پچاس منٹ ۔۔۔ مصباح نوید
پچاس منٹ
مصباح نوید
سفید براق کپڑے، سِتواں ناک پر پسینے کے قطرے، نرس نسرین افضل درد ِ زہ میں مبتلا زچہ کا ایک ہاتھ تھامے دوسرا اسکے پیٹ پر رکھے ہوئے ، دھیمی آواز میں ہدایت دے رہی تھی، ” لمبے سانس لیں “۔ درد کا بہاو تیز ہوتا تو سخت گرفت میں نسرین کو اپنے ہاتھ کی ہڈیاں چٹختی محسوس ہوتیں۔ رات کی ڈیوٹی کرنے کا معاوضہ تو زیادہ ملتا لیکن رتجگے کے ساتھ کام کا بار بھی زیادہ ہوتا تھا، نومولود دن کی روشنی میں ماں کے پیٹ سے باہر نکلنے سے کتراتے۔ زیادہ بچوں کی پیدائش رات ہی میں ہوتی۔ آج بھی نسرین نے دو گل تھوتھنے گلابی فراک پہنا کر چادر میں لپیٹ کر پھیلے ہوئے ہاتھوں پر رکھے تھے۔ نسرین نے جھجکتے ہوئے کسی موہوم امید پر مبارک کہا تو جواب میں جھینپی مسکراہٹ کے ساتھ مری ہوئی آواز میں خیر مبارک سنائی دیا۔
نہ پرس کھلا نہ نوٹ نکلے۔ سواگت کو آنے والے پھاہے کی طرح تسلی کے حروف ایک دوسرے کے نظر نہ آنے والے زخم پر رکھتے رہے۔
” خدا کی رحمت ہے ” اور بیٹی والوں کا گھر جنت میں کنفرم بھی کیا جاتا رہا۔
دعا ایک ٹھنڈی لمبی سانس کے ساتھ آہ کی صورت دی جاتی کہ ، ” رب نصیب اچھے کرے۔ “
درد سپھل ہوا۔ نسرین نے بچہ باپ کی بانہوں میں دے دیا۔ بیٹے کی آمد کی خوشی میں باپ نے سارے سٹاف میں لال نوٹ بانٹے۔ نسرین نے ہاتھ بڑھا کر نوٹ پکڑے اس سے پہلے کہ ہاتھ میں دوسروں سے زیادہ آئے ہوئے نوٹوں کو جانچ لیا جائے، پھرتی سے نوٹ رول کر کے چھوٹے پرس کی اندرونی جیب میں رکھ کر زپ بند کر دی۔ ان نوٹوں نے نسرین کی ڈِم ہوئی توانائی کو دوبارہ چارج کر دیا۔ اجلی رنگت سرو قامت نسرین نے لپک چھپک مریضوں کے چارٹ، ڈے ڈیوٹی پر آنے والے سٹاف کو سونپے۔ نرسنگ روم میں جا کر الماری سے اپنی سیاہ چادر نکالی۔ ایک جھٹکے سے کہ جس نے سارے تن کو ایک ہلورا سا دیا، تہہ کھول کر چادر اوڑھ لی۔ چادر کے پلو کو سر اور گردن کے گرد گھما کر ایسا منڈاسا لگایا کہ سوائے آنکھوں کے چہرے کا کوئی حصہ نظر نہیں آ رہا تھا۔
بیگ کندھے سے لٹکا کر تیز قدموں سے ہسپتال سے باہر کی راہ لی۔ قدموں کی گنتی تو بھول جاتی تھی لیکن ہمیشہ پچاس منٹ بعد اپنے گھر کے سامنے ہوتی تھی۔ سارے راستے خود ہی سے ہم کلام رہتی۔ نسرین کا تو اپنا آپ بھی اس کی نہیں سنتا تھا۔ لیکن پھر بھی بولتی رہتی۔ لمحہ موجود، گذرے دنوں کے حساب اور آنے والے دنوں کی پیمائش کے بیچ پنڈولم کی طرح جھولتا رہتا۔ قدم بڑھتے گئے۔ ” آج رکشے پر گھر چلی جاتی ہوں ‘ نسرین نے سوچا لیکن پاس سے گذرتے رکشوں کی پھٹا پھٹ ان سنی کیے آگے بڑھتی گئی۔ ” بیٹیوں کے نصیب خدا اچھے کرے لیکن نصیب والوں کے گھر بیٹے پیدا ہوتے ہیں۔ ” کسی با نصیب کے عطا کردہ نوٹ نسرین کے پرس کی کوکھ میں کلبلا رہے تھے۔ ” آج بچوں کے لیے کچھ فروٹ لے جاوں گی۔”
شادی کے بعد اوپر تلے تین بچے پیدا کر لیے۔ سوچا کہ اکٹھے پل جایئں گے۔
” توجہ، پیار تو امیروں کے چونچلے ہیں یہاں ضرورتیں ہی پوری ہو جایئں تو بڑی بات ہے۔ ” ساس، بن بیاہی نندیں بچے سنبھال لیتیں۔ چیت کا ماہ تھا۔ سورج کی چمکیلی دھوپ چھایا سمیٹ رہی تھی۔ ابھی ہوا میں دہکتی آگ کا سا سیک نہیں تھا۔ پھر بھی پسینہ گردن سے پھسلتا ریڑھ کی ہڈی پر سے سانپ کی طرح سرسراتا ہوا پمپ شوز میں پھنسے ہوئے پیروں کی ایڑیوں میں لپکتا۔
” دھی رانی تیرے سر دا سایئں جیوے۔ رزق میں برکت ہوئے۔ ” سڑک کنارے فٹ پاتھ پر بیٹھے فقیر نے ہانک لگائی۔ رزق میں برکت کی امید نے نسرین کا پرس کھلوا دیا۔ بنا بولے ایک نوٹ نکال کر فقیر کے ہاتھ پہ رکھا۔ ” میرے لیے جو رزق مانگتا ہے اپنے لیے مانگ، ہم جیسوں کے سامنے ہاتھ کس لیے پھیلاتا ہے۔ ” نسرین نے دانتوں سے اپنا نچلا ہونٹ کاٹتے ہوئے سوچا۔ فٹ پاتھ پر خوانچے والے سبزی پھل سجائے ان پر پانی کے چھڑکاو میں مصروف تھے۔ ہر ایک نے بوہنی کی امید میں سر اٹھا کر نسرین کی طرف دیکھا۔
نسرین نے مختلف ریڑھیوں پر کھڑے ہو کر بھاو تاو کیا۔ کہیں پھل پسند نہیں آیا تو کہیں قیمت۔ بچوں کی آوازیں کان میں گونج رہی تھیں ، ” ماما ! مود کھاوں کا۔ ما ما !۔ تیلا لیکر آنا۔ ” نسرین نے اپنے مچلتے دل کو سمجھایا، بچوں کا کیا ہے کھٹی میٹھی ٹافیوں ہی سے بہل جایئں گے۔ افضل کی تنخواہ سے تو کرایہ اور بل ہی پورے ہوتے ہیں۔ اتنا مہنگا پھل لینے کی کیا ضرورت ہے۔ جی کڑا کئے نسرین آگے بڑھ گئی۔سڑک سے اتر کر اندر گلیوں کا سفر شروع ہوا۔
شہر کے وسط میں یہ پرانا محلہ پیٹ کی انتڑیوں کی طرح گنجلک اورگندگی سے بھرا تھا۔ دروازوں کے سامنے سے گزرتی ہوئی گندے پانی کی نکاس کی نالی پر بیٹھے چھوٹے بچے رفع حاجت میں مصروف تھے۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر اڑتے شاپر، پھٹے ادھ کھلے لفافوں سے جھانکتے سینیٹری پیڈ۔ ناک سے چادر کھسکا کر نسرین نے ذرا اطمینان کا سانس لیا۔ سامنے سے آتا ہوا ایک چمرخ سا مرد اپنا بایئاں ہاتھ قمیض کے دامن کے نیچے کیے زیر ناف کھجلائے جا رہا تھا۔ نسرین کو دیکھتے ہی دوسرے ہاتھ سے اپنی باریک ٹھوڑی تک لٹکی ہوئی مونچھ مڑورنے لگا۔ نسرین کو اس کی مونچھیں دیکھ کر خیال آیا کہ گھر میں چوہوں کی بہتات ہو گئی ہے۔ کونوں کھدروں الماریوں میں ان کی لہراتی ہوئی دمیں نظر آتی ہین۔
گلی کے نکڑ پر ایک کھوکھا نما کریانہ کی دکان تھی۔ دکان کی چوکھٹ پر کھڑے ہو کر نسرین نے پوچھا، ” بائی ۔ چوہے مار گولیاں مل جایئں گی ؟ ” پھر کچھ یاد آیا تو چکنی ملائم دودھیا جلد والی ماڈل کی تصویر والا صابن اور ٹوتھ پیسٹ بھی لے لیا۔ شاپر ہاتھ میں لٹکائے پشیمان سی بتدریج تنگ ہوتی ہوئی گلی میں سے گزرنے لگی۔ اب تو پرس میں ایک ہی نوٹ رہ گیا تھا۔ ” افضل سچ ہی کہتا ہے کہ تیرے ہاتھوں میں سوراخ ہے۔ پیسہ ٹکتا نہیں۔ ” ۔۔۔۔ اچھا کرتا ہے تنخواہ ملتے ہی پرس سے نوٹ تو کیا سکے بھی چھان لیتا ہے۔ دکاندار کی نظریں دیر تک نسرین کی چادر تلے نظر آتے بھاری سرینوں کے زیر و بم پر ہچکولے کھاتی رہیں۔ نسرین موڑ مڑ گئی۔ نیلگوں آسمان رنگین پتنگوں سے سجا تھا۔ بجلی کی تاریں گچھوں کی صورت دیواروں پر سے گزر کر چھتوں پر ڈھیر تھیں۔ آکاش پر کوئی پتنگ کٹ کر بے آسرا سی ہو کر کپکپاتی تو سوکھی ٹانگوں پر لمبے جانگیے چڑھائے ہوئے لڑکے ڈولتی پتنگوں کے پیچھے تاروں کو پھلانگتے ، آپس میں ملی ہوئی چھتوں کو جدا کرنے والی چھوٹی دیواریں پار کر کے دوسری چھت پر جا پہنچتے۔ باریک گڈی کاغذ چھینا جھپٹی میں لیر و لیر ہو جاتا۔ ایک دم بو کاٹا کا شور اٹھا۔ سایئکل سوار کی نظریں آسمان پر پتنگوں کے تعاقب میں تھیں۔ سایئکل سامنے سے آتی گول گپوں کی ریڑھی سے جا ٹکرائی۔ مٹی کا آبخورہ ایک طرف کو چھلکا۔ کھٹا پانی چھپاکے سے باہر گرا۔ ریڑھی والے نے جلدی سے مٹکی کو سیدھا کیا۔ قے کی طرح منہ سے گالی نکالی ۔۔۔” اوہ تیری پین ۔۔۔”
سایئکل سوار کی ایک ٹانگ سایئکل کے نیچے اور سر گندے پانی میں تھا۔ سنبھل کر اٹھنے اور سر کو ریڑھی کے نیچے سے نکالنے کے دوران نسرین پر نظر پڑتے ہی زیادہ دل جمعی سے ” تری ماں، تری پیں ” کی تکرار ہونے لگی۔ نسرین نے گڑ بڑا کر اپنا چہرہ چادر کی اوٹ میں چھپایا۔ سرمئی آنکھیں شکاریوں کے چنگل میں آئی ہوئی ہرنی کی طرح ہراساں تھیں۔ نالی کے ابلتے گندے پانی سے اپنے جوتوں کو تو بچا لیا لیکن مٹکی سے اچھلتے پانی نے اس کی سفید یونیفارم داغدار کردی۔ نسرین گلیوں کے پیچ و خم میں پھرکی کی طرح گھومے جا رہی تھی۔ ” بلو رانی کہو تو اپنی جان دے دوں ‘ نسرین نے مکان کی دیوار کے ساتھ لگ کر اپنے کندھے کو غفورے کے کندھے کی رگڑ سے بمشکل بچایا۔
کالی گھنیری مونچھوں، دراز قامت گہری سانولی رنگت والا غفورا بس سروس میں ڈرایئور تھا۔ اس کا ڈیوٹی پر جانے کا وقت اور نسرین کا ڈیوٹی سے آنے کا سمے انہی گلیوں میں کسی تنگ موڑ پر آپس میں لمحہ بھر کو ٹکراتا تھا۔
باریک لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ لیے، میلے کچیلے مکان کے پھٹے پرانے دروازے کا ایک پٹ کھولے، نور محل گلی میں جھانک رہی تھی۔ ہلال ِ نو جیسی بھنویں، تازہ ڈائی کیے ہوئے بال جن کی سیاہی ماتھے اور کانوں کے کناروں پر بھی نمایاں تھی۔
نور محل کی نگاہوں نے گلی کے موڑ پر ہوتا ہوا ٹکراو دیکھا تو طنزیہ ہنسی کے ساتھ ” شاوشے” کی گونج سارے محلے کے کواڑوں پر دستک دینے لگی۔
نسرین کی چادر کندھوں سے ایسے ڈھلکی ہوئی تھی جیسے لمبی اڑان کے بعد پنچھی کے پنکھ ہوں۔ پاوں بھنبھیری بن گئے۔ کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالی۔ وقت اور قدموں کی دوڑ میں پچاس منٹ کا سنگ میل کہیں پیچھے رہ گیا تھا۔ لیکن دھرتی پر اٹھتے رکھتے قمدوں کی ان گنت گنتی باقی تھی۔