چندن راکھ ۔۔۔ مصباح نوید
چندن راکھ
مصباح نوید
ایکٹ ۔۔ 1
صحن میں تنہا ایزی چیئر پرنیم دراز آکاش پر ٹمٹماتے تارے گن رہی تھی۔ نپے تلے اُٹھتے قدموں کی آہٹ کانوں میں گونجی۔ اپنی انگلیوں کا دباؤ اپنی کنپٹیوں پر محسوس کیا۔ درد ہوک کی طرح اُبھرتامٹتا تھا۔ ”یہ گھر ہے کہ کنجڑ خانہ!“۔
اس نے چونک کر اطراف میں نگاہیں ڈالیں۔ مسلسل سناٹے کی ضربیں سہتے ہوئے کان پائل کی چھنکار سننے کو تڑپ اُٹھے۔ دور سے کسی شرارتی پنچھی کی کوک میں جانی پہچانی دُھن گنگنائی:
نانی تیری مورنی کو مور لے گئے
باقی جو بچا تھا کالے چورلے گئے
”اب کیا ہوا؟“ تھکی ماندی آواز نے پوچھا
”شام کون آیا تھا؟“
جیسے ہتھوڑا کیل ٹھوکتا ہے ٹھننن کی جھنجھناہٹ دماغ کی گہرائیوں تک پہنچی۔
”کچھ دوست پرسہ دینے آئے تھے“۔
”دوست؟۔ایسی آزاد خیالی میری برداشت سے باہر ہے“۔
ٓ ”میرے کو لیگ تھے کیسے منع کرتی کہ بھائی کی ناگہانی مرگ کی تعزیت کے لئے نہ آئیں۔“
وہ لا کالج میں قانون پڑھاتی تھی۔ قانونی نکات اور ان کی باریکیاں موشگافیاں بیان کرتے دن بیت جاتا۔ واپس گھر آکے بولنے کی سکت ہی نہ رہتی۔ لفظوں کو آواز کا سہارا نہ ملتا تو اندر ہی کہیں سر ٹکرا کر رہ جاتے تھے۔ کم بخت مرتے بھی نہ تھے،سیلی مٹی کے کینچوؤں کی طرح کلبلاتے رہتے۔
”جو یہاں سے اُٹھ کے گئے ہیں، باہر جا کر جانے کس کس کو کیا کیا کہانیاں گھڑ سنائیں گے۔ ہم فلاں کی بیوی کے پاس بیٹھ کے آئے ہیں کہ لیٹ کے۔۔ جو اُن کی مرضی جو اُن کامن چاہے گا بکواس کریں گے۔۔“بارعب آواز میں اندیشے تڑخ رہے تھے۔ ”میری عزت کو تو تُو نے سڑک بنا دیا ہے جس کا جی چاہتا ہے پیروں تلے روندتا گزر جاتا ہے“۔
خوف نے کسی عفریت کی طرح گھر کے در و دیوار کو جکڑ رکھا تھا۔ ”اس گھر میں میری اجازت کے بغیر کوئی نہیں آئے گا“۔ وسوسوں میں بادلوں سی گرج تھی۔
”گھر میرا بھی تو ہے“۔آوازمیں بے یقینی ڈول رہی تھی۔
ماں کی آواز میں من مندر میں گھنٹی کی طرح بج اُٹھی۔ ”شکرہے بیٹا رانی اپنے گھر کی ہوئی“۔زرتار آنچل کو درست کرتی انگلیاں اس لمحے کس قدر شانت تھیں۔ تن من پرچھائی برسوں کی کہر میں ذرا سی کرن جھلملائی تو ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی لیکن بے وساہی اکھیوں نے مسکراہٹ کا ساتھ نہ دیا۔
وہ منہ میں لگام کی کچھاوٹ اور ایڑ لگاتے جوتوں کی چبھن سے ہف گئی تھی۔ سوچ اڈاری بھرتی بھی تو سدھائے کبوتر کی طرح فضا میں دائرہ بنا کے واپس کابک میں آکے دبک جاتی۔صحن میں بیزار اکتایا ہوا چھتنار درخت اندھیرے میں کسی دیوہیکل بھوت کا سایہ لگ رہا تھا۔ پتے ایسے ساکن تھے، جیسے گوند سے ٹہنیوں کے ساتھ چپکا دیے گئے ہوں۔ وہ چھوٹی چوٹی چھلانگوں میں جگمگاتے تارے پھلانگنے لگی۔ ساعت بھر کو بھول ہی گئی کہ زمین پر کیا ہو رہا ہے!!!۔
ایکٹ ۔۔۔2
پتلی کمر، گہری سانولی رنگت،سنجیدگی خاموشی میں بھی اس کے ذرا باہر کو نکلے ہوئے دانت جن پر انڈے کی زردی سا پرت جما تھا، نچلے جامنی لب پر جمے رہتے۔ایسے لگتا کہ جیسے کِھل کر مسکرا رہی ہو۔
”انپڑی چھوئریاں دے لتھے کپڑے میکوں ڈتا کرو“۔
پھرتیلے ہاتھوں سے برتن دھوتے ہوئے انیقابولی۔سانسوں کے ساتھ خالی معدے کا جی متلانے والا بھپکا سا باہر آتا۔
”تمہارے بچے چھوٹے ہیں تم کپڑے کیا کروگی؟“
”کیا دساں! اپنے پیٹ سے کپڑا اُٹھاؤ تو اپنا آپ ہی ننگا ہوتا ہے“۔
میں چونکی۔ ”کیا بات ہے؟“
”میری نند گھروں نکل گئی اے۔“۔ ”آہ ہائے!“ انیقا کے لمبی سانس میں شاید حسرت بھری تھی۔ ”اوکوں تاں حیاوی نہیں آئی جوان اولاد ہے اس کی ایک نہ دو پورے اٹھ“۔
”کسی کے ساتھ یاری دوستی تھی؟“۔میں نے پوچھا۔
”خورّے! کسی کے دل کا کیا پتا!“۔۔۔بندہ اس کا نشئی تھا۔ گھر اپنا اس نے بڑی محنت مشقت سے بنایا۔۔۔ پکی اینٹوں کا کمرہ۔۔۔ غسل خانہ۔ سبزیوں کے کھیت میں بیجائی کٹائی سب کام کرتی تھی۔ کمیٹیاں ڈال کر گھر میں مال ڈنگر بھی رکھا ہوا تھا، بہوں سونٹری بھوری گاں نال وَچھّی وی“۔
” خورَے! بندے کے دل کی کیا خبر!“انیقا نے کتھا کہانی میں گانٹھ لگائی۔
”تمہارا نام تو بہت خوبصورت ہے۔کس نے رکھا ہے؟ میں نے پوچھا۔
”ماں نے باجی! جس گھر کام کرتی تھی ان کی بیٹی کا نام تھا۔ اور کجھ بس میں نہیں تو چلو ”ناں ہی سہی“ میں تاں نکی جہی نے ماں کے ساتھ گھروں میں کام کرنا شروع کر دیا تھا“۔
انیقا نے للچائی ہوئی نظروں سے میرے چائے کے کپ کی طرف دیکھا۔ ”باجی! تھوڑی سی چائے مل جائے گی، سر میں درد ہے“۔
”میں نے تمہیں پہلے ہی سمجھا دیا تھا کہ اپنی بچی کے لئے کپ دودھ کا لے لیا کرو یا پھر چائے کا کپ پی لیا کرو“۔ میں نے کٹھو رپن سے کہا۔ انیقا نے اپنی نظریں ٹوٹی سے نکلتے پانی کی دھار پر جما دیں۔ ”ٹھیک ہے باجی! کپ دودھ ہی ٹھیک ہے۔ جب سے نیا جی پیٹ میں آیا ہے میں اپنی چھاتی اس کے منہ میں نہیں دیتی۔کاکی کمجور ہو گی اے سارا دن رؤں رؤں کرتی روز تو اس کا پیٹ کھراب ہو جاتا ہے۔“
جیسے سمندر کی سطح پر مچھلیاں ابھرتی ڈوبتی ہیں۔ ایسے ہی انیقا کی آنکھوں میں ہمہ وقت حسرتیں ابھرتی ڈوبتی ڈولتی رہتی تھیں۔ میرا دل رقص بسمل سے سہم جاتا تھا۔ کہیں کوئی حسرت میری بچوں کو نظر بد بن کر نہ لگ جائے۔
ہمیشہ سرگوشیوں میں انہیں ہدایت کرتی رہتی۔”چلتے پھرتے چیڑ چپڑ نہ کھایا کرو۔ اپنی پلیٹ لے کے انیقا کی نظروں کے سامنے سے ہٹ جایا کرو“۔
میں نے اپنی چائے کا کپ اس کی نظروں سے بچایا لاؤنج میں بیٹھ کر جرعہ جرعہ چائے کے ساتھ مارننگ شو کی میزبان کی ملمع پھری دانش سے بھرپور گفتگو سننے لگی۔ میزبان جس کے بیقرار ہاتھ کبھی اپنے جھمکے چھوتے تو کبھی دوپٹے کا پلو کندھے پر جماتے، چھلکاتے۔البیلی چھبیلی ہوسٹ کی نگاہیں بار بار اپنے جوتوں کی طرف پلٹ جاتیں، لہراتی بل کھاتی، بے تحاشا سجے ہوئے سیٹ پر ذرا چہل قدمی بھی کر لیتی۔ پھر نزاکت سے خود کوصوفے پر ٹکا دیتی۔
اتنی دیر میں انیقا جھاڑو جھاڑن لیے ٹی وی لاونج میں وارد ہوگئی۔میں نے اوب کر چائے کا کپ سائیڈ ٹبیل پر رکھ دیا۔
”تمہاری نند کس کے ساتھ گھر سے بھاگی؟“۔ سوال کا آنکڑا پھر کتھا کہانی میں تھا۔ آرام کے کچھ لمحوں کی چاہت میں انیقا کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔ دھرنا لگا کر نیچے قالین پر بیٹھ گئی۔”اگر اپنے خصم کو پیسے نہ دیتی تو وہ جوتوں گھونسوں سے اسے نیلوں نیل کر دیتا تھا۔“
”اس نشئی کے تن میں اتنی جان تھی؟۔ تمہاری نند اس کا ہاتھ کیوں نہ روکتی؟“۔
”تو باں باجی! مرد تو مرد ہی ہوتا ہے نا۔ ہاتھ روک کر اللہ رسول کی ناراجی مول لیتی؟۔مولبی کہتا ہے کھاوند کو کبھی ”نہ“ نہیں بولنا چاہئے فرشتے لعنت بھیجتے ہیں“۔
”سارا کچھ تو خود ہی بنایا تھا،مرد کو گھر سے باہر کرتی“۔
انیقا نے اچنبھے سے میری طرف دیکھا۔ ”گھر تو مرد کا ہوتا ہے۔۔۔ بس ایک دن بھنڈیوں کی چنائی کرنے زمیندار کے کھیت میں گئی۔۔۔ واپس نہیں آئی۔ اس کے ساتھ والی کہتی ہیں کہ وہاں تو پہنچی ہی نہیں“۔
”جس کے ساتھ یاری تھی اس کا پیچھاکیا؟“
”یاری کس کے ساتھ تھی اس کی تو کسی کو خبر نہیں“۔انیقا سوچتے ہوئے بولی۔ ”بس ناک نقشے والی تھی۔ صاف ستھری رہتی تھی۔آنکھوں میں کجل لگائے رکھتی“۔
”آنکھوں میں کجل لگائے رکھتی تھی تو اس کا مطلب یہ کیسے ہوا کہ یار بھی رکھتی تھی؟“۔میں نے استفسار کیا۔
انیقا کسی فلاسفر کی طرح بولی۔ ”باجی! خصم نے تو مار مور رکھی تھی پھر جیتی کس برتے پر تھی!!“۔
”لیکن پھربھی خاوند نے، بھائیوں نے، بیٹوں نے تلاشا تو ہوگا؟“۔ میرے سوال میں امید لڑکھڑائی۔
”نہ جی! ساریاں نوں تے اس طرح چپ لگ گئی جیسے وہ تھی ہی نہیں ۔ کوئی نام بھی نہیں لیتا اس کا“۔
انیقا اپنی پشت صوفے کے ساتھ لگا کر ذرا اور پسار کر بیٹھ گئی۔ تھکے ٹوٹے لہجے میں بولی۔
”مویا مرے نانگ لڑے پیو کوں، جواں دھیاں کمرے میں ایسے بند کر رکھی ہیں جیسے مرغیاں ڈربے میں،کسی سے بھی بات نہیں کرنے دیتا،خورے! گھر سے بھاگی کہ ویہڑے ہی میں کٹ کپ کے دبا دیا۔ لوکی تو بات ہی نہیں کرتے جیسے وہ تھی ہی نہیں