دیواریں ۔۔۔ معافیہ شیخ

دیواریں

معافیہ شیخ

“پتھر کا دور واپس آگیا ہے اور اب کی بار سب کچھ پتھر کا بنا کر دم لے گا۔” منال کمرے میں آتی ہے۔

“کس سے باتیں کر رہے ہیں ابا میاں ؟ “۔۔۔ کوئی آپ کو نہیں سن رہا

یہ میری پوتی ہے جو شاید یہی کہنے کے لئے آئی تھی مگر کہے بنا ہی چلی گئی۔ حالاں کہ میں جانتا ہوں کہ ہر طرف پتھر ہی پتھر ہیں۔  بھلا کوئی مجھے کیسے سن سکتا ہے۔ میری آوازکیسے کسی  تک پہنچ سکتی ہے ؟۔۔ پتھر نے آواز ایک دیوار سے دوسری دیوار تک پہنچانے کے سب راستے بند کر دیے ہیں۔ اب کوئی کسی کو نہیں سن سکتا۔

مگر میں پھر بھی بولتا جا رہا ہوں، خود سے باتیں کئے جارہا ہوں کیوں کہ شاید مجھ تک میری آواز پہنچانے کے لیے اب تک دیوار حائل نہیں ہوئی۔ میں باآسانی اپنی آواز سن سکتا ہوں۔

اس گھر کی سب دیواریں خوبصورت پتھروں سے سجی ہیں۔ نوکیلا ، پتھریلا، ایڑھا ترچھا۔ ہر پتھر خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے یہ اب خوراک میں بھی شامل ہوگئے ہیں، تبھی تو اتنے عام ہوگئے ہیں۔

۔ میں سوچتا ہوں ہمارے وقت میں اس کا یہ استعمال تو نہ ہوتا تھا جیسا اس دور میں ہو رہا ہے۔

زمانہ یہ کیسی ترقی کر رہا ہے جو اسے پتھر کی دنیا میں لے جا رہا ہے۔ایسی  دنیا جہاں سب پتھر ہے۔

“ماما میں کسی ضروری کام سے باہر جا رہی ہیں تھوڑی دیر میں لوٹ آؤں گی”۔

۔ میری پوتی جو فقط اٹھارہ برس کی ہے میری بہو سے مخاطب ہے مگر بہو شاید اسے سن نہیں پاتی۔ وہ کسی پتھر کے پزل کو سلجھا  رہی ہے۔ میں اپنی پوتی کو روکنا چاہتا ہوں وہ دیوار کے پار ہو جاتی ہے۔ میرے اور اس کے درمیان دیوار حائل ہو جاتی ہے۔

ہمیشہ دیوار میرے اور اس کے درمیان کیوں آجاتی ہے۔ میری آواز اس تک کیوں نہیں پہنچ پاتی۔

۔ شاید میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور آواز بھی دھیمی ہوگئی ہے اس لیے ۔۔۔۔۔۔

۔ خود سے سوال و جواب کے بعد میں دیوار کو گھورتا ہوں ۔ دیوار  میں ترکی سے منگوائے دو سنگ مرمر لگے ہیں جس پر باریک بینی سے کام ہوا ہے لیکن میں سوچتا ہوں یہ کیسے پتھر ہیں ؟۔۔ دنیا بھر میں مشہور تو ہیں مگر یہ بالکل بے کار ہیں۔ ہاں بالکل۔ میری نظر میں بیکار ہی ہیں۔ جواب آواز دیوار کے اس پار نہیں پہنچا سکتے۔

میرا دل بوجھل سا ہے۔ ہر طرف اداسی ہی اداسی چھائی ہے، دل بہلانے کے لیے میں باہر نکل آیا ہوں اور باغ کی طرف چلنے لگا ہوں۔ باغ کی طرف جاتے ہوئے میں بے شمار پھول اور درخت دیکھ کر خوش ہو جاتا ہوں۔ پتھروں کی نگری سے جان چھوٹی۔

۔ میں باغ میں جا کر ایک بینچ پر بیٹھ جاتا ہوں۔ دیکھتا ہوں کچھ ہی لمحے میں ایک نوجوان وہاں آ بیٹھتا ہے۔ میں اسے بلاتا ہوں۔ وہ مجھے سن نہیں پاتا میں بہت حیران ہو جاتا ہوں کہ یہاں میرے اور اس کے درمیان پتھر تو نہیں ہیں۔ پھر نوجوان میری آواز کیوں نہیں سن پا رہا۔ پھر میری نظر اس کے کانوں کی طرف جاتی ہے

میں بیزار سا ہو کر وہاں سے بھی اٹھ جاتا ہوں اور چلنے لگتا ہوں۔ گھر پہنچنے سے پہلے بازار کا رخ کرتا ہوں کہ کوئی کتاب خرید لوں۔ ایک دکان کے باہر رکتا ہوں، یہ کتاب بیچنے والی دکان کتنی خستہ حال ہے۔۔ سوچتا ہوں کہ اسے تو خوبصورت ہونا چاہیے بالکل ویسے جیسے کتابیں خوبصورت ہوتی ہیں۔

اس دکان کی ایک دیوار کے اندر کھڑکی نما کاونٹر بنا ہے، میں اس میں منھ ڈال کر دکان دار کو مخاطب کرتا ہوں اور اپنی منتخب کتاب مانگتا ہوں مگر وہ کتاب کے بجائے مجھے پتھر تھما  دیتا ہے، بڑا تھا چوڑا سا پتھر جو لمبائی میں تقریبا کتاب جتنا ہے۔۔۔۔ میں اسے سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہوں۔

“چاچا اب کتاب کی جگہ یہی چلتے ہیں، چاہیے  تو لے لو،  وقت ضائع مت کرو۔ “یہ کہہ کر وہ پلٹ جاتا ہے

۔ مگر میں اس سے دوبارہ وہی کتاب مانگتا ہوں کہ مجھے تو اپنی منتخب کتاب ہی چاہیے۔ مجھے کوئی جواب نہیں ملتا۔ دکاندار کسی اور کے ساتھ مصروف ہو جاتا ہے۔

قیمتی پتھر کی دیوار کی طرح اس عام سے پتھر سے بنی دیوار نے بھی میری آواز دکاندار تک جانے سے روک دی یہ تمام پتھر ایک سے ہیں۔۔ میںبیزار سا ہو کر گھر کی طرف مڑتا ہوں۔

ہر طرف پتھر اور دیواریں ہی دیواریں ، ہیں کوئی کسی کو نہیں سن سکتا۔ میں پھر بھی مسلسل خود سے باتیں کئے جارہا ہوں۔

گلی میں قدم رکھتا ہوں تو ایک گھر کے پاس سے گزرتے ہوئے دیوار کے اس پار کوئی میری آواز سن کر میرا جواب دیتا ہے، میں خوش ہوتا ہوں کہ کوئی مجھے سن سکتا ہے کسی نے مجھے سن لیا ہے۔

اچانک اس گھر کا گیٹ کھلتا ہے۔ گھر میں بندھا کتا مسلسل بھونک رہا ہے۔شاید  وہ گھر والوں کو میرے  ‘ ہونے’  کی اطلاع دے رہا ہے۔ مجھے وہ کتا اس وقت سب سے خوبصورت لگتا ہے۔ وہ میری موجودگی کا احساس رکھتا ہے۔ وہ مجھے سن سکتا ہے۔

گھر کا مالک پورچ سے گاڑی نکاللتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ کوئی  گھر کے اندر سے باہر آتا ہے اورکتے کو  دروازے سے دور بائیں طرف پھولوں سے لپٹی  دیوار کے سامنے موجود اس کے گھر میں باندھ آتا ہے۔  شاید کتے کے مسلسل بھونکنے سے گھر والے تنگ آگئے ہیں۔ گیٹ بند ہو جاتا ہے۔

بند ہو جاتا ہے۔

میرے اور کتے کے درمیان بھی ایک دیوار حائل ہو جاتی ہے۔

میں منھ میں بڑبڑاتا ہوں:  ”  پتھر کا دور لوٹ آیا ہے ۔۔۔۔  مگر ایسا دور جس میں سب پتھر ہوگیا ہے۔۔۔ اب کبھی کوئی مجھے نہیں سن پائے گا۔” ۔۔۔۔۔ اداسی میرے اندر گھلنےلگتی ہے۔ قدم بڑھانے لگتا ہوں کہ اچانک دیوار کے پار سے آواز آئیہے۔

 وہ مجھے ابھی بھی سن سکتا ہے۔ آپ کی بار پتھر حائل نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ کتا مجھے سن کر پھر بھونکنے لگا ہے۔۔۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031