قلو پطرہ کی موت ۔۔۔ سعادت حسن منٹو
قلوپطرہ کی موت
سعادت حسن منٹو
قلو پطرہ دنیا کی حسین ترین عورت تھی۔اس کا حُسن کئی ا نقلابو ں ‘اور خونریزیو ں کا با عث ہوا۔۔۔ اس ساحرہ کے حُسن وعشق کے قصے جہا ں دریائے نیل کے ملاحوں کو ازبر یاد ہیں۔وہا ں تمام دنیا کو معلو م ہیں۔
قلو پطرہ مصر کے نا لائق بادشاہ بطلیموس اولیت کی بیٹی تھی۔۔۔یہ بادشاہ ۸۰ قبل مسیح تک حکمران رہا ۔اپنی سترہ برس کی بیٹی قلو پطرہ کے سر پر اپنا زنگ خوردہ تاج رکھ کر اُس نے دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔
ملکہ مصرقلو پطرہ فا تحوں کی فاتح تھی۔اس نے جو لیس سیزر کو اس کی موت کے بعد مارک انطونی کو جس کے ہاتھ میں ان دنو ں دنیا کی باگ ڈور تھی اپنے حُسن و جمال سے مسحور کیا ۔
اس حسین قاتلہ نے انطونی کو تو ہمیشہ کے لیئے تباہی کے سیلاب میں بہا دیا ۔ تاریخی واقعات بتاتے ہیں کہ انطونی نے اپنی بیوی کے ناپسندیدہ روّیہ سے مجبو ر ہو کر اس کے بھائی اوکتے ویانو س کی سخت توہین کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہو گئی۔پارتھنیوں پر فتح حاصل کرکے اوکتے ویا نوس نے انطونی کے روم کو مکمل طور پر تاراج کرنے کی کوشش کی اور اسکندیہ کی پرانی عظمت کو زبردست دھکا لگایا ۔۔۔ اس نے صاف طورپراعلان کردیا کہ روم کی سلطنت کا اصل حق دارقلو پطرہ اور اس کا بیٹا سیرزین ہے۔ان حالات کے پیش نظر اوکتے ویانوس اور انطونی کی جما عتو ں میں جنگ ہونی نا گزیر تھی۔۔۔چنانچہ اکتی ایم کے مقام پر ایک معرکہ خیز جنگ ہوئی۔۔۔ اس جنگ میں قلو پطرہ بھی شریک تھی مگر اپنی جان بچا کر بھاگ نکلی اور اسکندریہ میں پناہ لی انطونی شکست کھا کر واپس چلا آیا جہاں اس نے اپنی وفادار فوجو ں کو دوبارہ جمع کر نے کی کوشش کی ۔۔۔
انطونی اور قلو پطرہ اب محسوس کرنے لگے تھے کہ انہو ں نے ایک دوسرے کو سمجھنے میں غلطی کی ہے۔چنانچہ دونو ں کے دلو ں پر غم و الم کی گھٹا ئیں چھا گئیں۔۔۔ لیکن ایک آرزو ابھی تک ان کے دلو ں میں باقی تھی کہ انجام کار ان کا ملاپ ہو جائے۔
انطونی لیبیا سے نا امید ہو کر اسکندریہ آیا ۔اس اثنا میں اوکتے ویانو س کی فو جیں اسکندریہ کے دروازوں تک پہنچ گئیں۔۔۔انطونی نے ایک بار پھر اپنی کھوئی طاقت اور دلیری سے کام لے کر دشمن کا مقابلہ کیا ۔لیکن فوج نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا ۔۔۔بالکل تنہا دل میں ہزارو ں حسرتو ں کا خون لیئے محل میں آیا تو قاصد نے خبر دی کہ قلو پطرہ نے خو دکشی کر لی۔۔۔یہ دراصل قلو پطرہ کی ایک چال تھی ۔اسے ڈر تھا کہ انطونی اس کی غداری پر خشمگیں ہو گا۔۔۔ لیکن قلو پطرہ کو ،معلوم نہ تھا کہ اس کی یہ چال اس کے عاشق پر بہت مہلک اثر کرئے گی۔۔۔ انطونی دل میں بہت شرمندہ ہوا کہ ایک عورت کی محبت اس سے بڑھ گئی۔چنانچہ جوش میں آکر اس نے اپنے سینے میں تلوار بھونک لی۔
جب قلو پطرہ کو اطلاع ہو ئی تو اس نے بڑی منتو ں سے اپنے عاشق کوکہلا بھیجا کہ جس طرح ممکن ہو وہ اس کے پاس چلا آئے۔چنانچہ انطونی کے ملازم اپنے زخمی آقا کو اُٹھا کر اس عمارت کے دروازے تک آئے جہا ں قلو پطرہ نے خود کو چُھپا رکھا تھا ۔ قلو پطرہ نے خوف سے دروازہ نہ کھولا ۔ایک کھڑکی سے رسیا ں نیچے پھینکی گئیں جن کی مدد سے زخمی انطونی کو کمرے کے اندر لایا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قلو پطرہ: انطونی۔۔۔انطونی (روکر)۔۔۔تیرے دشمنوں کو یہ کیا ہو گیا ۔۔۔یہ لہو۔۔۔ یہ لہو۔۔۔کوئی ہے۔۔۔کوئی ہے۔۔۔آئرس۔۔۔آئرس۔۔۔کچھ کرو۔ مقدس دیوتاؤ ں کی خا طر کچھ کرو ۔
انطونی: یہ کون ہے۔۔۔یہ کس کا ہاتھ ہے۔۔۔تو زندہ ہے۔۔۔توزندہ ہے۔۔۔ قلو پطرہ تو سچ مچ زندہ ہے۔۔۔۔آہ مری موت کو کس قدر صدمہ پہنچا ہے۔وہ مڑ مڑ کر تیری زندگی طرف دیکھ رہی ہے۔۔۔ قلو پطرہ۔۔۔ قلوپطرہ۔
قلو پطرہ: میں زندہ ہوں پر موت کی گود میں۔۔۔تو مطمئن رہ۔تیری موت اکیلے سفر پر نہیں جا ئے گی۔تو مجھ پر شک کرتا ہے انطونی۔۔۔تو سمجھتا ہے کہ میں نے لڑائی میں تجھے دھوکا دیا۔۔۔نہیں نہیں مقدس دیوتاؤں کی قسم ‘ نہیں۔میں ڈر گئی تھی جنگ کے میدان میں میری روح کے قدم لڑکھڑا گئے تھے۔۔۔میں بھاگ نکلی۔جان بچا نے کے لیئے نہیں۔خود کشی کرنے کے لیئے۔۔۔ اس لیئے میں نے تجھے اطلا ع بھیجی۔ پر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ تو مجھ سے پہلے اس راہ پر گامز ن ہو جا ئے گا جس پر تیری محبوبہ چلنے کا ارادہ کر رہی تھی۔
انطونی: جان من مجھے تجھ پر پورا بھروسہ ہے ۔۔۔چھوڑ ان بیکار با تو ں کو ۔زندگی اور مو ت کے درمیان ایک مٹھی بھر ریت کا وقت رہ جائے تو ایسی با تیں نہ کرنی چا ہئیں۔۔۔آؤ پیار محبت کی باتیں کریں۔
قلو پطرہ: (پھوٹ پھوٹ کر روتی ہے)۔انطونی۔۔۔انطونی
(تھوڑا وقفہ)
انطونی: قلو پطرہ یہ تو نے کیا کیا ۔۔۔اپنا سارا چہرہ میرے خون سے تربتر کر لیا ۔ تیرے گا لو ں کی سرخی میرے خون کی شرمندۂ احساس نہیں ہو نی چا ہیئے۔لا میں اسے پونچھ دوں۔
انطونی: میرا دم گھٹا جا رہا ہے۔۔۔دنیا سکڑ رہی ہے۔
قلو پطرہ: انطونی۔انطونی مصر کے سارے مقدس دیوتا اپنی شہ نشینو ں میں اوندھے پڑے ہیں ۔میری پکار کو ن سُنے گا ۔۔۔کو ن سُنے گا۔
انطونی: قلو پطرہ ان باتو ں کو چھوڑ جن کا جواب بڑے بڑے کاہن بھی نہ دے سکے۔۔۔زندگی کی یہ مختصر گھڑیا ں جو موت نے مجھے بخشی ہیں فضول باتوں میں ضائع نہ ہو ں۔۔۔جانِ من! ابھی تک میرے پاس چومنے کے لیئے ہو نٹ‘حسن کا نظارہ کرنے کے لیئے آنکھیں‘اور تیری نقرئی آواز سُننے کے لیئے کان موجود ہیں ۔۔۔آ۔۔۔اس پرانی یاد کو تازہ کریں۔جب اودی اودی گھٹا ئیں جھوم کر آتی تھیں۔اور تیرے بربط سے نغمے یو ں اٹھتے تھے جیسے دوآتشہ شراب سے چنگا ریا ں۔۔۔جب تیز آواز ہوا میں پہیلیاں بکھیرتی تھی۔۔۔یاد ہیں تجھے وہ دریائے نیل کی راتیں۔
(آواز ہلکی ہو جا تی ہے)
قلو پطرہ: (گبھرا کر)۔۔۔انطونی۔۔۔
(تھوڑا وقفہ)
انطونی: (ہوش میں آکر)۔۔۔کیوں ۔۔۔نہیں نہیں ۔۔۔میں زندہ ہو ں۔ مجھے یاد ہے میں کیا کہہ رہا تھا ۔دریائے نیل کی راتیں صرف اس لیئیخاموش ہوتی تھیں کہ تجھے انطونی سے کچھ کہنا ہو تا تھا ۔۔۔جو صرف اس لیئے اندھیاری ہو تی تھیں کہ تجھے نقاب ڈالنے کی زحمت نہ آئے۔۔۔تجھے یاد ہیں۔ مجھے یاد ہیں وہ راتیں جب تیری اجلی پیشانی سے میں سیاہ زُلفیں یو ں اٹھا تا تھا ۔جیسے یونانیو ں کی دیوی ارورا رات کے سیاہ پر دے ہٹا کرمشرق کے رو پہلے پھاٹک کھول دے۔۔۔آہ لیکن اب اس یاد کا مدفن بننے والا ہے۔اس سینے میں جو کہ زخمی ہو رہا ہے ۔۔۔ قلو پطرہ ۔تیرا انطونی اب چند گھنٹوں کا مہمان ہے۔
قلو پطرہ: (چلا گیا)۔۔۔انطونی۔۔۔انطونی۔۔۔میرے مالک تیری کنیزکے دل میں اب اتنی طاقت نہیں کہ وہ اب ایسی دکھ بھری با تیں سُن سکے۔۔۔ قلو پطرہ کے سینے میں عورت کا دل ہے ۔انطونی!
انطونی: جب انطونی مر جائے تو صبر کرنا اور زندہ رہنا ۔
قلو پطرہ: (چِلّاکر)ایسا ہر گز نہیں ہو گا ۔۔۔ قلو پطرہ کی زندگی تیری زندگی سے وابستہ ہے۔ما یو س نہ ہو پیارے کیا پتا کہ یہ زخم اچھے ہو جا ئیں۔
انطونی: (کمزور آواز میں)ان نئے زخمو ں نے پرانے گھاؤ بھی ہرے کردےئے ہیں۔میرے جسم سے خون کے اب آخری قطرے نکل رہے ہیں۔ لیکن کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ وہ شخص جو لہو اور لو ہے سے کھیلتا رہا ،جس کا اوڑھنا بچھونا جنگ کا میدان تھا آج میدانِ جنگ میں کسی حریف کے ہاتھو ں مرنے کے بجائے ایک حسین عورت کے زانو پر سر رکھ کر جان دے رہا ہے۔۔۔جنگجو سپاہی ہو نے کی حیثیت سے مجھے یہ موت پسند نہیں ۔ اس لیئے کہ کسی کشور کشا فاتح کو ایسی موت زیب نہیں دے سکتی۔۔۔لیکن چو نکہ میں ایک جنگی سپاہی کے مقابلے میں عاشق زیادہ ہو ں ۔اس لیئے یہ موت با عثِ راحت ہے۔مجھے یہ اطمینان تو نصیب ہے کہ تیرے لیئے مرا ہو ں ۔۔۔صرف تیرے لیئے۔۔۔ قلو پطرہ ۔۔۔قلو۔
قلو پطرہ: انطونی۔۔۔انطونی۔۔۔(چِلّاتی ہے)۔۔۔انطونی۔۔۔آئرس۔۔۔
آئرس۔۔۔ میری دنیا تاریک ہو گئی۔۔۔میں اُجڑ گئی ۔۔۔ برباد ہو گئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہر اب اوکتے ویانوس کے قبضہ میں تھا ۔انطونی کی فوج نے ہتھیار ڈال دےئے تھے اس لیئے شہر کو مسمار کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی۔
اوکتے و یا نو س نے قلو پطرہ کو گرفتار کرنے کی غرض سے ایک فوجی افسر گاس کو روانہ کیا۔اس کی خو اہش تھی کہ قلو پطرہ کو زندہ گرفتار کرکے اس کے حضور پیش کیا جائے۔گاس اس مہم میں کتنا کا میاب ہوا ‘اس کے متعلق تا ریخ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ باتیں کرتے کرتے وہ کس حیلے سے قلو پطرہ کو دروازے کے پاس لے آیا۔اس اثنا تین آدمی کھڑکی کے ذریعہ عمارت میں اُترے اور اسسے وہ خنجر چھین لیا ۔جسے وہ ہاتھ میں لیئے کھڑی تھی۔اس نے یہ ارادہ کر رکھا تھا کہ اگر اس نے اس کو گرفتار کرنا چاہاتو وہ خنجر سے اپنا کام تمام کرلے گی۔
[قلو پطرہ کو معلو م تھا کہ اس کے ساتھ کس قسم کاسلوک کیا جا ئے گا ۔اس نے جب یہ سُنا کہ وہ جلا وطن کردی جائے گی تواس نے اجازت طلب کی کہ اسے انطونی کی قبر کی زیارت کرنے دی جائے۔یہ اجازت اسے مل گئی چنانچہ آخری بار وہ چند سپا ہیو ں اور ایک دو سہیلیو ں کے ساتھ انطو نی کی آخری آرامگاہ کی طرف روانہ ہو ئی۔]
قلو پطرہ : (رونی آواز میں)۔۔۔انطونی۔۔۔قبر کی گہرائیو ں سے نکل آ۔۔۔تیری قلو پطرہ آنکھو ں میں آنسو ۔دل میں غم اور جگر میں کئی ٹیسیں لیئے تیرے پاس آئی ہے۔وہ مغموم ہے۔۔۔بے حد مغموم ہے انطونی ۔۔۔تیری مو ت اس زندگی پر ایسے نقش چھوڑ گئی ہے جو کبھی نہیں مٹیں گے ۔۔۔تجھ سے اس نے سچی محبت کی ۔صرف تجھ ہی کو اس نے وہ گوہر دیا جس کو حاصل کرنے کے لیئے فرشتے بھی آسمان پر تڑپتے ہو ں گے۔
(پھوٹ پھو ٹ کر رو تی ہے)
قلو پطرہ : لیکن ۔۔۔لیکن میں تیری قاتل ہو ں ۔۔۔میں نے ہی یہ منو ں مٹی تیرے سینے پر ڈالی ہے تیری زندگی پر مو ت کا بھا ری پتھر میں نے ہی رکھا ہے ۔۔۔ میں زندہ ہو ں لیکن اکیلی۔۔۔ تیری قبر کی تنہا ئی اس تنہائی سے کم خوفناک ہے جس میں کہ میں لپٹی ہو ئی ہو ں۔۔۔ تو مردہ ہے لیکن ایک نئی زندگی کے راستے پر گامزن ہے ۔۔۔میں زندہ ہوں لیکن مو ت کی تمنا نہیں کر سکتی ۔ وہ میری موت نہیں چا ہتے ۔زندگی چا ہتے ہیں ۔زندگی جو کہ مسلسل مو ت ہو گی ۔۔۔ اے آرام کرنے والے ۔اب کہ تُوموت کی آغو ش میں بے خبری کی نیند سو رہا ہے ۔مجھ پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔قدرت کی ستم ظریفیا ں دیکھ تو رو من ہے مصر میں مدفون ہے۔میں مصری ہو ں روم میں دفن کی جاؤں گی۔۔۔انطونی ۔۔۔انطو نی۔۔۔اس بیکسی کی حالت میں تجھے کچھ نذر نہیں کر سکتی ۔۔۔میری زندگی حاضر ہے جس کے ہر زرّے پر تیری بو سے چمک رہے ہیں ۔۔۔اب تیری کنیز کے دل میں کو ئی تمنا ہے تو صر ف یہ کہ مرنے کہ بعد اسے تیرے پہلو میں دفن کیا جائے۔۔۔کیا میری یہ خواہش پو ری ہو گی ۔۔۔میں کچھ نہیں کہہ سکتی ۔۔۔کچھ نہیں کہہ سکتی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[اوکتے ویا نو س نے حکم دیا تھا کہ ملکہ پر سخت پہرہ رہے تا کہ وہ خودکشی نہ کر نے پائے۔۔۔ اس کا ارادہ تھا کہ قیدی بنا کر قلو پطرہ روم لے جائے اور فتح کی خو شی میں ایک شاندار جلوس نکا لے ۔اس جلو س میں وہ قلو پطرہ کو زنجیریں پہنا کر اپنے جلو س میں رکھے ‘مگر ملکہ مصر کو یہ بے عزتی منظور نہ تھی۔]
قلو پطرہ اس عمارت میں جو کہ اُس نے خاص طور پر اپنے لیئے ہی الیسیس کے مند رکے پاس بنوائی تھی نظر بند تھی ۔اس کے ساتھ اس کی دو خواصیں تھیں ۔آئرس اور شارمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(آئرس ملکہ مصر کو یہ گیت سنا تی ہے)
اے نیل کی رانی
رفتار میں اُڑتے ہو ئے با دل کی روانی
ہو نٹو ں کے خمو ں پر شفق آلود سا پا نی
اے نیل کی رانی
سینہ ہے کہ لہرو ں پر کنول ناچ رہے ہیں
زُلفیں ہیں کہ لہراتی ہے ساون کی جوانی
اے نیل کی رانی
قلوپطرہ: (اُکتا کر)۔۔۔بند کر۔۔۔بند کر اس گیت کو ۔۔۔مو ت کو ایسی لو ریا ں نہ سُنا ۔آنے دے اسے۔۔۔آنے دے۔
آئرس: ملکۂ مصر کی طبیعت آج نا ساز معلوم ہو تی ہے۔
قلوپطرہ: (ہنستی ہے)ملکۂ مصر ۔۔۔میرامذاق اُڑاتی ہے آئرس؟۔۔۔تیری اس ملکہ سے تو وہ با نسریا ں بجانے وا لی چھوکریا ں ہزار درجہ اچھی ہو تی ہیں جو اپنا گلا جب چاہیں کا ٹ سکتی ہیں ۔ملکۂ مصر سے تو وہ کسبیا ں بڑے آرام اور سکون میں ہیں جو اسکندریہ کی گلی کو چو ں میں راہگذروں سے آنکھ لڑاتی ہیں ۔کیا واقع میں ملکہ ہو ں ۔۔۔کیا واقع میں مصر کی وہ سرکش حکمران ہو ں جس کا غلا م بننے میں انطو نی جیسے فاتح نے فخر محسوس کیا ۔۔۔کیا سچ مچ میں وہی مہارانی ہو ں جس کے ابرو کے ایک اشارے پر ہرمش با غی ناچاکیا ‘کیا میں وہ ہی حسینہ ہو ں جس کی ایک ادانے سیزر کو تمام جنگی داؤ پیچ بُھلا دےئے۔۔۔نہیں نہیں میں کچھ بھی نہیں ہوں۔صر ف ایک عورت با قی رہ گئی ہو ں۔جو رو میو ں کے خوف سے چو ہیا کی ماننداپنے بل میں دبکی بیٹھی ہے۔میں عنقریب گرفتار کر لی جا ؤ ں گی ۔میرے ان گو رے گورے ٹخنو ں میں جن پر سونے اور چا ندی کے خلخال جھنجھنا نچھاور کرتے تھے ۔لو ہے کی موٹی زنجیریں پہنا کر وہ مجھے رو م کے بازاروں میں پھرائیں گے۔مجھے ننگا کر دیا جائے گا۔ روم کے کنجڑے اور حجا مو ں کی آنکھیں بھی اس حسن کا نظارہ کریں گے جو اب تک صرف چند خوش نصیب لوگو ں تک محدود رہا ہے روم کا تپتا سورج میرے اس گدرائے ہوئے جسم کی تمام رعنائیاں بھسم کردے گا ۔۔۔ملکہ۔۔۔کیا ملکہ ایسی ہی بدنصیب عورتوں کا نام ہو تا ہے۔۔۔
(وقفہ)
کیا اس ذلت سے بچنے کی کو ئی ترکیب نہیں ۔۔۔
شارمین : جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں
قلوپطرہ: (ہنستی ہے)۔۔۔جان کی امان۔۔۔کہہ تجھے کیا کہناہے۔۔۔شارمین تیری ان سیاہ آنکھو ں میں آنسو ایسے چمک رہے ہیں ۔جیسے کالی گھٹاؤں میں پانی۔۔۔بتا تجھے کیا کہنا ہے ۔
شارمین : ملکۂ مصر ‘ملکۂ مصر ہی رہیں گی ۔۔۔ان کے دشمنوں کو اپنے ارادوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا ۔
قلوپطرہ: کیسے۔۔۔کیسے شارمین جلدی کیسے ہو سکتا ہے ۔
شارمین: میرے منہ میں خاک ۔۔۔اگر ملکہ کو دشمن ذلیل کرنے ہی کا ارادہ رکھتے ہیں تو بہتر ہے کہ۔۔۔
قلوپطرہ: لیکن یہ کیو ں کر ہو سکتا ہے۔۔۔تو ٹھیک کہتی ہے ۔شارمین ۔اس ترکیب سے ملکہ ملکہ ہی رہے گی۔مرتے دم تک اس کی شان میں فرق نہیں آئے گا ۔لیکن تو جانتی ہے کہ ہم پر کتنی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے فرشۂہ مو ت کے پرو ں کی پھڑپھڑاہٹ اگر پہرہ دارو ں نے سُن لی تو معلوم ہے تجھے اوکتے ویا نوس میری اولاد کے ساتھ کیا سلوک کرے گا ۔۔۔ اور تو جانتی ہے کہ اگر میں ناکام رہی تو وہ موت کے دروازے مجھ پر ایک عر صے کے لیئے بند کر دے گا ۔۔۔وہ مجھے آہستہ آہستہ مارنا چا ہتا ہے ۔۔۔ مگر ایسا نہیں ہو نا چاہیئے بقول تیرے اس کو اپنے ارادو ں میں ناکامی ہو نی چاہیئے۔۔۔آئرس۔۔۔آئرس۔
آئرس: ارشاد!
قلوپطرہ: مجھے ایک ایسا سانپ چاہیئے جو ایک بار ڈسنے سے مجھے مو ت کی نیند سلا دے کیا اسکندریہ کے سپیرے تیری کالی زلفو ں کے بدلے تجھے ایسا سانپ نہیں دیں گے ۔
آئرس: کنیز کوشش کرئے گی۔
قلوپطرہ: اور دیکھ یہ سانپ میرے پاس اس طور پر لایا جائے کہ پہرہ دارو ں کو بالکل شک نہ ہو ۔
آئرس: لونڈی ہوشیاری سے کام لے گی ۔
قلوپطرہ: شاباش آئرس شاباش ! تیری ملکہ کی موت ہمیشہ تیری احسان مند رہے گی ۔اب تو جا اور اپنا کام کر۔میں اس کمرے میں تیرا انتظار کرو ں گی۔
(شارمین بربط کے تار چھیڑتی ہے)
قلوپطرہ: شارمین چھوڑ اس بربط کو ۔۔۔جا میرے غسل کا سامان تیار کر۔میرا بہترین لباس نکال۔۔۔میرا جسم آج قیمتی عطروں میں بسا دے ۔۔۔ملکہ‘ملکہ ہی رہے گی ۔۔۔اس کا وقار کبھی اس رومی کُتّے کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے گا ۔۔۔جا میری موت کے استقبال کی تیاری کر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قلوپطرہ نے غسل کیا شارمین نے اس کو خو شبو ؤں سے لپیٹ دیا ۔جو لباس اس نے موت کا استقبال کرنے کے لیئے پہنا بہت مہین اور خوش رنگ تھا ۔سر پر تاج تھا جس پر گدھ بنا ہو ا تھا ۔گدھ کے پھیلے ہو ئے پر قلوپطرہ کے کا نو ں کو ڈھانپے ہو ئے تھے۔۔۔ وہ بلا کی حسین نظر آرہی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قلوپطرہ: شارمین ادھر آ۔۔۔ادھر آ۔اور ان البیلی اور بد مست ویشیاؤں کی داستانیں سنا جو اسکندریہ کی گذر گا ہو ں پر حسن و عشق کا چھڑکاؤ کرتی رہتی ہیں ۔۔۔ان الہڑ چھیل چھبیلی کم سن بانسری بجانے والی چھوکریو ں کی باتیں کرجو مصر کے با غیچو ں میں اپنی جوانی کے راگ ا لاپتی پھرتی ہیں ۔۔۔دیوی مندر میں جانے والی ان کنواریو ں کے رنگین فسانے سنا جن کی جوانیا ں پھٹ پڑنے والے جام ہیں ۔مصر کے ان عشق پیشہ نوجو انو ں کی کہانیا ں بیان کر جن کے لبادو ں کی ہر شکن میں کئی کئی کپکپا ہٹیں اٹکی ہوں۔
شارمین: کنیز کو گانے کے سوا اورکچھ نہیں آتا ۔
تو اُٹھا بربط اور ایسا گیت سنا کہ فرشتہ بھی آسمان کی کھڑکیا ں کھو ل دیں۔
(شارمین یہ گیت گاتی ہے)
پل پل تارے ٹوٹ رہے ہیں کیوں تیرے نین سے
۔۔۔میری راجکماری
آگ بجھے تو راکھ سے کھیلو راکھ بجھے تو من سے
۔۔۔ جیون کھیل ہے پیاری
ڈھونڈے سے رستہ نہ ملے تو راہ میں ہنسنا گا
۔۔۔ دنیا گیت ہے سجنی
دُکھ ہی دُکھ ہیں جب قسمت میں دکھ سے من پرچانا
۔۔۔اپنی ریت سے سجنی
نیند نہ آئے تو راتو ں کو تارے گن گن کاٹو
۔۔۔اُف یہ ڈوبے تارے
کانٹو پر ہنس ہنس کر لیٹو اور یو نہی دن کا ٹو
۔۔۔ یہ دن پیارے پیارے
پل پل تارے ٹوٹ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قلوپطرہ: کتنا حسین گیت ہے ۔۔۔کیسی دلکش آواز ہے۔آنسوؤں کی انوکھی دنیا اس میں آباد ہے ۔۔۔(ڈر کر)۔۔۔شارمین ۔۔۔شارمین۔۔۔تو کہا ں ہے۔۔۔آ میری چھاتی سے چمٹ جا ۔۔۔بادل چھا رہے ہیں ۔۔۔۔(بادل گرجتے ہیں)۔۔۔تاریکی پھیلتی جا رہی ہے ۔۔۔اب مجھے جانا ہو گا ۔۔۔اب مجھے جا نا ہو گا ۔
آئرس: ملکۂ مصر کے سفر کا سامان تیار ہے۔
قلوپطرہ: تو آگئی ۔۔۔تو آگئی آئرس۔۔۔ لے آئی وہ سانپ۔۔۔کہاں رکھا ہے تو نے اسے۔۔۔(پروقار انداز میں)۔۔۔ملکۂ مصر کا سامانِ سفر تیار ہے ۔لیکن جلدی کیا پڑی ہے۔ملکہ جب چاہے گی سفر اختیار کرئے گی۔۔۔میں ملکہ ہو ں کنیز نہیں ہو ں آئرس۔۔۔تو جانتی ہے۔میرے سر پر گدھ کی شکل کا تاج ہو گا ۔۔۔گدھ کے پھیلے ہوئے پروں کے نیچے میرے کان چھپے ہو ں گے۔بادل بر سیں گے ۔بجلی چمکے گی۔اس شان سے تیری ملکہ کی سواری نکلے گی۔اس شان سے اس کی موت کا رتھ آسمان کی جانب روانہ ہو گا۔جہاں چاند اپنے سیمیں تھا ل میں تارے اس کی خدمت میں پیش کرئے گا ۔۔۔چلوآئرس چلو۔۔۔میرا وقت بہت قیمتی ہے۔
آئرس: ملکۂ مصر کے لیئے یہ لو نڈی نارجینو ں کی ایک ٹو کری نذر کے طور پر لائی ہے ۔
قلوپطرہ: اس کا ڈھکنا اُٹھاؤ۔
آئرس: (ڈھکنا اُٹھا تی ہے) پہرہ داروں کی نگاہیں ان خوش رنگ پھلوں کے نیچے کالے ناگ کو نہیں دیکھ سکیں جو مصر کا سب سے زہریلا سانپ ہے۔
قلوپطرہ: سب سے زیادہ زہریلا سانپ۔۔۔(آہستہ آواز میں )۔۔۔تجھے یقین ہے کہ اس کا زہر واقعی مہلک ہے؟
آئرس: لونڈی کو اس کا یقین ہے‘مگر آپ کو۔۔۔(سانپ پھنکارنے کے ساتھ آئرس کو ڈستاہے۔آئرس گر پڑتی ہے)
قلوپطرہ: ٹوکری بند کر دے شارمین۔۔۔ٹو کری بند کردے۔۔۔آہ!غریب آئرس مر گئی۔شارمین لا یہ ٹوکری مجھے دے ۔میری کنیز میری راہ دیکھتی ہو گی ۔میں اسے زیادہ دیر تک انتظار میں نہیں رکھنا چاہتی۔آہ! ان نارجینو ں کی خوشبو کتنی پیاری ہے
(وقفہ)
سورج غروب ہو رہا ہے ۔کالی گھٹا ئیں چھا رہی ہیں ۔ میں دُعا مانگنا چا ہتی ہو ں شارمین ۔ میں دُعا مانگنا چا ہتی ہو ں ۔۔۔لیکن مجھ سے تو سارے دیوتا نا خوش ہیں ۔۔۔
(دُور سے عبادت گاہو ں سے ترئی اور نرسنگے کی آواز آتی ہے)
قلوپطرہ: آہ!۔۔۔یہ نر سنگے اور ترئی کی دھیمی دھیمی آواز کتنی خوشگوار ہے ۔۔۔آج دریائے نیل بھی کتنا نکھرا ہوا ہے ۔۔۔شارمین میری محبت کی ساری داستانیں اس دریا کی لہرو ں میں لپٹی ہو ئی ہیں ۔۔۔الوادع نیل کی بل کھاتی ہو ئی لہرو الوداع۔۔۔ریت کے ٹیلے کے پیچھے چُھپنے والے سورج الوداع۔۔۔ریگستا ن میں لہراتی ہو ئی پگڈنڈیو ں الوداع۔۔۔کھجو ر کے لمبے لمبے درختو میرا سلام قبول کرو۔گھاس کی کانپتی ہو ئی پتیو میرا سلام لو ۔۔۔ قلوپطرہ زندگی سے پیار ضرور کرتی ہے پر موت سے ڈرتی نہیں ۔۔۔ موت آہ!ایسے حالات میں موت کا ذائقہ کتنا شیریں ہو تا ہے ۔
(ٹوکری کا ڈھکنا کھولتی ہے ۔سانپ اسے ڈستا ہے)
شارمین الوداع۔۔۔
(قلو پطرہ ملکۂ مصر زمین پر گرپڑتی ہے)