تمھاری ضرورت پہلے سے بھی زیادہ محسوس کر رہے تھے کہ ہم نے آج سے پہلے اپنے آپ کو کبھی اتنا تنہا محسوس نہیں کیا تھا
“میرے منہ میں خاک آپ کا یہ خادم دیرینہ آپ کی کسی بات سے اختلاف کرنے کی جسارت تو نہیں کرسکتا لیکن پھر بھی یہ ضرور کہنا چاہے گا کہ دل چھوٹا کرنا اور اپنے آپکو یوں حالات کی لہروں کے سپرد کر دینا اچھا شگون نہیں۔ آپ مہربانی کرکے اپنے محل کو خوب روشن کروایئے غسل کیجیے لباس خاص پہنئے اور اس موجود گہماگہمی میں دلچسپی سے حصہ لیجئے ورنہ جاسوس یہ خبر لگائیں گے کہ آپ اس وقت خاص سے خوش نہیں اور اس طرح آپ بادشاہ کی ناراضی مول لے لیں گی۔ اور پھر بادشاہ کی عنایت کے برعکس ان کا عتاب بھی نازل ہو سکتا ہے۔ میری التجا ہے کہ آپ اپنے آپ کو سنبھالئے اور اٹھیئے کے میں آپ کے لئے اپنے شاگرد کی صورت میں ایک خاص تحفہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔ یہ ایک ان گھڑا صحرائی بچہ تھا لیکن میں نے اس کی تربیت ایک خاص ڈھنگ سے کی ہے کہ ہا لآخراسے محلات میں خدمت سرانجام دینا تھی۔ میں نے اس ضرورت کو مد نظر رکھ کر اس کے انداز و اطوار کا خاص خیال رکھا ہے۔ اب وہ ایک ترشا ہوا ہیرا ہے ۔ آپ اسے دیکھیں اور ملاحظہ فرمائیے آپ کی اجازت کا منتظر ہوں۔”
“کون ہے بھئی۔ اب کس کو اٹھا لائے ہو۔ پہلے ہی ملازمین کی فوج کیا کم ہے جو تم۔۔۔”۔
” آآپ یقینا اسے دیکھ کر خوش ہوگئی ٹھیک ہے اسے پیش کیا جائے ”
گرو نے تالی بجائی اور سترہ اٹھارہ برس کا سفید چمکتی چکنی جلد والا خوبرو خواجہ سرا جھجھکتا ، شرماتا ہوا اندر داخل ہوا۔ رانی صاحبہ نے اسے خاص دلچسپی سے دیکھا اور جانچا لیکن مصنوعی بے دلی اور بے رخی سے کہا، ” ٹھیک ہے۔ تم جاؤ ہم اس کا امتحان لیں گے۔ اگر وہ اچھا رہا تو ہم اسے اپنی خدمت خاص میں رکھیں گے ورنہ۔۔۔”
“جیسا آپ کا حکم رانی صاحبہ۔۔۔”
گرو کے جاتے ہی رانی صاحبہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ نوخیز خاجہ سرا کو ہر طرف سے بغور دیکھنے کے بعد انہوں نے حکم دیا ہمارے لیے نہانے کا پانی گرم کیا جائے۔ تھوڑی دیر بعد خواجہ سرا نے حکم کی بجا آوری کے تحت مختلف قسم کے عطریات میں بسے پانی کا ٹب غسل خانے میں رکھا اور تولیہ صابن لے کر خود غسل خانے کے دروازے پر جم کر کھڑا ہوگیا کہ رانی صاحبہ غسلخانے میں جا چکی تھیں۔ ۔ چند لمحوں بعد اندر سے آواز آئی
” آ جاو “
خواجہ سرا نے انھیں اس وقت فطری لباس میں پایا تو تھوڑی دیر تک انہیں مبہوث سا ہوا دیکھتا رہا پھر مودب انداز میں مخاطب ہوا، ” حکم رانی صاحبہ۔ “
ہ” ہمیں نہلاو “
نرم اسفنج کے ٹکڑے سے خواجہ سرا نے رانی صاحبہ کو غسل کے مختلف مراحل سے گزارنا شروع کردیا۔ اس سے پہلے سینکڑوں مرتبہ بہت سی خادما وں نے رانی صاحبہ کو نہلایا تھا لیکن اس نوخیز خواجہ سرا کی ہنرمندی سلیقے اور طور طریقے نے انھیں بہت متاثر کیا۔ وہ غسل کرانے کے تمام رموز سے بخوبی آگاہ معلوم ہوتا تھا۔ وہ گرو کے انتخاب پر خوش تھیں اور اپنے جسم پر چلتے خواجہ سرا کے نرم ہاتھ انہیں کسی اور ہی دنیا کی سیر کرا رہے تھے۔ انہوں نے غسل کے بعد ایک خاص سر شاری کی کیفیت میں لباس پہنا اور پھر اپنے آپکو تقریب کی مناسبت سے زیورات سے بھی آراستہ کیا۔ اب وہ خود ایک سجی بنی دلہن معلوم ہوتی تھیں۔ ان کا سرخ سفید رنگ اور نکھر آیا تھا۔ ان کی لبوں کی لالی میں بھی ایک طرح کی حدت تھی اور انکا پنڈا اپنے خون کی گرمی کی حدت سے دمکتا اور دہکتا معلوم ہوتا تھا۔ پھر وہ ایک خاص وقار سے شادی کی تقریب میں شریک ہوئیں۔ رات گئے تک ہلہ گلہ ہوتا رہا تمام رسومات کی ادائیگی اور کھانے سے فراغت کے بعد سب ہی تھک ہار کر چور ہوئے اب اپنے اپنے ٹھکانوں کو لوٹتے تھے کہ اب انہیں، ان سب کو، آرام کی نیند کی ضرورت تھی۔ ظل الہی بھی مخمور انداز میں اپنے حجلہ عروسی کی طرف قدم بڑھا چکے تھے۔ رانی صاحبہ اپنے اسی نئے نویلے خواجہ سرا کی معیت میں واپس ہوئیں تو انہوں نے اسے وہیں اپنے کمرے خاص کے قریب رہنے کی اجازت دے دی۔ اب وہ رات کا ہلکا لباس پہنے اپنے نرم بستر پر دراز تھیں اور ایک بازو سر کے نیچے رکھے خاموشی کو اپنے اندر اترتا محسوس کر رہی تھیں۔۔ وہ دیر تک کروٹیں بدلتی رہیں۔ انہیں کسی پہلو چین نہیں تھا پھر انکی بے قراری عروج پر پہنچ گئی اور تمام شاہی آداب کو بالائے طاق رکھ کر انہوں نے نوخیز خواجہ سرا کے کمرے کی طرف رخ کیا۔
دوسری صبح رانی صاحبہ دیر تک پڑی سویا کی۔۔ وہ اس دوران سوئی ہوئی کچھ بربراتئ بھی رہی تھیں پھر جب وہ جاگیں تو انہوں نے مسکراتے ہوئے انگڑائی لی اور اپنے پیر پلنگ کے نیچے دھرے نرم سلیپروں میں ڈالے اور بے مقصد ادھر ادھرٹہلنے لگی۔۔ اسی اثنا میں گرو نے ایک بار پھر شرف باریابی چاہا تو انہوں نے فورا اجازت دے دی
گرو ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا
” رانی صاحبہ کا اقبال بلند ہو۔ غلام دراصل نے ملازم خاص کی مستقل تقرری یا مسترد کئے جانے کے احکامات لینے کے لیے حاضر ہے۔ “
رانی صاحبہ کچھ سوچ کر مسکرا ئیں
” ہم تمہاری خدمات سے ہمیشہ ہی خوش ہوئے ہیں۔ اس بار بھی تم نے ہمیں مایوس نہیں کیا تمہارا بھیجا ہوا خواجہ سرا دیکھنے میں خاموش اور چب سا دکھائی دیتا ہے لیکن ہم نے محسوس کیا ہے کہ وہ خاص موقعوں پر جب وہ جب ضرورت ہو تو اپنی زبان کو استعمال کرنے کا فن خوب جانتا ہے۔ پہلے والے حالات ہوتے تو شاید ہم اسے مسترد کرچکے ہوتے مگر اب معاملہ دوسرا ہے۔ اس لئے ہم نے اس کی اس خوبی کی بنا پر فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب یہیں ہمارے پاس ہی رہے گا۔ “
گرون ہاتھ جوڑتے ہوئے عرض کیا۔
“کیا مجھے اس سے ملنے کی اجازت ہےرانی صاحبہ ؟ ‘
” نہیں اس وقت وہ شاید سو رہا ہے۔۔ اور ہم چاہیں گے کہ ابھی اسے نن جگایا جائے تو بہتر ہے۔ “
رانی صاحبہ نے ایک خاص مسرور انداز میں مسکرا کر جواب دیتے ہوئے جب اپنے گلے کا ہار اتار کر گرو کی طرف پھینکا تو وہ جھک کر فرش سے جا لگا۔
.