صلیب و رسن ۔۔۔ مائرہ انوار راجپوت
صلیب ورسن
مائرہ انوار راجپوت
سانحہ:
مونا صبح اٹھی تو اسے یوں لگا جیسے کسی نے اسے سمندری پانی کی بوتل میں صحرائی ریت ملا کر پلا دی ہو۔ ۔اس نےکریب کے ڈوپٹے سے دانت رگڑ کر صاف کیے پر دانت اسی طرح کرکرا رہے تھے۔پلنگ کی دوسری جانب فرخ اندھا سو رہا تھا۔ اسکی پشت کے بال یوں پھیلے تھے جیسے ساتھ والی رضیہ کے گھر کے باغیچے میں گھاس۔ روکھی روکھی چھدری شمال سے جنوب_ساتھ والی تپائی پر بالیاں اور گلے کی چین دیکھ کر اسے فرخ کا سخت ہاتھوں سے انہیں اتارنا یاد آیا تو بے اختیار آنکھیں تیزاب گرانے لگیں۔ زمین پر بہت سی چوڑیاں ٹوٹی پڑی تھیں۔وہ بھی ٹوٹی پڑی تھی،بےوقعت سی،مگر اسکا وجود بظاہر سلامت تھا اور فرخ کے پہلو میں تھا۔اسکے وجود کا ہر حصہ تکلیف سے کراہ رہا تھا، خود وہ بھی ہر پندرہ سیکنڈ بعد ایک آہ بھرتی۔لیکن اسکی اہ جسمانی تکلیف سے نہیں نکل رہی تھی۔ بلکہ دل اور روح پر ہوئے چھید اسکو اذیت سے دوچار کر رہے تھے۔اسے یوں لگا جیسے کمرے کی ہر چیز بول رہی ہو، دیواریں ، پلنگ، سنگھار میز، تپائیاں، لکڑی کی الماری حتٰی کے الماری میں موجود کپڑے بھی__ کئی جملوں نے اسکے کانوں کے پردے چیرے، دل میں چھید کیے، روح زخمی کی۔
“ابھی کھڑے کھڑے فارغ کر دوں گا اگر کسی مرد سے اپنی بات کا کوئی ثبوت اپنی صفائی کے لیے پیش کیا ، تمہارا شمار اب اچھی عورتوں میں نہیں ہوتا”__ فرخ کی گونجتی دبنگ آواز سے مونا کا سانس رکا اور اسکو اپنے وجود سے نفرت محسوس ہوئی۔فرخ غصے میں یہیں بولنے کا عادی تھا۔ بنا سوچے سمجھے، وہ سارے الزام مقابل کے سر دھر کر بری الذمہ ہو جاتا تھا۔شادی کے ان پانچ سالوں میں بہت بار اس نے ایسے ہی بے قابو ہو کر لفظوں اور جملوں کے تیکھے نشتر چلا کر مونا کو گھائل کیا۔ اندر کا غبار نکلنے کے بعد وہ ہلکا پھلکا ہو جاتا پھر ایک بار سرسرے انداز میں معذرت کرتا اور اسکے گھائل وجود کو پہلو میں بھر لیتا۔اسکے بعد جو کچھ ہوتا اسے زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ لگتے،اگلی صبح رات کے گھال میل کے کئی نیل مونا جسم کے حصوں پر ملتے لیکن چہرے پر ایک بوسے کا نشان بھی نہ ہوتا۔فرخ کو منانے کا ایک ہی طریقہ آتا تھا۔ یعنی مونا کے کندھے پر ہاتھ رکھا، کمرے میں لے جاکر کندی چڑھا لی_ نتیجتاً مونا سوجھی سوجھی آنکھیں تو لیے پھرتی پر ہمدردی سے کنی کتراتے رہتی۔
عورت اور مرد کا رشتہ فتوحات اور ترجیحات کے بیچ وقتاً فوقتاً گھائل ہوتا رہتا ہے۔عورت”ترجیح” دینا اور لینا چاہتی ہے جبکہ مرد “فتح” کر لینا چاہتا ہے، تسخیر کر لینا چاہتا۔ پھر بھلے وہ جنسی صورت میں ہو یا جذباتی_دونوں صورتوں میں انجام ایک سا ہی ہوتا ہے۔ یعنی تسخیر کر لینے کے بعد مرد کے لیے عورت خربوزے کے خشک کیے بیجوں جیسی ہو جاتی ہے۔ دھوپ میں سوکھا لیے، ضرورتاً منہ کی ورزش کے لیے چند بیج منہ میں ڈال لیے، ذائقہ پسند نہ آنے پر تھوک دیے۔فلسفیوں نے بھلے کئی منطقیں گھڑی ہوں لیکن یہی سچ ہے کہ مرد کا عورت کی جانب کھینچاو جسم کی کشش کے سوا کچھ نہیں پھر بھلے وہ محبوب کی شکل میں ہو یا شوہر کی۔۔۔ یہ فطرت ہے یہی قدرت ہے۔جہاں جسم کی کشش ختم ہو جائے، مرد کا عورت کے بارے میں تجسس ختم ہو جائے وہاں ترجیح میں آپے آپ فرق آ جاتا ہے۔دراصل سارا فساد مونا کے خوابوں کا تھا۔ وہ دنیا گھومنا چاہتی تھی، ٹوریسٹ گائیڈ تھی سیاحوں کو مختلف مقامات کی سیر کروانا اسکا کام تھا۔
شادی سے پہلے اور شادی کے بعد آغاز کے دنوں میں فرخ کھل کر کہا کرتا تھا کہ مونا اپنے خواب پورے کرنے میں آزاد ہے۔اور مونا کو وہم تھا کہ ساری عمر ماہ غسل جیسی ہوگی۔ فرخ کا محبت بھرا انداز، قربان ہوجانے والا لہجہ، املی کے پیڑ کی چھاؤں میں گھنٹوں بیٹھ کر عہد باندھنا، مہکتے گجرے پہنانا، گلاب جامن اور سانچی کا پان سب کی نظروں سے چھپا کر مونا کو دینا _پھر شاید فرخ کی ازلی مردانہ فطرت و غیرت نے جوش مارا اور اس کو مونا کا دوسرے مردوں کے ساتھ کام کرنا، بات چیت کرنا سب مشکوک لگنے گا۔
مونا نے دونوں ہاتھوں سے اپنا لال ، ذلت آمیز چہرہ چھپا لیا۔اب فرخ کے تلخ جملوں کے بجائے اسے ساس کی نصیحتیں یاد آنے لگیں۔
” شوہر شک کا مقدمہ درج کرے، بھری محفل میں عدالت سجائے تو عورت رسوا ہو جاتی ہے، محتاط رہ مونا “__ ساس اس وقت پاس ہوتی تو وہ گودمیں سر رکھ کر ہچکیوں کے ساتھ کہتی کہ ذلیل و رسوا ہونے کے لیے بھری محفل کی ضرورت تھوڑی ہوتی ہے۔کبھی کبھی انسان بند کمرے میں بھی رسوا ہو جاتا ہے۔
اپنے دکھتے وجود کو دھکیل کر غسل خانے تک جانے کی غرض سے جیسے ہی وہ پلنگ سے اتری اسے کسی بڑے نقصان کا احساس ہوا۔ پلنگ کی پوری چادر خون رنگی تھی__ اسنے بے آواز چیخ ماری۔ شادی کے پانچ سال بعد وہ اس نعمت سے نوازی گئی تھی۔ جو ذہنی دباؤ اور مسلسل ہوتے جسمانی گھال میل کی نظر ہوگئی۔ مونا اپنے بےحس اور جامد وجود کو گھسیٹ کر پھاٹک تک لائی۔ پیلی دھوپ منڈیروں پر اتر چکی تھی۔ صرف سلیپنگ پلز کھا کر سو رہنے والی مونا کی آنکھیں اس طرح کھلی تھیں جیسے اب بھی ماہ غسل کے حسیں خواب جیسے دن دیکھ رہی ہو۔ چاروں طرف خوشبو اور بوسے بکھرے ہوں۔ مردہ وجود والی مونا نے ایک بار سر اٹھایا زور زور سے چیخی اور پھر پنجے جھاڑتی ہوا میں پھڑپھڑاتی اڑ گئی۔
کرب:
جس عورت کے ساتھ کو وہ اپنی زندگی اور زندہ ہونے کا سبب مانتا تھا اسکے لاشے کو بانہوں میں بھر کر کس کرب سے گرز کر لحد کی گہرائی اور اندھیری دیواروں کے سپرد کیا تھا۔اگر اسکی تکلیف کو مونا جان جاتی تو کبھی اپنے وجود کو بےرحم موت کے حوالے نہ کرتی۔مونا کو پانے کے لیے اسنے بہت تگ و دو کی تھی۔اور جب پالیا تو کھو جانے کے خوف کو ہمیشہ خود پر مسلط کیے رکھا۔وہ کوئی کمزور یا تنگ نظر مرد نہیں تھا۔ لیکن مونا کے بٹتے دھیان نے، بڑھتے کام نے، اور مشینی رویے نے اسے مونا کے دور ہوجانے کے ڈر میں مبتلا رکھا۔مونا دنیا گھومنا چاہتی تھی، اڑنا چاہتی تھی اور فرخ اسکو اڑتا دیکھنا چاہتا تھا۔ پھر نجانے کیوں اس خیال نے دل میں ٹھیسں اٹھائی کے اگر مونا اڑ کر واپس نہ آئی تو۔۔اسے یوں لگنے لگا کہ مونا اس کی قربت سے بےزار ہوچکی ہے۔ وہ مونا کے لیےبوجھ بن گیا ہے، اسکی راہ میں پڑا کوئی پتھر ہے۔ وہ ذہنی طور پر مونا کو خود سے بیگانہ پاتا تو جسمانی طور پر اس تک پہنچنے کی کوشش کرتا۔اور پھر خود کو ناکام محسوس کرکے ہار جاتا۔اسنے جب دھیرے دھیرے اپنے اور مونا کے بیچ دیوار اٹھتی دیکھی تو رشتے کی بقا کے لیے جنسی سہارا لیا۔اتنی کوششوں اور سہاروں کے باوجود وہ مونا کو کھو چکا تھا اور اب اسکے پاس سوائے اذیت و قرب کے کچھ نہ بچا تھا۔اذیت و کرب کی صلیب پر اب اسکو روز لٹکنا تھا۔