آخری فریم ۔۔۔ مشرف عالم ذوقی
آخری فریم
مشرف عالم ڈوقی
اُس کا مرنا طے تھا___
لیکن مشکل یہ تھی کہ وہ جینا چاہتا تھا___
اور مشکل یہ تھی کہ پچھلے تین چار دنوں سے لگاتار ملک الموت اُسے پریشان کر رہا تھا___
’سب سے مل لو۔ ‘
’کیوں ؟‘
’کیونکہ گڈ بائی، خدا حافظ کہنے کا وقت آ گیا ہے ___‘
’ابھی تو میں … ابھی کیوں … ؟‘
اُس کی عمر زیادہ نہیں تھی۔ یہی کوئی چالی بیالیس سال۔ یعنی ایسی عمر، جہاں پہنچ کر جوان رہنے کا احساس کچھ زیادہ ہی آپ کو پریشان کرنے لگتا ہے ___
’عمر سے کیا ہوتا ہے … ؟ملک الموت ہنسا۔
’ہوتا کیوں نہیں ہے ___‘
’’نہیں ہوتا۔ ‘‘ ملک الموت سنجیدہ تھا۔ ’شکر کرو۔ پہلے آ گیا، موقع دے رہا ہوں ___ مرنے کا الہام سب کو نہیں ہوتا۔ وصیت کر جاؤ۔ سب کو بلا لو … بیٹے کو، بیٹی کو … بیوی کو …‘
’ڈراؤ مت۔ ‘
’میں ڈرا نہیں رہا۔ احساس کرا رہا ہوں ___ تم مرنے والے ہو اور …‘
’نہیں، اب میں جینا چاہتا ہوں۔ ‘
ملک الموت ہنسا___ ’پاگل مت بنو۔ مرنے کی دعا مانگتے مانگتے تم نے ہی مجھے بلایا ہے۔ ‘ وہ ہنسا تمہاری دعا سن لی گئی۔ خوش قسمت ہو۔ آج کل وہاں سب کی دعائیں نہیں سنیں جاتیں …
’پھر میری کیوں سنی گئی۔ ‘
’اس معاملے میں بھی خوش قسمت ہو۔ ‘
’مرنے کے معاملے میں ؟‘
’ہاں …‘ ملک الموت سنجیدہ تھا۔ ’’ذرا باہر نکل کر دیکھو۔ تم نہیں جانتے، کتنے کتنے لوگ مرنا چاہتے ہیں۔ مگر موت سب کے نصیب میں کہاں ___‘‘
ملک الموت اُس پر جھک گیا تھا ___ ’بولو۔ کب آ جاؤں … شکر کر … اس معاملے میں بھی خوش قسمت ہو۔ میں کبھی خبر کر کے نہیں آتا …‘
’پھر مجھ ے اتنی محبت کیوں …‘
’تم اتنی دردمندی سے، اُس کے حضور میں گڑگڑا، گڑگڑا کے مجھے مانگ رہے تھے کہ ترس آ گیا۔ ذرا یاد کر‘
اُسے یاد کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ سارے منظر صاف تھے۔ زندگی میں سب کچھ بہت جلد کر لینے کا احساس۔ ہر لمحہ جیسے ایک اونچی اڑان اُس کے حصّے میں تھی۔ کم کم سایہ، زیادہ زیادہ دھوپ وہ اس دھوپ میں ننگے ننگے پاؤں چلا تھا___ اور اسی طرح، ننگے ننگے پاؤں چلتے ہوئے ’وہ‘ ٹکرائی تھی۔ برف کے چھوٹے چھوٹے ٹکروں سے کھیلنے والی___
’تھوڑی سی برف ملے گی؟‘
’کیوں نہیں۔ ‘
پھر وہ برف کے ٹکڑوں سے کھیلنے والی اُس کے گھر آ گئی۔ کبھی نہیں جانے کے لئے ___ بچے ہو گئے۔ اب بچے برف میں کھیلتے تھے اور دروازے کے باہر برف کے ڈھیر لگنے لگے تھے۔ یکایک زمین غائب ہو گئی۔ برف پگھلنے لگی۔ اُس کی سانس ڈوبنے لگی۔ ہوش میں آیا تو زندگی سے ایڈونچر غائب ہوچکے تھے۔ بدن بیماریوں کا گھر تھا___ اُسے یاد آیا، اُڑتے رہنے کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے اُس نے کہیں بھی سمجھوتہ نہیں کیا تھا ___اور اب چالیس بیالیس سال کا کمزور جسم آرام چاہتا تھا۔ ابدی سکون___ اور اس سکون کے لئے وہ گھنٹوں عبادت میں ڈوبا رہتا۔ روتا، گڑگڑاتا۔ گھر میں بوجھل سا ماحول تھا___ برف کے ٹکڑوں سے کھیلنے والی کو، اسکیٹنگ کے لئے باہر جانا ہوتا تھا اور بچے، اُس کی بیماری سے گھبرا کر صاف لفظوں میں اپنی ناراضگی کا اظہار کر دیتے تھے ___
’چیخو مت۔ اس سے بہتر ہے کہ …‘
’بہتر ہے کہ …‘
’تم اچھی طرح جانتے ہو۔ ’بیوی ہنسی تھی___ باہر برف ہے اور بہت سی تتلیاں۔ تمہاری چیخ سے تتلیاں اُڑ جاتی ہیں۔ ‘
کمرے کے گھنے اندھیرے میں پگھلنے والی ایک چھوٹی سی برف پر لکھاہوتا تھا___ ’ابدی سکون۔ ‘
وہ اس سکون کے، نہ ختم ہونے والے نشہ میں ڈوبنا چاہتا تھا___
l
’کچھ یاد آیا___‘ ملک الموت سنجیدہ تھا۔
’ہاں۔ ‘
’تو چلو۔ ‘
’کیوں۔ پریشانی میں ایسی باتیں تو سب کرتے ہیں۔ لیکن اب میں …‘
ملک الموت کو حیرانی تھی۔ ’تم انسان کبھی میری سمجھ میں نہیں آئے۔ خیر۔ اپنے اور اپنے گھر کے بارے میں سب کو جانتے ہو تم … پھر بھی …‘
’جینا اس سے مختلف ہے۔ ‘
’مرنا سب سے مختلف ہے۔ ‘
’زندگی خوبصورت ہے۔ ‘
’موت اُس سے زیادہ دلکش۔ ‘
’زندگی …‘
ملک الموت اس مکالمے سے پریشان تھا۔ ’اچھا سنو۔ چلو۔ تمہارے اس مسئلے کا بھی حل نکالتے ہیں۔ ایسا کرو۔ کی ایسے دو آدمی کا نام لو جو بے حدخوش رہتے ہوں۔ ‘
’پھر کیا ہو گا؟‘
’اگر مان لو ان کی خوشی، نقلی ہو، تو … ؟‘
’مان ہی نہیں سکتا۔ ‘
’مان لو___ مان لو اس کے باوجود وہ مرنا چاہتے ہوں۔ ‘
’ایسا ہو ہی نہیں سکتا___‘ جواب دیتے ہوئے اُس کے سامنے ایسے دو آدمیوں کا چہرہ گھوم گیا تھا اور اُسے یقین تھا کہ اگر ملک الموت نے اس بوجھل گفتگو کو مزید آگے بڑھایا تو جیت اُسی کی ہو گی …‘
’مان لو …‘
’ٹھیک ہے … پھر میں مرنے کے لئے تیار ہو جاؤں گا۔ ‘
’اب پہلے آدمی کا نام لو …‘
ملک الموت کو شاید بہت جلد بازی تھی۔ ایک لمحے کو اُس کی آنکھیں بند ہوئیں۔ پھر اپنے باس جارج ویلیم کا دھیان آ گیا۔ خیر سے منسٹر بھی تھا۔ ایک بے حد کامیاب آدمی۔ ایک خوشحال زندگی___ ایک بے حد چاہنے والی بیوی۔ بے حد پیار کرنے والے بچے۔ ہر جگہ ہر موقع پر اُس کے ساتھ___ ہنستے مسکراتے ___ اور وہ اپنی ہر گفتگو میں اپنی کامیابی کا سہرا اپنی سر باندھتا تھا___
اُس نے نام بتایا___ ملک الموت ہنسا___ لودیکھو اُس کی ہتھیلیاں روشن تھیں اور اسکرین بن گئی تھیں۔ وہ سب کچھ صاف صاف دیکھ سکتا تھا___
صبح کا وقت۔ جارج ولیم بیوی بچوں کے ساتھ ہے۔ ہمیشہ قائم رہنے والی مسکراہٹ کے ساتھ۔ سیکوریٹی گارڈز ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ کسی عمارت کی سنگ بنیاد کا منظر___ وہ فیتہ کاٹتا ہے۔ تالیاں بجتی ہیں ___ منظر آگے بڑھتا ہے۔ سب کو نمسکار کرتا جارج ویلیم اپنی بڑی سے گاڑی میں بیٹھتا ہے۔ گاڑی کوارٹر کی طرف روانہ ہوتی ہے۔ ‘
اُ سکے چہرے پر طمانیت بھری مسکراہٹ تھی___ ’دیکھا؟‘
’اب آگے دیکھو___‘
روشن اسکرین پر اب ڈائننگ ٹیبل ہے ___ ہنستا مسکراتا خاندان ایک ساتھ بیٹھا کھانا کھا رہا ہے۔ ایک مشہور چینل کا پریس رپورٹر انٹرویو لے رہا ہے۔ کیمرہ آن ہے ___ پریس رپورٹر مسکرا مسکرا کر سوال پوچھتا ہے۔ وہ جواب دے رہا ہے۔ ’بس یہی مختصر سی خوراک___ وہ بیوی کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہے۔ کھانا میری بیوی بناتی ہے۔ میرے لئے۔ یہ دلیہ۔ یہ فیرنی۔ وہ اپنے بچوں کی طرف دیکھتا ہے۔ بچے مسکرا رہے ہیں۔ جارج ویلیم بتا رہا ہے … یہ سب میری زندگی ہیں … نہیں روح___ بس اور کیا چاہئے مجھے۔ کچھ بھی نہیں۔ ہتھیار، میزائیل کچھ بھی نہیں۔ جنگ، ہماری نجی خوشحالی کو بھی تباہ کرتی ہے …‘
اُس نے تالیاں بجائیں ___ ’دیکھا___‘
’اب دیکھو۔ ‘ ملک الموت کے چہرے پر سنجیدگی تھی___
’اب کیا دیکھوں۔ اب اس سے زیادہ خوشی کیا ہوتی ہے ___‘
’آگے … آگے دیکھو …‘
ہتھیلیوں پر اسکرین روشن تھا اور وہ یکایک چونک گیا تھا۔ رات۔ رات کا وقت___ دوسرے کمرے میں جارج ویلیم سو رہا ہے ___ بیوی کرسی پر بیٹھی ہے۔ ایک بڑی مونچھوں والا آدمی ٹہل رہا ہے جتنے پیسے چاہئیں۔ رشتے مت دیکھئے … رشتہ تو جذباتی کر دیتے ہیں۔ ‘
’پیسہ بہت ہے ہمارے پاس‘ جارج ویلیم کی بیوی کا چہرہ سپاٹ ہے ___
’اور اگر آپ کو وہی کرسی آفر کی جائے جو ___جارج کے پاس ہے …‘
’آہ … آپ سب جانتی ہیں۔ سب جانتی ہیں۔ آپ کو کرسی چاہئے تو___ جارج کو مرنا ہو گا …‘
ہتھیلیاں اندھیرے میں ہیں۔ اسکرین پر بلیک آؤٹ۔
دیکھا___؟ ملک الموت ہنسا۔
’دیکھا۔ ‘
’پھر___؟‘
اُس کے لہجے میں کھوکھلا پن تھا۔ بچے بھی توہیں۔ جارج تو پوتے والا ہے ___ بیٹے کا بڑا لڑکا اب کالج میں ہے ___‘
’اچھا ___لو وہ بھی دیکھو …‘
ہتھیلیوں پر اسکرین روشن ہو گیا ہے۔ جارج کا بیٹا پریشان ٹہل رہا ہے۔ بیٹے کی بیوی یعنی جارج کی بہو غصّے میں ہے۔ تمہیں کیا ملا۔ ہاں۔ کبھی تمہارے لئے ایم ایل اے یا ایم پی بننے کی بھی سفارش نہیں کی۔ کیوں ڈھو رہے ہو بڈھے کو___ پیسہ مانگو اور باہر چلو۔ ‘
ایک کمزور آواز ___ ’وہ راضی نہیں ہوں گے۔ ‘
بہو بگڑتی ہے ___ ’تو مرو۔ نمائش کے گڈے، گڑیے بنا کر زندگی گزار دو۔ وہ جہاں جائے گا، ہمیں سجا کر لے جائے گا۔ دو چار ہمارے بارے میں ڈائیلاگ بولے گا۔ سنو___اُسے زہر دے دو___ بہت سے دشمن ہیں اُس کے۔ پارٹی بھی یہی چاہتی ہے۔ تمہارے لئے کھلا آفر ہے ___ کچھ نہیں ہو گا بڈھے کی موت کا۔ سب خوشی منائیں گے۔ حکومت کچھ دن تک قتل کی تحقیقات کے لئے کیش بیٹھا دے گی۔ بس …‘
اُسے چکر آ رہے تھے۔ وہ زور سے چیخا___ ’بس کرو۔ ‘
’ہو گیا۔ اتنے میں ہی …‘
اُس کے پیشانی پر پسینے کے قطرے جھلملا گئے تھے۔ مائی گاڈ۔ یہ سب …‘
’یہی تمہاری دنیا کا سچ ہے۔ ‘
’کیا جارج یہ جانتا ہے … ؟‘
’لو، تم خود ہی دیکھو لو___‘
ہتھیلیوں پر، اسکرین پھر روشن تھا۔ جارج ٹہل رہا ہے۔ ایک بے چین آتما۔ آنکھوں میں نیند نہیں۔ ٹہلتے ٹہلتے وہ لیٹ جاتا ہے ___ اور یہ کیا۔ وہ رو رہا ہے …
’وہ کچھ کہہ رہا ہے …‘
ہاں تم بھی سنو …‘
اسکرین پر اب کلوز میں جارج کا چہرہ ہے … وہ رو رہا ہے ___ ’میں سب جانتا ہوں۔ لیکن کیا کروں۔ یہ ناٹک کرنا پڑتا ہے۔ میں جانتا ہوں مجھ سے کوئی خوش نہیں ___ نہ پارٹی۔ نہ عوام۔ نہ بیوی۔ نہ بچے ___ کوئی بھی نہیں … میں بھی نہیں ___ میں نے یہ سب کچھ کیسے کیا، میں جانتا ہوں۔ مجھے اٹھا لے۔ سکون دے دے۔ یا پھر میری زندگی سے راتیں چھین لے۔ تنہائی چھین لے۔ خاموشی کے لمحے چھین لے ___‘
اسکرین پر ایک بار پھر اندھیرا تھا۔
’مائی گاڈ‘ ___لیکن اتنی دیر میں اس نے اپنے آپ کو آگے کے مکالمے کے لئے تیار کر لیا تھا___ لیکن ایک آدمی کا سچ___‘
’اِسی لئے ___ میں نے تمہیں دو آپشن دیے ہیں۔ تمہاری زندگی میں تمہیں سب سے زیادہ خوشحال نظر آنے والے دو آدمی …‘
’کیا یہ کم نہیں ہے۔ ‘
’نہیں۔ سب کی زندگی ایک سی ہے اور کوئی بھی تمہاری طرح جینا نہیں چاہتا۔ دو کافی ہیں۔ دو مثالوں میں، تم اپنی پوری دنیا پڑھ سکتے ہو۔ اچھا جلدی سے دوسرے کا نام لو …‘
’سوچنے تو دو …‘
اُس نے اپنے ذہن کو چاروں طرف دوڑایا___ اپنے وسائل، اپنے رتبے کا سہارا لیا___ پھر نیچے والی پائیدان پر آ گیا ایک موٹرسائیکل ___مشکل سے خریدا گیا ایک چھوٹا سا گھر___ صوفیہ اور اُس کا دوست …‘
’صمد …‘ ملک الموت نے اُس کا خیال پڑھ لیا تھا۔
’ہاں۔ ‘
’تم ان کی شادی میں گواہ تھے۔ ‘
’ہاں۔ کیونکہ …‘
بتاؤ مت۔ مجھے سب پتہ ہے۔ لومیرج کی تھی۔ گھر والے خلاف تھے۔ شادی کو 5سال ہو گئے۔ بچہ نہیں ہے۔ ‘
’ہاں۔ مگر اس کے باوجود۔ ‘
’تم جاتے رہتے ہو …‘
’کہاں ؟‘
’ارے ‘ ان کے گھر …‘
’ہاں۔ ‘
’باہر بھی ملتے ہو___‘
’ہاں۔ سنیما۔ ریستوراں، کیفے۔ ‘ وہ جذباتی ہو رہا تھا۔ خوشحال زندگی کے لئے امیری کا تحفہ ضروری نہیں۔ ایک معمولی مڈل کلاس کا آدمی بھی …‘
’لکچر مت دو۔ اسکرین پر دیکھو۔ ‘
ملک الموت نے ہتھیلیاں سامنے رکھ دی تھیں۔ اسکرین روشن تھا ___صبح کا وقت۔ ڈائننگ ٹیبل۔ دونوں پاس پاس بیٹھے ناشتہ کرتے ہیں۔ صوفیہ، دوست کو کھلا رہی ہے۔ دوست ہنس رہا ہے … ’لگتا نہیں ہے کہ ہماری شادی کو …‘
’5سال ہوئے ہیں۔ ‘ صوفیہ ہنستی ہے۔
دوست اُسے کھاتے ہوئے، گود میں کھینچتا ہے۔ صوفیہ کھکھلاتی ہے۔ دوست اُس کے ہونٹوں کا بوسہ لیتا ہے۔ ‘
’جھوٹا کر دیا۔ ‘
’جھوٹا نہیں۔ پاک کر دیا ’پوتر‘ ___ دوست ہنستا ہے …
سین تیزی سے بدلتے ہیں ___ دونوں باہر آتے ہیں۔ موٹر سائیکل پر بیٹھے ہیں اور …
’دیکھا‘ ___ اُس نے اپنے ماتھے کا پسینہ پوچھا۔ جیسے موت اُس کی ہتھیلیوں سے دور نکل گئی ہو___ ’کتنے خوش تھے دونوں … دیکھا۔ زندگی یہ ہے ___‘
’نہیں۔ ‘
’تم اپنے وعدے سے ہٹ رہے ہو۔ ‘
ملک الموت نے ہتھیلیاں تان دی تھیں ___ اسکرین ایک بار پھر روشن تھا___ دونوں پارک میں ہیں۔ ایک دوسرے کے بانہوں میں بانہیں ڈالے ___ دونوں کچھ محبت بھری باتیں بھی کر رہے ہیں۔
’ساؤنڈ بند کر دو۔ ‘
’کیوں۔ ‘
’میرے دوست ہیں۔ ‘
’دوست کی محبت بھری باتیں نہیں سن سکتے۔ ‘
’اچھا نہیں لگتا اور پھر___ اخلاقیات بھی کوئی چیز ہے …‘
’اچھا چلو___ آواز مت سنو___‘
محبت اور دیوانگی کے عالم میں صوفیہ اور دوست کو دیکھ کر اُس میں کچھ کچھ زندگی لوٹی تھی۔ دو ایک بار کھانسی آئی۔ آنکھوں کے آگے گہرا اندھیرا بھی چھایا لیکن پھر وہ ہتھیلیوں کے اسکرین پر لوٹ آیا …
’دیکھا … یہی سچ ہے …‘
’نہیں۔ ‘ ملک الموت سنجیدہ تھا۔ اب آگے دیکھو___ ’رات کا وقت۔ بستر۔ صوفیہ اور دوست قریب قریب۔ ہنسنے اور کھکھلانے کی آوازیں۔ پھر ایک دوسرے سے لپٹنے اور بوسہ بازی کے مناظر___ وہ تیزی سے چیخا___
’بند کرو یار۔ یہ ایڈلٹ فلم زندگی میں بہت دیکھی ہے۔ ‘
’دوست کی نہیں دیکھ سکتے۔ ‘
’نا___‘
’بھابھی ہے، اس لئے۔ ‘
’ہاں۔ تقدس کا جذبہ بھی کوئی چیز ہے۔ ماں، بہن، بھابھی …‘
’چلو، تمہارے اندر اخلاقیات زندہ ہے۔ بڑی بات ہے …‘
’تو تم ہار گئے …‘
’ہار گئے ___؟ ملک الموت ہنسا___ پاگل تو نہیں ہو گئے۔ ابھی تو تم نے صرف ان کی زندگی کا ایک رُخ دیکھا ہے ___ بھوشن کو جانتے ہو۔ ‘
’ہاں۔ صوفیہ کا منہ بولا بھائی۔ ‘
’نہیں۔ بوائے فرینڈ۔ ‘
’نہیں ‘ وہ غصّے میں چیخا___ ’دوست بھی بھوشن کو جانتا ہے اور بُرا نہیں مانتا۔ ‘
’اچھا___ تو دیکھو___‘
ہتھیلیاں روشن تھیں۔ اسکرین پر پہلے پارک میں صوفیہ نظر آئی۔ کیمرہ پُل بیک ہوتے ہی، اُس کے پیچھے بھوشن نظر آیا۔ بھوشن صوفیہ کے چہرے پر جھکا ہوا تھا … کچھ کہہ رہا تھا۔ صوفیہ کی آنکھیں جل رہی تھیں۔ ہونٹ تھرتھرا رہے تھے اور ادھر___ اُس کے اندر بیماریوں کے ’سیاّل‘ دھوم دھڑاکا مچانے لگے تھے۔ نروس بریک ڈاؤن___ ہائیپر ٹینشن بڑھا ہوا شوگر___ دماغ پر دھائیں دھائیں … پھیلتا اندھیرا بدن میں تھرتھراہٹ___
’لیکن بھوشن تو …‘
وہ کہتے کہتے ٹھر گیا۔ اس ’شریف‘ سے آدمی سے وہ کتنی کتنی بار ملا ہے۔ خود بھوشن اُس کی کتنی عزت کرتا ہے ___
’دیکھا‘ ___ملک الموت سنجیدہ ہے ___
اُس کے اندر طوفان آیا ہوا ہے بدن میں آگ لگی ہوئی ہے۔
’یہ سین کافی لمبا ہے۔ دیکھو گے ___ ابھی جو کچھ دیکھا، وہ تو کچھ بھی نہیں ہے …‘
’نہیں …‘
اُس کی سانس ڈوب رہی تھی۔
ملک الموت نے اُسے جھنجوڑا___ سنو۔ اب دوسرا منظر بھی دیکھ لو___
اس کی آنکھوں کا اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا___
’دوسرا منظر۔ ‘
’ہاں۔ ‘
’کیا منظر۔ ‘
’اپنے دوست سے نہیں ملو گے۔ شریف اور مہذب آدمی۔ محبت کا مارا۔ بیچارا___ لو دیکھو لو___‘
اسکرین روشن تھا اور یہ کیا یہ تو جیسے کوئی ایڈلٹ منظر تھا۔ یہ دوست کا گھر تھا۔ بیڈروم … لڑکی کو وہ پہچانتا نہیں تھا مگر یہ لڑکی صوفیہ نہیں تھی۔ دونوں کے بدن پر اس وقت برائے نام بھی لباس نہیں تھے ___
’صوفیہ ابھی نہیں آئے گی …‘ دوست ہنس رہا تھا۔
’جانتی ہوں۔ ‘ لڑکی ہنس رہی تھی …
’صوفیہ سے بور ہو گیا ہوں۔ ‘
لڑکی کھکھلا رہی تھی___ ’اور مجھ سے۔ ‘
’تم آگ ہو اور اُسے تو برف کی پہاڑیوں سے لایا تھا …‘
کھکھلاہٹ۔ قہقہہ___ اور دوسرے میں گُم ہوتے ہوئے گوشت کی دو خوبصورت اُوبڑ کھابڑ پہاڑیاں۔ اور ___
اُس کی سانسیں گم ہو رہی تھیں۔ برف کی پہاڑیاں ___ وہ بھی تو ’اُسے ‘ برف کی پہاڑیوں سے ہی لایا تھا___ وہ بھی تو ایسا ہی کچھ … برف کی پہاڑیوں سے گھبرا کر___ اُس کے بچے۔ اُس کا گھر۔ اُس کی بیوی___ سانسیں دھونکنے کی طرح چل رہی تھیں۔ سویوّں کے لچھے کی طرح ایک دوسرے پر الجھتی، ٹوٹتی ہوئی۔ پھر اُس نے زور سے چیخنے کی کوشش کی اور یہ کیا۔
گردن ڈھلک گئی تھی۔
سانسیں گم تھیں ___
اسکرین پر اندھیرا تھا۔ ملک الموت نے نبض دیکھی۔ ہلایا ڈلایا۔ پھر خود سے بڑبڑایا۔ کم بخت، کچھ لوگ اُس کی موجودگی کا فائدہ بھی نہیں اٹھاتے۔ وہ ہنس رہا تھا___ لیکن اس ہنسی میں ’زندگی‘ سے زیادہ مکاّری شامل تھی___ کیونکہ وہ انتہائی چالاکی سے دونوں کہانیوں کے آخری فریم کو کھا گیا تھا___ اب، جبکہ اُس کی روح اُس کی مٹھیوں میں تھی، وہ اپنی آنکھوں کے اسکرین پر بچے ہوئے آخری فریم کو دیکھ کر لطف اٹھا سکتا تھا___
اب آخری فریم سامنے تھا___
اور اس فریم میں جارج ویلیم تھا۔ چہرہ جھکا ہوا۔ شرمسار___ کیمرہ بین ہوتے ہی گھر کے دوسرے افراد نظر آ جاتے ہیں۔ جارج ٹھہر ٹھہر کر کہہ رہا ہے۔
’آہ، موت … موت کا احساس … نہیں آپ سب مجھے ایسی آنکھوں سے مت دیکھو۔ یقیناً میں تم سب کا مجرم ہوں۔ یقیناً اپنے گھر، اپنے گھر کے لوگوں کا۔ مگر آہ___! اس سے زیادہ اپنے ملک … اپنی وفاداریوں اور ایمانداریوں کا … اور اس سے بھی زیادہ___ نہیں ___ کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ سب میری باتیں سنیں گے۔ آہ! صرف موت۔ موت جو ہتھیار اور میزائلس کی خرید و فروخت، جو تمام تر مکاّریوں سے زیادہ سچ ہے۔ نہیں، میں کنفیشن نہیں کرنا چاہتا۔ حق بھی نہیں ہے مجھے۔ مگر آہ … ! صرف یہ سوچ کر شرمسار ہو رہا ہوں کہ … تم لوگ پیدا بھی نہیں ہوئے۔ پیدا ہو کر بھی نہیں پیدا ہوئے۔ زندہ ہو کر بھی نہیں جئے …‘
جارج کچھ دیر کے لئے رُکا۔ اپنے پوتے کو قریب کھینچا ___ ’نہیں۔ میرے پیارے جمّی___ ہم سب کو اپنی زندگی جینے کا حق ہے اور جینا بھی چاہئے ___ اس لئے تمام تر مکاّریوں کو … نہیں ___ مجھے کہنے سے مت روکو … میں الوداع کرنا چاہتا ہوں۔ ہاتھ ہلا کر الوداع___ بس اتنی سی زندگی سکون میں گزر جائے گی نا___
’بہت سے لوگ مارے گئے ہیں ‘ ___پوتا کہتے کہتے ٹھہرا___ بہت سے لوگ مارے جا رہے ہیں …‘
’آہ کنفیشن! نہیں۔ مجھے ایسی آنکھوں سے مت دیکھو پوتے ___ مگر موت کا احساس … تم سمجھ رہے ہونا‘۔ ’ہاں ‘ ابھی اتنا بہت ہے …‘ بیٹا کہتے کہتے ٹھہرا۔ ’یہ احساس … یعنی یہ میزائلوں کا احساس … یعنی ابھی یہ مارے جانے والے لوگوں کا احساس …‘
بیوی کے چہرے پر شرمندگی تھی___ کبھی کبھی ہم ایک نہ ختم ہونے والی شرمندگی میں جیتے ہیں ___
بہو آہستہ سے بولی ___اور اسی شرمندگی میں مرجاتے ہیں۔ مگر___ کیا اتنا کافی ہے ؟
ملک الموت مکاّری سے مسکراہٹ نہیں، انسان ہونے کے لئے اور جارج ویلیم جیسا آدمی ___نہیں ___ انسان ہونے کی جون میں پیدا ہونے کے بعد اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ اب دوسری کہانی کا آخری بچا فریم بھی سامنے تھا___ صوفیہ اور دوست دونوں ایک دوسرے کو ٹٹول رہے تھے ___ دوست کی آنکھوں میں نئے لمحوں کی اُڑان تھی___ ہاں، تم سمجھ رہی ہونا۔ ہاں تمہیں سمجھنا بھی چاہئے اور یہ کوئی جرم نہیں ہے ___ دراصل … اپنے اپنے وقت کے تقاضے کو سمجھنے میں، ہم سے کافی دیر ہو جاتی ہے ___ تم، کسی کے بھی ساتھ۔ تمہاری مرضی___ جا سکتی ہو۔ اور میں … اپنی قسم کی زندگی___ نہیں، زیادہ خوش مت ہوؤ۔ یہ سب نئی زندگی کے رنگ ہیں اور اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے … تم …‘‘
’انسان کمبخت‘ … ملک الموت خود کو نڈھال محسوس کر رہا تھا۔ ممکن ہے باقی بچے فریم سے اُسے زندگی مل جاتی۔ ممکن ہے … وہ بے حد تکان اور سانسوں کو ٹوٹتا محسوس کر رہا تھا۔ اُس نے ژوں کے ساتھ گھوم کر غائب ہونا چاہا___ مگر …