جادو گرنی ۔۔۔ مریم عرفان
Penslips Weekly Magazine Issue # 100
جادو گرنی
( مریم عرفان )
جس عمرمیں لڑکیاں گڑیوں سے کھیلاکرتی ہیں وہ مردوں سے کھیلتی تھی۔
اس سے میری پہلی ملاقات چنداکے کوٹھے پر ہوئی تھی۔ میں نے آج تک اس جیسی باکمال لڑکی نہیں دیکھی، اگروہ مغلیہ دورمیں پیدا ہوتی تو یقینا اکبر کے دربارکا دسواں رتن ہوتی۔ ان دنوں بازارحسن میں بیٹھا یہ رتن خوب اپنے دام وصول کر رہا تھا۔ میں اس کے مستقل گاہک سے زیادہ اس کاعاشق بن بیٹھا تھا جسے وہ جب چاہے دھتکاردیتی اورجب دل چاہتا سینے سے لگالیتی تھی۔ سارے زمانے کی خوبصورت، سفاک اور بے باک عورتیں اس کے آگے ہیچ تھیں۔ ایک سال کی قربت اور صداقت کے بعد میں اس کا اعتبار جیتنے میں کامیاب ہواتھا۔ اب وہ مجھ پرکلی بھروسہ کرنے لگی تھی۔ میرے لیے وہ اپنے گاہکوں کو بھی کمرے سے دھکے دے کرنکال دیتی تھی۔ اسے میری جیب میں پڑا قلم اورچھوٹی ڈائری بہت پسند تھی، وہ جب بھی موج مستی میں ہوتی تو میرا قلم اپنی انگلیوں میں لے کرمعلوم نہیں ہوا میں کیا لکھنے لگتی تھی۔ اس کے باریک ہونٹ تھرتھرانے لگتے تھے ایسے میں ایک دن وہ اصرارکرنے لگی کہ میری کہانی لکھو۔ ’’کملیے، تیری کہانی میں ایسا کیا ہے۔ ۔ ۔ ہاں۔‘‘ میں اسے جان بوجھ کرچھیڑ بیٹھا۔ ’’بہت کچھ ہے۔ ایک گھرہے، ماں باپ ہیں، بہن بھائی، میرا بچپن اور۔ ۔ ۔ ۔ ایک شوہر۔‘‘
’’کیا۔ ۔ ۔ شوہر؟؟؟‘‘ میں اس کے منہ سے یہ لفظ سن کر اٹھ بیٹھا۔ ’’ہاں۔ ۔ ۔ اچھا بندہ تھا، مفت میں میرے ساتھ اپنی زندگی خراب کربیٹھا۔‘‘ اس نے تکیے کے نیچے سے سگریٹ کی ڈبیا نکالی اور مزے سے سگریٹ جلا کر دھواں میرے منہ پر پھینکنے لگی۔ اس رات مجھے معلوم ہوا کہ جسے میں نوری کہتا تھا وہ نوراں تھی۔ رنگیل پورکی نوراں، جس کی جوانی صحن کی چھوٹی دیواروں سے جھانکتا ہوا پودا تھی۔ سروکے بوٹے جیسی اونچی، دبلی پتلی نوراں جس کے گال قندھاری انار کی طرح کھٹے مٹھے معلوم ہوتے تھے۔ اسے بچپن سے ہی دنداسے کا شوق تھاجس سے اس کے ہونٹ سنترے کی رس بھری پھاڑیاں معلوم ہوتے تھے۔ اس کے ہاتھوں کی نرمی اور گرمی جاڑے کے موسم میں لحاف کی طرح تھی جس میں اس کے گداز جسم کی گرماہٹ سنسناہٹ پیدا کر دیتی تھی۔ نوراں کے گھرکا صحن اس کے بہن بھائیوں سے آباد تھا، وہ کمرے کی کمزور کھڑکی سے اپنی ماں کو دردزہ میں مبتلا دیکھ کرعجیب سی ہذیانی کیفیت خود پر طاری کرلیتی تھی۔ آٹھ سال کی عمرمیں اس نے پہلی بار اپنے گھرکسی بچے کوپیداہوتے دیکھاتوبڑے لطیف سے جذبے کی آگ میں جلنے لگی۔ وہ اکثررات کواپنی ماں کی طرح چارپائی پر ہاتھ پاؤں مارکربچہ پیداکرنے کی پریکٹس کرتی۔ اس کاچھوٹاسامنہ خوں خاں کرتاہواجھاگ اگلنے لگتا۔ صبح اٹھ کروہ اسی چھوٹے سے بھائی کی پتلی پتلی رانوں پرزور زور سے چٹکیاں لینے لگتی۔ بچہ چیخیں مارتا اور نوراں اس کی چیخ و پکارپرہنستی مسکراتی باہرکو دوڑ لگادیتی تھی۔ اسے دروازوں اور کھڑکیوں کی درزوں سے جھانکنے کی خوب عادت پڑچکی تھی۔ وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کراپنے شادی شدہ بھائیوں اورماں باپ کے کمرے میں بلی کی طرح جھانکتی اورمیاؤں میاؤں کرتی رہتی۔
دس سال کی عمرمیں اسے اپنے سکول ماسٹر امتیازسے جنونی عشق ہواجو اسے بگولے کی طرح اڑاتا رہا۔ ماسٹر درمیانی عمرکا شادی شدہ مرد تھا اس کے نزدیک نوراں بچی سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ نوراں ماسٹر امتیاز کی توجہ حاصل کرنے کی خاطر سکول کاکام نہیں کرتی تھی اورجب ہاتھوں پرڈنڈے کھانے کی باری آتی تواس کی ننگی کلائیاں زخموں سے چور چور ملتیں۔ ماسٹر امتیازکے اندر کا کائیاں مرد نوراں کی دیوانگی بھانپ چکا تھا وہ اس کا ناجائز فائدہ کبھی نہ اٹھاتا اگر وہ دس سالہ بچی خود آگے بڑھ کراسے مجبورنہ کرتی۔ اس کی لال بھبھوکا آنکھیں اورگالوں کا پھیکاپن دیکھ کر اندازہ ہوتا تھاکہ وہ ماسٹر امتیازکے عشق سے زیادہ ایک مردکے لمس کاشکار ہوگئی ہے۔ اس کے اندرکی ہڑک اور پاگل پن ماسٹر امتیاز کے لیے بھی عاشقی کا نیا سبق تھا جسے وہ اس کے ساتھ روز طوطے کی طرح رٹنے لگا تھا۔ سرکاری کوارٹر کا کمرہ نوراں کے منحنی جسم سے بھر چکا تھا وہ شہتوت کے پیڑکی طرح اس کے کمرے میں اگ چکی تھی۔ اس کے الہڑپن کی سرخی پکے ہوئے کالے شہتوت جیسی تھی جس کارنگ کپڑوں پرلگ جائے تو داغ چھوڑ جاتا ہے۔ چھ ماہ کاعرصہ نوراں کی نوخیزی سے بھرپور تھا جو ماسٹر امتیاز کی ٹرانسفر کے بعد خالی گلاس ہوگیا۔ پہلے عشق میں مات کھا کر وہ سپنی کی طرح پھنکارنے لگی تھی، ان دنوں اس کی آنکھیں قہر برساتی تھیں۔ اس کے جسم کے کونے کھدرے بھرنے لگے تھے، اس کے بھورے بال برگدکی چھال کی طرح بڑھ رہے تھے۔ جدائی کایہ زمانہ اس کے پاگل پن کا آغاز تھا اگر ایسے میں گل کیانی اس کی زندگی میں نہ آتا تو شاید وہ خودکشی کرلیتی۔ مراثیوں کایہ بیٹا شہرسے سولہ جماعتیں پڑھ کر گاؤں آیا تھا ویسے تو اس کا نام پرویز تھا لیکن شہرمیں پڑھنے کے بعداس نے اپنانام گل کیانی رکھ کراپنی ذات کی لاج رکھنے کی حقیرسی کوشش کی تھی۔ گاؤں کاسکول جب ماسٹرامتیازکے جانے کے بعدخالی ہوا تو گل کیانی اپنا فالتو وقت وہاں کاٹنے کے لیے آنے لگا۔ پھر آہستہ آہستہ نوراں اس سے ٹیوشن لینے کے لیے اس کے گھرجانے لگی۔ تب اسے دوسری بارعشق ہوا اور وہ دونوں چھپ چھپ کرملنے لگے۔ قسمت نوراں کو مواقع فراہم کرتی رہی اور یوں وہ بے باکی کی سیڑھی پرچڑھتے چڑھتے بے حیائی کے کوٹھے پر چڑھ گئی۔ پھراس کے یار بدلنے لگے، اسے کسی سے پیسے کا لالچ نہیں تھا بس مردوں کے ساتھ رہنے کا جوچسکا اسے پڑ چکا تھا اس سے جان چھڑانا اب اس کے بس کی بات نہیں رہی تھی۔ گھر والے اپنی زندگی جی رہے تھے ان کے لیے نوراں کاوجود اندھیرے کی طرح تھا جو دکھائی نہیں دیتا لیکن اپنا وجود ضرور رکھتا ہے۔ نوراں کسی چھٹے ہوئے بدمعاش کی طرح اکھاڑے میں اترچکی تھی، وہ گھرکے کام بھی ایسے کرتی جیسے کوئی جن اس میں سما گیا ہو۔ گھرکے جانوروں کادودھ دوہنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا، اسے ان کاموں میں لطف آنے لگا تھا۔ دھیمے دھیمے گنگناتے ہوئے اس کے ہاتھ گائے کے تھنوں کو چھوتے تو وہ مستی کے عالم میں لہک لہک کے دھاریں نکالنے لگتی۔ گاؤں کی گلیاں اس کی آوارہ گردی کی عادی ہوگئی تھیں اس کے لیے ہر مرد ایک چیلنج تھا۔ وہ بھاری پتھرجیسے مردوں کو بھی خود سے شرط لگا کرتسخیر کرنے لگی تھی۔ اسے پیر معصوم شاہ کے دربار کا وہ ملگجا سا ملنگ بھی بہت پسند تھا جس کے کٹورے میں سکے پھینکتے ہوئے وہ اسے اشارے کرتی تو فقیر مستی میں جھومتے ہوئے کہتا: ’’توں پڑھیں نماز فریب والی، تے رب جانے تیرے بُتیاں نوں۔‘‘
نوراں کی جوانی کی چمک سورج کی روشنی کی طرح اب آنکھیں چندھیانے لگی تھی۔ بارھواں بچہ پیداکرنے کے بعد نوراں کی ماں نے اس پر پھرپور نظر ڈالی تو سوچنے لگی کہ اب وہ بھی کھیت جوتنے کے لیے تیار ہے۔ گاؤں بھرمیں اس کے لیے رشتے دیکھے جانے لگے نوراں کے لیے یہ خبرکسی انہونی سے کم نہیں تھی۔ جیسے ہی رشتہ طے ہوا وہ اس رات پاگلوں کی طرح سردی میں باہرصحن کے گرد چکر کاٹنے لگی، سب ترکیبیں اور رونے دھونے بے کارثابت ہونے لگے تھے۔ ’’بے بے!میں شادی نئیں کرنی۔‘‘ نوراں رو رو کر فریاد کرتی تو ماں اپنے بھاری وجودکے ساتھ اس پر پل پڑتی۔ گھونسوں اور لاتوں سے اس کی خوب تواضع ہونے لگی تواسے اندازہ ہو گیا کہ شادی کی رات اس پربھی آسیب بن کر وارد ہوگی۔ ان دنوں نوراں کاچہرہ دیکھنے والاتھا، اس کاملیح حسن اب پیلا پڑنے لگا تھا، وہ بیٹھے بیٹھے بے ہوش ہونے لگی تھی۔ ایسے میں گھر بھر میں شور مچ جاتا کہ لڑکی کو سنبھالو کہیں مر نہ جائے تو ماں کچے صحن کی طرف تھوکتے ہوئے کہتی:’’کتیاں دی رن، کھسم لیوے گی تے ٹھنڈیا ہو جانا اے ایس نے۔‘‘
نوراں کوشادی طے ہونے کے بعداپنی سہیلی کوثری شدت سے یادآنے لگی تھی جس پرجن عاشق ہوگئے تھے۔ جوان لڑکی کھلے سر اور بنا دوپٹے کے ساراسارادن گلیوں میں خاک اڑاتے دوڑتی پھرتی رہتی۔ نوراں کا ذہن ایسے ہی باتوں کو سوچنے میں مگن تھاکہ اس کی زندگی میں مراد شامل ہوگیا۔
شادی کی پہلی رات گاؤں والوں نے اس کی چیخیں سنیں، ہر طرف شور مچا ہوا تھا کہ کمہاروں کی لڑکی پرجن آگئے ہیں۔ نوراں ہنستے ہنستے لمبے لمبے ڈکارلیتی تومجمع ڈرکردوقدم پیچھے ہٹنے لگتا۔ مراداپنی نئی نویلی دلہن کاپاگل پن دیکھ کردیوانہ ہوا جاتا تھا۔ نوراں کاجب جی چاہتا اپنے ہاتھ پاؤں ٹیڑھے کرلیتی، کبھی منہ سے جھاگ نکالتی تو کبھی بال کھول کرگردن زور زورسے گھمانے لگ جاتی۔ روزکوئی نہ کوئی عامل اس کاجن نکالنے آتا تووہ اسے مارکر بھگا دیتی۔ نوراں کو اب اس سارے ڈرامے میں مزہ آنے لگاتھا، اس کی فنکارانہ صلاحیتیں نکھرتی چلی جارہی تھیں۔ اسے کم عمری میں اپنا درد زہ لینا یاد تھا اور اسی طریقے کو وہ ہر دوسرے دن آزما کرخوب لطف لیتی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ اس کا دل اس ڈرامے سے بھرنے لگا اسے اپنا آپ سرکس کے جوکر کی طرح لگتا تھا جو تماشا دکھا رہا ہو اور مجمع کمر پرہاتھ رکھے بڑے انہماک سے دیکھے چلاجاتا تھا۔ ایک رات نجانے اسے کیا ہوا کہ سب کو سوتا چھوڑ کر وہ گاؤں کے سٹیڈیم کی طرف دوڑنے لگی جہاں ایک بے آباد کنوئیں پر پہنچ کراس نے اپنے سینے سے دوپٹاکھینچ کر نکالا اور اس کی منڈیر پر رکھ کرلاری اڈے کی طرف بھاگنے لگی۔ بس صبح اٹھتے ہی گاؤں میں شور مچا تھا کہ نوراں کو جن اپنے ساتھ کنوئیں میں لے کر اترگئے ہیں۔ مراد کنوئیں کی منڈیر سے ملنے والے اس کے دوپٹے کو آنکھوں پر رکھے سسکیاں لیتا تو لوگوں کی آنکھیں بھی ڈبڈبانے لگتیں۔ گاؤں کی بڑی بوڑھیاں تو پہلے ہی ایسے کسی انہونے واقعے کی طرف اشارہ کرچکی تھیں پھر تو گویا یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ آناً فاناً دوتین ایسے گواہ بھی خود بخود پیدا ہوگئے جنہوں نے اسے جنات کے ساتھ کنوئیں میں اترتے ہوئے دیکھا تھا۔
رنگیل پورکی رنگیلی گھوڑی شہر تو آگئی تھی لیکن یہاں اس کے لیے جائے اماں کہیں نہیں تھی۔ اس کا ذہن خالی تھا جس میں اسے سناٹے کی گونج کے سوا اور کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔ اب تک تو وہ اپنے لیے خود ہی کہانی کاپلاٹ بناتی اور اسے ادا کرتی رہی تھی یہاں پہنچ کر اب اسے خود معلوم نہیں تھاکہ اس کی اگلی منزل کیا ہوگی۔ لاری اڈے سے نکل کر سامنے کی سڑک پارکرکے وہ انجانے راستوں پر گامزن تھی۔ شہر میں بڑی بڑی گاڑیاں، شور اور بے شمارمردوں کی ننگی نظریں اس کے تعاقب میں تھیں۔ اس کے چہرے پرخوف نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اس حالت میں بھی لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اس کے پاس کوئی سامان یاگٹھری نہیں تھی بس ایک چھوٹا سا چرمی بٹوہ تھا جو اس نے اپنے سینے میں اڑس رکھاتھا۔ ’’ہوں ں ں ں۔ ۔ ۔ تو یہی وہ بٹوہ ہے نہ جو تم اب بھی سینے سے لگائے ہوئے پھرتی ہو۔‘‘ میں نے نوراں کی ٹانگوں سے سراٹھاتے ہوئے بغلی میز پر پڑے ہوئے بٹوے کی جانب اشارہ کیا۔ ’’ہاں۔ ۔ ۔ اسلم پٹواری کی یادگار ہے یہ۔ اچھا منڈا تھا، سو جتیاں کھاکے بھی پاؤں نہیں چھوڑتا تھا میرے۔ ۔ ۔‘‘
میری اس دن نوراں سے آخری ملاقات تھی، کبھی وہ زور زورسے ہنسنے لگتی اورکبھی اس کی آنکھیں پانیوں سے بھر جاتیں۔ میں نے پہلی بار اسے روتے دیکھا تھا، اس کی آنکھوں کے گردسائے سے بڑھتے جارہے تھے۔ ’’زندگی کے دن کم رہ گئے ہیں باؤجی! ان دنوں قسم سے ماں بڑی یاد آتی ہے
’’پیروں میں توہم بھی تمہارے بیٹھے ہیں سرکار۔‘‘ میں نے نوراں کی سڈول رانوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’چل بھڑوے۔ ۔ ۔ تیری ماں کاسر۔‘‘ نوراں گالیاں بھی کچھ اس مزے سے دیتی تھی کہ مجھے برانہیں لگتا تھا۔ ’’نوراں۔ ۔ ۔ اے نوراں۔ ۔ ۔ سچ سچ بتاتو تھکی نہیں اب تک۔ کیسی عورت ہے جو اتنے سارے مردوں کے ساتھ رہتے ہوئے بھی عاجزنہیں آئی۔ کس چیز کی گرمی ہے تیرے دماغ میں، آج تو بتاہی دے۔‘‘ میں نے چارپائی پر چوکڑی مارتے ہوئے پوچھا۔ نوراں نے تیسرا سگریٹ سلگاتے ہوئے دھواں میری طرف اڑایا اور اپنے لہجے میں ساری بے شرمی سمیٹتے ہوئے بولی:’’کیسا بناسپتی مردہے تو۔۔ خالص ہوتا نہ تو اس وقت میری چھاتی پر چوکڑی مار کر بیٹھتا۔ میری مجال تھی جو میں کُسک جاتی۔‘‘ نوراں اپنی روانی میں میری مردانگی کو للکارکرحسب روایت مزہ لے رہی تھی۔ پھر بہت سے دن گزرگئے اور میں اس کی طرف نہیں گیا، نہ ہی اس نے ملنے یا بات کرنے کی زحمت گوارا کی۔ میں دن رات اسے سوچتا رہتا تھا، وہ میری سمجھ سے بالاترتھی کیونکہ وہ چاہتی ہی نہیں تھی کہ کوئی اسے سمجھنے کی کوشش کرے۔ وہ اس گھوڑی کی طرح تھی جس پربیٹھنے کی ہمت کرنا ہر سوار کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اس کم بخت کاحسن ماند ہی نہیں پڑتا تھا، ان دنوں وہ تیس کے پیٹے میں تھی اوردیکھنے میں بیس سال سے زیادہ کی نہیں لگتی تھی۔ مجھے اب اسے ملنے میں خوف محسوس ہونے لگا تھا اس کے چہرے پرعجیب سی ہسٹریائی کیفیت پیدا ہونے لگی تھی۔
میری اس دن نوراں سے آخری ملاقات تھی، کبھی وہ زور زورسے ہنسنے لگتی اورکبھی اس کی آنکھیں پانیوں سے بھر جاتیں۔ میں نے پہلی بار اسے روتے دیکھا تھا، اس کی آنکھوں کے گردسائے سے بڑھتے جارہے تھے۔ ’’زندگی کے دن کم رہ گئے ہیں باؤجی! ان دنوں قسم سے ماں بڑی یاد آتی ہے۔ ۔ ۔ لیکن دفع کرو جی، اسے یاد کرکے کیا وقت ضائع کرنا۔ وہ کون ساکوئی کام کی عورت تھی۔ ۔ یہ ٹھکا ٹھک بچے پیداکرنے پرلگی رہی۔ اسے کیا پتہ کہ مزہ کیا ہوتا ہے۔ جسم کیا ہوتا ہے۔‘‘ میں نوراں کو ہزیانی انداز میں بولتے ہوئے دیکھتا رہا مجھے معلوم تھا کہ وہ آج نشے میں ہے، میں اسے روکنا چاہتا تھا لیکن اس کی آنکھوں کے خالی پن نے مجھے سہما دیا۔ اگلے دن ابھی میں شیو کرکے فارغ ہی ہوا تھاکہ چنداکی کال نے میرے اندیشوں کو زبان دے دی۔ ’’باؤجی!چھیتی آجاؤ جی، نوراں نے خودکشی کرلتی جئے۔ ‘‘ اس سے آگے وہ کیا بولتی رہی مجھے کچھ یاد نہیں۔ میں موٹرسائیکل بھگاتے ہوئے اس تک پہنچا، جہاں اب اس کی لاش میری منتظر تھی۔ اس کی گوری چٹی کلائی خون نکل جانے کے بعد پیلی پڑچکی تھی۔ کمرے کے فرش پراس کے باسی خون میں لتھڑا ہوا بلیڈ نظر آرہا تھا، چندا بائی مجمعے کو اس کے مرنے کی داستان سنارہی تھی: ’’رات آخری گاہک نکال کرمنجی پہ پے گئی اے۔ میں نے پوچھا، طبیعت تو ٹھیک ہے تیری تو بولی، بس چندا اج مزہ نئیں آیا۔ ۔ ۔ ہائے پتہ نئیں کیہڑا بدبخت سی او۔‘‘ گلی کی نکڑ سے کسی پرانے گانے کی آواز بلند ہو رہی تھی: ’’کون بجائے بانسریہ۔‘‘
میں بوجھل دل کے ساتھ گھرکی طرف گامزن تھا۔ نوراں میرے لیے ایسی پہیلی تھی جو بنا سلجھائے ہی مرگئی۔ کاش میں عمر بھراس کی چھاتی پربیٹھا رہتا تو شاید وہ نہ مرتی۔ میرے اندر ایسے ہی باغی خیالات کی آندھیاں شائیں شائیں کرکے ماتم کر رہی تھیں۔ ہوسکتا ہے لوگ اسے ایسی بدمعاش عورت سمجھیں جو جیتے جی مردوں کی رسیا تھی لیکن اس کے دماغ کی کوئی تو کڑی ایسی ضرور تھی جواس نے اپنے جادو سے چھپا رکھی تھی۔ مرداس کے لیے شراب کے نشے کی طرح تھے جنھیں وہ اتنا پی چکی تھی کہ اگراس کے سامنے پانی کا گلاس رکھ دیا جاتا تو وہ اس کا ذائقہ کبھی محسوس نہ کر پاتی۔ نوراں وہ جادوگرنی تھی جسے اپنے ہی جادو نے خاک کر دیا کیونکہ جس عمر میں اسے گڑیوں سے کھیلنا چاہیے تھا وہ مردوں سے کھیلتی رہی۔