بے ادب سہیلیاں ۔۔۔ مایا مریم
بے ادب سہیلیاں
( مایا مریم )
جب میں دوپہر بارہ بجے اپنے بچے کو سکول سے لانے کے لئے گھر سے نکلی تو اس نے میری طرف مسکرا کر دیکھا۔ اس کا گھر میرے گھر کے عین سامنے تھا اور میں نے اسے ہمیشہ بنے سنورے ہوئے دیکھا تھا، سکول کے راستے پر ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اس کے ذرا سے استفسار پر میں نے دل میں بھری اپنی دکھ بھری کتھا اسے سنا دی۔ جس میں سر فہرست میری ساس اور نند کے ظالمانہ سلوک تھے، اس کے بعد میرے میاں کا نمبر تھا اور آخر میں بڑے ہوتے بچوں کے گھمبیر مسائل تھے۔ وہ بھی میری طرح بچوں والی تھی۔ میں اسے مطمئن دیکھ کر اکثر سوچا کرتی تھی کہ اسے اپنے شوہر سے، اپنے بچوں سے یا اپنے گھر کے دیگر مسائل سے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ پتا نہیں وہ اتنی پر سکون کیسے رہتی تھی۔
“تم کو کسی سے کوئی شکایت نہیں؟ ” میں نے واپسی پر اس سے پوچھ ہی لیا۔
“شام کو پارک آنا یار ۔” وہ زور سے ہنسی اور اس کی معنی خیز ہنسی کو سمجھنے کے لئے مجھے پارک جانا ہی پڑا جو ہمارے گھروں سے ذرا فاصلے پر ہی بنا ہوا تھا اور جہاں زیادہ تر صرف محلے کی عورتیں اور بچے ہی آتے تھے۔
“آہاں۔۔۔ میری نئی دوست زوبیا آ گئی۔۔۔۔۔” وہ مجھے دیکھتے ہی چہکی۔ اس کے ساتھ اس کی تین اور سہلیلیاں پارک میں لگی بینچ پر بیٹھی تھیں۔ سب کے چہرے بے حد پر سکون اور مسکراتے ہوئے تھے۔ مجھے اپنا آپ ان کے آگے اور بجھا ہوا سا لگا۔ استقبال اور تعارف کے بعد مجھے بھی سب نے اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ کافی دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد وہ اپنی ذاتی گفتگو پر آگیئں۔
“آج کل میری ساس کو پھر سے دورہ پڑا ہوا ہے یار۔ اٹھتے بیٹھتےاپنے بیٹے کے کان میرے خلاف بھرتی رہتی ہیں۔” ان میں سے ایک نے کہاـ
“یار تو کیوں پریشان ہوتی ہے، رات میں ان کے بیٹے کے کان پر ہی کاٹ لیا کر۔۔۔۔ ھاھاھاھاھا” سب سے موٹی صبو بولی اور تھل تھل جسم کے ساتھ ہنسنے لگی۔ ہم سب کی بھی ہنسی نکل گئی۔
” اور سنا بنو رانی، تیرے کیا حال ہیں؟ ”
“میں بالکل مزے میں ہوں یار۔۔۔۔ وہ چغد شاعر بھاگ گیا بس۔۔” وہ اٹھلا کر بولی۔ میں نے دل میں سوچا کہ اس کی دوستوں نے اس کا فلمی سا نام بالکل درست رکھا ہے۔ اس میں ہر ادا تھی جو اسے پرکشش بناتی تھی۔
“ارے ہوا کیا، وہ تو تیرا پسندیدہ شاعر تھا اور تیرے حسن پر قصیدے کہتا تھا۔”
” کہاں یار سب شاعر کم بخت اپنا پرانا لکھا ہی ہر حسینہ کو سناتے رہتے ہیں۔”
“اللہ سچی۔۔۔ !! ”
“ہاں یار اور وہ تو سٹھیایا ہوا ذہنی مریض بھی نکلا، اب کسی رنڈو ے سے دل نہیں لگاوٗں گی۔ قسم سے بڑے بھوکے ننگے اور ترسے ہوئے ہوتے ہیں۔”
“اوہ نو، اس بار بھی تیرا عشق کچا رہ گیا۔ اب کون نیا آئے گا یا اُچکا۔؟ ”
“کہاں یار۔ بِن ساجن جھولا جھول رہی ہوں فی الحال۔”
“بن ساجن بھی کوئی جھولا ہوتا ہے؟ ” موٹی صبو زور سے ہنسی۔
” ویسے تو، تو اس بار بڑی خوش ہو رہی تھی کہ تجھے سچا عاشق مل گیا۔” فرح نے دانت نکال کے اسے ٹہوکا مارا۔
“یار عاشق سارے دیو داس، درویش اور صوفی بنتے ہیں مگر سب کےاندر وہ ہی ایک ہی گند بھرا ہوتا ہے۔ میں کہتی ہوں کہ محبت خیرات کی طرح نہ بانٹو۔ میں نے اسے کہہ دیا کہ اب جو تم اپنی غرض چھپا کر محبت کا دم بھرتے ہو اور خلوص کو بد نام کرتے ہو، یہ کیسی انسانیت ہے، اس سے اچھا یہ نہیں کہ سارے منافقت اور محبتوں کے نقاب ہٹا کر ایک بار سچائی سے اپنی ضرورت کی تکمیل کر لو۔”
” اوہ، تو نے بول دیا۔”
” ہاں یار، میں ادھار نہیں رکھتی اس کے جملے جوتے سمیت لوٹا دیتی ہوں، تب چین آتا ہے۔”
” واقعی، سب مرد کمینے ہوتے ہیں۔ اچھا کیا اس کو اوقات یاد کرا دی۔ چھوڑ اسے اور آگے بڑھ مجھے دیکھ۔ ایک ہی پر دنیا ختم کر دی۔ ”
“یار تو، تو پاگل ہے۔ دل کے چکر کو مار گولی۔ دماغ لگا اور سوچ اس کی محبت تجھے کیا دیتی ہے سوائے دُکھ کے۔ ارے جب خود کو خوش ہی رکھنا ہے تو خوش رکھ۔ گناہ بے لذت کیوں کر رہی ہے۔”
“کیا کر سکتے ہیں اس دل کا علاج مگر تجھے میرا یہ ہی مشورہ ہے کہ مرد کو بس کھلونا سمجھ۔ اسے جذبات نہ بتا۔ وہ سالے اس قابل نہیں ہوتے کہ ان کو خالص جذبات دیئے جایئں۔ ”
“ہائے دل جلی۔۔۔ ” شازیہ نے لمبی مصنوعی آہ بھری۔
” یار کوئی مجھے اچھا سا ریسٹورنٹ بتاوٗ ۔” اچانک موٹی صبو نے کہا۔
“کیوں آپ بہت دبلی ہو گئی ہیں کیا؟”
“ہاں نا، سائز زیرو ہو گیا، اوپر سے نیچے۔۔۔۔ ھاھاھاھا”
وہ سب ایک دوسرے کو چھیڑے جا رہی تھیں، میں ہونق بنی سب کی باتیں سمجھ رہی تھی اور نہ سمجھی کی ایکٹنگ کر رہی تھی۔ کچھ سمجھ بھی نہیں آ رہا تھا کہ کیا سمجھوں آخر۔۔۔۔ ایک بہت بیہودہ سی بات پر انھوں نے زور سے ایک ساتھ بے باک قہقہے لگائے اور ایک دوسرے کے ہاتھو ں پر ہاتھ مارے۔ فاصلے پر بزرگ خواتین کا گروپ بیٹھا تھا۔ انہوں نے چونک کر ہماری طرف دیکھا۔ بنو نے اپنی صبو کو چپ کرنے کا اشارہ کیا مگر یوں لگتا تھا کہ اس پر بھی شیطان مردود آ گیا ہے یا وہ ان آنٹیوں سے پرانا کوئی بدلہ لینے پر آمادہ ہے۔
“اللہ ہم سب کو دوذخ میں جلانا بہت زور سے ہنستے ہیں۔ لوگ ڈر جاتے ہیں۔ ” وہ زور سے بولی تاکہ وہ سب سن سکیں۔ انہوں نے سن کر ‘لاحول ولا قوۃ’ ٹائپ کی شکلیں بنایئں اور آسمان کی طرف دیکھا جیسے اوپر والے سے شکوہ کیا کہ ان کو ایسا کیوں بنایا۔
“مجھے بچوں کو ٹیوشن سے لینے جانا ہے۔” میں نے رخصت چاہی۔ انہوں نے مجھے روز پارک آنے کے وعدے پر اٹھنے دیا۔
“جانی آج تو بہت اچھی لگ رہی ہو۔” اگلے دن بنو کو دیکھ کر سب نے تعریف کی۔ اس کا حسن واقعی دیکھنے کے قابل ہوتا تھا۔ میں آج جلدی آ گئی تھی اور اپنے بچوں کے مسائل اور گھر کی ماسیوں کی دادا گیریوں کے قصے سنا کر سب کو بور کر رہی تھی۔ بنو کے آتے ہی جیسے محفل میں رونق آ گئی۔
“نیا بریسلیٹ۔۔۔۔ ہائے، تجھے گفٹ کیا تیرے پرانے عاشق نے؟ ” بنو کے پوچھنے پر فرح زور سے اترائی اور اپنی کلائی نچا کر بولی۔
“پاگل، شادی شدہ محبوبہ کو کون الو کا پٹھا گفٹ کرتا ہے۔ یہ تو ‘چاہنے’ والے شوہر ہی بے وقوف ہوتے ہیں ـ”
“اتنا چاہتا ہے تجھے، ہائے۔ پریوں کی طرح سجاتا ہے پھر بھی تو اس سڑے ہوئے آدمی پر جان دیتی ہے۔۔۔ !!ـ” صبو نے اسے چھیڑا۔
“تم لوگوں کو کیا پتا، اس سڑے ہوئے آدمی میں ایک خوبی ہے کہ وہ مجھے دل سے چاہتا ہے، اسے میری نمائش نہیں کروانی۔ اسے کسی کو یہ نہیں جتانا کہ وہ مجھے کتنا خوش رکھے ہوئے ہے۔ اسے میری ظاہری سجاوٹ سے نہیں بلکہ مجھ سے محبت ہے اور یہ میرا میاں، اس کا ایک ہی مقصد ہوتا ہےبس اپنی اس کزن کو جلانا۔ جس نے اس سے شادی نہیں کی۔۔۔ پتا ہے وہ مجھے کیوں سجاتا ہے اور مہنگے گفٹس دلاتا ہے۔۔۔ صرف اس لئے کہ ابھی تک وہ اپنی اس کزن کو نہیں بھولا، کاش وہ صرف مجھے خوش کرنے کے لئے، مجھے پیار کرتا تو مجھے کیا ضرورت تھی پرانے عاشق سے بات کرنے کی۔” فرح کہتے کہتے جذباتی ہو گئی۔
“پورے خاندان کے سامنے بنتا ہے میرا چاہنے والا شوہر۔۔۔۔ اونہوں۔۔۔۔۔ ”
” ہائے کاش تیرا ‘چاہنے’ والا شوہر۔۔۔۔ کاش مجھے مل جاتا۔ ” موٹی صبو نےاچانک قہقہہ لگایا۔ ہم سب بھی ہنسنے لگیں۔ “یار تیرا شوہر بھی کم نہیں۔۔۔۔۔ ظالم لگتا ہے مجھے بالکل سلمان خان جیسا۔۔۔۔ باڈی بلڈر۔ اف۔ حیرت ہے تجھے کیسے ادھر ادھر تاڑنے کا موقع مل جاتا ہے۔۔۔”ـ، “ابے مجھ سے پوچھ۔۔۔۔۔ کیسے اس گدھے کو چلا رہی ہوں۔”
“ہائے بتا، کیسے ۔۔۔ ھاھاھاھاـ” ہم سب پھر ہنسنے لگیں۔ ایک سفید بالوں والی خاتون ہمارے قریب سے استغفار پڑھتی آگے چلی گیئں
“ہاں بھئی کس کے کھڑے ہوئے گدھے کا سن کر۔ ” صبو نے بے ہودگی سے اس آنٹی کو چھیڑا۔ انہوں نے بھی پلٹ کو خونخوار نظروں سے گھورا۔ تو صبو نے جلدی جملہ پورا کیا۔ “کس کے کھڑے ہو گئے کان ۔۔۔ ”
” پتا نہیں یہ آج کل بنو کیوں نہیں آ رہی۔۔۔ سچ میں بڑی چیز ہے۔ ہمارا یہ حال ہوتا ہے کہ اسے یاد کر رہے ہیں سوچو اس کے عاشقوں کا کیا حال ہوتا ہو گا۔” شازیہ نے کہا آج صرف ہم دونوں ہی پارک میں تھے۔ میں اسے اپنے اوپر ہونے والے سسرال کے پرانے ظالمانہ قصے سنا سنا کر پکا رہی تھی۔
“اچھا سن، اس بنو کی کیا سٹوری ہے۔ قسم سے مجھے تو ایسی ویسی بالکل نہیں لگتی۔ اچھے گھر کی ہے نا۔” اچانک مجھے خیال آیاـ ” اوئے ہاں یار، ہم سب اچھے گھروں کی ہیں ۔ بس ذرا سا دل پشوری کرنا اور خوش رہنا سیکھ گئی ہیں ۔ وہ بھی ان کمینے شوہروں کی وجہ سے۔ ٹھیک سے توجہ دیتے تو ایسا نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ شروع سال میں بڑے ظلم ہوئے، ایک تو کم عمری میں اس کی شادی ہو گئی تھی ابھی اپنے کوئی شوق بھی پورے نہیں کئے تھے کہ بچے ہو گئے۔ پھر ذرا ذرا سی بات پر اس کا میاں ہاتھ اٹھاتا تھا مگر اب وہ سیٹ ہے اور بہت خوش اور میاں بھی اب اس کی تعریف کرتا ہے اور وہ اب اپنے سارے ادھورے شوق بھی پورے کرتی ہے۔۔۔۔ اچھا تم بتاو تمھارا میاں کیا کبھی تمھاری تعریف کرتا ہے؟ ” شازیہ کے سوال پر میں ضبط کےسارے بندھن توڑ بیٹھی۔
“تعریف، ارے اسے تو میرا تیار ہونا بھی پسند نہیں۔ جب جب میک اپ کیا اور فیشنی کپڑے پہنے پھر اس سے پوچھا کہ کیسی لگ رہی ہوں تو کہتا ہے کہ ہیجڑا یا دو نمبر عورت لگ رہی ہو۔۔۔۔ اونہوں۔۔۔۔ میرے پاس تو اب ایک لپ اسٹک بھی نہیں، نہ ہی اسٹائلش کپڑے بنانے کا دل کرتا ہے۔ کس کے لئے تیار ہوں۔ اتنا شک کرتا ہے کہ مجھے موبائل میں کوڈ بھی نہیں لگانے دیتا اور بہانے بہانے سے چیک کرتا رہتا ہے۔۔۔۔ پارک بھی بڑی بحث کرنے کے بعد آنے دیتا تھا مگر اب میرا موڈ اچھا دیکھ کر اجازت دے دیتا ہے۔۔۔۔ ”
“اف !!!! کمینے پن کی انتہا ہے۔۔۔۔۔ بیویوں کو ایسے بھی قید نہیں رکھنا چاہیئے جب ہی وہ باغی ہوتی ہے۔۔۔۔ میرا بھی کچھ ایسا ہی ذلیل تھا۔۔۔۔ بات بات پر لڑتا تھا۔۔۔۔ گالیاں دیتا اور میکے بھیج دیتا تھا۔۔۔۔ سارے گھر کے کام بھی کرواتا تھا اور ہر کام میں کیڑے نکالتا تھا اور پیسے بھی نہیں دیتا تھا مگر اب وہ بالکل ٹھیک ہو گیا ہے۔ اب خود ہی میرا اکاونٹ کھلوایا ہے، صبح ناشتہ بنا کر آفس چلا جاتا ہے مجھے اٹھاتا بھی نہیں، سونے دیتا ہے اور استری بھی خود کرتا ہے، کبھی کبھار کھانا بھی پکا لیتا ہے اور مجھے خوش کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ ”
“کیسے ہوا یہ جادو ؟؟؟ یار مجھے بھی کچھ بتا دو۔۔۔۔ میرا میاں تو مجھے کہتا ہے کہ اب تم بوڑھی ہو گئی ہو اور بس بچے دیکھو ،یہ ہی زندگی ہے یا ہر وقت اللہ اللہ کرو یا میرے پاوں دھو دھو کر پیئو۔۔۔۔ کتے کی نسل۔۔۔” میرا صبر جواب دے چکا تھا ۔۔۔۔ میں نے گالیاں دے کر اپنی ساری بھڑاس نکالی۔
” میں نے تو عملیات کئے تھے یار۔۔۔۔ جب جا کر شوہر کو قابو میں کیا۔ ” وہ زور سے معنی خیز انداز میں ہنسی۔
“مجھے بھی بتا دو کس کے پاس گئی تھیں، عمل کروانے۔۔۔۔؟”
“پاگل عمل کروانے کسی کے پاس نہیں جانا پڑتا۔ خود کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔ تم گوگل پر سرچ کرنا۔ بس۔۔۔۔”
” اف وہ گندی حرکتیں ۔۔۔ ـــ!!!!”
“ہاں یار کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا تو پڑتا ہے۔۔۔ ھاھاھاھا۔۔۔ اس کے بعد تو وہ میرا غلام بن گیا۔ ابھی بھی کہہ کر آئی ہوں کہ روٹی بازار سے لانا، رات میں بہت تھک جاتی ہوں۔۔۔۔ ھاھاھاھا۔” وہ پاگلوں کی طرح ہنسے جا رہی تھی ۔
“اففف۔۔۔!!! ” مجھے بھی ہنسی آگئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے میں بھی اپنی سہیلیوں کی ‘ذاتی’ گفتگو کا حصہ بن چکی تھی۔ کبھی ایک دوسرے کو اپنی سہاگ رات کے قصے سناتی اور ہنساتی، کبھی کسی اور کے قصے سنائے جاتے۔ ایک دن ہم نے خوب ساری گالیاں ایک دوسرے کو سکھایئں۔ ایک دن سارے گندے لطیفے سنائے اور خوب ہنسے۔ کبھی جی بھر کر سسرال والوں اور دیگر رشتے داروں کی نقلیں اتاری جاتیں اور کبھی آئٹم سونگز اور کبھی گانے گاتے۔ غرض ہم روز ملتے اور روز ہی دل ہلکا کرتے۔ مجھ پر بھی ان کا رنگ چڑھ گیا تھا۔ اب میں بھی پر سکون رہنے لگی تھی اور بازار جا کر میک اپ کا سامان بھی لے آئی تھی۔ اپنے لئے اسٹائلش سوٹ بھی بنوائے تھے۔ اب میں بہت فٹ اور جوان نظر آتی تھی۔ ہلکا ہلکا میک اپ کر کے خود کو سارا دن فریش محسوس کرتی تھی۔ ان سے مل کر میری شخصیت میں ایک واضح ‘رنگین’ فرق آ گیا تھا۔ میں پہلے سے بہت زیادہ پر اعتماد ہو گئی تھی۔ بال بھی کٹنگ کروا کر اچھا سا اسٹا ئل دینے لگی تھی۔ پہلے پہل میاں کو میری تبدیلیاں ایک آنکھ نہ بھایئں پھر میری ‘ڈھٹائی’ اور بے فکری دیکھ کر خود ہی سمجھوتہ کر لیا۔ شادی کے دس سال بعد پہلا سمجھوتہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دن بنو اور صبو موجود تھیں۔ شازیہ اور فرح بھی آ گیئں، ہمارا کورم پورا ہوتے ہی قہقہہوں سے پارک گونجنے لگا تھا۔ دور بیٹھا بزرگ خواتیں کا ٹولہ ہم کو ہر مشترکہ قہقہے پر گھور کر دیکھتا اور نفرت بھری دوذخ کی آگ دور سے برساتا۔ ہم بھی بڑے دل والیاں تھیں، ان کو سمائل بھیی پاس کرتیں اور فلائنگ کس بھی دیتیں جسے وہ ناگواری سے ہوا میں ہی اڑا دیا کرتیں۔
“ویسے یار یہ شوہر بھی برے نہیں ہوتے ہیں۔۔۔۔ اب دیکھو نا! کتنے کاموں کی ذمہ داری ہوتی ہےان بے چاروں پر۔۔۔۔ ہم نے تو بس بچے پیدا کر کے دینے ہوتے ہیں۔۔۔۔ مجھے تو اب شوہر پر ترس آنے لگا ہے۔۔۔” آج بنو الگ موڈ میں نظر آرہی تھی۔ “خیریت بنو جی۔۔۔۔ آپ کو شوہر بھی پیارا لگنے لگا۔۔۔۔ کس کے شوہر کی بات کر رہی ہو ؟ ھاھاھاھاھاھا”
“اپنے ہی شوہر کی بات کر رہی ہوں۔ تم بے غیرتوں کو ہر وقت بنو سے مصالحہ چاہیئے۔”
” ارے۔۔۔۔ بتا تو سہی۔ یہ محبت کا جھرنا ایک دم گھر پر کیوں بہنے لگا؟ کیا عاشقوں سے بھی دل بھر گیا تیرا۔۔۔ ؟ ”
“نہیں جانی، وہ تو بس کبھی کبھی میاں اتنا خیال رکھنے لگتا ہے نا تب آتا ہے پیار۔۔۔۔ ویسے بھی حق ہے بیچارے کا۔۔۔”
“ہاں یہ تو ہے۔۔۔۔ کبھی کبھی آ جاتا ہے۔۔۔۔ ھاھاھاھاھا، ویسے ابھی کیا ہوا؟ ”
“یاد ہے اس دن میں نے جان بوجھ کر اپنے میاں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا۔۔۔۔ حالانکہ وہ صرف فیس بک پر کسی سے دل بہلا رہا تھا مگر میں نے بھی خوب ہنگامہ کیا تھا اور میکے بھی جانے کی دھمکی دے دی تھی۔۔۔۔ اپنے رومز بھی الگ کر دیئے تھے اور کہہ دیا تھا کہ صرف بچوں کی خاطر معاف کیا۔۔۔۔ ؟ یاد ہے نا۔”
” ہاں ہاں پھر کیا ہوا؟ تیرا ڈرامہ ہٹ ہو گیا کیا؟ ”
“ڈرامہ ہو بنو کا اور ہٹ نہ ہو۔۔۔۔ ایسا کیسے ممکن ہےمیری جان۔ ہٹ بھی ہوا اور بار بار ریپیٹ بھی۔ جب بھی اسے شرمندہ کرنا ہوتا ہے یا کوئی کام کروانا ہوتا ہے اسے باتوں باتوں میں جتا دیتی ہوں۔ اپنی عظیم قربانی۔ ھاھاھاھاھا۔۔۔۔” “یار میں جانتی ہوں۔ تم نے سچی قربانی دی ہے پاگل۔۔۔۔ وہ کیا ہر وقت لڑکیوں سے باتیں نہیں کرتا تھا اور ایس ایم ایس تو تم نے خود بھی پڑھے تھے۔” صبو نے کہا۔
“چھوڑ یار اب بچے ہیں اور سب برداشت کرنا پڑتا ہے ان کی وجہ سے۔۔۔۔ میں بھول جاتی ہوں، تم لوگ بھی مجھے یاد نہ دلایا کرو۔ ” بنو کے چہرے پر پہلی بار، اداسی کا سایہ نظر آیا جسے اس نے صفائی کے ساتھ چھپانے کی کوشش کی۔ ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا اور فرح نے جلدی سے بات سنبھالی۔ “ویسے مردوں کے اپنے مسائل بہت ہوتے ہیں یار۔۔۔۔ خاص کر خاص وقت کے مسائل۔۔۔۔۔ میں نے تو اسی کو ہتھیار بنایا ہوا ہے۔ اس کے بعد تو میرا میاں، میرے لئے انسان بنا ہے۔ پہلے بے وقوف تھی نا، تو کہتی تھی کہ ہاں جی مزا آیا۔ اب تو جھٹ کہتی ہوں۔۔۔۔۔ نہیں جی قسم لے لو جو مزا آیا ہو ۔۔۔۔ اتنے جلدی! میری بات پر وہ بہت شرمندہ ہوتا ہے اور وہ وقت میری جیت کا ہوتا ہے۔” فرح کی بات پر میرا ہنس ہنس کر پیٹ میں درد ہو گیا۔
“جانی کسی نے ٹھیک کہا ہے نا، عورت محکوم بن کر حکومت کرتی ہے۔” بنو نے ہمیشہ کی طرح فلسفہ بولا۔
“کیا جائے گا ان مردوں کا اگر ذرا سی آزادی دے دیں۔۔۔۔ یار قید میں جانور بھی نہیں جیتا۔۔۔۔ ہم تو پھر انسان ہیں۔” ٖشازیہ نے کہا۔
“اور کیا۔۔۔۔۔ اب ان سفید بالوں والی آنٹیوں کو دیکھو، کیا قصور تھا ان کا۔۔۔۔ کیسے ایک ہی بندے کے ساتھ رہ رہ کر اس کی خدمت کر کرکے پاگل ہو گیئں کہ ہمارا ہنسنا بھی ان کو ڈراونا لگتا ہے۔ اب میں سمجھی میری ساس کا بھی کیا قصور جو انہوں نے مجھ پر شروع میں ظلم کئے۔ وہ اتنی ڈپریس رہی ساری عمر اپنی خواہشوں کا گلہ گھونٹ گھو نٹ کر عمر ضائع کر دی، اب وہ ہم میاں بیوی کو بھی خوش دیکھتی ہیں تو ان کو قیامت کی نشانیاں یاد آجاتی ہیں۔” صبو بھی بولی۔
“ہاں یار ساس صاحبہ نے مجھے بھی بڑے دکھ دیئے، قسم سے شروع سال برباد کر دیئے میرے۔۔۔۔ عذاب ناک کر دی میری زندگی اور میری فرسٹ پریگنیسی۔۔۔۔ میاں اگر خیال رکھنے کی کوشش بھی کرتا تو جھٹ بوتل کی جن کی طرح نازل ہو کر فرماتیں۔۔۔۔ ارے ہم نے بھی بچے پیدا کئے ہیں اور تمھاری بہنوں نے بھی۔۔۔۔ تمھاری بیوی کوئی انوکھی عورت ہے۔۔۔۔۔ اففف قیامت بھی کیا ہو گی یار جو میری ساس تھی۔ شکر اب دو سالوں سے نجات ملی ہے۔۔۔۔ اللہ بس ان کو جنت میں سنبھالے ۔۔۔” میں نے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑے ۔۔۔۔ ”
“الحمدشریف پڑھ یار ، تیری تو اوپر چلی گئی۔۔۔۔۔ میری تو اب تک زندہ ہے مگر اب ان پر ترس کھاتی ہوں۔ ایک بات ہے۔ وہ ہوتی بھی ترس کھانے کے قابل ہیں۔۔۔ ہر وقت اللہ اللہ۔۔۔۔ ہاتھ میں تسبیح ۔۔۔۔ منہ پر غیبتیں۔ دل میں کینے اور بغض۔۔۔۔ ماسی کو بھی انسان نہیں سمجھتیں، کہتی ہیں کہ رات کا باسی کھانے اسے دینا۔۔۔۔ کوئی مانگنے والا آتا ہے تو اسے کچھ دینے نہیں دیتیں کہ بی بی تم کو کیا پتا میرا بیٹا کیسی محنت سے کماتا ہے تم لٹانے بیٹھ جاوٗ ۔۔۔۔۔۔۔ تہجد گزار ہیں اور روزے تو آ ج تک کبھی نہیں چھوڑے مگر مجال ہے جو کبھی کسی بہو کو انسان سمجھا ہو۔۔۔۔۔ قابل رحم ہیں بے چاری ۔۔۔۔ منافقت کی انتہا کو پہنچی ہوئی ہیں یار، ہاتھ میں تسبیح اور منہ پر اللہ اللہ ۔۔۔۔۔ چھوڑو ۔ اچھی باتیں کرو۔ ”
شازیہ نے زبردستی ہنستے ہوئے ہمیں دیکھا۔ بنو نے اسے گلے لگا لیا اور توقف کے بعد بولی۔
” ارے یار ایک ہی زندگی ملی ہے۔ اسے ابھی سے پیک کرکے فریزر میں کیوں جما دیا جائے۔ کس کے لئے؟ کس وقت کے لئے اٹھا کر رکھیں ہم اپنے قیمتی جذبات۔۔۔۔۔ ہم کو زیادہ سے زیادہ خوش رہنا ہے اپنےلئے، اپنے بچوں کے لئے۔۔۔۔ ان کو جوان کرتے کرتے ہم خود ہی گھٹ گھٹ کر مر جایئں۔۔۔۔۔۔ یار ابھی تو جینا ہے جو نہیں کیا لائف میں، وہ مزا کرنا ہے۔” سب نے بنو کی ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔۔ اس کے چہرے پر ہزار رنگ تھے، زندگی کے سارے رنگ۔۔۔۔ وہ شوخیوں سے بھرپور تھی ۔۔۔ اس کی جوانی کے کھوئے ہوئے سال، اس کے چہرے پر جیسے دوبارہ لوٹ آئے تھے۔۔۔۔ اس کی آنکھیں جگمگاتی تھیں۔ وہ سارے رنگ مجھے بھی اچھے لگتے تھے اور میں بھی ان کو جینا چاہتی تھی۔ میں بہت پیار سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔ پھر وہ صرف مجھ سے مخاطب ہوئی۔
” جانی تم بھی بس جو ہوا اسے بھول جاوٗ ۔۔۔ نہ رو دھو، نہ کسی سے گلہ کرو، نہ سوچو کہ کیا غلط کیا صحیح، سب کو معاف کرو اور ہلکی پھلکی ہو جاوٗ۔۔۔۔ دیکھنا کتنا سکون ملے گا۔۔۔۔۔ کسی کی غیبتوں میں وقت کیوں ضائع کرتی ہو۔۔۔۔ کھل کر جھومو اور ناچو۔۔۔۔ اس ایک زندگی سے وہ سارے لطف اٹھاوٗ جو تم نے کبھی نہیں اٹھائے۔۔۔۔ ٹھیک ہے شادی کے بعد ہم ایک ایسے کمرے میں بند ہو جاتے ہیں، جہاں بس ایک جادوئی دروازہ ہوتا ہے جس سے صرف اندر آیا جاتا ہے مگر میری جان اس دروازے سے سر ٹکرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔۔۔ ایک کام کرو، اپنے لئے کسی دیوار میں ایک دریچہ باہر نکال لو۔ تاکہ تم آسانی سے سانس لے سکو۔”
آج پارک سے واپس آتے ہوئے جب میں اپنے گھر کے پاس پہنچی تو سامنے سڑک کی طرف نگاہ اٹھ گئی۔ وہاں کار سے ٹیک لگائے جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس کسرتی بدن والا پرکشش لڑکا روزانہ کی طرح آج بھی میری طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ پہلے اس سے نظر ملتی تو میں نگاہیں چُرا کر اپنے گھر میں داخل ہو جاتی تھی مگر آج!!! میں نے اس سے نگاہیں نہیں چُرایئں بلکہ اس کی طرف اپنی دل فریب مسکراہٹ اچھالدی