نا مکمل۔ (پُتلا)۔ کہانی ۔۔۔ مرزا اطہر بیگ
نامکمل۔ ( پُتلا) ۔ کہانی
مرزا اطہر بیگ
پُتلا بنانے کی ذمہ داری سراج دین کو دی گئی جو پارٹی کے اس دفتر کا پرانا چوکیدار تھا۔
اور یہ ذمہ داری اسے کچھ ایسے ناگہانی انداز میں سونپی گئی کہ کچھ دیر کے لیے تو وہ گُنگ سا ہو گیا اور یہ سمجھنے سے قاصر کہ پارٹی کے دو بڑے منتظم اسے کیا کہہ رہے ہیں۔ رات اس وقت آدھی جا چکی تھی۔ اور اگلے دن کے احتجاجی مظاہرے کی تمام تیاریاں ہاشم صاحب اور رحمان صاحب اپنی طرف سے مکمل کر چکے تھے۔ مقررین ، مظاہرین، میگا فون، پھولوں کے ہار، اخباری نمائندے ، جلانے والے ٹائر اور پتلا ۔۔۔۔۔
” اور پتلا ” جس لمحے یہ خیال ہاشم صاحب کے ذہن میں گونجا تھا اسی وقت باہر بادل زور سے گرجا تھا۔ شہر میں موسلا دھار بارش شروع ہو گئی تھی۔ وہ بارشوں کے دن تھے۔
” اور پتلا ” ۔۔۔۔۔۔ رحمان صاحب نے غیر حاضر دماغی سے کہا۔ ان کی توجہ باہر بارش کی طرف تھی۔
” یار یہ بارش کہیں گڑ بڑ نہ کردے۔ کل اگر سڑکوں پر پانی اکٹھا ہو گیا تو جلوس کیا خاک نکلے گا۔ “
” اس بارش کو تم فی الحال باران رحمت تصور کر لو۔تم نے دیکھا نہیں جب کبھی خاص خاص موقعوں پر بارش ہو جاتی ہے تو خاص خاص موقعوں کے کرتا دھرتا اسے تایئد ایزدی قرار دیتے ہیں۔ “
” لیکن یار ۔۔۔۔ تم بھی آگ کی بات کرو ۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے، پتلا ۔۔۔ جسے جلانا ہے ۔۔۔ وہ کون بنائے گا ۔۔۔۔ سوچا ہی نہں۔ ۔۔۔۔۔ “
” ہاں پتلا جلائے بغیر بات نہیں بنتی۔” رحمان صاحب نے کی دم اپنے کا میں خارش محسوس کی اور پھر ایک دم انگلی کا پور کان میں ڈال کر کھٹ کھٹ کرنے کے انداز میں کان کے اندرونی حصے کو تہہ و بالا کر دیا۔ خارش ختم ہو گئی۔ پھر اس نے سوچا کہ اس کے کان کی پرانی تکلیف شاید پھر عود آئی ہے۔ کل وہ یہ بہانہ تو کر سکتا ہے کہ کان کی تکلیف کی وجہ سے وہ تقریر نہیں کر سکتا مگر ایسے موقعوں پر تو گلے کا بہانہ کام آتا ہے۔ بہرحال کل مظاہرے کے بعد شام کو۔ اگر وہ گرفتار ہو گیا تو۔ بہرحال فارغ ہونے پر وہ ای این ٹی اسپیشلسٹ کے ہاں جائے گا۔ ۔ پھر با آواز بلند اسنے کہا، ” ہاں یار کچھ کرو۔ پتلا تو لازمی بنانا پڑے گا۔ “
سب کچھ سراج دین چوکیدار کے سامنے ہو رہا تھا۔ صبح سے ہو رہا تھا اور پچھلے کئی دنوں سے ہو رہا تھا۔ وہ رہنماوں کی باتوں کو سینے سے لگاتا تھا لیکن اکثر نہیں بھی لگاتا تھا۔ اب پچھلے کئی گھنٹوں سے جب سے میٹنگ ہو رہی تھی وہ ایک کونے میں بیٹھا تھا۔ کبھی تو وہ اس قدر ولولہ محسوس کرتا تھا کہ اس کا جی چاہتا کہ اچھل کر رہنماوں اور کارکنوں کے بیچ جا گرے۔ پھر کبھ جب بھوک کے کُڑل اسے پریشان کرتے تھے تو جی کرتا تھا کہ جلدی سے یہ سارا کام ختم ہو اور وہ اپنے کوارٹر جا کر روٹی کھائے۔ ایک ایک کر کے سب لوگ اپنی اپنی ڈیوٹیاں لے کر چلے گئے تھے۔ مگر اب یہ جاتے جاتے پتلے کی بات نکل آئی اور ہاشم صاحب اور رحمان صاحب پھر رک گئے اور اوپر سے بارش ہو گئی ہے۔ خیر بارش کا تو کچھ نہیں ، گاڑی میں چلے جایئں گے مگر یہ پتلے کا کیا چکر ہے۔
” پتلا جلے گا رحمان صاحب ۔۔۔۔ اور ضرور جلے گا۔ اور اس ۔۔۔۔ کا۔۔۔۔۔پتلا۔۔۔۔جلے گا۔ تو ۔۔۔۔۔۔۔جائے گی۔ یہ جذبات کا ۔۔۔۔۔۔ معاملہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔ عوام کے جذبات کا معاملہ ہے ۔۔۔۔۔۔ ” ہاشم صاحب اب ہر فقرے کے بعد پھر ایک گالی والی ڈکشن پر اتر آیا تھا جس کے انتہائی موثر ہونے میں کوئی کلام نہ تھا۔ پھر بجلی کی چمک کمرے میں دکھائی دی اور اس نے کڑک سنائی دینے کا انتظار کیا اور کونے یں سٹول پر بیٹھے سراج دین کو اپنی نظروں پر رکھ لیا۔
” سراج دین۔ پتلا تم بناو گے” اور کڑک بھی سنائی دے گئی۔ سراج دین کو کڑک اور ہاشم صاحب کی آواز اکٹھی سنائی دیں۔ کچھ دیر وہ سُن سا ہو کر بیٹھا رہا، پھر بولا۔
” ہیں جی، سر جی ۔۔۔۔۔ سر جی ۔۔۔ پپ ۔۔۔۔ پُتلا ۔۔۔۔ “
” پتلا ” رحمان صاحب ہنس پڑا۔ مگر ہاشم صاحب صرف سراج دین کی طرف خشمگین نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ” پتلا ۔۔۔۔ سراج دین ۔ پتلا ۔۔۔ اس ۔۔۔۔۔ کا پتلا ۔۔۔۔ جسے کل آگ لگائی جائے گی۔ ساڑ کر سوا کر دینا ہے ۔۔۔۔ سمجھ میں نہیں آیا تمہاری ۔۔۔۔۔ “
” مم ۔۔۔ مٹی کا پتلا ۔۔۔۔سر جی ” سراج دین نے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا
رحمان صاحب پھر ہنس پڑا۔ ” مٹی کا پتلا تو ۔۔۔۔ سراج دین صرف جہنم میں جلے گا” ۔۔۔۔ اس نے کہا اور ایک بار پھر ہاشم صاحب کی طرف دیکھا مگر داد دینے کی بجائے الٹا اس نے کہا۔
” یہ فقرے بازیوں کا وقت نہیں ہے رحمان صاحب۔ یہ ایک مشکل سچویشن ہے۔ اس بے وقوف کو سمجھاو کہ پتلا بہر حال اسے بنانا پڑے گا۔ اس وقت رات کا ایک بجا ہے، جبکہ شہر پر بارش برس پڑی ہے ۔ کارکن ہمارے جا چکے ہیں۔ اسے سمجھاو۔ اسے یہ کا کرنا ہو گا۔ “
رحمان صاحب آگے بڑھا اور اپنایئت سے سراج دین کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا، ” دیکھو سراج دین، میں اور تم جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اکٹھے ہی پارٹی میں آئے تھے جوانی ہم دونوں ادھر ہی گال چکے ہیں اور اب بڑھاپے بھی ادھر ہی خراب کر رہے ہیں۔ “
” سر جی ۔ یہ کیا کہہ رہے ہو ” سراج دین کو یک دم محسوس ہوا کہ وہ سٹول سے اٹھ کر آدھے آسمان کی بلندیوں تک جا پہنچا ہے۔
” صبح ۔۔۔ جی۔ جی سر ۔۔۔۔میں ۔۔۔۔ عالی جاہ میں ۔۔۔۔ میری جان بھی حاضر ہے ۔۔۔۔۔۔”
” جان ہمیں فی الحال درکار نہیں” ہاشم صاحب بولا ۔۔۔ رحمان صاحب مسکرا کر کہنے لگا، ” جان کو ابھی سنبھال کر رکھو سراج۔ جو ہاشم صاحب کہتے ہیں وہ کرو۔ “
” با لکل کروں گا سرجی ، سراج نے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ہزاروں، کروڑوں پتلے بناوں گا ۔ “
” احمق آدمی ہے ” ہاشم صاحب نے عاجز آ کر کہا۔ سمجھتا نہیں، ہزاروں، کروڑوں پتلے نہیں بیوقوف۔ ایک پتلا بنا ۔۔۔۔ ایک ۔۔۔ اس کا ۔۔۔۔ اس ۔۔۔۔ کا ۔۔۔۔ ” ہاشم نے فقرے میں اس قدر بھیانک گالیاں بھر دیں کہ سراج اور رحمان دونوں کے دل دہل گئے۔
” سر جی با لکل بناوں گا۔ بس آپ ۔۔۔ آپ ذرا طریقہ بتا دیں کہ کیسے بنانا ہے اس کا پتلا ۔۔۔۔۔؟ “
” ہاں ۔۔۔۔۔ وہ میں تمہیں بتاتا ہوں ۔” ہاشم نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کمرے میں چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ بارش اب دھیمی پڑ چکی تھی اور چمک کے باوجود کڑک سنائی نہیں دے رہی تھی۔
” یہاں تو سارے پارٹی کے ریکارڈ پڑے ہوئے ہیں۔ ” اس نے مایوسی سے کہا۔
” ایسا کرو” ہاشم نے سراج دین کی طرف دیکھ کر کہا جس کی آنکھیں اور منہ اس قدر کھلے ہوئے تھے جیسے وہ پتلا بنانے کی ہدایات اپنے اندر اتار لینا چاہتا ہو۔
” ایسا کرو ۔۔۔۔ دیکھو ۔۔۔۔ اپنے کوارٹر میں ۔۔۔۔ باقی کہیں کمروں میں ؟ چار بانس کی لکڑیاں ۔۔۔ دو ٹانگیں۔ دو بازو۔ ایک سر ۔۔۔۔ کس کے باندھ کر ۔۔۔ پھر ۔۔۔۔کچھ دیکھو ۔۔۔کوئی پرانے تکیے پرانے کپڑے۔ جوتیوں کا ایک ہار بھی بنانا ہے۔ سر کے اوپر ایک پرانے چھوٹے سے تکیے کو لگا کر اوپر غلاف چڑھا دینا ۔ پھر توے کی کالک سے آنکھوں کے ناک کے سوراخ اور منہ کے سوراخ کے نشان بنا دینا ۔۔۔۔ سمجھ گئے ۔۔۔۔”
سراج دین ہنس پڑا۔ اب اسے آنے والے تخلیقی لمحات کے تصور سے مزہ آنے لگا تھا۔ وہ زیادہ اعتماد سے بولا۔ ” سمجھ گیا سر جی ۔۔۔۔ با لکل سمجھ گیا ۔۔ پر سر جی ۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ یہ کیسے پتہ چلے گا کہ یہ اسی ۔۔۔۔۔۔ کا پتلا ہے ” سراج دین نے گالی دینے کی خواہش پر بمشکل قابو پاتے ہوئے کہا۔
” ہاں ۔۔۔۔ یہاں شاید میں تمہاری کچھ مدد کر سکوں سراج دین۔ ” رحمان نے کہا، ” اس کا پتلا بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ۔۔۔۔ کہ پتلا بناتے وقت تم اپنی زندگی کے ان سب لوگوں کا تصور دل میں لانا جن سے تم نے اتنی نفرت کی ہے یا کر رہے ہو، اتنی ، اتنی کہ اگر وہ کبھی تمہارے قابو آ جاتے تو تم انہیں ۔۔۔۔ بھسم کر دیتے۔ بس یہ جذبے دل میں اکسانا۔ “
” انشا ء اللہ ” سراج دین نے ایک خوفناک یقین سے کہا۔
” شاباش ” ہاشم ساحب نے کہا، ” اور سنو۔ ۔۔۔۔ اس پر پھر جو تمہارا سامان وغیرہ لگے گا۔ بانس کی سوٹیاں۔ سرہانے۔ کپڑے وگیرہ ۔ اس کا تمہیں خرچہ ملے گا۔ فکر نہ کرنا اور کل ہم اسے جلانے سے پہلے بتایئں گے کہ یہ ہمارے دفتر کے سب سے پرانے چوکیدار سراج دین نے بنایا ہے۔ اب دفتر کی عزت تمہارے ہاتھ میں ہے۔ ” سراج دین نے وہیں کھڑے اثبات میں سر کو جنبش دی اور ہاشم صاحب اور رحمان صاحب اسے تھپکی دیتے چلے گئے۔
رہنماوں کے جانے کے تھوڑی دیر بعد ہی بارش اور کڑک پھر شروع ہو گئی۔ پھر اس نے خواب جیسی کیفیت میں دفتر بند کیا اور برآمدے میں آیا تو وہ ہوا آچکی تھی جو بادلوں کو آگے لے کر جاتی ہے۔ رہنماؤں کے جانے کے تھوڑی دیر بعد ہی بارش اور کڑک پھر شروع ہوئی ۔ پھر اس نے خواب جیسی کیفیت میں دفتر بند کیا اور برآمدے میں آیا تو وہ ہوا آ چکی تھی جو بالوں کو آگے لے کر جاتی ہے۔ برآمدے کے سبز بلب کی روشنی میں اس نے دیکھا کہ کیاریوں میں ایک جگہ سورج مکھی کے پھولوں کی پتیاں تر بتر ہو چکی تھیں کائناتی سطح پر فائز ہونے کے باوجود اس نے سوچا کل وہ مائی کو کہہ کر وہ پودے نکلوادے گا۔ کیونکہ وہ پھول اب بے مو سے ہو چکے تھے۔
پتلا بنانے کا سازو سامان تلاش کرنے میں اسے کسی خاص مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ میلے کچھلے گلے سڑے تکیوں کی کی تھی۔ ایک دفعہ پارٹی کے بینر لگانے کے بعد بانس کی کچھ موٹیاں اس کے قبضے میں آ گئی تھیں جو اس کے کواٹر میں رکھی تھیں۔ پرانے کپڑوں میں سے اس نے سب سے زیادہ پرانے کپڑوں کا انتخاب کیا۔ اس نے ایک موٹی سوئی اور دھاگا بھی لے لیا۔ پھر اس نے چولہے سے تو اتار کر بھی پاس رکھ لیا کہ آنکھوں اور منہ کے نشان بھی تو لگتے ہی تھے۔ ہاشم صاحب کی لا سازی کی ہدایات پر تو وہ ہر طرح سے عمل کر چکا تھا۔
سراج دین نے بانس کی ایک چھڑی اٹھائی جو شاید ٹانگ بن سکتی تھی یا دھڑ کی بنیاد بن سکتی تھی یا دونوں بازوؤں کی علامت بھی بن سکتی تھی۔اس نے گھبرا کر چھڑی واپس رکھ دی۔ اس کا ماتھا پسینے سے بھیگ رہا تھا اس نے پسینه پو نچھا تو اسے خیال آیا کہ پتلے کا ماتھا بھی تو بنتا ہے۔ ہاتھ بھی تو بنتا ہے۔ گردن بھی بننی ہے۔ یہ سب مجھ سے نہیں ہو گا۔ اس نے سوچا اور اسی وقت اچانک اسے یاد آیا کہ رحمان صاحب نے بھی تو کچھ کہا تھا۔ اس کا پتلا بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پتلا بناتے وقت تم اپنی زندگی کے ان سب لوگوں کو تصور میں لانا جن کے متعلق تم نے چاہا تھا کہ انہیں تو بس کھڑے کھڑے ساڑ کے سواہ کردینا چاہئے۔
سراج دین مسکرایا جیسے ذہن پر سے ایک بوجھ اتر گیا ہو۔ یہ تو بڑا آسان سے ہے انہیں دل میں لاتا ہے۔۔۔۔۔ جن سے اتنی نفرت کرتے ہو۔ اتنی نفرت کرتے ہو تمہارے قابو آ جائیں تو بھسم کردو۔۔۔ بس اتنی بات ہے۔ بچین سے شروع کرنا چاہیئے۔ شروع سے شروع کرنا چاہیے۔ ایسے سب لوگ ۔۔۔ وہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک شیطانی خیال اس کے ذہن میں آیا۔ کیا وہ اپنے باپ کو بھی پتلے کے ساتھ آگ کے حوالے کردے؟ پھر اس نے توبہ توبہ کی کانوں کو ہاتھ لگائے اور دوسرے قابل نفرت بھسم کیے جانے کے قابل لوگوں کی نفرت کو جی میں جگانے لگا۔ اسے حیرت ہوئی کہ وہ آرہے تھے مگر اجزا میں کسی کا گدھے جیسا کان، کسی کی موٹی سی گتے کی ناک، ناک کے سوراخ، آنکھیں مونچھیں ۔ میرے خدا مونچھیں ہی مونچھیں اور آنکھیں ہی آنکھیں۔
اچانک سراج دین کو احساس ہوا کہ وہ تو نفرت کے اجزا جگاتے جاتے ہف گیا ہے ادھ موا سا ہو گیا ہے۔ اس کام پر اب اس کا زور لگنے لگا ہے۔ تب اس کے پیٹ نے اسے بتایا کہ وہ تو کب کا بھوکا ہے۔ ساڑ کر سواہ کئے جانے کے قابل لوگوں کو یاد کرنے سے پہلے بھی روئی تو کھا لینی چاہیے۔
پتلے کا کچھ جوڑ جنتر ہونا شروع ہو گیا تھا۔ سراج دین نے محبت سے اسے دیکھا جو فرش پر آہستہ آہستہ شکل حاصل کر رہا تھا۔ وہ اٹھ کر ایک کونے میں گیا جہاں قیمے والے دو نان رکھے تھے
جو دوپہر کو کارکنوں میں تقسیم کیے گئے تھے ۔ نان کھانے اور دو گلاس ٹھنڈا پانی پینے کے بعد وہ پھر سے کام پر آ گیا ۔مگر۔۔۔ کچھ بھی نہ ہوا۔ اس نے پورا زور لگا کے اس آدمی کو تصور میں لانے کی کوشش کی۔ اس واقعے کو۔ جب اسے۔ جب وہ ایک جگہ ملازم تھا اور اسے جھوٹی چوری کے الزام میں پکڑوا دیا۔ اسے تھانے لے جایا گیا اور ساری رات مارا گیا۔ وہ فریاد کرتا رہا واسطے دیتا رہا کہ وہ بے گناہ ہے۔ وہ مونچھیں، وہ آنکھیں، وہ پاؤں، وہ جوتے ۔۔۔۔۔ وہ ٹھڈے۔
مگر کچھ بھی نہ ہوا۔۔۔۔۔ ایک لچکیلا سا غبار تھا جو کسی بھی انسانی عضو کے ذہن میں آتے ہی اس کے اوپر چڑھ جاتا تھا۔۔۔۔۔ شاید نان کھانے سے پہلے ہی بھوکے پیٹ عظیم قابل نفرت انسانی اعضا ذہن میں لالاکر اس نے اپنا دماغ نا کارہ کر لیا تھا۔
یہ پارٹی کے دفتر کی عزت کا سوال ہے سراج دین ہر بڑا کر اٹھا اور اس نے اپنے جسم کو ،سر کو دو تین بار زور زور سے جھٹکے دیئے اس نے پلے کو اس مقام پر رسی سے گرہ لگانے کی
کوشش کی جہاں وہ اس کی پیٹھ ٹھہرانا چاہتا تھا مگر رسی ہاتھ سے پھسل پڑی۔ یہ دفتر کی عزت کا معاملہ ہے۔ وہ بتائیں گے کہ پتلا جو جلایا جا رہا ہے۔ ہمارے دفتر کے پرانے چوکیدار سراج دین نے بنایا ہے۔ سراج دین تیزی سے اٹھا اور کواٹر کی کھڑکی کھول کر اس نے اس باہر برتی بارش کو دیکھنا چاہا۔ مگر اسے دھکا سا لگا۔ وہاں کوئی بارش، بادل، گرج چمک نہیں تھی ۔ پچھلی رات کے آسمان میں چاند تھا۔ جیسے بھی کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ سراج دین نے آگے ۔۔۔۔۔
(2)
خط بنام عظیم دیب صاحب
جان ہی گئے ہو گئے کہ اس خطاب سے تمہیں کون مخاطب کرتا ہے۔ کیا حال ہے۔ کافی عرصے سے نہ تم سے ملاقات ہوئی نہ کوئی اور رابطہ ہوا۔ خط لکھ رہا ہوں ۔ کیا حال ہے ۔ خط اس لیے لکھ رہا ہوں کہ ۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے اس لیے بھی لکھ رہا ہوں کہ ایک ادھوری تحریر، بلکہ ادھوری کہانی تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں ۔ خط لکھتے وقت میری زبان عجیب سی بے قابو ہو جاتی ہے۔ خیر لعنت بھیجو لعنت لعنت لعنت!!!
تو جانی بات یہ ہے کہ تم تو ایسٹبلشڈ ادیب ہو۔ اورپوری پلاننگ سے لکھتے ہو۔ چھپتے ہو۔ اور پھر رونمایئاں کراتے ہو۔ مگر میں صرف اس وقت لکھتا ہوں جب میرے اندر کوئی ادبی قسم کامروڑ اٹھتا ہے۔ مگر بعض اوقات وہ مڑوڑ راہ ہی میں رہ جاتا ہے اور میں صحت یاب ہو جاتا ہوں جیسا اس کہانی کے سلسلے میں ہوا۔ میرا خیال ہے خط آگے پڑھنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ تم وہ تحریر پڑھ لو جو خط کے ہمراہ لف ہے۔ پھر اسی جگہ پر آنا۔
اچھا تو تم نے پڑھ لی۔۔۔ جو بھی یہ چیز ہے۔ میں نے اس کا عنوان سوچا تھا پتلا کہانی۔ مگر اب یہ نا مکمل پتلا کہانی ہے۔
ویسے اس میں بھی جب مزے کی بات ہے۔ کیا یہ نامکمل، پتلا کہانی ہے یا نامکمل پتلا۔ ۔ کہانی کہانی ہے۔ الگ الگ بات ہے یعنی کیا یہ ایک نامکمل پتلے کی کہانی ہے ای ایک پتلے کی نا مکمل کہانی ہے۔ ۔ سوچو، میں کہاں ہوں اور تم کہاں ہو
تو جانی بات یہ ہے کہ میں نے سوچا تو یہ تھا کہ اس کہانی کو مکمل کروں گا۔ سراج دین پتلا بتائے گا۔ اگلے دن رحمان صاحب اور ہاشم صاحب آئیں گے۔ ہاشم سراج پر برس پڑے گا۔
ہر لفظ کے بعد غلیظ ترین گالیاں دیتے ہوئے کہے گا یہ تم نے کیا بنایا ہے۔ اپنی ماں کا ۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ تو کہیں سے انسان کا پتلا بھی نہیں لگتا۔ رحمان صاحب ہنس کر
کہے گا ۔ کہ سراجدین پیکاسو کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے۔ آخر میں فیصلہ یہ کیا جاتا ہے کہ چونکہ وقت محدود ہے اور پتلا جلانا بھی ضروری ہے۔ اس لیے اس کو کچھ نہ کچھ انسانی شبیہ دے کر۔ وقت مخصوص پر نذر آتش کر دیا جائے۔ مگر وقت مخصوص آنے پر پھر مسلسل بارش شروع ہو جاتی
ہے۔ احتجاج درہم برہم ہو جاتا ہے۔ مگر سراج دین ہے کہ اڑا ہوا ہے ڈٹا ہوا ہے کہ پتلا ضرور جلایا جائے گا۔ وہ وہیں سے پٹڑول لاتا ہے اور جب مظاہرین ادھر ادھر دوکانوں کے چھجوں
تلے کھڑے ہیں وہ تیز برستی بارش میں پلے پر پٹرول ڈال کر آگ لگا دیتا ہے ۔ مگر دور کھڑے رہنما حیران ہوتے ہیں کہ باران رحمت میں دھڑ دھڑ جاتا پتلا دلدوز چیخیں کیوں مار رہا ہے۔ اور پھر یہ ایک پتلا ہے یا دو پتلے ہیں وغیرہ وغیرہ تم سمجھ ہی گئے ہو گئے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔
مگر پھر جانی میں نے سوچا کہ یہ انجام تو سیاسی ہو جائے گا اور سیاسی افسانوں سے تم جانتے ہو مجھے نفرت ہے۔ موجودہ صورتحال کی عکاسی کرنے والے افں۔سانوں سے اس سے زیادہ نفرت ہے۔ بلکہ مجھے تو عکاسی سے بھی نفرت ہے۔ تو تم ہی بتاؤ میں کیا کروں۔ ویسے اس افسانے کے یا جو کچھ بھی یہ ہے اور بھی کئی انجام میرے ذہن میں آتے ہیں ۔ مگر تم بتاؤ تم
کیا تجویز کرو گے۔
باقی ادھر خیر یت ہی ہے بس ایک لعنتی سے خلا میں سانس لیتا رہتا ہوں ۔ ویسے حکم یہ ہے کہ بندہ جہاں رہے خوش رہے۔
تو جانی اس تحریر کو دیکھ لینا۔۔۔۔۔ ویسے آپس کی بات ہے اس میں کچھ کمی بیشی کر کے تم کہیں اپنے نام پر بھی چلا نا چا ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ بلکہ خوشی ہوگی۔
باقی یار کچھ مالی حالات بڑے سنگین جا رہے ہیں ۔ پہلے بھی ٹھیک نہیں تھے مگر اب تمہاری بھابی کا پتے کا آپریشن ہونا ہے۔ دوست ہی مدد کر رہے ہیں۔ صدقہ جاریہ ہے۔ متوقع ہوں ۔۔۔۔۔
اور سناؤ پھر ۔۔۔ تمہاری حالیہ کتاب پہلی سے بہتر ہے۔ اجازت دو۔۔۔۔۔
تمہارا اپنا
مکمل نامکمل پتلا
.
نے لکھے۔ کب لکھے۔
(3)
دنیا میں کتنی ہی جگہوں پر جلے ہوئے کاغذ ملتے ہیں ۔ کس نے لکھے۔ کب لکھے۔ کیوں لکھے اور کیوں جلائے ۔ کوئی نہیں جانتا۔