پتھر کی بریل ۔۔۔ مرزا اطہر بیگ

پتھر کی بریل

( مرزا اطہر بیگ )

یہ اس وقت کی بات ہے جب میں اندھیرے کی دنیا کا خوگر ہو کر تاریکیوں سے اتنا مانوس ہوچکا تھا کہ روشنیوں اور سایوں کے ماضی سے اجالے کی کوئی مدھم سی کرن یا رنگ کی کوئی دھندلی لہر بھی کبھی میرے تاریک شعور کیبوجھل شانتی کو غارت نہیں کر پاتی تھی۔

میں اندھیروں کی تہوں میں سرکتا پھرتا ایک اندھیرا تھا مگر مختلف ! ارکھنا چاہتا تھا۔.

. میں چاہتا تھا کہ میری اپنی تاریکی کی دیواریں تحلیل نہ ہو جایئں اور میں کہین دوسری تاریکی میں ہمیشہ کے لیے گم نہ ہو جاوں۔ .

میں اس نابینا فن میں طاق ہو چکا تھا جو تاریکی کو تاریکی سے جدا کرتا ہے. اندھیرے کو اندھیرے سے کھینچ نکالتا ہے روشنی کا محتاج نہیں ہوتا اجالے کی بھی نہیں مانگتا/ یہ مشکل ہے آہ۔. میرے لئے سمجھانا اور ان لوگوں کے لیے سمجھنا جو میرے اردگرد کہیں ہیں اور نہیں جانتے کہ میں جانتا ہوں کہ وہ کہاں ہیں. وہ سب اندھیرے اپنے اندھیرے میں ہیں۔.

ایسے ہی لمحات میں جب کبھی کمرے کی خاموشی میں بریل کے سر سراتے ذروں   جیسے لفظوں سے انوکھے تصوروں کے نقشے بناتے بناتے اچانک میرے وجود کے سرے میرے ہی ہاتھ آنے سے گریزاں ہونے لگتے اور شعور کی لکیروں کے نقشے بناتے بناتے اچانک میرے وجود کے سرے میرے ہاتھ آنے سے گریزاں ہونے لگتے ملک خاکے پر نمایاں ہونے کی بجائے صحیح چلے جاتے اور جب میرے لیے یہ تعین کرنا مشکل ہو جاتا ماور شعور کی لکیروں کے گنجلک خاکے سنبھل کر نمایاں ہونے کی بجائے الجھتے ہی چلے جاتے اور جب میرے لیے یہ تعین کرنا مشکل ہو جاتا کہ میں کہاں تک ہوں اور کہاں تک نہیں ہون۔ کہاں سے سروع ہوتا ہوں اور کدھر ختم ہوتا ہوں تو ایک وحشت مجھے آن گھیرتی ۔ میرا نابینا فن برباد ہونے لگتا اور میں اپنی سفید چھڑی ہاتھ میں تھام کر کمرے سے باہر چاروں طرف پھیلی آوازوں کی دنیا کی سمت چل کھڑا ہوتا۔

میں سڑکوں، گلیوں، بازاروں اور چوراہوں میں۔ فٹ پاتھوں پر۔ بند دروازوں اور ادھ کھلی کھڑکیوں کے سامنے اور ہر اس جگہ جہاں دونوں پاوں جمائے اور پھر ایک ایک کر لے اٹھائے جا سکتے ہین اپنے آپ کو موجود کیا کرتا تھا۔ میں تاریکی کے سمندر میں تیرتی ایک کشتی کی مانند تھا جس کے گرد آواز کی لہریں اور شور کے گرداب چکراتے تھے اور یوں مین ہر دم اپنے جسم کی حدود سے آگاہ رہا کرتا تھا۔

یہ اسی وقت کی بات ہے جب بریل میں میری دلچسپی کم ہونے لگی تھی اور آوازوں کا شغف جنون کی حدوں کو چھونے لگا تھا۔ بریل کے ذروں میں سرسراتی کتابیں مجھے بیزار کرنے لگیں۔ آوازیں مجھے اپنے بہت قریب اور لمس بہت دور محسوس ہوتے تھے۔ شور و غوغا کے گھنے جنگلوں میں ، میں اپنے دونوں کان تانے مدہم سرگوشیوں کا شکار کیا کرتا تھا۔

آہٹیں، سرسراہٹیں، آوازیں، انسانی، حیوانی، میکانکی، برقیاتی آوازیں  اور باتیں، ہنستی روتی۔ کراہتی، چیختی۔ جم غفیر سے ابھرتی اور ڈوبتی باتیں۔ محبتوں اور نفرتوں ، لذتوں اور اذیتوں ، علموں اور جہالتوں کی باتیں میرے تاریک جسم کے تاریک خاکے کو اپنی حفاظتی لہروں کے غلاف میں لپیٹ لیتیں اور مجھے دوسری تاریکی میں گم ہو جانے سے بچا لیتیں۔ مجھے ایک کئے رکھتیں اور میری چھڑی کی نوک زمین کے سینے پر تالی بجا کر مجھے آگاہ رکھتی کہ میں دوسرے اندھیروں میں وہیں ہوں جہاں مجھے ہونا چاہیے۔ اندھیرا دن شور شرابے ہا ہا کار سے لدا پھندا اندھیری شام کے غل غپاڑے میں ڈھلتا آخر اندھیری رات کے سناٹے کو راہ دیتا تو میں ادھ کھلی کھڑکیوں ، روزنوں، اور شگافوں سے مفرور آہٹوں کو فی ا لفور اچک لینے کے لیے بےتاب ہو جاتا اور میرے کان سرگوشیوں کی بھوک سے دیوانے ہو نے لگتے۔ سرگوشیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔

” آج کے بعد کل۔کل کے بعد ایک اور کل۔ اور پھر یہ دو کل، جس کے بعد کوئی کل نہیں۔ “

” کل کل ۔۔۔ کل کل ۔۔۔”

” ہنس رہے ہو۔ “

” ہاں تم ہمیشہ ایسی باتیں شروع کر دیتی ہو۔ عجیب باتیں۔ “

” عجیب بات ہے واقعی ۔ “

” یہ صابن مجھے زہر لگتا ہے جسے تم روز استعمال کرتی ہو اور جب ہمیں ملنا ہوتا ہے۔”

” کیوں تمہیں کیا ہوتا ہے۔ “

” اسکی خوشبو ہمارے درمیاں غلاف بنا لیتی ہے۔ ہماری ۔۔۔ قربت کے درمیان ۔۔۔۔ “

” یہ دو سانپوں کی قربت ہے۔ ایک دوسرے سے لپٹے دو سانپ ایک دوسرے کا زہر کاٹ رہے ہیں۔ “

” سانپوں کا ذکر نہ کرو۔ مجھے سانپوں سے خوف آتا ہے۔ “

” تم کانپ رہے ہو۔ تمہیں سردی لگ رہی ہے۔ “

” نہیں۔ کمرہ تو کافی گرم ہے۔ تم کیا ٹٹول رہی ہو۔ بستر پر کیا ڈھونڈ رہی ہو۔ ؟ “

” کوئی تنکا ہے یا کوئی ذرہ، کسی سخت سی چیز کا۔ مجھے دیکھ رہا ہے بار بار۔ ڈھونڈ رہی ہوں۔ “

” روشنی کر دوں ؟ “

” نہیں۔ اندھیرا بہت ضروری ہے۔ اندھیرے میں صرف خوشبویں باقی رہ جاتی ہیں  اور ہمارے جسم اور پھر وہ بھی نہیں رہتے۔ ۔۔ ایک بات بتاو۔ “

” کیا ۔۔۔ آ ۔۔۔آ۔۔ “

” اگر سانپ ایک دوسرے کو ڈس لیں تو کیا دونوں مر جایں گے ؟ “

” میں آج تک تمہاری ایسی فضول باتیں نہیں سمجھ سکا ۔۔۔ آ ۔۔۔ آ “

” اپنا آپ سنبھالو۔ میں آج پیچھے رہ جانے کے موڈ میں نہیں ہوں۔ “

” اچھا ۔۔۔ آ ۔۔۔ آ۔۔۔ تم ہنس کیوں رہی ہو ؟ “

” مجھے اپنے ماں باپ یاد آ گئے۔ میرا ذہن یہ بات مانتا نہیں ۔ کبھی وہ اندھیرے میں لپٹتے سانپ بنے ایک دوسرے کا زہر کاٹتے ہوں گے۔ کیا ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ ؟ “

” سو فیصد۔ تم خود اس بات کا کئی بار اقرار کر چکی ہو۔ “

” اٹھانوے فی صد۔ ”

” تم پھر ہنس رہی ہو۔ ایسا نہ ہو کہیں میں ۔۔۔۔ “

” کوئی بات نہیں۔ محبت کی خاطر میں پیچھے بھی رہ سکتی ہوں۔ کیا ہم محبت کرتے ہیں ؟ “

” کیا تمہیں یقین نہیں ؟ “

” ہاں۔ جب ذہن پگھل کر قطرہ قطرہ دل پر ٹپکتا ہے تو میرا جسم تمہارے جسم کی طرف بہنے لگتا ہے ۔ کیا جسموں کے خلا پالنا محبت ہے ؟ “

” ہوں۔ ذرا الگ ہٹو۔ چادر با لکل اکٹھی ہو رہی ہے۔ “

” ایسے ہی کبھی میرے ماں باپ نے مجھے بتایا تھا اور تمہارے ماں باپ نے تمہیں تاکہ ہم ایک اور ‘ میں’ بنا سکیں۔ لیکن ہم ماں باپ تو نہیں۔ ۔۔۔۔ ہم سے آگے موت ہے۔ موت میری نسوں میں دوڑتی ہے۔ سانپ ایک دوسرے کو ڈس لیتے ہیں تو مر جاتے ہیں۔ “

” یہ تمہیں کیا ہو رہا ہے۔ ہمیشہ تم ایسی بکواس باتیں شروع کر دیتی ہو۔ تم خاموش نہیں رہ سکتیں۔ “

” میں خاموش ہوں۔ ‘

” آئی ایم سوری “

” میں خاموش ہوں ‘

” تم اپنے ڈاکٹر سے ملی تھیں ؟ “

” ہاں ۔ اسنے مجھے ٹرنکو لائزر کھانے اور نماز پڑھنے کا مشورہ دیا تھا۔ “

” تو پھر ؟ ‘

” میں نے ٹرنکولائزر کھائے مگر نماز نہیں پڑھی۔ “

” اسے بتایا ؟ “

” نہیں۔ اسے بتاوں گی تو مجھے سنگسار کر دے گا۔ “

” کیسی بات کرتی ہو تم۔ کیسی بات کرتی ہو ۔۔۔ او ۔۔۔ او۔۔۔۔ “

” سنو۔ کیا واقعی کبھی کسی کو ایسے سنگسار کیا گیا ہو گا ؟ “

” مم ۔۔۔ مجھے ۔۔۔ پتہ نہیں ۔۔۔ ہو سکتا ہے ۔۔۔ “

” پتھر کی ایک ایک چوٹ مین انہوں نے ایک دوسرے کی موت کا ذائقہ چکھا ہو گا۔ “

” بس کرو۔ بند کرو۔ یہ بکواس بند کرو۔ “

” ہاں تمہارا وقت قریب آ رہا ہے۔ میرا وقت قریب آ رہا ہے۔ یہ ساعت مرگ ہے۔ پتھر کی آخری چوٹ کے بعد وہ کل کبی نہیں آئے گا جس کے بعد کوئی کل نہیں۔ “

” خاموش رہو۔ پاگل عورت خاموش رہو۔ “

” تمہارا جسم کانپ رہا  ہے۔ تمہیں سردی لگ رہی ہے۔ “

” اندھیرا ختم کردو۔ روشنی، روشنی کرو ۔۔۔ بند کرو۔ “

” کیا تم ۔۔۔”

” نہیں۔ نہیں۔ مت پھینکو۔ ۔۔۔ کون ۔۔۔”

” کون۔ کیا ہوا۔ تمہیں کیا ہوا۔ تمہیں کیا ہو رہا ہے۔ میرے خدا تمہاری تو کھال پھٹ رہی ہے۔ جگہ جگہ ۔ او خدایا تمہیں کیا ہو رہا ہے ؟ “

” تم تو پتھر پھینک رہی ہو۔ آ ۔۔۔  اف ۔۔۔ پتھر پتھر۔۔۔ میرا سر پتھر ۔۔۔میرا بازو پتھر ۔۔۔ ظالمو۔ درندہ۔ وحشیو۔ پتھر نہ پھینکو۔ میں مر جاوں گا ۔۔ رک جاو۔۔ او ۔۔۔ او ۔۔۔آ ۔۔۔ آ ۔۔۔ آ ۔۔۔آ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور میرے کان سرگوشیوں کی بھوک سے دیوانے ہونے لگتے۔ سرگوشیاں کراہوں میں بدلتیں اور کراہیں چیخوں مین۔ اور پھر وہ آخری چیخ جو اندھیرے مین شگاف ڈال کر اسے ریزہ ریزہ کر دیتی۔ تاریکی ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی۔

آہ۔ نہ ہی میں انہیں سمجھا سکتا ہون نہ ہی وہ سمجھ سکتے ہیں وہ جو اندھیرے کو اجالے سے پہچانتے ہین۔ تاریکی کو روشنی سے جانتے ہیں۔ جب ظلمت پاش پاش ہوتی ہے اور سیاہی کی بوچھاڑ سنگریزوں کی طرح تاریکی کی تہوں میں پھیلتی سکڑتی تہوں میں پھسلتے دھنستے

وجود پر برس جاتی ہے۔

سیاہ دھوپ میں سیاہ بادل آتے یں۔ اور کالی بارش اندھیر برستی ہے۔ اور لچکیلی نرم سیاہ تاریک سرنگوں میں پھسلتے وجود تاریک سیال اگل دیتے ہیں۔ تاریکی میں تاریکیپھیل جاتی ہے اور پھر جڑ جاتی ہے۔ اور ایک تاریکی آگے بڑھ آتی ہے۔ آہ۔ نہ ہی میں انہیں سمجھا سکتا ہوں اور نہ ہی وہ سمجھ سکتے ہیں۔

اور یہ بات اس وقت کی ہے جب آواز بھی مجھ سے چھن گئی۔ میرے شور مردہ ہو گئے۔ باتیں خاموش ہو گیئں ۔ سرگوشیاں دم توڑ گیئں۔

اس لمحے ار یہی وہ لمحہ تھا۔ اتھاہ تاریک لمحہ۔۔ اندھیری ساعت ۔۔ کالی گھڑی ۔۔وقت۔۔ سیاہ وقت ۔۔ تاریک خلا میں بہتا وقت۔

اس لمحے میں ایک نامعلوم شاہراہ کے کنارے کھڑا ہاتھ پھیلائے کسی رہنما ہاتھ کا منتظر تھا کہ وہ مجھے کسی دوسری نا معلوم شاہراہ تک لے جائے۔ میرے لیے مشفق ہاتھوں کی کبھی کوئی کمی نہ رہی تھی۔ ان گنت ہاتھوں کی نرم ۔ سرد ۔ گرم ۔ کھردری ۔ مضبوط ۔ کمزور ۔ کپکپاتی ۔ بھیگی ۔ خشک گرفتیں مجھے راہ دکھانے کے لیے ہر موڑ پر منتظر رہا کرتی تھیں۔

اور پھر وہ لمحہ اور وہ ہاتھ

مجھے یاد ہے کہ میں نے اس سے کوئی بات کی تھی۔ میں ہمیشہ اپنے مہربانوں سے کوئی نہ کوئی بات ضرور کیا کرتا تھا۔ تو میں نے اس سے کوئی بات کی اور وہ حیرتناک واقعہ رونما ہوا۔ میں نے اس کا ہاتھ تھاما تھا یا اس نے میرا، میں نہیں جانتا لیکن وہ ایک مجنجمد یخ بستہ ہاتھ تھا۔ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ اس کی استخوانی انگلیوں نے کچھ تھام رکھا ہے جسے میرا ہاتھ تھامتے ہی اس نے مجھے تھما دیا۔ کچھ سخت۔ بھاری اور اس کے ہاتھ جیسا ہی منجمد۔ ایک لمحے کے لیے تو مجھے احساس ہی نہ ہوا کہ وہ اس کے ہاتھ کا حصہ ہے یا کچھ اور ہے۔ لیکن پھر دوسرے ہی لمحے اس کی استخوانی انگلیاں میرے ہاتھ کی گرفت میں ایسے معدوم ہویئں کہ جیسے کبھی وہاں تھیں ہی نہیں۔ انگلیوں کی ہڈیون پر مڑھی کھال ہوا میں تحلیل ہو چکی تھی اور منجمد یخ بستہ تاریکی کا وہ پتھر ٹکرا میری ہتھیلی پر بھاری رکھا تھا۔ میں نے ایک وحشت کے عالم مین تیزی سے اپنے دوسرے بازو کو حرکت دی تاکہ اس سرد ہاتھ والے کو چھو سکوں۔ کوئی نہیں تھا۔ میں چاروں طرف دیوانہ وار گھوم گیا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ سناٹا تھا۔

میں نے ہتھیلی پر بوجھل رکھے تاریکی کے ٹکڑے پر انگلیوں کی گرفت واپس لانے کی کوشش کی تو میرے پوروں کی مشاق لمسی آنکھیں اس گاڑھے چمچماتے سیال پر گھل گیئں جو منجمد تاریکی کے اس ٹکڑے کو تر کر رہا تھا اور ایک ہی لمحے میں انہوں نے دیکھ لیا( آہ ۔ ” دیکھنا ” ) کہ وہ تازہ انسانی خون تھا۔

لیکن افسوس میں بتا نہیں سکتا۔ نہ میں سمجھا سکتا ہوں نہ وہ سمجھ سکتے ہیں نہ وہ جان سکتے ہیں کہ اندھیرے کو اندھیرے سے جاننے والے کی وحشت کیا ہوتی ہے۔ وہ کیسا رونگٹے کھڑے کر دینے والا خوف ہے جو تاریکی میں سرکتے پھرتے تاریک وجود کو گھیر لیتا ہے۔ جب اس کی تاریکی کی حدود لا محدود دوسری تاریکی سے ایک ہونے لگتی ہیں۔ میں بتا نہیں سکتا۔

میں زور سے چیخا اور مجھے افسوس ہوا کہ میری اپنی آواز میرے کانوں تک نہیں پہنچ رہی۔ پھر ایک جنون کی کیفیت میں ، میں اپنے جبڑوں اور زبان کو حرکت دیتا چا گیا مگر عضلات کی لرزش کے سوا کچھ محسوس نہ کر سکا۔ وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ سناٹا تھا اور ہاتھ میں دبوچا ہوا انسانی خون سے تر تاریکی کا پتھر ٹکڑا تھا۔ بوجھل۔ وزنی۔ ناقابل برداشت۔

اور پھر وہ آئے۔ پہلا۔ دوسرا۔ تیسرا۔ آگے سے۔پیچھے سے۔ اوپر سے۔ نیچے سے اور پھر میں نے ان کی آواز سنی۔ میں نے، جس کے کان اس کی اپنی چیخ سننے سے عاری تھے۔ مکمل سناٹے میں ان کی وُوُش ۔ وُوُش کی آوازیں سننے لگے اور وہ آئے۔ نوکیلے۔ کھردرے۔ سخت۔بھاری۔ بہت بھاری۔ چٹانی۔ اینٹ کے ٹکڑے۔ اور کبھی محض ڈھیلے۔ اور پھر اتنے تیز دھار اور وزنی کہ ایک ہی ضرب میں  ۔۔۔۔ آہ میں بتا نہیں سکتا سوائے اس کے کہ اسی لمحے میرے جسم کے ہر مسام میں میرے پوروں کی آنکھیں کھلنے لگیں اور میں پتھر کی بریل میں لکھی صدیوں کی کتاب پڑھتا چلا گیا ۔۔۔۔۔

نابینا لسانیا کی کلاس کے آخر میین ڈ اکٹر فنگوش نے کہا، ” کوئی سوال ؟ “

بنسیرو نے ہاتھ اٹھایا، ” سر میرا ایک سوال ہے”

” پوچھیں “

” سر کیا اندھے خواب دیکھتے ہیں ؟ “

” آ ۔۔۔۔ ہیں۔ ایں آں۔ دراصل۔ فعل دیکھنا کسی سطح پر بھی اندھوں کے بیانیے سے متعلق نہیں ہو سکتا۔ “

” تو سر۔ پھر اندھے خواب نہیں دیکھتے۔ “

” نہیں۔ وہ صرف خوابتے ہیں۔ نابینا لسانیات ایک نیا ڈسپلن ہے۔ شروع شروع میں ایسے مسائل پیدا ہوں گے۔ جیسے خوابنا ایک مسئلہ ہے۔ “

” تو آخر میں سر۔ کیا سب مسائل حل ہو جایں گے ؟ ” پیلاس نے پوچھا

” یقیننا۔ ” ڈاکٹر فنگوش نے کہا اور کلاس کو ڈس مس ہونے کا اشارہ کیا۔

کلاس سے نکلتے وقت پنسیرو نے پیلاس کو دیکھا کہ وہ اس سے کچھ گریزاں سا نظر آ رہا تھا۔ پھر اس نے کہا۔

” پیلاس میں چاہتی تھی ہم کہیں بیٹھیں۔ مگر شاید تم بھاگنا چاہتے ہو۔ کیا بات ہے پیلاس۔ کلاس میں بھی تم آج میرے قریب نہیں بیٹھے۔ جیسے میں کوئی سانپ ہوں۔ “

” سپنی” پیلاس ہنسا، ” میرا خیال ہے میں ہمت کر کے تمہیں بتا ہی دون ۔ یہ کوئی خوشبو ہے جو تم استعمال کرتی ہو۔ “

” میں کوئی خوشبو استعمال نہیں کرتی۔ مگر۔ شاید یہ اس صابن کی خوشبو ہے جو میں کبھی کبھی استعمال کرتی ہوں ۔ “

” بس یہی خوشبو تمہارے اوپر ایک غلاف بنا لیتی ہے اور مجھے تمہارے قریب نہیں بیٹھنے دیتی۔”

” بس اتنی بات۔ ” بنیسر قہقہے لگاتی ہے اور پھر ایک دم خاموش ہو جاتی ہے، ” پیلاس ایک بات بتاو”

” ہوں “

” اگر سانپ، سانپ کو کاٹ لے یا پھر دونوں ایک دوسرے کو کاٹ لین تو کیا دونوں مر جایں گے۔ ؟ “

پیلاس نے عجیب سی نظرون سے بنسیرو کی طرف دیکھا اور کچھ کہے بغیر ایک طرف چل پڑا، ” پتہ نہیں کیا بکواس کرتی رہتی ہے” وہ بڑ بڑایا۔

بنسیرو عمارت سے باہر آ گئی۔ صبح سے ہونے والی بارش رک چکی تھی۔ بادل چھٹ چکے تھے اور سہ پہر کی دھوپ آدھے آسمان کو عظیم دائرے میں کاٹتی قوس قزح بنا رہی تھی۔ بنیسر مسکرائی اور رنگوں کو پہچاننے لگی۔ سرخ۔نارنجی۔پیلا۔سبز۔ نیلا۔ ارغوانی۔ بسنتی ۔۔۔۔۔ سرخ۔ پیلا۔ نیلا۔سبز۔ بسنتی۔ارغوانی۔ نارنجی۔ سبز ۔۔۔۔ نیلا ۔۔۔۔۔

.

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031