رقص ۔۔۔ معافیہ شیخ

رقص

معافیہ شیخ

گھنگھرو پیروں کے حکم پر اپنی آواز اونچی اور دھیمی کر رہے تھے۔ ذرا پرے طبلے کی تھاپ گھنگھرووں کا ساتھ دے رہی تھی۔ بظاہر یہ رقص کا دوسرا دن تھا۔ وہ رقاصہ نہیں تھی، مگر بن گئی ۔ اس کے پاؤں کو سکھایا جا رہا تھا کہ چال میں دھیما پن کیسے لایا جائے گا۔ اس کی آنکھوں کو بتایا جارہا تھا کہ وہ کیسے گفتگو کریں گی۔ اس کے ہاتھ جو میلے تھے بہت میلے انہیں بتا دیا گیا کہ کب انہیں اوپر اٹھنا ہے کب لہرانا ہے، کب جھکنا ہے اور کب ساکت ہو جانا ہے۔ کب پیٹ کو لچک دینی ہے اور کب لچک چھوڑ دینی ہے۔

مگر یہ سب تو وہ پہلے سے جانتی تھی۔ ۔۔۔۔۔ حالاں کہ وہ رقاصہ نہیں تھی

ہدایتکار کو یہ خوبصورت لڑکی جو لگ بھگ بیس برس کی ہوگی کسی فٹ پاتھ سے ملگجے میلے حلیے  میں ملی تھی۔ وہ خداترس اسے اٹھا کر یہاں لے آیا اور تھیٹر کے لیے تیار کرنے لگا مگر صرف خدا ترسی اسے یہاں لانے کی وجہ نہیں تھی۔

ہدایت کار کا تعلق بڑے طبقے سے تھا وہ شہر کے پوش علاقے کا رہائشی تھا اور اس کی کمپنی شہر میں بڑی حیثیت سے جانی جاتی تھی۔

ایک نوجوان خوبصورت نقوش والی دوشیزہ جس کا آگے پیچھے کوئی نہیں تھا اس کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھی

رقص سیکھتے ہوئے اسے مہینے سے زیادہ عرصہ ہو چلا تھا ۔۔۔  بہت کچھ سیکھ گئی تھی

رقص کے لیے چمکتا تاروں سے بھرا لباس ۔۔۔  نگینوں سے جڑی مالایئں فیروزہ کے سامنے رکھی گئیں۔۔” اب اگلا رکھ اسے پہن کر کرنا تاکہ تمہیں اندازہ ہو سکے کہ اسے پہن کر تمہیں کیسے رقص کرنا ہے۔ ” ۔ وہ منہ کھولے ہدائت کار کو تکتی رہ گئی۔ ایسا قیمتی لباس، ایسے زیورات تو اس نے پوری زندگی میں نہیں دیکھے تھے۔ اس نے  ہاتھ لگا کر آن ابھرے ہوئے تاروں کو چھوا۔ اک مسکان اس کے چہرے پر ابھری۔ پھر بہت احتیاط سے ایک مالا کو اٹھا کر گلے کے قریب لائی۔۔۔۔ اس کی ٹھنڈک سکون بخش تھی ۔۔۔ ہدایت کار نے جونہی اسے غور سے دیکھا ،  اس نے یکلخت اسے گلے سے جدا کردیا۔

اس کی ہنسی نظر انداز کرتی سامان اٹھا کر وہ سامنے موجود اس کمرے کی جانب چل دی۔ جہاں رقص کا سب سامان دھرا تھا۔  وہاں کوئی نہیں تھا ، اس لئے وہیں کپڑے تبدیل کر کے باہر آئی اور اسٹیج کی جانب چل دی۔۔ اسٹیج پر سے سامنے بیٹھے تمام لوگ سر سے پاوں تک نظر آ رہے تھے۔ کس  کا ہاتھ نوالہ توڑا تھا اور کس کا ہاتھ اسے منہ میں ڈال چکا تھا۔ سب دکھائی دے رہا تھا۔ بھوک تو اسے بھی لگ گئی تھی مگر ابھی اسے رقص کرنا تھا۔۔ بہت اچھا رقص ۔ کیونکہ کچھ ہی دن بعد ایک بہت بڑی تقریب  تھی جس کے لیے اسے تیار کیا جارہا تھا۔

گیت جلا دیا گیا تمام لوگ سب کچھ چھوڑ کر اس کی جانب متوجہ ہو گے۔ اس کے ہاتھ پیر کمر آنکھیں ، ہونٹ ۔۔۔ انگ انگ رقص کرنے لگا۔

وہ جھوم رہی تھی اس کا ایک پاؤں زمین پر جما ہوا تھا دوسرے پاؤں کی ایڑھی ہوا میں تھی اور وہ دو انگلیوں کے سہارے ٹکا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاتھ آسمان کی جانب دایئں سمت کو اٹھے پھر ہوا میں اٹھے پاوں نے زمین کو چھوا اور دوسرا اس کی تھکن جان کر خود زمین سے ہوا کا حصہ بن گیا۔ اب ہاتھ بایئں سمت تھے اور پھر سینے کے سامنے دونوں ہاتھوں کا آپس میں میل ہوا۔۔ ہال تالیوں سے گونج اٹھ۔ا تمام لوگ ہدایت کار سمیت تمام لوگ تالیاں پیٹ رہے تھے اور وہ یونہی  ساکت کھڑی تھی۔

۔ رقص ختم ہوچکا تھا مگر اس کا سحر سب پر طاری تھا۔ ہدایتکار خوشی سے بار بار اپنی کالراٹھا کر کہتا۔ ” یہ میرا تراشیدہ  ہیرا ہے۔ ” فیروزہ کو بہت سی شاباش دی گئی۔ اس کی روح کی بھوک مٹا دی گئی مگر پیٹ کی بھوک سلامت تھی۔ وہ ان کے چھوڑے کھانے کی جانب دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔ کہ اب تک اس نے ان کا  چھوڑا ہوا کھانا ہی کھایا تھا۔ ٹیم کے کسی ایک لڑکے نے اسے کھانے کی آفر دی تو وہ کھانے پر ٹوٹ پڑی  جیسے اس کی برسوں کی بھوک اب بھی نہ مٹی ہو۔

ٹیم میں موجود ایک لڑکی کے ساتھ اسے کمرے میں رہنے کو جگہ دی گئی۔ اسے چھت مل گئی تھی اسے روٹی مل گئی تھی وہ خوش تھی جیسے بچہ انجانی خوشی پا کرخوش ہوتا ہے۔

۔

اگلا سارا دن بھی مشق میں گزرا اور پھر وہ دن آگیا جس کے لئے اسے تیار کیا گیا تھا۔

 ہال  لوگوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ رنگ برنگے ملبوسات کی چمک۔ دھیمی گہری ہو جانے والی روشنی۔ سر، تال، طبلے،باجوں کی دھمک ۔۔۔۔ اسے سٹیج۔ پر بلایا گیا۔ اس کی نظروں نے ہال کے آخری کونے تک  کھڑے لوگوں کو دیکھا۔ اپنے سراپے کو۔ طبلے کی تھاپ پر اس کے پاؤں پر اس کے پاوں رقص کرنا بھول گئے۔ اسے ہدایت کار کی سکھائی ساری باتیں بھول گئیں اور وہ ساکت کھڑی رہ گئی۔ سٹیج کے پیچھے کلمہ چکی تھی لوگوں کا بازار سے گزر رہے تھے کہ یہ تمہارا تراشی کا ہی رہا ہے۔ ناک کٹوا دی دیکھو۔ بھائی۔ شاید وہ حرکت کرے

گیت بدل دیا گیا۔۔ اسٹیج کے پیچھے سے آواز آئی۔۔” فیروزہ !!! رقص کرو ” ۔۔ اس نے انجانی نظروں سے آس پاس دیکھا جیسے اسے ابھی معلوم ہوا ہو کہ وہ کہاں کھڑی ہے۔

ا۔ ضلع چہاتی سنائی دی اگر ادھر ادھر دیکھا جیسے بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ کہاں کھڑی ہے

گیت کے وہ بول جنہیں وہ  پہلی دفعہ سن رہی تھی ، دھیرے دھیرے ان پر یوں لہکنا  شروع کر دیا جیسے  برسوں سے اس گیت پر رقصاں رہی ہو۔۔ اس نے ہدایت کار کی باتیں یاد کرنی شروع کیں۔

میلے ہاتھوں کو تب اوپر اٹھانا ہے جب روٹی سامنے ہو۔ ہاں  تب ہی !!! تب جھکانا ہے  جب اسے  بے حرمتی سے بچانا ہے ۔۔۔ اور تب ہی، تب ہی خوش ہونا ہے۔ اور ہاتھوں کو خاموش کب ہونا ہے بھلا ؟ تب ۔۔۔ جب ہاتھ اور پیٹ خالی ہوں ۔۔۔اور ہاں پیٹ بھی ہلانا تھا ۔۔۔لچک دار پیٹ، خالی پیٹ، پاوں روٹی کی چاہ میں تیز تر کرنے ہیں۔ اور جب کچھ میسر نہ ہو تو چال دھیمی رکھنی ہے۔ ۔ اسے سب یاد تھا۔ وہ رقص کرتی رہی ۔۔۔ اچانک اسے یاد آیا اسے آنکھوں سے گفتگو کرنی تھی۔ ۔۔۔ آنکھوں میں نمی بھرنی تھی۔۔۔۔جب دو دن سے روٹی نہ کھائی ہو با لکل ویسے ۔۔۔ آنکھوں کو ہنسنا بھی تھا ۔۔۔ ہاں جب پیٹ بھرا ہو تب۔۔۔اسے سب یاد تھا مگر یہ سب اسے کب سکھایا گیا تھا ؟

رقص ختم ہو چکا تھا۔

ہال تالیوں کی آواز سے گونج اٹھا تھا۔ کسی شاہ خرچ نے بڑھ کر اس کی ہتھیلی پر چند پیسے رکھ دیے تھے۔

اس نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ جب زندگی نے اس سے پہلا رقص کروایا تھا، کیا کسی نے بڑھ کر اس کی ہتھیلی پر کچھ رکھا تھا۔۔۔۔ تماشائی تو تب بھی موجود تھے، پھر کیوں نہیں ؟

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930