زبیدہ ۔۔۔ ڈاکٹر مریم عرفان

زبیدہ

ڈاکٹر مریم عرفان

گئے زمانوں کا ذکرہے کہ ملک عدم میں زیبارو نام کی شہزادی تھی۔ سانولارنگ، کھڑی ناک،لمبوتراچہرہ،بڑی بڑی آنکھیں اوربائیں گال پرتل۔ وہ اپنی آنکھوں سے دانائی کاکام لیتی تھی۔ سلطنت سونا اگل رہی تھی۔ درخت میوؤں سے بھرے تھے اورعیش و عشرت نے نعمت کدوں کواپنے حصارمیں لے رکھاتھا۔ شہزادی رات کے پچھلے پہر پائیں باغ کے سرہانے اپنے تانپورے پہ سُر چھیڑتی تو دودھیاچاندنی اس کے رخسارکی رونق بڑھانے لگتی۔ اس کی حکمت اوردانائی کی پکاریں دوردورتک تھیں۔ شہزادے اس کاہاتھ مانگنے کوبے تاب تھے۔شہزادی زیبارو شکارکی بھی شوقین تھی۔ اس موقع پروہ اپنے دل پسندگھوڑے زرود کوساتھ رکھتی تھی۔

نسواری رنگ کا چھیل چھبیلا گھوڑا سر جھکائے شہزادی کے پیچھے پیچھے چلتا تو دریا کی لہریں پتھروں سے سر ٹکرانے لگتیں۔ آسودگی اس کے جسم پر اگنے والی چیچک تھی جسے وہ کھرچ کھرچ کر خود کو زخمی کرنے لگی۔ اسے اپنے تانپورے کی تاریں لَو دینے لگی تھیں۔ اس کی انگلیاں راگ چھیڑتے ہوئے سنسنا سی جاتیں۔ فراغت کی تھکن اس کے اعصاب پر سوار ہونے لگی تھی۔ اس کے خوابوں کی کونپلیں خاردار ہو رہی تھیں۔بادشاہ سے شہزدی کے دل کا حال ڈھکا چھپا نہیں تھا۔ اسے جس شہزادے کی تلاش تھی وہ اسے مل ہی گیا۔ یوں ملک چیستان کاشہزادہ اپنی شہزادی کو بیاہ کر لے گیا۔ اگلی صبح تانپورہ سفید مرمریں تخت پر منہ کھولے پڑا تھا۔

٭٭٭٭٭٭

اپلوں سے بھری ان دیواروں اور زبیدہ میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔ وہ بھی سوجے ہوئے منہ کے ساتھ اپنے کمرے کی دیوار سے لگی رہتی۔ بھائی جی اپنی شلوار نیفے تک اڑستے ہوئے اس پر پل پڑتے۔ وہ ٹنڈ منڈ شاخ بنی فضا میں لہرا جاتی۔ میں نے کتنی دفعہ بھائی جی کو اس کی ٹانگوں کے بیچ ٹھڈے مارتے دیکھا تھا۔ درندہ اپنے شکار کو پنجوں میں جکڑتے ہوئے منہ میں لے لیتا۔ زبیدہ اپنے پر پھڑپھڑاتی۔ میں کھڑکی کی سلاخوں سے ناک لگائے ان پروں سے پیداہونے والی آوازیں سنتا۔ میرے چہرے پر یہ پھڑپھڑاہٹ صرصر کرتی تو میں آنکھیں موند لیتا۔ بھائی جی کو کب اور کس بات پر غصہ آ جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا۔ پتہ صرف حادثے کی زد میں آنے والی بس کو چلتا تھا۔ زبیدہ کی ناؤ میں بیٹھا ملاح چپو سے کھیلنا جانتا تھا۔ بھائی جی کو یہ دیوانگی ورثے میں باپ سے ملی تھی۔ جس کے لیے ماں بھی ایک قینچہ تھی جسے وہ مٹھیوں میں خوب دگڑ کر مٹی پر پٹخ دیتا تھا۔ نیلے شیشے کے قینچے میں سے سبز مائل رنگ اپنا حسن گنوا رہا تھا۔ مٹیالی زمین اس کی چکا چوند کھا گئی تھی۔ میں نے آنکھ کھولتے ہی مردانگی کی جس قسم کو پروان چڑھتے دیکھا۔ اس میں عورت گنے کا وہ پھوک تھی جس کی ساری مٹھاس چوس لی گئی ہو۔ ماں بھی چوسے ہوئے اس پھوک کی گٹھربن گئی تھی۔ میرے باپ کی دیوانگی نے اسے بھوسا بنا ڈالا تھا۔ پھر ایک دن اس کے جنون نے بھوسے کوآگ دکھا دی۔اسے میری ماں کو مارنے میں مزا آنے لگا تھا۔ ماں کا پنڈا بھی اس کی ٹانگوں اور گھونسوں کا عادی تھا۔پھرایک دن میرا باپ بھوت بن گیا۔ کمرے کا دروازہ پیٹا جا رہاتھا۔ وہ مجھے چھاتی سے چمٹائے دودھ پلانے میں مگن تھی۔ سورما ہلکارے مارتا ہوا دروازہ توڑ کر اندر آیا اور میری ماں پر پل پڑا۔ دیوانے نے میری ماں کی چھاتیاں کاٹ ڈالی تھیں۔ ان سے رسنے والا خون اور دودھ شیروشکر ہو گئے تھے۔میں ماں کے پہلو میں لیٹا اسے ٹٹول رہا تھا۔ یہ ان دیکھا منظرجب بھی آنکھوں کے سامنے آتا تو میرے منہ میں دودھ کی جگہ خون کی تلخی تیرنے لگتی۔

پھر ماں کی جگہ زبیدہ نے لے لی۔ وہ رات بھر اذیتوں کے برمے اپنے ننگے پنڈے پرسہتی۔ پھر صبح اٹھ کر کبھی ٹانگوں کے درمیان گرم اینٹ کا سینکا لیتی اور کبھی پیٹ کے اوپر گرم پانی کی بوتل سے ٹکوریں کرتی۔بھائی جی اس اذیت بھری زندگی سے بہت خوش تھے۔ انھیں ہاتھ جوڑتی، پاؤں پڑتی اور سی سی کرتی زبیدہ اچھی لگتی تھی۔ وہ اس دینگا مشتی کے بعد بھنا ہوا دیسی مرغ کھاتے۔ چنگیر میں پڑی روٹی بے دردی سے کھائے ہوئے سالن کے چھینٹوں سے تر ہوتی۔ بھائی جی زبیدہ کو کن انکھیوں سے دیکھتے ہوئے مٹھی میں بھینچی ہوئی روٹی سے انگلیاں پونچھتے۔ لکڑیوں میں پھونکیں مارتی زبیدہ کی سوجی ہوئی آنکھوں میں ساون کی جھڑی لگ جاتی۔ بھائی جی مرغ کی ٹانگ دانتوں کے درمیان رکھ کر اس زور سے کھینچتے۔ جیسے ٹانگ کی جگہ زبیدہ منہ میں ہو اور وہ اس کی رانوں پر پاؤں رکھ کر اسے چیر رہے ہوں۔

٭٭٭٭٭٭

شہزادی ملک عدم چھوڑ چکی تھی۔ شہزادہ نیل خرام اپنی دنیا میں مست تھا۔ اسے شہزادی کی ذہانت اور حکمت سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ اس کے لیے زیبارو فقط جام تھی جو اس کے لبوں کو سوکھنے نہیں دیتا تھا۔شہزادی کے لیے محل خوب صورت قید خانہ بن گیا۔ یہاں اس کا نسواری رنگ کا گھوڑا بھی نہیں تھا۔ جس کی پیٹھ پر بیٹھ کر اس نے اپنی زندگی کے کتنے ہی اعلیٰ شکارکھیلے تھے۔آج وہ خود اس خرگوش کی طرح تھی جس کا شکار کرتے ہوئے زرود کے ٹاپوں کی دھمک مدھم ہوگئی تھی۔ اسے شکاری کتوں نے پلک جھپکتے گردن سے دبوچ لیا۔ شہزادی اس مردہ خرگوش کواپنی چھڑی میں لٹکائے جیت کے نشے سے سرشار محل کو لوٹی تھی۔آج وہ شہزادہ نیل خرام کی چھڑی میں لٹکا ہواخرگوش تھی۔ جس کی گردن کتوں کے بجائے خود شہزادے کے دانتوں میں تھی۔شہزادی کے حلق تک مردہ گوشت کا ذائقہ گھل گیا۔ شہزادی کی دانائی کو قسمت کی نظر لگ گئی۔ اب وہ خالی ڈبے میں کھوٹے سکے کی طرح پڑی تھی۔ محل کے دالان اور روشیں اس کے اندر اترنے والے سناٹوں کے گواہ تھے۔اس کے وسیع چکور کمرے میں بچھے اطلسی پلنگ کے اوپر لٹکتی سفید چادروں کی نرمی بھی سختی میں بدل چکی تھی۔

شہزادہ نیل خرام فتوحات کا شوقین تھا۔ شہزادی بھی اس کے لیے فقط ایک تسخیر شدہ علاقہ تھی۔ جس کی فتح کے بعد وہ آگے بڑھ گیا۔ شہزادی کی رگوں میں نرم گرم بستر کی یخ بستگی اترنے لگی تھی۔ وہ شہزادے کی الفت کوتڑپنے لگی۔ اس نے تنہائی کا علاج کرنے کی خاطر طوطا پال لیا۔ وہ تانپورے کے بجائے اسے اپنے دل کے درد سنانے لگتی۔ طوطا ٹیں ٹیں کرتا اور شہزادی کا دل اس کے پنجوں کی خراشوں کو ترسنے لگتا۔ اسے اپنے تنبورے اور گھوڑے زرود کی  یاد ستانے لگی تھی۔ شہزادے کو دیکھے ہوئے بھی مہینوں گزر جاتے۔ شہزادی اپنے کمرے کی کھڑکی سے سمندر کا نظارہ کرتی رہتی۔ جب اس میں کشتیاں لنگر انداز ہونے کے لیے رسے پھینکتیں۔ اس کابھی جی چاہتا کوئی آگے بڑھ کر اس کی کشتی کا رسا پکڑ لے۔ایسے میں وہ ایک دن طوطے سے کہنے لگی:”مٹھو، دعا کرو یہ محل گر جائے۔“ ٹیں،ٹیں،ٹیں،چچ چچ چچ۔۔۔طوطااپنے پنجے کوچونچ سے صاف کرتے ہوئے آمین کہتا۔ شہزادی روزنِ دیوارسے سر ٹیکتے ہوئے آنکھیں بند کر لیتی۔ جیسے حقیقت میں محل زمین بوس ہو رہا ہو۔

٭٭٭٭٭٭

اس گھرکی دیواروں نے ایک عورت کی کٹی ہوئی چھاتیوں سے دودھ کشید ہوتے دیکھا تھا۔اس لیے یہاں زبیدہ کی سسکیوں کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ بھائی جی بپھرے ہوئے سانڈھ کی طرح ڈکارتے تو اس کے ہاتھ سے دودھ کی پتیلی پھسلتے پھسلتے بچتی۔ان کی زندگی کا دنگل سوائے مار پیٹ کے اور کچھ نہیں تھا۔ جسے وہ ہر دوسرے تیسرے دن کھیلتے ہی رہتے تھے۔ بھائی جی کے سینے میں بھی دل تھا جسے وہ پتھر بنا چکے تھے۔ وہ خوب مارپیٹ کے بعد اس سے معافی مانگتے۔ ان کی بھوری آنکھیں پانیوں سے لبالب ہوتیں۔ زبیدہ دوپٹے کا پلو منہ میں دبا لیتی۔پھر پھسڑ پھسڑ روتے ہوئے ان کے جڑے ہوئے ہاتھ اپنے سینے پہ رکھ لیتی۔ چونٹی پہاڑ پر چڑھ کر قلعہ فتح ہونے کی نوید سناتی لیکن اسے قلعے میں کوئی داخلی دروازہ ہی نظر نہ آتا۔ بھائی جی ہر لڑائی کے بعد زبیدہ کے کندھے بھی دباتے۔ ان کے مضبوط ہاتھوں کی گرفت نے اس کے کندھوں کو سخت کر دیا تھا۔ شکار کو دوبارہ ہوش میں لاتے ہوئے ان کا انداز دفاعی ہوتا۔وہ مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہتے:

”تابعدار زنانی ایں۔ ھم م م م۔“

بھائی جی ہمیشہ زبیدہ کو مارنے کے بعد اس سے چمٹ کر سوتے۔ وہ زندہ لاش بنی چارپائی پر پڑی لمبے لمبے سانس لیتی۔مجھے بھائی جی سے کبھی محبت اور نفرت محسوس ہی نہیں ہوئی۔ شاید میرے اندر کا ہیجان زبیدہ کو مار کھاتے دیکھ کر کم ہوتا تھا۔ مجھے زبیدہ میں اپنی ماں نظر آتی تھی۔

میرا باپ بھی عجیب ذہن کا آدمی تھا۔ وہ جب تک زندہ رہا مرنے والی کی باتیں یاد کر کے روتا تھا۔ اسے میری ماں کی موت کا صدمہ نہیں تھا۔ شکاری اپنے شکار کے مرنے پر خفا تھا۔وہ اکثر فخرسے بتاتا کہ میری ماں بڑی جی دار عورت تھی۔ ایک دفعہ جب وہ بہت بیمار ہوا تو اسے اپنے کندھوں پر اٹھا کر دوا دارو کے لیے ماری ماری پھری۔ اس کی ٹانگیں دباتے دباتے اگر اس کی آنکھ لگ جاتی تو وہی بیمار ٹانگ اس کے سینے میں ٹھونک دیتا۔ وہ درد سے بلبلاتے ہوئے دوبارہ اس کی ٹانگیں دبانے لگ جاتی۔ میرا باپ ”کڑی یاوی“کہتا ہوا اسے لوٹنے کھسوٹنے لگتا۔ میں دروازے کے پٹ سے مزید چمٹ جاتا۔ میرے گھر میں ذہنی بیمار مردوں کی پنیری لگ چکی تھی۔ بھائی جی اس پنیری کا پھل تھے۔ میری دیوانگی کی تسکین، بھائی جی کی جارحیت اور زبیدہ کے آنسوؤں سے ہوتی تھی۔ میں اب اس انتظارمیں تھا کہ کب بھائی جی زبیدہ کی چھاتیاں کاٹیں گے۔ جہاں سے سوائے خون کی سرخی کے اور کچھ نکلنے والا نہیں تھا۔

٭٭٭٭٭٭

پھر ایک دن محل میں شہزادی زیبارو کے نام کی ڈھنڈیا مچ گئی۔ پیادے اسے ڈھونڈتے ہوئے محل سے باہرنکل چکے تھے۔ کشتیاں سمندرکی لہروں کے سپرد کر دی گئیں لیکن سب بے سود تھا۔ شہزادہ نیل خرام نے اس کے سر کی قیمت مقرر کر دی تھی۔ چرند پرند بھی اس کی گمشدگی پر بولیاں بولتے تھے۔ پھر ملک چیستان کے نجومیوں نے عقدہ حل کر لیا۔ان کے خیال میں شہزادی کسی دیو کی قید میں تھی۔ جو ایک بڑے سے عقاب کے پروں کے درمیان بیٹھ کر سمندر کی سیر کو آیا تھا۔محل کی کھڑکی سے باہرجھانکتی شہزادی کی اداس آنکھوں نے اسے اپنا دیوانہ بنا دیا۔ اکثررات کے پچھلے پہر اچانک تنبورے پر کوئی راگ چھیڑ دیتا تھا۔ سر فضا میں بکھرتے ہی سمندر پر روشنیاں مسلط ہو جاتیں۔دور سے ایک روشن آنکھوں والا عقاب اڑتا ہوا آتا۔ جس کی پیٹھ  پر بیٹھا ہوا حبشی دیو اپنے سفید چمکتے دانت کھولتا تو الاؤ روشن ہو جاتا۔ ایسے میں شہزادی زیبارو صاف شفاف سمندرکی لہروں پر کروٹ لیتے اٹھتی۔ سیاہ دیو بہت بھیانکر دکھائی دیتا۔ اس کے بڑے بڑے کالے ہاتھ کوئلے کی کان تھے۔ شہزادی ان ہاتھوں کے گڑھوں میں اپنے نازک گورے ہاتھ تھماتے ہوئے دیوکے کاندھے پر اپنا سر رکھ دیتی۔ روشنیوں سے مخمور عقاب چیاؤں کرتا اور دونوں اس پر سوار ہو جاتے۔آہستہ آہستہ تنبورے کی تان مدھم پڑنے لگتی۔ سمندرکانیلگوں پانی اندھیروں میں ڈوب جاتا۔

٭٭٭٭٭٭

میں کچھ دنوں سے محسوس کرنے لگا تھا کہ زبیدہ کے آنسوخشک ہو چکے ہیں۔ وہ صحن کی دیوار پر روٹیوں کا چھان بورا مٹی کے پیالے میں ڈال رہی تھی۔ پھر یکدم کوؤں کومنڈیر سے اڑاتے ہوئے بولی: ”کاکے، دعا کرئیں اے کاں مرجائے۔“

”کیوں بھرجائی۔“

”ویکھ! نامراد، اڈدا وی نئیں۔“

میں اس کے لفظوں میں کھوساگیا۔ کوے بنیروں پر گھونسلے نہیں بناتے۔ انھیں تو بس روٹی پانی چاہیے۔ وہ میرے بارہا سوال کرنے پر بھی بس یہی کہتی کہ دعا کر کاں مرجائے۔ میں چارپائی کی پائینتی پر بیٹھا ہوا حقے کی نالی زبان پر رکھ لیتا۔ تمباکو کی کڑواہٹ حلق چیر دیتی تو میں حقہ گڑگڑانا چھوڑ دیتا۔ بھائی جی اور زبیدہ بھی حقے کی نالی ہی تھے۔ ایک حصے میں تمبا کو تھا، آگ تھی اور دوسرے پیالے میں پانی۔ اس ملاپ نے حقے میں جو گڑگڑاہٹ پیدا کی تھی اب اس کا ذائقہ کسیلا ہو گیا تھا۔حقے کی یہ دو نالیاں دھواں پیدا کرتی میرے منہ میں تن گئی تھیں۔ بھاپ کی کڑواہٹ نے میرے حلق پر خنجر چلانے شروع کر دئیے تھے۔ میں جلتے ہوئے تمباکو کے نیچے کتنا ہی گڑ ڈال لیتا اس کی تلخی کو ختم نہیں ہونا تھا۔ اس رات بھی زبیدہ نے بہت مار کھائی۔ وہ کملی اس دیوانے کے سامنے قربانی کے دنبے کی طرح ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھی تھی۔ میں نے پہلی مرتبہ کمرے کی نیم مردہ روشنی میں زبیدہ کوکپڑوں سے آزاد دیکھا۔ وہ زمین پر اکڑوں بیٹھی اپنے دونوں بازو سینے پر رکھے بھائی جی کے تھپڑوں کا مقابلہ کر رہی تھی۔ مجھے امید بندھ گئی کہ شاید آج رات زبیدہ بھی میری ماں کی طرح تختہ دار پر لٹکائی جائے گی۔ کتنا مزا آنے والا تھا۔ بھائی جی نے اسے گردن سے دبوچ رکھا تھا۔ اسے گردن پر چھری چلتے ہی نیلے ڈرم میں پھینکا جاتاجہاں گرتے ہی وہ تڑپ تڑپ کر جان دے دیتی۔ مجھے کچے گوشت میں ملی اس کے جسم کی خوشبو نے بے تاب سا کر دیا۔ زبیدہ کی سسکیاں سنتے سنتے میری آنکھ لگ گئی اور میرا عمر بھر کا نقصان ہو گیا۔

صبح بھائی جی کی چیخ و پکار نے مجھے ڈرا دیا۔ وہ صحن میں مجمع لگائے گالی گلوچ کر رہے تھے:”نکل گئی کڑی یاوی، اپنے یار نال۔“

میں آسمان پر اڑنے والے اس ہوائی جہازکی پشت پر بیٹھا تھا۔ جس نے کچھ دیر پہلے ہی اڑان بھری تھی۔ تیز رفتار ہوا نے میرے ان گنت ٹکڑے کردئیے۔ میں جتنا باقی بچا تھا زمین پر پٹخ دیا گیا اور گدھ میرے سر پر منڈلانے لگے۔ زبیدہ کو گھر سے بھاگے ہوئے مہینہ ہو چلا ہے۔ گھر خالی کھنڈر بن چکا ہے۔ میں روزانہ صحن کی کچی منڈیر پر رکھے مٹی کے پیالے میں روٹی کے ٹکڑے ڈالتا ہوں۔ کوے تو جیسے وہاں آنا ہی بھول گئے ہیں۔وہ کاں بھی غائب ہے جس کے مرنے کی دعائیں زبیدہ مانگا کرتی تھی۔ تو کیا زبیدہ کو وہ کالا کاگ اڑا لے گیا تھا۔ جس کی لمبی چونچ میں گیلی روٹی کے ٹکڑے ہوتے تھے۔ وہ اپنے پنجے صاف کرتے ہوئے کائیں کائیں کرتا تھا۔ یہی سوچیں میرا دماغ کھانے لگتی ہیں۔

میرے اطمینان کے لیے اتنا کافی ہے کہ بھائی جی کی دوسری بیوی میری خواہش ضرور پوری کرے گی۔ وہ اس کی چھاتیاں کاٹ کر میرے دل کو تقویت پہنچائیں گے۔ میں دانت کچکچاتے ہوئے گوشت کے ان لوتھڑوں میں کبھی اپنی ماں کو ڈھونڈوں گا اور کبھی زبیدہ کو۔ اس کی بے زبانی میرے لیے دودھ کی نہریں نکالے گی۔ زبیدہ واپس آجاؤ۔ گھرمیں پڑے دو دیوانے تمہاری راہ تک رہے ہیں۔ایک دیوانہ روز اپنی شلوار نیفے تک اڑس کر ڈنڈا ہاتھ میں لیے ڈنٹر پیلتا ہے۔ دوسرا دیوانہ چارپائی کی سخت ادوائن میں سر دئیے، منہ زمین کی طرف کر کے تنکوں سے کھیلتا ہے۔ میرے بدن کاسارا خون سر اور منہ کی طرف گردش کر دیتا ہے۔ میں اکھڑتی سانسوں کے درمیان دونوں عورتوں کی چیخیں سننے میں مگن ہو جاتا ہوں۔زبیدہ بس ایک بار واپس آ کر اپنی چھاتیاں کٹوا لو تاکہ میں بھی اپنا سر اس سخت ادوائن سے باہر نکال کرکھلی فضا میں سانس لے سکوں۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031