ندی سب کے لئے ۔۔۔ محمد اقبال
ندی سب کے لئے
( محمد اقبال )
” یار تم تو کہتے تھے ضرور چلے گا “
” میرے ساتھ والا کاریگر کہتا تھا۔کہ آخری شو پر چلاتا ہے۔ کل اس نے دیکھی ہے نا،
اور پھر میں نے اخبار میں بھی پڑھا ہے کہ سایئڈ پروگرام بڑا گرما گرم ہو گا۔ پچھلے بکس میں پولیس والے بیٹھے تھے ۔ شاید اس لئے نہ چلایا ہو “
” ہاں ان کی جیب گرم نہیں کی ہوگی، ویسے بھی یہ لوگ بڑے کمرشل مزاج ہوتے ہیں۔ کسی کے دل پر کیا بیتتی ہے انہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ یہ لوگ اشتہار سے دولت کماتے ہیں اور اشتہار میں بڑی کشش ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ نہیں دکھایئں گے، ہم اشتہار پر یقین کر لیتے ہیں۔
رات سرد اور سنسان ہے ، گہرا سناٹا ہے
” یہ عورت یہاں کیا کر رہی ہے۔ وہ دیکھو۔ “
” بڑی سیکسی ہے یار۔ ضرور پیشہ ور ہوگی۔”
” وہ دیکھو ساتھ ایک آدمی بھی تو جا رہا ہے۔ “
” ہاں اسی لئے تو کہہ رہا ہوں “
جب میں آزاد تھا تو میرا صرف ایک ہی رشتہ تھا۔ ارضی رشتہ۔ پھر میں غلام ہوا تو خود ساختہ رشتوں میں جکڑ گیا۔ سب سے برا یہ ہوا کہ میرا زمین سے رشتہ کٹ گیا۔ اور مجھے آسمان سے گری ہوئی یا بھیجی ہوئی کوئی چیز سمجھا گیا۔ اور میرے ارضی رشتے میرے اندر روپوش ہو گئے۔
” جس نے ابھی نتھ نہ تڑوائی ہو،” رشید کہہ رہا تھا،” اسکے لئے آج میں نے ایک بڑا مہذب لفظ پڑھا ہے، دُر ناسُفتہ، یعنی ایسا موتی جس میں ابھی چھید نہ کیا گیا ہو۔ یار کیسا لفظ ہے، مجھے تو کہتے ہوئے بھی کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ “
” واقعی یار “
رات گہری ہے۔ کچی پر ایک کتیا تین کتوں کی معیت میں ہماری مخالف سمت جا رہی ہے۔ ذرا پرے دیوار پر ایک ننگا پوسٹر چسپاں ہے۔ میرے اندر کے کتے نے اپنی تھوتھنی نکالی اور اسے چاٹنے لگا۔ ناف۔ ناف سے اوپر چھاتیاں، نپل ۔۔۔۔ نپل سے پھسلا تو کولہوں کے گڑھے میں جا گرا۔ وہاں سے نکلا تو تنگ راستے سے ہوتا ہوا ندی پر پہنچا۔ ۔۔۔۔ ندی ۔۔۔۔بہتی ندی۔۔۔۔جو سب کے لیے ہے بس پیاسا ہونا شرط ہے۔
” میں آج شاہ سے ملا تھا۔ کہتا تھا جب تک مزدور خود ظلم کے خلاف نہیں اٹھتا اس وقت تک انقلاب نہیں آ سکتا۔ ٹریڈ یونین ازم پر بھی بات ہوئی تھی۔ کہتا تھا وقت ٹریڈ یونین ازم سے آگے گزر چکا ہے اور ہم نے وقت کا ساتھ دینا ہے۔ “
پاس سے پنڈی کی ایک بس گزرتی ہے تو ٹھنڈی ہوا ہمارے جسموں میں سرایت کر جاتی ہے۔سامنے ہوٹل کے کمرے میں دو سائے نمودار ہوتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں۔
” رشید۔ کم سنی کی چھاتیاں دیکھی ہیں کبھی ؟”
” نہیں”۔ رشید نے کمبل کا لڑ کاندھے پر اچھالتے ہوئے کہا
“یار دیکھنے کی چیز ہوگی۔ بڑی عجیب و غریب ہوں گی۔ سخت۔ چھوٹی اور میٹھی۔”
خاموشی
اسی دوران میں نے شہد کی مکھی والی ٹافی نکالی اور منہ میں رکھ کر چوسنے لگا۔
” اگر میری ماں جوان ہوتی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔” ایڈی پس ہچکچایا
” میری ماں کا شوہر بڑا خوبصورت ہے ۔۔۔۔” شہزادی میرا نے کہا
” کان ماں، کون شوہر ، ارے سب سے اہم رشتہ تو عورت اور مرد کا ہے۔ باقی سب ثانوی ہیں۔”۔۔۔۔لو لارنس بھی آ گیا
” مگر کوئی رشتہ ہے بھی ؟ “
” تمہارے امتحان کا کیا بنا ؟ “
” وہی تھرڈ ڈویژن، اور کیا بننا تھا۔ “
” یار رشید، ہمارے ملک میں درجے کب ختم ہوں گے ؟ “
” جب سارے درجے ختم کر دئے جایئں گے اور ایک ہی رہ جائے گا۔ “
” سنا ہے سول لائن کی ایک کوٹھی میں دو گھنٹے کا پروگرام ہوتا ہے۔ 10 روپے فی آدمی۔ مگروہاں سب کا گزر نہیں۔ ایک خاص طبقے کو ہی بلاتے ہیں۔
” یار یہ سارے قوانین ، پابندیاں صرف نچلے طبقے کے لئے ہی کیوں ہیں ؟”
وقفہ
” قانون ۔ غلام اور آقا۔ وہ جو قانون بناتے ہیں اور وہ جن پر قانون نافذ کیا جاتا ہے۔ ۔۔۔۔۔ قانون آزادی کا مین ہول “
اب ہم چائے کی دوکان پر بیٹھے ہیں۔ کوئی آڑٹسٹ فیض کی غزل گا رہا ہے
نہ سوال وصل نہ عرض غم نہ حکائتیں نہ شکائتیں
تیرے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے
چائے کے بعد ہم اپنی بستی کی جابن رواں ہیں یعنی روشنی سے اندھرے کی طرف۔
” مژدہ ہو۔ سب سانپ بلوں سے باہر نکل آئے ہیں۔ اب ہمیں چاہئے کہ اپنے کشکول پتھروں سے ان کی سریاں کچل دیں۔ ” میرے اندر سے ایک پاگل نے بشارت دی۔ ” نہیں جانتا یہ پاگل کہ سانپوں نے انسانوں کی شکل اختیار کر لی ہے اور اب وہ ہمارے عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں کے روپ میں ہماری دموں سے لپٹے ہیں۔ “
ہم بستی کی جانب رواں ہیں۔