محبت کے چھپن بوسیدہ خطوط ۔۔۔ منیر فراز
محبت کے چھپن بوسیدہ خطوط
( منیر فراز
)
(یہ کہانی نہیں ہے اور اس کے تمام کردار اور مقام
اوریجنل ہیں)
اس نے اپنے اثاثے میں دو سگریٹ ایک تصویر جذبوں کی راکھ
اور محبت کے چھپن خطوط چھوڑے تھے
یہ کراچی کے گاندھی گارڈن کا علاقہ تھا جہاں میں نے اپنا
بچپن اور لڑکپن گزارا – چڑیا گھر کے صدر دروازے کے سامنے ، سیفی بلڈنگ کے نام سے
مشہور ، خوشحال لوگوں کی ایک پرانی عمارت ایستادہ ہے جو قدیم طرز تعمیر کا اعلی’
نمونہ کہی جاسکتی ہے اس کے بیچوں بیچ ایک بل کھاتی سڑک ہمارے، کے بی نانا گورنمنٹ
مڈل اسکول سے ہوتی ہوئی دھوبی گھاٹ کی طرف چلی جاتی ہے – سیفی بلڈنگ کا ایک داخلی
راستہ ہے جو بلڈنگ کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے ” یہ راستہ شارع عام نہیں ہے
” کا ایک بورڈ اس راستے کی دائیں دیوار پر آویزاں تھا جس کے عین نیچے پرانے
کمبلوں اور بوسیدہ کپڑوں کے ڈھیر کے ساتھ ایک وحشی ، جس کے بال اس قدر گنجلک ہوا
کرتے تھے کہ انہیں کسی طور درست نہیں کیا جاسکتا تھا ، بیٹھا رہتا تھا اس کے کپڑوں
سے میل کچیل گویا جھڑ کر اس کے آس پاس بکھرا رہتا تھا – یہ سلطان تھا اور یہ چوبیس
گھنٹے اسی جگہ بیٹھا ملتا ہم تین دوست چھٹی جماعت تک اسی راستے سے گزر کر اسکول جاتے
، سلطان کو روز دیکھتے اور دیوار کی اوٹ سے اسے ایک پتھر مار کر بھاگ جاتے ، پتھر
کبھی اس کے قریب گر جاتے اور کبھی اس کے جسم کے کسی حصے پر جا لگتے – وہ اس قدر
وحشت زدہ اور دیوانہ نظر آتا تھا کہ اسے ان پتھروں کی ضرب سے کچھ فرق نہ پڑتا تھا
– کچھ خوش فہم سلطان کو کاغذ قلم پکڑا کر اس سے سٹے کے نمبر لکھوا لے جاتے تھے، جو
الٹی سیدھی لائنوں کی شکل میں ہوتے ، سٹے باز ان لائنوں سے کوئی نمبر اخذ کر لیتے۔
کچھ کا خیال تھا کہ وہ کاغذ پر جو آڑی ترچھی لکیریں کھینچ دیتا ہے ، وہ ایک ایسا
تعویز بن جاتا ہے جسے بازو پر باندھنے سے ان کے مالی حالات بدل سکتے ہیں ، جبکہ
سلطان لفظوں اور ہندسوں کی پہچان تو درکنار اپنے آپ کا علم نہیں رکھتا تھا – ہم
امتحان کے دنوں میں سلطان سے اپنے نتائج پوچھا کرتے تھے ہمارا خیال تھا کہ وہ کسی
اشارے سے ہمیں ہمارے نتائج کی خبر دے سکتا ہے –
ہمارے آس پاس کے چند دانشور اسے انڈیا کا ایجنٹ بھی
سمجھتے تھے ، ان کا خیال تھا کہ وہ اس حلئے میں راہ کر دراصل انڈیا کے لئے مخبری
کرتا ہے ۔ ان دنوں کراچی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا چنانچہ انڈین ایجنٹ کا تصور
بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
سردیوں کی ایک دوپہر ہم حسب معمول اسکول سے واپس آ رہے
تھے کہ سیفی بلڈنگ کے پاس ایک ایمبولنس کھڑی دیکھی معلوم ہوا کہ سلطان کا انتقال
ہو گیا جب اس کی لاش ایمبولنس میں ڈال کر ہسپتال لے جائی گئی تو ہم تینوں دوست
سلطان کے سامان کی طرف بڑھے ایک دوست کے ہاتھ چند پرانے رجسٹرڈ لگے ، دوسرے نے
سامان کی تلاشی لی تو اسے رنگ برنگی چوڑیوں کا ڈبہ مل گیا جس میں مڑی توڑی ایک
لڑکی کی تصویر بھی رکھی تھی۔ میں نے کمبل کے دو میلے کچیلے ٹکڑے ہٹائے تو نیچے سے
لکڑی کا چھوٹا سا ٹوٹا ہوا بکس برآمد ہوا ، جسے کھولا تو اندر سے ہاتھ سے لکھے
ہوئے چند خطوط نکلے ہم تینوں دوست گھر کی طرف بھاگے۔شام تک یہ خبر پورے محلے میں
پھیل گئی تھی کہ ہم سلطان کا سامان لے کر بھاگ آئے ہیں۔محلے کے وسط میں ہاتھ کا
نلکہ نسب تھا جس کے اردگرد سیمنٹ گارے سے بیٹھنے کے لئے چبوترے کی شکل دے دی گئی
تھی اس چبوترے پر شام سات بچے تک محلے کے بچے مختلف کھیل کھیلتے اور رات گئے محلے
کے بزرگ عالمی سیاست پر گفتگو کرتے تھے ۔ ہمارے ہم عمر دوسرے کئی بچوں کو یہ خبر
پہنچ چکی تھی کہ میرے پاس ایک لڑکے کے اپنی محبوبہ کو لکھے ہوئے محبت کے کئی پیار
بھرے خطوط ہیں جو سلطان کے سامان سے برآمد ہوئے ہیں ۔ ہمیں یہ کب علم تھا کہ محبت
کا جذبہ کیا چیز ہے اور کسی کے ایسے خطوط پڑھنا کتنا غیر اخلاقی فعل ہے ۔ میں نے
دیگر بچوں کی فرمائش پر ، جو گھیرا بنائے میرے گرد جمع تھے اور جنہیں مجھ سمیت
تجسس تھا کہ دیکھیں محبت میں ایک لڑکی اور لڑکے کے درمیان کیا باتیں ہوتی ہیں ،
ڈبے سے ایک خط نکالا اور چبوترے پر کھڑے ہو کر با آواز بلند پڑھنے لگا ”
پیاری فرزانہ ! تو کیا تم نے بھی ماں باپ کے آگے ہتھیار ڈال دئیے ہیں؟ “
ہماری یہ محفل پہلے نامکمل خط پر ہی برخاست ہو گئی جب
بزرگوں نے اپنی محفل جمانے کے لئے ہمیں مار بھگایا۔
دوسرے روز چھٹی کا دن تھا ہم کچھ دوست چبوترے پر بیٹھے
دھوپ تاپ رہے تھے کہ کچھن کا بڑا بیٹا حنیف ، جو نیا نیا سری لنکا کا دورہ کر کے
آیا تھا اور اپنی انگریزی سے ہم پر روعب جھاڑتا رہتا تھا،ایک سیاہ برقعہ پوش عورت
، جس نے اپنا چہرہ بھی نقاب سےڈھانپ رکھا تھا ، ہماری جانب بڑھا ، وہ مجھ سے مخاطب
ہوا اس کا کہنا تھا کہ جو خطوط میں کل سے اٹھائے پھر رہا ہوں وہ اس برقعہ پوش کے
ہیں ، وہ ابھی ابھی اسپتال سے آیا ہے یہ عورت سلطان کی لاش کے پاس بیٹھی تھی وہاں
اسے کسی نے بتایا تھا کہ سلطان کا سامان محلہ گاندھی گارڈن کے کچھ لڑکے لے گئے ہیں
،تم خطوط کا وہ ڈبہ اس کے حوالے کر دو۔ وہ برقعہ پوش ، جو خاصی نڈھال نظر آتی تھی،
میرے پاس ہی بیٹھ گئی ، اس نے چہرے سے نقاب نہیں اٹھایا لیکن وہ بری طرح رو رہی
تھی، اس نے ہچکیوں کے ساتھ اپنا ایک ہاتھ میرے پیروں پر رکھ دیا۔ مجھے اس کا قطعنا
ادراک نہیں تھا کہ یہ خطوط اس خاتون کے لئے اس قدر اہم کیوں ہیں کہ وہ روتے ہوئے
میرے پیر چھونے لگی ہے ۔ میں سخت خوف زدہ ، اپنی جگہ سے اٹھا اور ساتھ ہی اپنے
کارخانے میں چھپائے وہ خطوط لے آیا۔ خطوط کا ڈبہ اس کی جانب بڑھا دیا اس نے کانپتے
ہاتھوں سے ڈبہ کھولا خطوط کی بے ترتیب گٹھی دونوں ہاتھوں میں تھام کر خالی ڈبہ
پیروں میں پھینک دیا اس نے خطوط آنکھوں سے لگائے،کچھ دیر پھٹی آنکھوں سے انہیں
دیکھا ، نقاب کے اندر سے ان کو ناک کے قریب لے جا کر بو سونگھی اور پھر انہیں سینے
سے لگایا اور دھاڑیں مار کر رونے لگی۔ اس نے خطوط کی گنتی کی، جیسے کوئی مزدور
تنخواہ ملنے پر بے صبری سے پیسوں کی گنتی کرتا ہے، یہ پورے چھپن تھے، اس نے
اطمینان کی سانس لی ، جیسے اسے کسی نے ان کی تعداد پہلے سے بتا رکھی ہو اس نے وہ
چھپن خطوط سیاہ برقعہ کے اندر چھپا لئے ، وہ اٹھی ، حاضرین محفل کو تشکر کی نظر سے
دیکھا ، جاتے جاتے میرے بالوں میں انگلیاں پھریں اور پاگلوں کی طرح بھاگتی ہوئی
ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ سات لوگوں نے اسی سہ پہر سلطان کی نماز جنازہ پڑھی
اور اسے گورا قبرستان کی بے نام قبروں کے احاطہ میں دفن کر دیا۔
شام کو چبوترے پر بیٹھے لوگوں کی گفتگو کا موضوع سلطان
اور سیاہ برقعہ پوش عورت ہی تھا۔ حنیف ، جو سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا
تھا اور جو سلطان کے انتقال سے لے کر تدفین تک اسپتال میں ہی رہا ، روداد سنا رہا
تھا کہ رات دو بجے سلطان کا ایک جاننے والا اس برقعہ پوش کے ساتھ اسپتال آیا تھا
۔سلطان اس لڑکی کے عشق میں مبتلا تھا دونوں شادی کرنا چاہتے تھے لیکن لڑکی کے گھر
والے کسی طور اس شادی پر راضی نہ تھے۔ایک دوپہر لڑکی نے گھر سے بھاگنے کا پروگرام
بنایا اور سلطان کو سیفی بلڈنگ کے صدر دروازے پر اس کا انتظار کرنے کا کہا ۔اس کے
بعد کسی کو کچھ علم نہیں کہ وہ لڑکی کہاں گئی، سلطان نے وہ جگہ پکڑ لی اور وہیں کا
ہو کر رہ گیا۔ تین سال بعد وہ لڑکی ، جسے اس کے گھر والوں نے جبرا اس کے چچا کے
پاس سوات بھیج دیا تھا ، لوٹی ، وہ سلطان کو ڈھونڈتی ہوئی سیفی بلڈنگ کے صدر
دروازے پر پہنچی ، سلطان اسے ملا لیکن یہ وہ سلطان نہیں تھا اب تو گاندھی گارڈن
محلہ کے لڑکے اسے اسکول جاتے ہوئے دیوار کی اوٹ سے پتھر مارتے تو وہ اس قدر وحشت
زدہ تھا کہ اسے ان پتھروں کی ضرب محسوس نہیں ہوتی تھی۔ حنیف بتانے لگا ، ہم میں سے
کسی کو علم نہیں کہ یہ لڑکی جو بعد میں اپنے گھر نہیں گئی ، ہر تیسرے چوتھے روز
رات کے سناٹے میں سلطان کو دیکھ کر جاتی ، اس کے بوسیدہ کمبلوں میں اپنے آنسو جذب
کرتی رہی ۔جو شخص کل رات اس کے ساتھ تھا وہ سلطان کی ساری کہانی سے واقف تھا اسی
نے اسے بتایا تھا کہ سلطان نے اسے محبت کے چھپن غیر ارسال کردہ خطوط لکھ رکھے ہیں
جو اس کے سامان میں کہیں پڑے ہیں۔
حنیف گھٹنوں میں سر دے کر رونے لگا ۔
ہمارے
محلے میں ایک اور کردار کا بڑا چرچہ ہوا۔ یہ مائی پھتی پھتی تھی ہم تینوں دوست اس
وقت نویں جماعت میں تھے اور ایم اے جناح روڈ پر واقع این جے وی ہائی اسکول میں
داخلہ لے چکے تھے جب مائی پھتی پھتی ہمارے محلے میں نمودار ہوئی،اس کا ایک ہاتھ اس
کی بغل میں رہتا تھا ،کپڑے پھٹے رہتے تھے اور منہ سے اس قدر رال ٹپکتی تھی کہ اس
کی بوسیدہ قمیض، حتی کہ گھٹنوں تک کھینچی ہوئی شلوار تک گیلی رہتی تھی ۔وہ صبح شام
ہماری گلیوں کے چکر لگاتی ۔اس کی آنکھیں پتھر کی دکھائی دیتی تھیں اور وہ ہمیشہ
ننگے پاوں چلتی، اس کے ناخن اس قدر بڑھے رہتے تھے کہ وہ اپنے جسم کا کوئی حصہ
کھجاتی تو اس جگہ خراشیں پڑ جاتیں ۔ کسی نے مائی پھتی پھتی کو کچھ کھاتے پیتے کبھی
نہ دیکھا تھا۔ گلیوں کے چکر لگانے کے بعد خورشید پان والے کے گھر کا کونہ ، جسے
کچھ دور اندیشوں نے لکڑی کے خالی ڈبوں کو جوڑ کر ایک کھولی کی شکل دے دی تھی،اس کا
آخری ٹھکانہ ہوتا تھا جہاں وہ رات کو سو رہتی تھی یہی اس کا باتھ روم تھا ۔محلے کی
کچھ عورتیں رات کا بچا کھچا کھانا یہاں رکھ جاتی تھیں اور جب کبھی اس کی قمیض اس
حد تک پھٹ جاتی کہ اس کا بے جان خشک لوتھڑے کی مانند سینہ برہنہ ہوجاتا تو محلے کی
یہی چند عورتیں ناک پر دوپٹہ باندھ کر اس کی قمیض تبدیل کر دیتی تھیں ، اس کی
کھولی سے اس قدر سرانڈ اٹھتی تھی کہ اس کے پاس سے گزرنا بھی محال لگتا تھا ۔ہمارے
محلے کے بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ مائی پھتی پھتی کے پاس بہت سی دولت ہے جو اس کی
کھولی میں رکھے پرانے کپڑوں میں کہیں رکھی ہے ۔ ہم دوستوں کا دل مچلتا کہ کاش وہ
کسی روز اچانک یہاں سے کہیں چلی جائے اور ہم چپکے سے اس کی کھولی میں گھس کر وہ
ساری دولت اٹھا لیں اور اس سے اپنے لئے وہ سائیکل خریدیں جو سعید منزل کی ایک دکان
پر سجی رہتی ہے ۔ نویں جماعت سے میٹرک تک کا زمانہ اسی انتظار میں کٹا لیکن مائی
پھتی پھتی کہیں نہ گئی وہ ایک ہاتھ بغل میں ڈالے اپنے کپڑوں پر رال ٹپکاتی ہماری
گلیوں کے چکر کاٹتی رہی ۔ یہ معمہ کسی طرح حل نہیں ہوتا تھا کہ مائی پھتی پھتی
پہلی مرتبہ کب ہمارے محلے میں آئی اور اس کا اپنا علاقہ کونسا تھا بس وہ ازل سے
ہمارے محلے ہی کی لگتی تھی۔ اس کی عمر بوڑھوں والی نہیں تھی لیکن لیکن وہ اپنی
خستہ حالت کی وجہ سے بوڑھی دکھائی دیتی تھی۔
ہم میٹرک کے ششماہی امتحان کی تیاریوں میں تھے، گرمیاں
عروج پر تھیں جب ایک دوپہر محلے میں شور اٹھا کہ مائی پھتی پھتی اپنی کھولی میں
مردہ حالت میں پڑی ہے ۔محلے کے مرد عورتیں اور بچے کھولی کے گرد جمع ہونے لگے کسی
کی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ وہ کھولی میں داخل ہو کر صورت حال کا جائزہ لے ۔وہ خورشید
پان والے کی ہمسائی تھی چنانچہ اخلاقا اسی نے ہمت کی، کھجور کی ایک سوکھی شاخ ، جس
سے دروازے کا کام لیا گیا تھا ، کو ہٹا کر وہ اندر داخل ہوا، کھولی میں جا بجا
کچرا بکھرا پڑا تھا ایک کونے میں چند پھٹے پرانے کپڑے رکھے تھے، کمرے میں اور کچھ
نہیں تھا دیواروں پر جا بجا دمے کی کھانسیاں چمٹی ہوئی تھیں آنسوؤں سے بھری
گٹھریاں مختلف کونوں میں بکھری پڑی تھیں ، ارمانوں کی چند لاشیں اس کی لاش سے
متصل، جامد و ساکت پڑی تھیں۔ ان پرانے کپڑوں کو ہٹایا گیا تو نیچے سے کپڑے کی ایک
گتھلی، جو سندھی طرز لباس کے مطابق مختلف رنگوں کے کپڑوں کےچھوٹے چھوٹے ٹکروں کو
سی کر بنائی گئی تھی اور جس پر جا بجا شیشے کے چھوٹے چھوٹے پیس بھی چسپاں تھے،
برآمد ہوئی،جس کے بارے میں اہل محلہ کا خیال تھا کہ اس میں مائی پھتی پھتی کی دولت
محفوظ ہے ، لاش کو محلے کی دو عورتوں نے کھولی سے باہر نکالا ، خورشید پان والے کے
صحن میں انہی عورتیں نے اسے غسل دیا جب اس کا جنازہ اٹھایا جانے لگا تو کسی نے
کپڑے کی گتھلی کو سب کے سامنے کھولنے کا آوازہ کسا تاکہ جو پیسے برآمد ہوں وہ سب
کے علم میں آجائیں ، اسی امید پر گتھلی کو کھولا گیا تو اندر سے محبت کے چھپن
بوسیدہ خطوط کے سوا کچھ برآمد نہ ہوا ۔
مائی پھتی پھتی کیے منہ سے بہتی رال اور سلگتے بوسوں سے
کاغذ کے یہ ٹکڑے اس قدر خستہ ہو چکے تھے کہ ہاتھ لگاتے پھٹ پھٹ جاتے تھے صرف میں
جانتا تھا کہ ان خطوط میں ایک خط ایسا بھی تھا جس میں سلطان کے جذبات ، مائی پھتی
پھتی کے ارمان اور میرے ہاتھوں اور آواز کا لمس شامل تھا ” پیاری فرزانہ ! تو
کیا تم نے بھی ماں باپ کے آگے ہتھیار ڈال دیئے ہیں ؟ “
میں حنیف کی طرح گھٹنوں میں سر دے کر رونے لگا ۔
منیرفراز