
خطرہ 440 بھوک ۔۔۔ ممتاز حسین
خطرہ چارسو چالیس بھوک
ممتاز حسین
لاہور کی سب سے خوبصورت شاہراہ مال روڈ پر بے شمار لوگ غلام عباس کا اوور کوٹ اپنے جسم کے ہینگر پر ٹانگے ایک دائرے میں ہی بس گھومتے ہی رہتے ہیں ۔ یہ دائرہ ایک بہت ہی مضبوط یونانی طرز کی عمارت سے شروع ہوتا ہے۔ اس یونانی طرز کے ستونوں پر ملک کے آئین کی دستاریوں رکھی ہے جیسے کسی بادشاہ سلامت کے سر پر یونانی جمہوریت کے ہیرے اور موتی جڑا ہوا تاج ہو ۔ اس عمارت کے اندر ایک بڑے بادشاہی دربار کی مانند ہال کمرے میں نامکمل دائرے میں سجی کرسیاں جس پر ملک کے نمائندے ملک کی نامکمل قسمت کو مکمل کرنے کی بھر پور کوشش میں تشریف فرما رہتے ہیں۔ اس عمارت کی دائیں طرف الفلاح عمارت ہے جو عوام کی فلاح کے لیے سرگرداں رہتی ہے اور بائیں طرف سفید رنگ کی عمارت جس کی چھت کسی چینی پگوڈے کی طرح کو نے آسمان کی طرف نکالے کھڑی ہے۔ تا کہ آسماں سے گرتی ہوئی بجلی یا پانی کی طاقت کو اپنے اندر سمو سکے۔ جب اوور کوٹ پہنے لوگ اس سفید عمارت کے سامنے پہنچ کر اپنے کوٹ کے بٹن کھولتے ہیں تو کوٹ کے اندر چھپے انسانی ڈھانچے اور سر پر اٹکی کھو پڑی دانت نکالے سفید عمارت کا منہ چڑاتی ہے۔ اس دائرے کے وسط میں ڈنڈے نما میناران احتجاجیوں کو دھمکانے کے لیے کافی ہوتا ہے، اس سفید عمارت کی کھڑکیاں شہد کی مکھیوں کے چھتہ کی مانند ان گنت خانوں سے بھری ہیں۔ جن سے ہر روز ان گنت ماہانہ بجلی اور پانی کابل اکھٹا کرنے والے کارکن زہریلی کارکن مکھیوں کی طرح غریب لوگوں کے دروازے کھٹکھٹانے کے لیے ایسے نکل کھڑے ہوتے ہیں، جیسے مکھیاں پھولوں کے جسموں سے رس نچوڑ کر اپنے چھتوں کے خلیوں کو شہد سے بھر دیتی ہیں ۔ اسی سفید عمارت کے تہہ خانے میں اس عمارت کی اصل خدمات پوشیدہ ہیں۔ اس تہہ خانے کی چھت ایک پوشیدہ دروازے سے کھلتی ہے۔ تہہ خانے کی چھت سے کئی کالے اور سیاہ رنگ کے پائپ مختلف سائزوں کے مرتبانوں سے جڑے ہیں۔ ان بڑے بڑے مرتبانوں کے اوپر کے حصوں سے چھوٹی چھوٹی نالیاں نکلتی ہیں جو پلاسٹک کی تھیلیوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ اس تہہ خانہ کا درجہ حرارت کافی کم
ہوتا ہے اور یہ تھیلیاں بالکل ایسی ہوتی ہیں، جیسے اسپتالوں میں ایمر جنسی کے وارڈ میں لوہے کے پائپوں والے بستروں پر کوئی مریض زندگی کی آخری سانسیں اس امید پر لے رہا ہوتا ہے کہ شاید اس کے بستر کے ساتھ کھڑے لوہے کے اسٹینڈ پر لٹکا وہ پلاسٹک کا تھیلا جس سے ٹپ ٹپ گرتے خون کا قطرہ قطرہ شاید اس مریض کی جان بچا کے تہہ خانہ میں اٹکی پلاسٹک کی تھیلیوں میں بھی خون ٹپ ٹپ کر تا تھیلی کے بھرنے کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ پھر ان تھیلیوں کے بھر جانے کے بعد چھوٹی پلا سٹک کی تھیلیاں بڑے مرتبانوں سے جاملتی ہیں اور چھوٹی تھیلیوں کا خون بڑے مرتبانوں میں جا کر جمع ہوتا ہے۔ ان سب تھیلیوں کے سرکٹ ایک بہت بڑے بجلی کے سوئچ بورڈ سے جڑے ہوتے ہیں۔ ان بڑے سوچ بورڈوں کا کنکشن ہزاروں تاروں میں تقسیم ہوتا ہے۔ سفید عمارت سے براستہ مال روڈ کے نیچے سے ہوتا ہوا سڑک کے دونوں طرف نکلے ہوئے بجلی کے کھمبوں سے جڑا ہوتا ہے۔
یہ تہہ خانہ تین حصوں میں بٹا ہوا ہے:
1۔ جانور۔۔۔2۔ غریب ۔۔۔ 3۔ متوسط
جانوروں میں زیادہ تعداد پرندوں کی شامل ہے۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے اس تہہ خانے میں امیروں والا کوئی خانہ نہیں ہے۔
حسب معمول آج بھی عبدالرشید عرف شیدا اور محمد حفیظ عرف پھیجا، دونوں اپنی ڈیوٹی پر موجود قطار میں کھڑے اپنے اپنے ورک پرمٹ لینے کے لیے انتظار میں تھے۔ فورمین نے بیک وقت دونوں کو پکارا۔ دونوں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ دونوں بیک وقت اپنا پر مٹ لینے کے لیے کاؤنٹر کی طرف لپکے۔ تو فورمین نے دونوں کا ایک ہی نمبر دیا، اور کہا جاؤ آج موج کرو ۔ دونوں کے پاس ایک ہی بل کی عدم ادائیگی کا ایک ہی مجرم ہے۔ دونوں نے اپنے اپنے میٹر اپنی پتلون کی بیلٹ کے ساتھ لٹکائے اور اپنی اپنی سائیکلوں پر سوار بل کی ادائیگی کے مجرم کے گھر کی طرف روانہ ہوئے ، اور دو موریہ پل سے ہوتے ہوئے سیر سپاٹا کرتے، لمباراستہ اختیار کر لیا۔ تا کہ وقت زیادہ صرف ہو، کیونکہ آج کا کام خاصا آسان تھا۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ کا م اور بھی آسان بنا لیا جائے اور اپنے مخبر سے مجرم کے بارے میں اور معلومات حاصل کرلی جائیں تاکہ تفتیش کے کام کو آسان بنانے میں مددمل سکے۔ دونوں ابھی مجرم کے علاقے میں پہنچے ہی تھے کہ سامنے سے مخبر ٹہلتی ہوئی لہلہاتی ان کی طرف اپنے گلابی جوڑے میں ملبوس گلابی سرخی
لگائے مٹکتی اور آنکھیں مٹکاتی ہوئی ترکی دنبے کی طرح، جب اپنا ایک پاؤں اٹھاتی تو اس کا دوسرا کو لہا دائرہ میں یوں گھومتا اور تھر تھراتا جیسے پینجا روئی میں دھنتے ہوئے اپنے پنچے کے تار میں ارتعاش پیدا کرتا۔ مخبر کا کولہا بھی ارتعاش بر پا کر کے ر اچانک ساکت ہو جاتا اور اس طرح دوسرے پاؤں کی حرکت کے ساتھ پہلا کو لہا دوسرے کو لہے کی طرح متحرک ہو جاتا ۔ دونوں کارکنوں کے منہ سے بیک وقت ایک فقرہ نکلا ” ماسی بھک توں کتھے ” ماسی بھک کے چہرے پر مسکراہٹ سے رخسار ایسے متحرک ہوئے جیسے اس کی چال سے اس کے کو لہے حرکت میں آتے تھے ۔ “کچھ مت پوچھو شیدے” دونوں پھر بیک وقت بولے ” کیا ہوا۔” ماسی بھک لہرا کے بولی ۔ تم محلہ ڈنڈی پٹی کے شیخ اسلم کو تو اچھی طرح جانتے ہو ۔ دونوں پھر یک زبان بولے ”ہاں وہ تو بڑا امیر کبیر آدمی ہے “۔ آج میں نے اُسے پکڑ لیا۔ وہ ہر روز رات کو حسینا قصائی کی دکان کے ساتھ پڑے ہوئے کوڑے میں سے مرغیوں کے پر اُٹھا کر اپنے گھر کے تھڑے کے ساتھ پھینک دیتا تھا، اور جھاڑو کے تنکے کو خلال بنا کر لوگوں میں بار بار یہ شکایت کرتا ۔ یار میری بیگم کو مرغی بنانی نہیں آتی۔ آج پھر ہانڈی کچی تھی “۔ شیدے اور پھیچے کے ہنسنے میں کوئی فرق نہیں پڑا، لیکن ماسی بھک کا ہنسنا 1935 والا کوئٹہ کا زلزلہ تھا۔ دونوں کافی خوش تھے کہ ماسی بھک نے انہیں محلہ ڈنڈی پٹی کی رپورٹ کے بارے میں کچھ اطلاعات فراہم کر دی تھیں، اُن دونوں نے ماسٹر محمد دین کے بارے میں دریافت کیا تو ماسی بھک نے چپ سادھ لی۔ دونوں خدا حافظ کہہ کر کے ماسٹر محمد دین کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ شکایت کے نوٹس پر لکھے ہوئے پتے کو غور سے پڑھتے اور پھر گھروں پر لکھے ہوئے نمبروں سے مطابقت کر کے چھوٹے نمبروں سے بڑھتے ہوئے نمبروں کی طرف چل دیے۔ اچانک راستے میں یہ دیکھ کر حیران ہو گئے ، ایک مکان پر کوئی نمبر نہیں تھا۔ ایک بڑا اور عالیشان مکان مگر نمبر نہیں۔ سیمنٹ سے بنے مضبوط قلعہ نما مکان کے پانچویں چوبارے پر سیمنٹ سے ہی ابھرے ہوئے سبز رنگ میں خط نستعلیق میں عربی میں بذ امن فضل ربی“ لکھا تھا۔ نیچے ایک آہنی گیٹ دو مضبوط اور اونچی سیمنٹ کی دیوار کے درمیان میں تھا جس کے نیچے سے اونچائی ڈھلوان کی طرف جاتی ہوئی سیمنٹ کی سڑک تھی جو باہر کی بجری کی سڑک سے ٹی کا ہندسہ بناتی ہوئی ٹکراتی تھی ۔ دونوں نے سوچا کیوں نہ ماسر محمد دین کے کیس کی جانچ پڑتال سے پہلے کیوں نہ جناب والا بذ امن فضل ربی کے بارے میں معلومات حاصل کر لی جائے۔ وہ دونوں جب آہنی
گیٹ کے قریب پہنچے تو کالا گیٹ کالے رنگ کی پتری سے پھول بوٹوں کے ڈیزائن سے سجا تھا۔ بائیں طرف سفید رنگ کی گھنٹی کے اندر کالے رنگ کا بٹن بالکل ماسی بھک کے اگلے ٹوٹے ہوئے دانت کی یاد دلاتا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو کہنی مار کے کہنے لگے۔ گھنٹی تم بجاؤ۔ شیدے نے زور دیا کہ گھنٹی تم بجاؤ پھیچے نے شیدے کے کندھے کو دھکا دینے کے لیے ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا ہی تھا کہ شیدے نے گھنٹی بجادی۔ دونوں بیک وقت 440 وولٹ کے جھٹکے سے سن ہو گئے ۔ دونوں کے سن ہوئے دماغ میں سفید روشنی میں ایک انسانی کھوپڑی دانت نکالے ابھری۔ اس کے بعد دونوں ایسے پاؤں سر پر رکھ کے بھاگے کہ بس ماسٹر محمد دین کے گھر کے سامنے جا کے دم لیا۔ انہیں بہت تشویش ہوئی کہ یہ کیسا گھر ہے جس پر کوئی نمبر ہی نہیں اور گھنٹی کا کرنٹ صرف ہمیں ہی لگتا ہے۔ دوسروں کو تو نہیں لگتا ہوگا۔ دونوں پھر ماسی بھک کے پاس گئے ، ہم نے محلہ ڈنڈی پٹی میں ایسا عالیشان گھر دیکھا ہے، جس پر کوئی نمبر نہیں اور اس کی گھنٹی بلوں کی پڑتال کرنے والوں کو کرنٹ مارتی ہے۔ تینوں اپنے پہچان والے پڑوسی کے گھر کی چھت پر چڑھ کر بذا من فضل ربی کے گھر کی پڑتال کرنے لگے۔ ماسی بھک نے اپنی دور بین نکالی اس کے شیشے کو اپنی تھوک سے تر کیا اور شیدے کے لٹکے ہوئے دامن سے پو نچھا اور دور بین کو ایک اسٹینڈ پر کس کے لگا دیا۔ ماسی بھک نے دور بین کے شیشوں کے درمیان لگے ہوئے ایک بٹن کو گھما کر شیشوں کو فوکس کیا۔ آنکھیں دور بین سے چپکی ہوئی تھیں، ہاتھ اور ہونٹ برابر بل رہے تھے۔ یہ تو بہت بڑا کیس ہے۔ گھر کے باہر واپڈا کے اوپر لگے کھمبوں سے گزرتی تار پر لو ہے کے کنڈے پڑے ہیں اور گھر میں ساری بجلی بغیر میٹر کے استعمال ہو رہی ہے۔ انہوں نے دور بین کے اسٹینڈ کو آگے لے جا کر کچھ اینٹوں کی اونچائی سے گھر کے اندر جھانکا تو خوبصورت باغیچے کے ساتھ دو سوئمنگ پول تھے۔ ماسی بھک نے فوراً کان میں لگانے والے آلے کو نکالا اور چھوٹے سے ٹرانسسٹر کی فری کو نینسی کو اس گھر سے مطابقت بنا کر گھر کے اندر سے آنے والی آوازوں کو سنے لگی۔ ایک بھاری بھر کم پھٹی ہوئی آواز جیسے کسی لاری اڈے پر ہا کر زور سے سواریوں کو پکارتا ہے۔ ویسی ہی آواز میں ایک شخص جو کہ مالک مکان لگتا تھا، نوکروں کو ڈانٹ رہا تھا کہ سوئمنگ پول کا پانی تبدیل کیوں نہیں ہوا؟ تمہیں پتہ نہیں میں ہر روز نہانے کے بعد اس سوئمنگ پول میں دوبارہ نہیں گھستا جب تک پانی تبدیل نہ ہوا ہو۔
اس لیے میں سب کو کہتا ہوں دوسرے پول میں نہاو ۔ جب وہ بھاری بھر کم آواز والا آدمی ا پنے نوکروں سے جھگڑتا باہر نکلا تو ماسی بھک کو اسے پہچاننے میں دیر نہیں لگی۔ اُس نے فوراً اپنی دور بین اور سننے والے آلے کو بند کیا، اور شیدے اور پھیچے کو ڈانٹنے لگی تمہیں پتا نہیں یہ شیخ فضل رب ہیں اور خدا کے فضل سے اگلے الیکشن میں پنجاب کے گورنر بننے والے ہیں۔ تمہاری عقل بھی بجلی کے میٹر چیک کرنے چلی گئی ہے۔ مجھ سے تفتیش کے لیے کوئی رکشے والا، ٹانگے والا ، ریڑھی والا ، کرک وغیرہ کا پوچھا کرو ۔ یہ مزدور پیشہ ور کام کرتے ہیں، ان کی رگوں میں خون گردش کرتا ہے، جو آسانی سے بہتا ہے اور اکھٹا کیا جا سکتا ہے۔ ان شیخ فضل رب جیسے لوگوں کے جسم میں تو 95 فیصد چربی ہوتی ہے، باقی پانچ فیصد خون میں اتنا ز ہر بلا کرنٹ ہوتا ہے کہ پورے واپڈا ہا ؤس کا میٹر فیل ہو جاتا ہے۔ ماسی بھک نے دونوں کو دھکا دے کر ماسٹر محمد دین کے گھر کی طرف روانہ کر دیا۔ گھر کے سامنے پہنچتے ہی ان دونوں نے ایک ہی ساتھ اپنی انگلیاں گھنٹی بجانے کے لیے آگے بڑھائیں ۔ تو انگلیاں شرمندہ ہو کر نیچے کی طرف ڈھلک گئیں۔ کیونکہ دروازے پر گھنٹی ہی نہیں تھی۔ بلکہ چوکھٹ پر پٹ کی بجائے ٹاٹ لٹکا تھا۔ جس کو ماسٹر محمد دین ایک ہاتھ سے ہٹاتے ہوئے دوسرے ہاتھ میں ایک بلب تھامے باہر نکلے۔
دونوں نے ماسٹر جی کو سلام کیا ، اور اسے بجلی کے کنکشن کے کاٹنے کا نوٹس پڑھ کر سنانے لگے۔ نوٹس سنانے کے ساتھ ساتھ ماسٹر جی کے زرد اور پچکے ہوئے زرد گالوں کا غور سے جائزہ بھی لے رہے تھے ۔ ماسٹر جی نے بلب کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا، وولٹیج جو ایک واٹ دیتا ہے۔ یہ ایک طاقت کا پیمانہ ہے یعنی ایک واٹ 0011.0 برابر 1. 000 وولٹ کے ایک ملی Amp برابر ہے 1 .K Volt یہ کرنٹ اور وو لٹیج کو جلاتا ہے۔
لیکن میرے گھر میں تو صرف ایک بلب جلتا ہے وہ بھی کیونکہ میرا چھوٹا بیٹا پڑھتا ہے۔ اسے رات میں روشنی کی ضرورت ہوتی ہے، بلب دکھاتے ہوئے کہا لیکن یہ بلب تو 0 وولٹ کا ہے ۔ زیر وکا مطلب ہے اپنے انگو ٹھے اور ہاتھ کی پہلی انگل کو ملا کر دائرہ مکمل کرتے ہوئے کہا، اور یہ بلب بھی آج فیوز ہو گیا۔ اتنے میں ان کا بیٹا بھاگتا ہوا ماسٹر جی کے پاس پہنچا اور ایک شیشے کے جار کو ماسٹر جی کو دکھاتا ہوا بولا۔ بابا ہمیں 40 جگنوؤں سے اتنی ہی روشنی ملتی ہے، جتنی ایک موم بتی روشنی دیتی ہے۔ لیکن کیونکہ جگنو جلتا اور بجھتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے ایمبولینس شور مچاتی ہے۔ ڈراتی ہے